صبح آزادی تو اجالوں کی ضامن تھی مگر؟ : – فاروق طاہر

Share
فاروق طاہر

صبح آزادی تو اجالوں کی ضامن تھی مگر؟

فاروق طاہر
عیدی بازار ،حیدرآباد۔

09700122826

15/اگست 1947کی صبح نوید سحر لے آئی کہ ہندوستان انگریز وں کے ظلم و استبداد سے آخر کار آزاد ہوچکاہے۔ ابتدائے آفرینش سے ہندوستان کی تاریخ شکست و ریخت سے مامور ہے۔بیرونی حملہ آوروں کے لئے ہندوستان دولت و ثروت کے حصول کے لئے پرکشش محاذ کی حیثیت کا حامل رہا ہے۔تاریخ ہند کا سب سے دلکش پہلو یہ ہے کہ اکثر و بیشتر حملہ آوروں نے اپنی فتوحات کے بعد ہندوستان کو اپنا مادر وطن بنایا اور اس کے دام محبت کے اسیر ہوکر یہیں پیوند خاک ہوئے سوائے گوروں کے۔

ہر سال اسکولوں، گلی کوچوں ،سرکاری عمارتوں، سرکاری محکموں پر 15اگست کی صبح پرچم کشائی کی خوب صورت تقریب منعقد ہوتی ہے۔مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کرنا اور انھیں خراج پیش کرنا ہر کس و ناکس نے آج اپنا فرض تصور کرلیاہے ۔حب الوطنی کے معنی و مفہوم سے عاری لوگ حب الوطنی پر رطب اللسان نظر آتے ہیں ۔تاریخی حقائق سے نابلد بلکہ تا ریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے مسمو م ذہن بھول جاتے ہیں کہ جو تاریخ وہ رقم کرنا چاہیتے ہیں اس کا تجزیہ بھی ہوتا ہے نقد و نظر کے عا لمی معیار سے گزر کر ہی اس کو سند قبولیت حاصل ہوتی ہے۔تنقید و تعریف دنیا میں ایسے دو لفظ و عوامل ہیں جو بے انتہا احتیاط کے طلب گار ہوتے ہیں۔حقائق سے بعید غیر ضروری مدح سرائی کو بہ الفاظ دیگر جہاں خوشامد کہاجاتا ہے وہیں بے جا تنقید ،انسان کے پوشیدہ تعصب ،بعض و عناد کو آشکار کردیتی ہے۔مثبت تعمیری تنقیدکے لئے حقائق پر مبنی معلومات کے ساتھ ذہن کا تعصب سے پاک ہونابھی نہایت ضروری ہے۔ آزادی وطن میں ملک کے دیگر اقوام کی بہ نسبت مسلمانوں نے زیادہ حصہ لیا اور بے نظیر قربانیاں پیش کیں۔ اسلام عالمی سطح پر عیسائیت کا حریف و مد مقابل مذہب رہا ہے۔اسی تعصب کی بناء انگریز وں نے ہندوستان پر قبضے کے بعد مسلمانوں کا ملک میں جینا دوبھر کردیا۔انگریزوں کے خلاف علم بغاو ت اور مادر ہند کو آزاد کرانے کی پہل کا اعزاز بھی مسلمانو ں کے سر جاتا ہے۔انگریزوں نے آزادی و حریت کے جذبے سے معمور مسلمانوں کو اذیت ناک سزائیں دیں،ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا ،ملک کے نظام تعلیم ،معیشت ،عدلیہ اور انتظامیہ میں اس طرح تبدیلی لائی کہ مسلمان جس میں عضو ئے معطل بن کر رہ گئے۔مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں،سرکاری ملازمتوں سے انھیں محروم کردیا گیا، تعلیمی، اقتصادی، سیاسی ،سماجی بلکہ ہر میدان میں میں مسلمانوں کو پستی کی آخری حد تک دھکیلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔یہ کام تو غیروں نے انجام دیا ۔ مسلمان جنہوں نے ملک کو تعلیم،ثقافت،روادری،تہذیبی اوراقتصادی بلندی عطا کی بلکہ سرزمین ہند کو محبت ،امن و آشتی کا گہوارہ بنا ڈالا آج انہی سے ابنائے وطن وفاداری کا ثبو ت مانگتے ہیں جو ایک تکلیف امر ہے مسلمانوں کی جان مال عزت و آبرو کو حلال سمجھاجا رہا ہے۔انگریزوں نے جس طرح ملک کے نظام تعلیم ،معیشت ،عدلیہ اور انتظامیہ میں تبدیلی لاکرمسلمانون کو عضو ئے معطل بنا ڈالا تھا بالکل اسی طرح آج فسطائی ،فرقہ واریت سے لیس فاشسٹ طاقتیں پھر سے ملکی نظام میں تبدیلیوں کو اس طرح جگہ دے رہی ہے جس سے مسلمان سماج کے عام دھارے سے کٹ کر رہے گئے ہیں۔ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے اکثریت کی ترقی و خوش حالی ہی کافی نہیں ہوتی ہے بلکہ ملک میں بسنے والے ہر مفلوک و مجروح انسان کا ترقی یافتہ ہونا ہی ملک کیٰ حقیقی خو ش حالی و ترقی ہے۔حصول آزادی کی سات دہائیوں کی مسافت طئے کرنے کے بعد بھی آج کا ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو ناانصافی اور حق تلف کی اسی زندان میں مقید پاتا ہے جس میں ان کو انگریزوں نے برسوں پہلے قید کیا تھا۔آزادی کے ستر سال گزرجانے کے بعد بھی حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ وہ صبح آزادی نہیں ہے جس کاخواب آزادی کے متوالوں نے دیکھا اور دکھایا تھا۔ستر سال پہلے انگریز تو ملک سے رخصت ہوگئے لیکن فرقہ پرستی ،نفرت، تعصب اور تفریق کا جو بیج انھوں نے بویا تھا وہ اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
انگریزوں کی جگہ آج سرمایہ دار،سیاسی،تجارتی اور صنعتی گھرانے ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔غریب اور غریب ،امیر اور امیر بنتا جارہا ہے۔معاشی عدم مساوات کا یہ عالم ہے کہ ملک کی 80%(اسی فیصد) دولت و وسائل پر 20%(بیس فیصد ) لوگوں کا قبضہ ہے۔ایٹمی طاقت ہندوستان کے لئے یہ بات بڑی رسوائی کی ہے کہ آج بھی ملک کے تقریبا چالیس کروڑ عوام خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔اقلیت (مسلمانوں) کے افلاس و غربت کا تو کیا ذکر کیا جائے تعلیم ، تجارت، روزگار اور ملازمتوں میں مسلمانوں کا اوسط،ملک کے تمام پسماندہ طبقات سے بھی کم ہے۔سرکاری اور فلاحی اسیکمات سے بھی تعصب کی بناء مسلمانوں کو مستفید نہیں ہونے دیا جاتا ہے۔20کروڑ پر مشتمل مسلمانوں کی آبادی میں صرف ایک فیصدمسلمان ہندوستانی فوج میں موجود ہیں۔جس میں سے اکثر یت چھوٹے موٹے کاموں پر مامور ہیں۔جبکہ آزادی سے پہلے فوج میں مسلمانوں کا تناسب 14%تھا۔دیہی علاقوں میں رہائش پذیر% 60مسلمانوں کے پاس اپنی زمین (زرعی ) نہیں ہے جس پر و ہ کاشت کر سکیں۔مسلمانوں کو ان کی آبادی کے فیصد سے تعلیم ،تجارت،روزگار، ملازمتوں اور سرکاری مراعات میں آج تک حصہ دار نہیں بنا یا گیا ہے۔آزادی وطن کے ستر سالوں میں ہندوستان پر ایک ہزار سال تک حکمراں رہی مسلمان قوم کی حالت دلت،درج فہرست طبقات اور درج فہرست قبائل سے بھی ابتر ہوچکی ہے بلکہ یہ مہا دلت بن گئے ہیں۔رنگناتھ مشرا کمیشن رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں خواندگی کا تناسب 59.1%پایا جاتا ہے ۔گرائجویشن سطح پر مسلمانوں میں یہ تناسب صرف3.6%پا یا جاتا ہے۔23.76%مسلمان پکے مکانوں میں رہتے ہیں۔جوکہ ملک کی اقل ترین تعداد ہے ۔کچے مکان میں رکھنے والوں کی تعداد ملک بھر میں سب سے زیادہ یعنی 34.63%بھی مسلمانوں کی ہی ہے۔کرایے کے مکانوں میں زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں بھی مسلمانوں کی تعداد ملک میں سب سے زیادہ یعنی43.74%پائی جاتی ہے۔شہروں میں خط غربت سے نیچے سطح کی زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی تعداد دیگر طبقات سے زیادہ یعنی 36.92% پائی جاتی ہے۔ سرکاری ادارے نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن 2013کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی شرح خواندگی ملک کے دیگر مذاہب اور طبقات کے ماننے والوں میں سب سے کم ہے۔ملک میں نوکری فراہم کرنے والے سب بڑے ادارے انڈین ریلویز میں صرف چار فیصد مسلمان بر سر کار ہیں۔یہ اعداد و شمار ملک کی خوش حالی اور ترقی کے لئے ایک لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔اقلیتوں کے تاریخی تعلیمی ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ حکومت کے تعصب اور تنگ نظری کے باعث عدالتی رسہ کشی کا شکار ہیں اور ان کا اقلیتی موقف خطرے میں ہے۔ مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے بنائی گئی سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ملکی سطح پر اپنے ابنائے وطن کے مقابلے میں ہر میدان میں پسماندہ اور پچھڑی ہوئی ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ فاشسٹ ،فسطائی اور فرقہ پرست طاقتوں کی منظم منصوبہ بندی ہے جس کے تحت و ہ مسلمانو ں کو سماج کے عام دھارے میں شامل ہونے سے باز رکھنے کے لئے مختلف مسائل جیسے تعداد ازدواج،تین طلاق،زیادہ بچے پیدا کرنا، دہشت گردی کے الزامات ،پاکستان سے محبت کرنا میں الجھاکر مسلمانوں کو تعمیر ی اور ترقی عمل سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ ان الزامات کو ہوا دینا اور نفرتوں کو پھیلانے میں متعصب میڈیا بہت زیادہ ذمہ دار ہے۔مسلم قیادت بھی متعصب فرقہ پرست طاقتوں کے ہتکھنڈوں کا شکار ہوکر یا اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو تعمیری عمل کی جانب راغب کرنے کے بجائے جذباتی اور شناخت کے مسائل میں الجھا ئے رکھا ہے۔جہاں مسلمان

فرقہ پرست طاقتوں کی جانب سے کھڑے گئے مسائل کی وجہ سے اپنی تعمیر و ترقی پر توجہ نہیں کرسکے ہیں وہیں وہ اپنی تعلیمی معاشی ترقی کے برخلاف غیر ضروری چیزوں پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے بھی سماج میں ایک اہم مقام حاصل نہیں کر سکے ہیں۔حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے قوم پرستی کے ماحول نے بھی مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔قوم پرستی کا نقاب پہنے فرقے پرست طاقتوں کا سوال کہ آپ پہلے ہندوستا نی ہے کہ مسلمان، مسلمانوں کوغیر ارادی طور پر اپنے شکنجے میں لے لیتا ہے۔ایسے موقعو ں پر اشتعال کے بجائے دانشوری اور صبر و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلمان آپ خود بھی اپنی پسماندگی کے لئے اغیار کی طرح ذمہ دار ہیں کیونکہ انھوں نے ملی تعمیر کے لئے تعلیم پر جس قدر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت تھی وہا ں ناکام رہے اور جذباتی مسائل پر ضرورت سے زیادہ توانائی صرف کردی۔
آزادی وطن کے ستر برس گزار جانے کے بعد بھی مسلمانوں کو ہر شعبہ حیات میں نظر انداز کر دیا گیا۔بنیادی دستوری حقوق سے محروم کر دیا گیا۔تعلیم ،روزگار،تجارت میں ناانصافی کو جاری رکھا گیا۔مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے بے شمار فسادات کروائے گئے۔مرادآباد،ہاشم پورہ،ملیانہ،جمشید پور،بھیونڈی،ممبئی،اجمیر،مظفر نگر اور گجرات وغیرہ کے فسادات کے ذریعہ مسلمانوں میں احساس عدم تحفظ پیدا کیا گیا ۔آج بھی گؤ رکھشا کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر قتل و غارت گیری کا بازار گرم کرنے والے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں حکومت کی دانستہ پہلو تہی عیاں ہے۔ملک بھر میں فسادات کی تحقیقات کے لئے تقریبا 45تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیئے گئے۔تحقیقاتی کمیشن کی شفارشات پر عمل کرنا تو در کنار ان تمام کو برفدان کی نذ ر کردیا گیا۔ممبئی فسادات کی تحقیقات کے لئے قائم کئے گئے جسٹس سری کرشنا کمیشن نے31پولیس عہدیداروں کو قتل و غارت گیری اور لوٹ مار میں ملوث پایا ۔لیکن ان کے خلاف آج تک کوئی قانونی کاروائی نہیں کی گئی۔اکثریت اور اقلیت کی خواتین کی عصمت و عفت کے حکومت کے پاس دو پیمانے ہیں دہلی کی ایک لڑکی نر بھایا کی عصمت دری کے خلاف پورا ملک کھڑا ہوجاتا ہے اور وہیں مظفرنگر کی مسلمان خواتین کی عصمت دری پر عوامی کاز سے جڑے ادارے تو کجا حکومت کی کانو ں پر تک جو نہیں رینگتی ہے۔2006میں مالی گاؤں کی مسجد کے باہر کیا گیا بم دھماکہ اور پھر 2007میں حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد کے بم دھماکے،اجمیر کی درگارہ حضرت معین الدین چشتی ؒ پر کئیے گئے بم دھماکوں کے بعد اقلیت فرقے کے بے قصور افراد کو تحقیقاتی ایجنسیوں کی جانب سے نشانہ بنایا جانا ہندوستان جیسی عظیم جمہوریت پر ایک بد نما داغ ہے۔ایک طویل قانونی لڑائی کے بعد گرفتار شدہ اقلیتی نوجوانوں کو ایک طویل عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد بے قصور قرار دیا جانا خود تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارکردگی پر انگلی اٹھانے کے لئے کافی ہے۔
ملک کی خوشحالی کے لئے فرقہ واریت کے خلاف آواز بلند کرنی ضروری ہے تاکہ ملک میں بسنے والے ہر شہری کے حقوق کا دفاع کیا جاسکے۔ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کو جہا ں ابھی 36فیصد ناخواندہ افراد پائے جاتے ہیں بیشتر بچے اپنی پرائمری تعلیم کی تکمیل سے قاصر ہیں۔دیہی علاقوں تک ابھی علم کی روشنی عام کرناباقی ہے۔اعلی تعلیم کے معیاری سرکاری ادارجات کی ہمارے پاس کمی یا فقدان پایا جاتا ہے۔تعلیم کو خانگیانے اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی اجارہ داری کے باعث متوسط اور غریب طبقہ تعلیم سے محروم ہے۔بچوں کی پیدائش کے بعد آج بھی مائیں طبی سہولتوں کے فقدان کے سبب موت کے آغوش میں جارہی ہیں۔صحت جیسا اہم شعبہ سرمایہ داروں کے لئے ایک منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے۔جہاں آج بھی لڑکیوں کو رحم مادر میں قتل کردیا جاتا ہے لڑکی کی پیدائش پر عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہوں بلکہ قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔عام آدمی انصاف کے حصول کے لئے عدالتوں کے در پر دستک دینے کے بجائے غنڈوں سے انصاف کی توقع کرنے لگے ہیں۔ان سلگتے مسائل کی موجودگی میں ہم آزادی کا جشن کیسے منا سکتے ہیں۔ان مسائل سے نجات کے لئے مجاہدین آزادی نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔کیا ہمارے بزرگ رہنما صرف انگریزوں سے اقتدار کی منتقلی چاہتے تھے۔نہیں! ہمارے رہنما تو ملک کی ایک نئے صورت گیری کے خواہش مند تھے جہاں ہر شہری کو بلاامتیاز و تفریق مذہب و ملت اس کا دستوری حق اسے حاصل ہو۔مذہب ،نسل،ذات پات،فرقہ،اور علاقہ واریت کے تعصب سے پاک ہندوستان کا انھوں نے خواب دیکھا تھا۔بے شک ہم نے انگریزوں کی زنجیروں سے آزاد ی حاصل کر لی ہے لیکن ہم کو ا بھی فرقہ پرستی ،تنگ نظری، لسانی و علاقائی تعصب،رنگ و نسل ،ذات پات کی زنجیروں سے آزادی حاصل کرناباقی ہے جس کے بغیر ہم ایک خوش حال اور ترقی یافتہ ہندوستان کا تصور ہر گز نہیں کر سکتے ۔ہم کو اپنے ملک کے تحفظ ،سا لمیت کی بقا کے لئے کام کرنا ہے۔ہر محاذ پر اپنے دشمنوں کو ہزیمت سے دوچار کرنا ہے۔غیر ملکی ہاتھوں کا آلہ کار بنے ملکی غداروں کا قلع قمع کرنا ہے۔ملک میں صحت تعلیم اور انصاف کو یقینی بنا نا ہے۔انسانیت و امن کی روایتوں کے لئے اور عدم تشدد کے نظریات کے لئے شہرت رکھنے والے ہمارے ملک کو دینا میں ہر مقام پر ہمیں صف اول پر لانا ہے۔آج کا یہ دن صرف زبانی جمع خرچ سے کام لینے اور کھوکھلی نعرہ بازی میں ضائع کرنا نہیں ہے۔ آج کا دن ہمارے رہنماؤں کی قربانیوں کو خراج پیش کرنے کے ساتھ ان کے نظریات پر عمل کرنے کے عہد کی تجدید کا دن ہے۔آزادی کو ہمارے رہنماؤں نے روشنی اور ترقی سے تعبیر کیا تھا اسی خواب کی تکمیل کے لیئے ہم سب کو بلاتفریق مذہب و ملت دوش سے دوش ملا کر کام کرنا ہے۔آزادی کو خوشیوں اور روشنیوں سے معنون کرنے کے لئے ابنائے وطن کو آج عہد کرنا ہوگا کہ ہم ملک کی ترقی ،خوشحالی ،اور سا لمیت کو ہرگز نقصان نہیں پہنچنے دیں گے اوراس بات کو غلط ثابت کردیں گے کہ
صبح آزادی تو اجالوں کی ضامن تھی مگر
روشنی ا س قدر آئی کہ بینائی گئی

Share
Share
Share