دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 5
قرآن سرچشمۂ نصیحت
مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536
——–
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ چوتھی قسط کے لیے کلک کریں
——–
انسانوں کو کسی بھی نظریہ و عمل کا تابع بنانے کے لئے نصیحت کی بھی ضرورت پڑتی ہے، کیوں کہ نصیحت سے کوئی بھی بات سمجھنا ، سمجھانا آسان ہوتا ہے، چوں کہ دینِ اسلام بھی ایک نظریہ و عمل ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو سمجھانے کیلئے قرآن میں نصیحت کے پہلو کو بھی رکھا ہے، قرآن میں نصیحت کا پہلو اتنا نمایاں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر خود قرآن کو نصیحت قرار دیا ، بطور نمونہ چند آیات پیش کی جارہی ہیں-
سورۂ یونس کی آیت ۵۷ ؍ ۵۸ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاْءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃً مِّن رََّبِّکُمْ وَشِفَآءٌ لِمَا فِی الصُّدُوْرِ وَھْدًی وَّرَحْمَۃَ لِلمُؤ مِنِیْنَ (۵۷) قُلْ بِفَضْلِ اللَّہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (۵۸)ترجمہ : (اے لوگو! تحقیق آئی تمہارے رب کی جانب سے تم کو نصیحت اور سینوں کے روگ کی شفاء اور مومنین کے لئے ہدایت و رحمت ہے۔ کہہ دیجئے اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے پس خوش ہوجاؤ یہ بہت بہتر ہے اس سے جو یہ جمع کررہے ہیں۔ )
مذکورہ آیات کی تفسیر میں ایک مفسر قرآن مفتی محمد شفیع صاحبؒ فاضل دیوبند نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں جو کلمات تحریر فرمائے وہ من عن پیش ہیں۔ ’’ موعظہ اور وعظ کے اصلی معنیٰ ایسی چیزوں کا بیان کرنا ہے جن کوُ سن کر انسان کا دل نرم ہو اور اللہ کی طرف جھکے ۔ دنیا کی غفلت کا پردہ چاک ہو ، آخرت کی فکر سامنے آجائے ، قرآن کریم اول سے آخر تک اسی موعظۂ حسنہ کا نہایت بلیغ مبلغ ہے، اس میں ہر جگہ وعدہ کے ساتھ وعید، ثواب کے ساتھ عذاب ، دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی کے ساتھ ناکامی اور گمراہی وغیرہ کا ایسا ملا جلا تذکرہ ہے، جس کو سن کر پتھر بھی پانی ہوجائے ، پھر اس پر قرآن کریم کا اعجازِ بیان جو دلوں کی کایا پلٹنے میں بے نظیر ہے، موعظہ کے ساتھ مِنْ رَّبِّکُمْ کی قیدنے قرآنی وعظ کی حیثیت کو اور بھی زیادہ بلند کردیا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ وعظ کسی اپنے جیسے عاجز انسان کی طرف سے نہیں جس کے ہاتھ میں کسی کا نفع و نقصان یا عذاب و ثواب کچھ نہیں بلکہ ربّ کریم کی طرف سے ہے۔ جس کے قول میں غلطی کا امکان نہیں اورجس کے وعدہ اور وعید میں کسی عجز و کمزوری یا عذر کا کوئی خطرہ نہیں۔
قرآن کریم کی دوسری صفت شِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُوْرِ ارشادفرمائی ، شفاء کے معنیٰ بیماری دور ہونے کے ہیں اور صدور صدر کی جمع ہے۔ جس کے معنیٰ سینہ کے ہیں ، مراد اس سے قلب ہے ، معنیٰ یہ ہیں کہ قرآن کریم دلوں کی بیماریوں کا کامیاب علاج اور صحت و شفاء کا نسخہ اکسیر ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ قرآن کی اس صفت سے معلوم ہوا کہ وہ قرآن کریم دلوں کی بیماریوں کا کامیاب علاج اور صحت و شفاء کا نسخہ اکسیر ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ قرآن کی اس صفت سے معلوم ہوا کہ وہ خاص دلوں کی بیماری کے لئے شفاء ہے ، جسمانی بیماریوں کا علاج نہیں (روح المعانی) اس سے ان لوگوں کی بے وقوفی اور کج روی بھی ظاہر ہوگئی جو قرآن کریم کو صرف جسمانی بیماریوں کے علاج یا دُنیاوی حاجات ہی کے لئے پڑھتے ہیں، پڑھاتے ہیں ، نہ روحانی امراض کی اصلاح کی طرف دھیان دیتے ہیں نہ قرآن کی ہدایت پر عمل کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے علامہ اقبال ؒ مرحوم نے فرمایا ہے۔
ترا حاصل زیٰس اش جزین نیست کہ از ہم خواند نش آسان بمیری
یعنی تم نے قرآن کو سورۂ یٰسین سے صرف اتنا ہی فائدہ حاصل کیا کہ اس کے پڑھنے سے موت آسان ہوجائے حالانکہ اس سورت کے معانی اور حقائق و معارف میں غور کرتے تو اس سے کہیں زیادہ فوائد و برکات حاصل کرسکتے تھے ، بعض اہلِ تحقیق مفسرین نے فرمایا کہ پہلی صفت یعنی موعظہ کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال کے ساتھ ہے۔ اس آیت میں تیسری صفت قرآن کریم کی ہدًی اور چوتھی رَحْمَتُ بیان کی گئی ہے ۔ ہُدًی کے معنی ہدایت یعنی رہنمائی کے ہیں قرآن کریم انسان کو طریقِ حق و یقین کی طرف دعوت دیتا ہے اور انسان کو بتلاتا ہے کہ آفاقِ عالم اور خود ان کے نفوس میں اللہ تعالیٰ نے جو اپنی عظیم الشان نشانیاں رکھی ہیں۔ ان میں غور و فکر کرو تاکہ تم ان سب چیزوں کے خالق اور مالک کو پہچانو۔ (معارف القرآن جلد ۴ صفحہ ۵۴۲ ؍ ۵۴۳)
سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۱ میں بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کے نصیحتی کلام ہونے کو واضح کیا ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ
وَالحِکْمَۃِ یَعِظِکُمْ بِہٖ ط وَاّ تَقُوْا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمٌ (بقرہ) ترجمہ : ( اور یاد کرو اللہ کی نعمت جو تم پر ہے اور جو کتاب و حکمت اس نے تم پر اُتاری۔ اس کے ذریعہ سے وہ تم کو نصیحت کرتا ہے۔ اور ڈرو اللہ سے اور جان لو کہ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ) اسی طرح سورۂ ذٰریٰت کی آیت ۴۵ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو حکم دیا کہ اس شخص کو قرآن کے ذریعہ نصیحت کیجئے جو وعید سے ڈرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔ قَذَکِّرِْ بِا الْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ (الذاریت) (یعنی پس نصیحت کیجئے قرآن کے ذریعہ جو وعید سے ڈرتا ہے ) اسی طرح سورۂ انعام کی آیت ۱۹ میں ارشاد ربّانی ہے ۔ وَاُ وْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا القُرآنُ لِاُنْدِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ ترجمہ: (میری طرف یہ قرآن بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ تمہیں خبردار کروں اور جس تک یہ پہنچے وہ بھی اس کے ذریعہ خبردار ہوجائے )اس سے معلوم ہوا کہ قرآن قیامت تک کے انسانوں کی نصیحت و ہدایت کے لیے ہے۔ اس طرح قرآن میں ایک اور مقام پر آنحضورﷺ کو مخاطب کرکے کہا گیا وَاِ نَّہ‘ لَذِکرُلَّکَ وَلِقَومِکَ وَسَوْفَ تُسْئلُونَ یعنی (قرآن آپؐ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے نصیحت ہے)
قرآن دلوں کو نرم کرنے والا کلام
حصولِ ہدایت میں چونکہ دلوں کی نرمی کو بھی کافی دخل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایسی تاثیر رکھی ہے جس سے انسانی دل نرم ہوتے ہیں۔ اور دلوں کی سختی دور ہوتی ہے ، قرآن کے اس پہلو کو واضح کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کیونکہ آج فہمِ قرآن سے مسلمانوں کو دور رکھنے کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے دل دینی لحاظ سے سخت ہوچکے ہیں۔ لہٰذا دیگر باتوں اور واقعات کے ذریعہ پہلے ان کے دل نرم کرنا ضروری ہے بعد میں انہیں قرآن سمجھانا چاہئے۔ اس میں شک نہیں کہ اس وقت مسلمانوں کے دل دینی لحاظ سے بہت سخت ہوچکے ہیں اور پہلے ان کے دلوں کی سختی دور کرنا ضروری ہے ۔لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دلوں کی سختی کو دور کرنے والا سب سے اہم اور مؤثر کلام قرآن ہے۔ البتہ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ دل ایسے نرم ہوجائے کہ وہ دین کے نام پر ہر بات کو قبول کرلے چاہے وہ دینی ہو یا غیر دینی تو دل کی یہ کیفیت قرآن کے ذریعہ نہیں پیدا کی جاسکتی ۔کیونکہ اسلام کسی بھی غیر دینی بات کو قبول کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتا چاہے وہ دینی لیبل لگا کر پیش کی جائے۔ اس عنوان کے تحت قرآن کی چند آیات پیش کی جارہی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے ذریعہ مومنین کے دل نرم ہوتے ہیں اور قرآن سے بے رخی برتنے سے دلوں میں سختی پیدا ہوتی ہے۔ سورۂ زمر کی آیت نمبر ۲۲ ؍ ۲۳ میں ارشاد ربانی ہے :فَوَیْلٌ لِلّقٰسِیۃِ قُلُوْ بُھْم مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ اُوْلٰٓءِکَ فِی ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحسْنَ الحَدِیَثِ کِتٰباً مُتَشَا بِھًا مَّثَا نِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ وَقُلُوبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِاللّٰہِ ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِی بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ۔ترجمہ : (پس خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جن کے دل اللہ کے ذکر یعنی قرآن کے متعلق سخت ہیں یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں اللہ نے بہترین بات یعنی قرآن نازل کیا یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں آپس میں ملی جلی اور دہرائی ہوئی ہیں۔ اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ پھر ان کے جسم اور دل اللہ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں، (یہ قرآن) اللہ کی ہدایت ہے ، اس کے ذریعہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے) مذکورہ آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ فاضل دیوبند نے جو کلمات تحریر فرمائے وہ ملاحظہ ہوں ، کتاب اللہ سن کر اللہ کے خوف اور اس کے کلام کی عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے
ہیں اور کھالیں نرم پڑ جاتی ہیں۔ (مترجم شیخ الہند صفحہ ۵۹۸)اسی آیت کی تفسیر میں ایک اور مفسر قرآن مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے جو کلمات تحریر فرمائے وہ بھی ملاحظہ ہوں ، تلاوتِ قرآن کا اثر کبھی عذاب کی وعید سن کر یہ ہوتا ہے کہ بدن کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں اور کبھی رحمت و مغفرت کی آیات سن کر یہ حال ہوتا ہے کہ بدن اور قلوب سب اللہ کی یاد میں نرم ہوجاتے ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ فرماتی ہیں کہ صحابہ کرام کا عام حال یہی تھا کہ جب انکے سامنے قرآن پڑھا جاتا تو انکی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور بدن پر بال کھڑے ہوجاتے ہیں (قرطبی ) منقول ، معارف القرآن جلد ۷ ، صفحہ ۵۵ ۔ اسی طرح سورۂ حدید کی آیت ۱۶ میں ارشاد ربانی ہے :اَلَمِْ ےأنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھْمْ لِذِکْراللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا یَکُوْنُوا کَاالَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُھُمْ وَکَثِیْر’‘ مِّنْھُمُ فٰسِقُوْنَترجمہ : ۔ (کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور قرآن کے لئے جھکیں، اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی ۔پس کتاب سے غفلت پر ایک لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے زیادہ فاسق تھے ) یہ اشارہ یہودو نصاریٰ کی طرف ہے ، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہود و نصاری کے دل کتابِ الٰہی سے غفلت برتنے کی بناء پر سخت ہو گئے ۔ اسی طرح اگر مسلمان قرآن سے غفلت برتیں تو ان کے دل بھی سخت ہو جائیں گے اور مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو اسی غفلت سے بچنے کا حکم دیا ۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ اتنا تاکیدی حکم دینے کے بعد بھی امت مسلمہ میں قرآن سے عام غفلت پائی جاتی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ امت مسلمہ میں دینی لحاظ سے دلوں کی سختی عام ہوتے جا رہی ہے۔ اس قساو ت قلبی کو دور کرنے کا ایک ہی علاج ہے وہ یہ کہ مسلمان قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور سننے کی عام فضاء بنائیں۔ آنحضرت ﷺ نے بھی قرآن کی تلاوت کو دل کی صفائی کا ذریعہ قرار دیا چنانچہ مشکوٰۃ و بیہقی کی روایت ہے :۔عَنْ اِبْنِ عُمَرَ قَالَ رَسُولُﷺ اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوبَ تَصْدَاءُ کَمَا یَصْدَ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَاءُ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَاجِلَاءُ ھَا قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَا وَۃِ الْقُرْآنِ۔ترجمہ : (حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ان دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسا کہ لوہے کو پانی کے سبب زنگ لگ جاتا ہے۔ پوچھا گیا اے اللہ کے رسول ؐ انہیں صاف کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا : موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا) یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ تلاوت میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کے معنیٰ بھی شامل ہیں-