اللہ کا فضل ہے – – –
صادق رضامصباحی
ممبئی – موبائل نمبر:09619034199
ایک دولت مند تاجر نے اپنے خزانےکے دروازے پر لکھوایا: ہذامن فضل ربی ۔
چور آیا اور سارا خزانہ لوٹ کرلے گیا مگر جاتے جاتے اسی جگہ یہ بھی لکھ گیا: ان اللہ مع الصابرین ۔
یہ لطیفہ آپ نے ہزاروں بار سنا اور پڑھا ہوگا مگر اس لطیفے میں ایک بہت بڑاسبق پنہاں ہے اورایک بہت بڑی عبرت،بس تیسری آنکھ کھلی رکھنی ضروری ہے۔ہم جھوٹ اورظلم پرکھڑے ہوکر دولت کماتے ہیں اورپھراس پراللہ کاشکر ادا کرتے نہیں تھکتے۔
ہم جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے میں طاق ہیں اور منافقت اور چاپلوسی کرنے میں ماہر مگر پھر بھی ہم ’’مذہب ‘‘سے اپنے گہرے لگاو کے دعوی دار ہیں۔چوری ،فریب کاری اور دھوکہ دہی سے کمائی ہوئی دولت کوہم ’’ اللہ کے فضل ‘‘سے منسوب کردیتے ہیں اور دوسرے کوسامنے اس کا فخریہ طورپر اظہار بھی کرتے ہیں ۔ایسا کرتے ہوئے ہم پرایک لمحے کے لیے بھی خوف خدا طاری نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ احساس کہ اللہ نے اپنی رسی ڈھیلی کردی ہے اوروہ ہم کو آزما رہا ہے۔ترقی اور کامیابی کے حصول کے لیے سرپٹ دوڑنے والے ہم جیسے لوگوں کواس طرح کی باتیں سوچنےکی فرصت ہی کہاں ہے۔لیکن یہا ں ایک بات بالکل طے ہے کہ مادیت کی کیچڑ میں گلے گلے تک ڈوبے ہونے کے باوجود آج بھی ہمارے معاشرے میں للہیت اور اخلاص کی بوباس باقی ہے ۔اس سے اندازہ لگتاہے کہ اللہ کے فضل سے ہماری مذہبی جڑیں ابھی تک صحیح سالم حالت میں ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ انہدام کی شکار ہیں اور ہم انحطاط کے اس یرمگرآج بھی ہم کہیں نہ کہیں مذہبی ہیں گوکہ یہ مذہبیت شعورسے خالی ہے ،بے جان ہے ،بے روح ہے ،کھوکھلی ہےاور روایت کےدھاگے میں بندھی ہوئی ہمارے ہاتھوں میں آپہنچی ہے ۔روایت اور اقدار کی کی ایک بڑی اور سامنے کی مثال یہی ہے جس کاتذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ظاہرہے کہ اللہ کے فضل سے کسے انکار ہوسکتا ہے مگر کیا اللہ کافضل ایسی دولت پر بھی ہو سکتاہے جو دونمبر سے کمائی گئی ہو اور بھائیوں،رشتے داروں اور کمزوروں کاحق مار کر حاصل کی گئی ہو؟ہماری بہت زیادہ شہرت ہوجائےاور ہمارے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے ہوجائیں اگرچہ یہ تعلقات چاپلوسی اورابن الوقتی پرمنحصرہوں مگراس میں بھی ہمیں ’’اللہ کافضل ہے‘‘ نظر آتا ہے اور بڑے ’’فخریہ‘‘ طورپر نظر آتا ہے۔
اس کے برخلاف وہ لوگ جو صحیح معنوں میں اللہ کے بندے ہیں،مخلص ہیں،کھرے ہیں،نکھرے ہیں،سچے اور پکے مسلمان ہیں ، عام طور پر ایسے حضرات دولت اور شہرت و عظمت کی بلندیوں پر نہیں جاپاتے کیوںکہ ان کے پاس وہ ’’ہنر‘‘ اور ’’صلاحیت ‘‘نہیں ہوتی جودولت مندوں کے پاس ہوتی ہے ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ’’ اللہ کافضل ہے ‘‘کے مصداق دولت مند، شہرت کے حریص اور عظمت کے لالچی ہیں یا اچھے اورسچے لوگ ہیں؟اس کا جواب بالکل بدیہی ہے مگریہ کیسی اندھیرنگری چوپٹ راج ہے کہ ہم اللہ کے فضل کامستحق دولت مندوں اور مشہور لوگوں کو سمجھتے ہیں اوران کی طرف منہ کرکے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجانے میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔لاحول ولاقوۃ ۔ہمارے معاشرے کی مذہبیت چوں کہ اس قدر کند ہوچکی ہے کہ اسے اللہ کا فضل دولت مندوں اورشہرت و عظمت کے حریصوں میں نظر آتاہے اسی لیے قدریں بدل چکی ہیں اور اسی تبدیلی کانتیجہ ہے کہ’’ اچھے ‘‘آدمی پرہمیں اللہ کا فضل نظرنہیں آتا، ’’بڑے‘‘میں نظر آتا ہے۔ دولت اورشہرت بالعموم ہمیں برائیوں کی طرف لے جاتی ہے اس اعتبارسے دیکھا جائے تو اللہ کا فضل درحقیقت ایسے سچے اورکھرے لوگوں پر ہے جواللہ کے مخلص بندے ہیں ،جورزق حلال کماتے ہیں ، جواپنے اہل خانہ اور پڑوسیوں کا حسب بساط خیال رکھتے ہیں اورجوکبھی بھی غیرقانونی ،غیرشرعی اور غیرفطری کام نہیں کرتے مگر ہمارے معاشرے میں الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے اور ہم اس ’’گنگا‘‘ میں ’’ہاتھ دھونے‘‘ کوہی سب سے بڑا کمال ،سب سے بڑی عظمت اور’’ اللہ کا فضل ‘‘ سمجھتے ہیں اور جھوٹوں ، مکاروں، دغا بازوں، فریبیوں ، کور باطنوں اورستم گروں کو اللہ کے فضل کامستحق گردانتے ہیں ۔
معاشرے کے اس ’’مذہبی ‘‘منظرنامے میں اب ہمارے کرنے کام یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کی فکری اصلاح کریں اور انہیں بتائیں کہ اللہ کے فضل کامطلب کیا ہوتا ہے اور اس کاحقیقی اطلاق کن لوگوں پر ہوتا ہے۔عوام کوہمیں یہ بھی بتاناچاہیے کہ دور حاضر الفاظ کی توہین کازمانہ ہے ،الفاظ کی ذلت کازمانہ ہےاورالفاظ کے اغواکازمانہ ہے اس لیے لمبے چوڑے دعووں،لحیم وشحیم وعدوں اور بھاری بھرکم لفظوں سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔
——-
SADIQUE RAZA MISBAHI MUMBAI
MOB:09619034199