انشائیہ
طلاق : سیٹ، ریڈی، گو…
جاوید نہال حشمی
”آج کوئی خاص بات ہوئی ہے کیا؟“ مجھے صبح سے واٹس ایپ، فیس بک اور موبائل پر مصروف دیکھ کر آخربیگم نے پوچھ ہی لیا۔
”ہاں، سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی۔“میں نے جواب دیا۔
”کیا واقعی؟“مارےخوشی کے وہ ایسے چیخ پڑیں گویا طلاق دینے کا استحقاق شوہروں سے چھین کر بیویوں کو دے دیا گیا ہو۔
”اتنا خوش نہ ہوں۔ عدالت نے طلاق کو نہیں، طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دیا ہے …“
”مطلب؟“
”مطلب …مطلب ….“ میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ”اب ایک جھٹکے کی بجائے تین مہینے تڑپا تڑپا کر طلاق دینی ہوگی۔شوہر کے بھی صبر و تحمل کا امتحان ہوگا۔“
”یعنی تین مہینوں میں تین طلاق والا طریقہ۔“
”ٹھیک سمجھیں…مرحلے وار سیٹ، ریڈی اور گو کے طرز پر۔ اب شوہر پہلی طلاق دینے کے بعد اگلی لڑکی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوگا۔ دوسری طلاق کے بعدوالا مہینہ تاریخ طے کرنے اور تیاری مکمل کرنے میں گزرے گا۔ پھر تیسری طلاق دیتے ہی شیروانی آئرن کرنے اور چھوہاروں کے پیکٹس بنوانے میں مصروف ہو جائے گا…“
”بڑے خوش نظر آ رہے ہیں آپ۔کہیں ایسا ہی کچھ منصوبہ تو نہیں بنا رکھا ہے آپ نے؟“ بیگم نے بڑے تیکھے لہجے میں پوچھا۔
”ارے توبہ کریں بیگم صاحبہ، میری کیا مت ماری گئی ہے جوآپ کو طلاق دینےکی سوچوں۔ روز صبح بچوں کو اسکول کے لئے تیار کرنا، ٹفن بناکر اسکول بیگ میں بھرنا،نہلانا دھلانا، کھانا بنانا، گھر کی صفائی کا خیال رکھنا …یہ سب میرے بس کی بات ہے ہی نہیں …“میں نے کان پکڑے۔
”تو آپ کی نگاہ میں میری حیثیت نوکرانی یا گورنس سے زیادہ کچھ نہیں؟“بیگم کے لہجے میں ناراضگی، غصہ اور دکھ کا کاک ٹیل محسوس ہوا۔
”تو آپ نے مجھے کون سی’اےٹی ایم‘ سے زیادہ اہمیت دے رکھی ہے؟“ میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔”تقریباً روز ہی صبح صبح سودا سلف کی اتنی لمبی لسٹ تھما دیتی ہیں کہ اسکول میں درجہ دہم کے بچوں کے ناموں کی لسٹ بھی اس سے چھوٹی پڑ جاتی ہے۔“
”تو پھر صبح سے اتنی فون کالس کیوں آ رہی ہیں؟ کیا آپ بھی اس عدالتی فیصلے کے خلاف ہیں؟“
”میں خلاف نہیں ہوں مگر بہت سی تنظیمیں اور ادارےاسے پرسنل لا میں مداخلت تصور کرتی ہیں اور کل عدالت کے اس فیصلے کے خلاف پر زور احتجاج کرنے کی تیاری چل رہی ہے …“
”اچھاآپ یہ بتائیں آپ کے خیال میں ایک بار میں تین طلاق درست ہے یا تین مہینے میں تین طلاق؟“
”میں چوں کہ ماہانہ تنخواہ دار ہوں اس لئے ماہانہ طلاق کا بھی حامی ہوں۔“
”تو پھر کل کے اس احتجاجی مظاہرے میں کیوں شریک ہو رہے ہیں؟“
”کیوں کہ یہ احتجاج کئی علمائےکرام اور دیگر ملی تنظیموں کی جانب سے کی جا رہی ہے …“
”آپ تو متفق نہیں ہیں نا؟“
”میرے متفق نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ علماء مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ جب وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ غلط ہے تو غلط ہی ہوگا۔“
”لیکن میں نے تو سنا ہے کہ دیگر اسلامی ملکوں میں بھی تین ماہ میں تین طلاق والی رسم رائج ہے؟“
”ہمارے کچھ علماء ان ملکوں کے علماءسے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں اسلامی شریعت کو۔“
”تو آپ اتفاق نہ کرتے ہوئے بھی ان کا ساتھ دیں گے؟“
”بھئی، یہ ملّی اتحاد کا معاملہ ہے۔ہمیں ایک آواز میں بولنا ہے۔ لیکن گھبرائیں نہیں،میں صرف زبانی ساتھ دوں گا عملی طور پر تو قطعی نہیں۔“
”کیا مطلب؟“
”مطلب، گزشتہ مہینےجب حکومت نے بیف پر پابندی لگائی تھی تو پورے ملک میں مختلف مقامات پر احتجاجاً کھلے عام بیف فیسٹول منعقد کئے گئے تھے۔ سوچ رہا ہوں اگر اس احتجاج نے بھی وہی رُخ لے لیا تو میں کیا کروں گا۔آپ تو میری اکلوتی بیگم ہیں …“
”تو کیا دیگر لوگوں کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں گی؟“
”ممکن ہے ایسا ہی ہو۔دو والے تو کئی مل جائیں گے۔البتہ چار والے اس لئے نہیں ملیں گے کہ بیک وقت چار بیویاں ہونے پر شوہر کا ہی وجود خطرے میں پڑ جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔چو طرفہ حملے میں اچھے اچھے سورما جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دو میں سے کسی ایک کی ”قربانی“ دینے سے نہ تو ازداجی رشتے پر زیادہ اثر پڑے گا نہ ہی خانگی ذمہ داریاں خاطر خواہ متاثر ہوں گی۔ ان عورتوں کو بھی چاہئے کہ اسلام کی سر بلندی کے لئے بخوشی ”قربان“ ہو جائیں۔ بلکہ اگر اکلوتی بیگمات بھی چاہیں تو اس احتجاج میں حصہ لے سکتی ہیں کیوں کہ نکاحِ حلالہ کے راستے وہ پھر سے اپنے شوہروں کے پاس آ سکیں گی۔“
”نکاحِ حلالہ؟“
جب میں نے نکاحِ حلالہ کی وضاحت کی تو وہ ایک دم سے اچھل پڑیں۔
”تب تو میں بھی آپ کے ساتھ کل کے اس احتجاج میں حصہ لوں گی۔“
”آگے سے ہی نکاحِ حلالہ کے لئے کسی کو دیکھ رکھا ہے کیا؟“ میری آنکھیں اُبل پڑیں۔
”ہاں، بالکل۔“
”کون؟“
” ہے ایک، میرے ساتھ کالج میں تھا۔تھرڈ ایر تک اپنے تمام نوٹس سب سے پہلے مجھے دیا کرتا تھا …“
میری سانس گویا اٹک کر رہ گئی۔
”لیکن ایک بُری خبر ہے۔“میں نے فوراً پُر تاسف لہجے میں کہا۔
”کیا؟“ بیگم کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
”ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ کل والا احتجاجی مظاہرہ ملتوی کر دیا گیا ہے۔“
بیگم کے چہرے پر مردنی چھا گئی اور میں ایک طویل سانس لیتا ہوا اپنے کمرے میں چلا آیا۔