تحریکِ آزادی اور اُردو ادب : – حارث حمزہ لون

Share
حارث حمزہ لون

تحریکِ آزادی اور اُردو ادب

حارث حمزہ لون
ریسرچ اسکالر۔ شعبہ اُردو
دیوی اہلیہ وشودھیالیہ اندور (ایم۔پی )

انیسویں صدی میں عالمی سطح پر زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں تغیر و تبدل اپنے عروج پر تھا خاص طور پر سیاسی اور جغرافیائی منظر نامے میں بدلاؤ سماجی ، معاشرتی اور تہذیبی کیلئے زبردست محرک ثابت ہوا ۔ اس صورتحال میں یورپ اور اشیاء کے بہت سارے ممالک دوسرے ممالک کے زیر تسلط آگے ۔ ایسے میں بر صغیر ہندو پاک برطانوی راج کے زیرنگین مسلسل کئی صدیوں تک درد و پکار ، آہ و سسکیوں اور ظلم و جبر کی چکی میں پستا رہا ۔

کہتے ہیں کہ ’’ ظلم زیادہ دیر نہیں ٹکتا‘‘ اور ڈوبتی نیا میں چند غیور اور وسیع القلب و ذہن افراد نے حالات کا بغور جائزہ لیا اور ظلم و جبر کے خلاف عَلم بغاوت بلند کی اور یوں متحدہ ہندوستان میں باقاعدہ طور پر تحریکِ آزادی ہندوستان کا آغاز ہوا ۔ اس ملک کی شناخت وہ تہذیب ہے جو مشترکہ تہذیب کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ اُردو زبان اسی مشترکہ تہذیب کی پیداوار ہے ۔ اس زبان نے ہمیشہ اُس پروگرام یا تحریک کا ساتھ دیا جس میں ملک کے روشن مستقبل کی امید موجود تھی ۔ ہندوستانی تاریخ کے صفحات پر امن و آشتی ، مہمان نوازی اور وسیع القلبی کے اسباق زمانہ بہ زمانہ تحریر ہوئے اور ان کی تابناکی ہر دور میں مسلم رہی ۔ اہلیانِ ہند نے بھی یہی عمل اختیار کیا کہ انھوں نے ابتدا میں تو مختلف اقوام کی قومی و وطنی شناخت کا احساس کیا لیکن بعد میں ان کو اپنے ہی محبت آمیز رنگ میں رنگ لیا اور بحیثیت مجموعی انھیں ہندوستانی سمجھنے لگے ۔
ایک حکیم کا قول ہے کہ آزادی ، ضرورتوں کو محسوس کرنے کا دوسرا نام ہے ۔ دنیاوی ضرورتیں بڑھتی ، بدلتی اورنت نئی شکل اختیار کرتی رہتی ہیں ۔ جنگلی جانوروں کے شکار پر گزر بسر کرنے والوں اور کھیتی باڑی کرنے والوں کی ضرورتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہل جوتنے اور صنعتی کار خانوں میں کام کرنے والوں کی ضرورتیں بھی الگ ہوتی ہیں ۔ ان کا آزادی کا تصور بھی مختلف ہوتا ہے بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ آزادی کا تصور بھی انسانوں کی ضرورتوں کے ساتھ بدلتا اور ترقی کرتا رہتا ہے ۔ ہندوستان کے پچھلے ڈیڑھ سو سال کی تاریخ اس بیان کی تائید کرتی ہے کہ جس رفتار سے ہم میں اپنی ضرورتوں کا احساس بڑھا آزادی کے تصور نے بھی اسی رفتار سے ترقی کی ۔
جدوجہد آزادی ہند کو عموماً ۱۸۵۷ء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد اقتدارپر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا ۔ ۱۸۰۳ ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی ملک پر اپنا اقتدار قائم کر چکی تھی ۔ کمپنی کے نمائندوں نے مرکزی حکومت سے ملکی انتظامات کے حقوق کا پروانہ حاصل کر لیا تھا ۔ اس سے پہلے ہم کو اپنی غلامی کا احساس نہ ہوا تھا اور نہ ہم نے اس کی نوعیت پہچانی تھی ۔ لیکن زندگی کی ضرورتوں نے جلد ہی بتا دیا کہ کوئی چیز ہم سے چھین لی گئی ہے ہم نے کوئی چیز کھو دی ہے اس ’’ احساسِ زیاں ‘‘ نے ہم سے آزادی کا ایک دھند لا سا خاکہ بنایا ۔ لیکن ابتدا میں یہ خاکہ ہی خاکہ تھا ۔ برطانوی حکومت پردیسی سہی پر اس نے ملک میں امن قائم کیا تھا ۔ ریل گاڑیاں چلائی تھیں ، تار گھر اور اسپتال کھولے تھے ۔ چناچہ انیسویں صدی کے لوگ اسی بنا پر یہ توقع کیا کرتے تھے کہ دوسری ضرورتوں کا پورا ہونا بھی تاج برطانیہ کے سائے تلے ہی ممکن ہے ۔ برطانوی تسلط اور زندگی کی ضرورتیں خیالی نہ تھیں جو دل کو تسکین دینے سے دور ہو جاتیں ۔ کرم اور تقدیر کے مہلک سماجک فلسفے نے کچھ عرصے تک فریب میں مبتلا رکھا ۔ آخر وہ وقت آہی گیا جب ہندوستانیوں نے محسوس کرنا شروع کردیا کہ برطانوی راج اور ہماری زبوں حالی میں کوئی تعلق ضرور ہے ۔ سیاسی جماعتوں کا قیام اسی احساس کا نتیجہ تھا ۔ اس کے باوجود انیسویں صدی میں انگریزی راج سے گلو خلاصی کا خواب نہ دیکھا جا سکتا تھا ۔ کیوں کہ ہم میں اس وقت تک اپنی مادّی ضرورتوں کا کافی احساس ہی پیدا نہ ہوا تھا یا اگر پیدا ہوا تھا تو ہم یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ ہماری ضرورتوں کے پورا نہ ہونے کی اصلی وجہ ہماری غلامی ہی ہے ۔ حکومت کے سامنے عرضیاں جاتیں ، محضرپیش ہوتے ،شکایتوں کے دفتر کھلتے ، وطنیت کے گیت گائے جاتے ، حبِ وطن کے نعرے لگتے لیکن یہ سب تاجِ برطانیہ کی وفاداری کی قسم کھا کھا کر ۔ مکمل آزادی کے مطالبے کا کوئی سوال نہ اٹھتا ۔ ہندوستان غریب سے غریب تر ہوتا گیا ۔ آخر کار وہ وقت آپہنچا جب مفلسی اور فاقہ کشی نے ہندوستانیوں کو کراہنے اور چیخنے پر مجبور کر دیا ۔ انگریزی حکومت کے مظالم اور وعدہ خلافیوں کے مظالم اور وعدہ خلافیوں نے ہماری آنکھیں کھول دیں اور دھیرے دھیرے یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ ہماری ساری مصیبتوں کی ذمے داری اسی پردیسی حکومت پر ہے ۔ سیاسی حالات اور سماجی ضرورتوں نے اس خیال کو اور ابھارا اور وہ دن بھی آگیا جب ہندوستانیوں پر گولیاں برسیں اور ڈنڈے پڑے ، ان کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنائی گئیں ، ان کے گھر لوٹے گئے لیکن بند ٹوٹ چکا تھا ، سیلاب کا دھارا بہہ نکلا تھا اور زندگی کی ضرورتوں نے آزاد ہونے پر مجبور کر دیا ہے ۔ چناچہ ہر طرف سے مکمل آزادی کے نعرے لگنے لگے اور ہر شخص محسوس کرنے لگا کہ انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا پانا ضروری ہے ۔ قدم آگے بڑھے اور ہندوستان کی چہار دیواری کے باہر نظر دوڑائی گئی تو یہ معلوم ہوا کہ ان ملکوں میں جہاں لوگوں کو سیاسی آزادی حاصل ہے عوام کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ۔ یہ سچ ہے کہ سیاسی آزادی کے بغیر معاشی آزادی ممکن نہیں لیکن وہ سیاسی آزادی کس کام کی جس میں عوام کو معاشی آزادی نہ حاصل ہو بلکہ انھیں صرف بھوکہ مرنے کے لیے آزاد کر دیا جائے ۔ یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ مجاہدین آزادی جن کی قیادت زیادہ تر انگریزی فوج کے ہاتھوں میں تھی ، انگریزوں کی مذہب دشمنی ، اقتصادی استحصال ، نسلی امتیاز ، حد سے زیادہ ٹیکسوں کا نفاذ ، زرعی پالیسی ، کساد بازاری ، بے روزگاری اور ہندوستانی صنعتوں کے بہ تدریج زوال کو وہ گذشتہ ایک صدی سے برداشت کرتے رہے تھے ۔ وہ بد حالی اور غربت کے باوجود خاموش اور صابر تھے لیکن ان کے صبر کا پیمانہ اس وقت چھلک گیا جب انگریزی حکومت کے زیر سایہ عیسائی مشنریوں کے ذریعے تندیلی مذہب کی منصوبہ بند کوشش شروع کی گئی ۔ یہ ایسا قدم تھا جس نے ان وفادار فوجیوں کو بھی انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیا ، جنھوں نے ہندوستان میں انگریزی حکومت کے قیام اور استحکام میں گزشتہ ایک صدی کے دوران نمایاں کردار ادا کیا تھا ۔ ۱۰ مئی ۱۸۵۷ کو میرٹھ میں عَلم آزادی بلند کرنے کے بعد باغی فوجیوں کی ٹولی دہلی پہنچی ۔
اوپر کی چند سطروں سے یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ ہمارے ملک میں آزادی کا ابتدائی تصور کیا تھا ، اور پچھلے پچھتر ، اسی سال میں دھیرے دھیرے اس میں کتنی تبدیلی ہوئی ہے ۔ ۱۸۵۷ ء کی پہلی جنگ آزادی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ جنگ ہتھیاروں کے علاوہ اعلانیوں اور حکم ناموں کے ذریعے بھی لڑی گئی تھی۔ تب قلم سے تلوار کا کام لینا وقت کا اہم ترین تقاضا تھا ۔ ان ہی حالات کے نتیجے میں اُردو ادیبوں نے اپنی تحریر کا رُخ تحریکِ آزادی کی طرف موڈ دیا اور تحریک آزادی کی طرف انقلابی ذہن پیدا کرنے کی سعی کی ۔ بقولِ آل احمد سرور ’’ ادب انقلاب نہیں لاتا بلکہ انقلاب کے لیے ذہن کو بیدار کرتا ہے ‘‘َ ۔
ہندوستانی ادب بالخصوص ہندوستانی شاعری پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آزادی کے موجودہ تصور تک پہنچنے میں ، جتنے زینے ہندوستانی سماج نے طے کیے ہیں ، اتنے ہی ہمارے ادب نے بھی کیے ہیں ، جتنے دور ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میں آئے ہیں اتنے ہی دورہمارے ادب پر بھی آئے ہیں ۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ادب اور زندگی میں بڑا بنیادی تعلق ہے ۔ اد ب زندگی کی حقیقتوں اور ضرورتوں کا ایسا عکس ہوتا ہے جو خود زندگی پر اثر ڈالتا چلتا ہے ۔ وہ زندگی کی وسعتوں کے ساتھ پھیلتا ہے ۔ مثال کے طور پر اردو شاعری میں آزادی کے تصور ہی کو لیجیے ۔ زندگی کی ضرورتوں کا احساس جس رفتار سے بڑھا ، ہندوستانی سماج میں حرکت اور بیداری کی لہریں جس تیزی سے آئیں اسی رفتار اور تیزی سے اردو شاعروں کا آزادی کا تصور بدلا ۔اردو زبان و ادب کے متعلق پروفیسر آل احمد سرور کا یہ بیان حیاتِ جاوداں کی حیثیت رکھتا ہے کہ :
’’اردو ادب کا لہلہاتا ہوا باغ تنہا ایک باغبان کی محنت کا ثمرہ نہیں ۔ اس کی آبیاری مختلف جماعتوں ، مذاہب اور ممالک نے مل کر کی ہے اس کی تعمیر میں بہتوں نے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے ۔ فقیروں اور درویشوں نے اس پر برکت کا ہاتھ رکھا ہے ۔ بادشاہوں نے اسے منھ لگایا ہے ۔ سپاہیوں نے زبانِ تیغ اور تیغِ زبان دونوں کے جوہر دکھائے ہیں پھر بھی یہ جمہور کی زبان اور جمہور کا ادب ہے ‘‘
( بحوالہ اردو زبان و قواعد،حصہ دوم ، شفیع احمد صدیقی ، مکتبہ جامعہ نئی دہلی ۲۰۰۸ ء ، ص ۔ ۱)
اردو زبان ہندوستان کی واحد زبان ہے جس نے تحریک آزادی میں گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں ۔ اس زبان نے تحریکِ آزادی کی جدوجہد میں قدم سے قدم ملا کر وفاداری کا ثبوت پیش کیا ہے ۔۱۸۵۷ ء کے دوران ہندوستان کے اطراف و اکناف میں جو حالات رونما ہوئے تو اردو زبان کے شاعروں اور ادیبوں نے اپنی قلمی کاروائی کے ذریعے آزادی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ملک کے طول و عرض میں ہمیشہ گونجنے والا پُر جوش نعرہ ’’ انقلاب زندہ باد ‘‘ بھی اُردو زبان کی دین ہے اور اسی نعرے نے جابر حکمرانوں کی نیند تک حرام کر دی ۔ اسی زبان و ادب کے خمیر میں قومی ایکتا ہندو مسلم اتحاد اور حب الوطنی کی خوشبو رچی بسی ہے ۔ سیکولرزم ، اخوت ، انسانی رواداری اردو کی شناخت ہے ۔ اردو زبان اپنی فطرت و خصلت کے اعتبار سے خالص ہندوستانی ہے ۔ اردو شعرا وادب میں ہندوستانی ثقافت ، معاشرت اور تہذیب کی ترجمانی کی گئی ہے ۔ وطن عزیز کی آزادی کے لیے اردو زبان نے جو قربانیاں پیش کی ہیں وہ ہماری قومی تاریخ کا درخشاں باب ہیں ۔ بقولِ شارب ردولوی :
’’ ہندوستان کی جنگِ آزادی دو اسلحہ سے لڑی گئی ۔ ایک اہنسا، دوسرا اُردو زبان ‘‘
(سہ ماہی ’فکر و تحقیق ‘ ،شمارہ ۳،جلد ۶۱ ،جولائی تا ستمبر ۲۰۱۳ ء، ص۔ ۵۸)
اردو کی تمام اصناف سخن میں آزادی اور حب الوطنی کا جذبہ پایا جاتا ہے ، اردو کی نظمیہ شاعری میں یہ جذبہ زیادہ واضح اور مستحکم طور پر نظر آتا ہے ۔ بظور خاص جدو جہد ٓازادی کے زمانے کی تخلیق کردہ بیش تر نظموں میں حب الوطنی اور آزادی کا تصور بہت توانا نظر آتا ہے ۔دکن میں لکھی گئی مثنویات میں جب الوطنی کا جذبہ غیر واضح اور ذاتی سطح پر نظر آتا ہے ۔ لیکن جب ملک نئے حالات و مسائل سے دوچار ہوا اور سیاسی ، سماجی ، تہذیبی اعتبار سے تبدیلیاں رونما ہوئیں اور جدید افکار و خیالات کی پذیرائی ہونے لگی ، تو اردو نظم کے روایتی اسالیب میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ کرنل ہالرائڈ اور محمد حسین آزاد کی کاوشوں سے پنجاب میں نظم جدید کی تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ اور یہ اردو نظم حیات و کائنات کے مسائل کی ترجمان بن گئی ۔ایسے نظم گو شعرا میں الطاف حسین حالی ، علامہ شبلی نعمانی ، محمد حسین آزاد ، اسمٰعیل میرٹھی ، سرور جہاں آبادی ، برج نرائن چکبست ، علامہ اقبال ، مولانا حسرت موہانی ، جوش ملیح آبادی ، اکبر الہ آبادی ، علی سردار جعفری ، مخدوم محی الدین ، مجاز ، فیض احمد فیض وغیرہ کا شمار ہوتا ہے ۔

الطاف حسین حالی ( ۱۹۱۴۔۱۸۳۷) :حالی کی نظموں کے ذریعے اردو شاعری میں ایک خاموش انقلاب کی ابتدا ہوئی ۔ شاعری کے ذریعے انھوں نے قوم کو سیاسی ، سماجی اور تہذیبی قدروں کا احساس دلایا ۔ یہ دور سیاسی ، سماجی انتشار کا تھا ، مختلف تحریکوں کا آغاز ہوچکا تھا ۔ نظم جدید تحریک سے متاثر ہوکر حالی نے’’ حب وطن ‘‘ کے نام سے ایک مثنوی لکھی ، اس مثنوی میں حب الوطنی کے تصور پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ان کے اس نظریہ نظم سے متاثر ہوکر نظم نگاروں کی ایک بڑی جماعت نے آزادی اور حب الوطنی کے تصور کو اپنی شاعری کا موضوع بنا لیا ۔ چند سالوں کے بعد جب آزادی کی تحریک اور مستحکم ہوئی تو اردو شعرا نے بھی اپنے قلم کو آزادی کا ہتھیار بنا یا ۔ جذبہ آزادی اور حب الوطنی سے سرشار ادباء و شعرا کی تخلیقات میں اب آزادی ، بغاوت ، وطنیت کا شعور بنیادی حیثیت اختیار کر گیا تھا ۔ شعرا و ادباء نے اپنے فکر و فن ، شعور و فلسفے کی مدد سے ایک ایسے جہاں کی تخلیق کی جس میں شاعری زندگی کی حقیقی ترجمان بن گئی ۔ اس دور میں ہندوستانیوں کا سیاسی شعور کافی بیدار ہوچکا تھا ، وہ اپنی محکومی کی زنجیروں کو توڑنے پر آمادہ تھے ۔ ان کے دلوں اور ذہنوں میں وطن کی محبت سیاسی رنگ و روپ اختیار کر لیا تھا۔
حالی کو شاعری سے طبعی مناسبت تھی ۔ انھوں نے جب شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو پورا ملک غلامی اور زبوں حالی میں گرفتار تھا ۔ قوم کی حالت بد سے بدتر ہو گئی تھی۔ ذہنی پستی اور بے حسی و بے عملی کی وجہ سے ان میں حالات سے نبرد آزما ہونے کی ہمت و جرأت باقی نہ بچی تھی ۔ قوم کے بعض افراد گوشہ نشینی اور تصوف میں اپنی عافیت ڈھونڈنے لگے تھے ۔ حالی نے ان حالات کا مشاہدہ کیا اور قوم کی زبوں حالی و پستی سے نجات دلانے کا راستہ تلاش کیا ۔ حالی میں یہ فکر اور نقطہ نظر پیدا کرنے میں انجمن پنجاب اور سرسید تحریک نے اہم رول ادا کیا ۔ جدید تحریک نے ان کی شاعری کو مقصدیت و افادیت عطا کی ۔ حالی کی شاعری میں حب الوطنی قومی و ملی ہمدردی وغیرہ جیسے تصور کی بنیاد انجمن پنجاب کے مشاعروں سے پیدا ہو چکی تھی ، لیکن سرسید سے ملاقات کے بعد ان کی شاعری قومی و ملی مسائل کی ترجمان بن گئی ۔ حالی کی نظم ’’حب وطن ‘‘ میں وطن کی محبت ، قومی و ملی استحصال ، بے حسی ، بے بسی اور بے چینی کو بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی قوم کو علم و ہنر سیکھنے اور آپس میں پیار محبت سے رہنے کی تلقین بھی کی گئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ آپسی پھوٹ سے ملک و قوم دونوں تباہ ہو جائیں گے ، اس لیے متحد ہو جاؤ اب تک بہت سوئے اب اٹھ جاؤ اور وطن عزیز کے لیے خود کو قربان کردو ملک و ملت کی بہتری اسی میں ہے ۔ نظم سے کچھ اشعار ملا حظہ ہوں :
اے وطن اے میرے بہشت بریں
کیا ہوئے تیرے آسماں و زمیں
رات دن کا وہ سماں نہ رہا
وہ زمیں اور وہ آسماں نہ رہا
بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو
اٹھو اہل وطن کے دوست بنو
تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر
نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر
قوم جب اتفاق کھو بیٹھی
اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی
چھوڑو افسردگی کو جوش میں آؤ
بس بہت سوئے اٹھو اب ہوش میں آؤ
اردو شاعری میں حب الوطنی کا باقاعدہ تصور حالی کی نظموں سے پیدا ہوا ۔ انھیں وطن کی محکومی کا شدید احساس تھا ۔ وہ ملک کو غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے اور ان کو یہ احساس تھا کہ ملک کو آزادی ، اتحاد اور آپسی بھائی چارہ ہی سے مل سکتی ہے ۔ اسی لیے ان کی نظمیں نصیحت آموز ہیں اور قومی و ملی فلاح و بہبودی کے ساتھ آزادی کی ترغیب دیتی ہیں ۔
محمد حسین آزاد (۱۹۱۰۔۱۸۳۰ ) : آزاد کو قوم و ملت کو راہ راست پر لانے کا موثر طریقہ شاعری کے بجائے نثر میں نظر آیا ۔ لیکن پھر بھی انھوں نے حب الوطنی اور آزادی کے جذبے کو بیان کرنے کے لیے نظم کا بھی سہارا لیا ۔ کرنل ہالرائڈ کے ساتھ انھوں نے انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالی ۔ اس انجمن میں آزاد نے جو مضمون پڑھا اس میں شاعری کے مضامین مین تکرار ، غلو و مبالغہ ، فضول تشبیہات و استعارات ، تصنع اور خلاف فطرت جیسے عیوب سے پاک کرنے اور شاعری کو سادگی ، حقیقت اور فطرت جیسے عیوب سے پاک کرنے اور شاعری کو سادگی ، حقیقت اور فطرت سے قریب کرنے کی رائے پیش کی گئی تھی ۔ آزاد اور حالی نے انجمن پنجاب کے جلسوں مین بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی نظموں کے ذریعے ہندوستانیوں کے دلوں میں حب الوطنی اور آزادی کے جذبوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ آزاد کی نظموں کے موضوعات محبت ، اخوت اخلاق و معاشرہ ، محنت و کاوش اور حب وطن وغیرہ ہیں ۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعے ہم وطنوں کو محبت ، اتحاد ، دوستی اور امن کا پیغام دیتے ہیں ۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہندوستانیوں میں آپسی بھائی چارہ ہو ، علم و ہنر کی روشنی پھیلے اور ملک معاشی و معاشرتی اعتبار سے ترقی کی طرف گامزن ہو :
الفت سے سب کے دل سرد ہوں بہم
اور جوکہ ہم وطن ہوں وہ ہمدرد ہوں بہم
علم و ہنر سے خلق کو رونق دیا کریں
اور انجمن میں بیٹھ کے جلسے کیا کریں
لبریز جوش حب وطن سب کے جام ہوں
سرشار ذوق و شوق دل خاص و عام ہوں
آزاد نے اپنی نظموں کے ذریعے ہندوستانیوں کے پژ مردہ دلوں میں امید کی کرن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انھوں نے قوم کو تلقین کی ہے کہ انجام کی پروا کیے بغیر رفاہ قوم کو اپنا مقصد بنا لیں ۔
اکبر الہ آبادی (۱۹۲۱۔۱۸۴۶) : اکبر کی شاعری اپنے دور کی سیاسی ، سماجی ، تہذیبی روایتوں کی آئینہ دار ہے ۔ ان کو برطانیہ کی غلامی برداشت نہ تھی ، مشرق کی مٹتی ہوئی قدریں انھیں مضطرب کرتی ہیں ۔ ان کی شاعری حب الوطنی اور آزادی کے جذبے سے سرشار ہے ۔ اکبر کو ملک کی آزادی میں ہندوستانیوں کی کوششیں ناکام نظر آتی تھیں ۔ وہ سرکاری ملازم تھے اس لیے انگریزوں کے مظالم کو بیان کرنے کے لیے انھوں نے شاعری میں طنزکا سہارا لیا ہے ۔ انھیں انگریزی تہذیب و تمدن سے نفرت تھی ۔ ہندوستانی قدروں کی پامالی کا انھیں قلق تھا ، وہ اپنی نظم مستقبل میں اظہار کرتے ہیں کہ موجودہ تہذیب ہندوستانی قدروں کو پامال کر دے گی نظم سے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں :
یہ موجودہ طریقے راہی ملک عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گی
نہ خاتونوں میں رہ جائے گی یہ پردے کی پابندی
نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے
عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ملت سے
نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے
تمہیں اس انقلاب دہر کا کیا غم ہے اے اکبر
بہت نزدیک ہے وہ دن ، نہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے
سرور جہاں آبادی ( ۱۸۷۳) : حب الوطنی اور آزادی کا تصور سرور کی نظموں کی خاص شناخت ہے ۔ سرور نے وطن کا تصور ماں اور دیوی کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔ انھیں ہندوستان اور یہاں کے رسم و رواج ، تہذیب و تمدن اور فطری مناظر سے عشق تھا ۔ سرور کی نظموں میں اتحاد ، دوستی ، امن ، انسانی ہمدردی جیسے جذبات کی ترجمانی ملتی ہے ۔ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ وطن اور اہل وطن کی بھلائی آپسی اتحاد میں ہے ۔ اسی لیے وہ اپنی نظموں کے ذریعے ہندو مسلم دونوں کے دلوں میں حب الوطنی کے جذبے کو بیدارکرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیونکہ حب وطن ایسا جذبہ ہے جو مذہب ، رسم و رواج کے بندھن سے آزاد ہے ۔ ان کے مخاطب کوئی خاص مذہب یا قوم نہیں بلکہ ہندوستانی عوام ہیں ۔ سرور کی شاعری کی خصوصیت جذبات نگاری بھی ہے ۔ ان کی تمام نظموں میں وطن سے عشق اور اعلیٰ خیالات پیش کیے گئے ہیں ۔ ان کی نظم ’ مادر وطن ‘ سے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں :
واہ ! یہ جاں بخش پانی ، یہ ہوائے خوش گوار
یہ ترو شاداب ، شیریں میوہ ہائے خوش گوار
ٹھنڈی ٹھنڈی عطر میں ڈوبی ہوئی باد جنوب
سبز کھیتوں کی ہوائیں اور یہ میدانوں کی دوب
سرور کی نظموں میں ماضی کی محبت اور حال سے مایوسی اور وطن کی محکومی کا شدید احساس نظر آتا ہے نظم ’’ خاک وطن ‘‘ ملاحظہ ہو :
آہ اے خاک وطن ، اے سرمہ نور نظر
آہ اے سرمایہ آسائش جان و جگر
تیرے دامن میں شگفتہ تھے کبھی قدرت کے پھول
گندھ رہے تھے تیری چوٹی میں کبھی وحدت کے پھول
علامہ اقبال (۱۹۳۸۔۱۸۷۷ ) : شروع میں اقبال نے ہندوستانی قوم میں اپنی نظموں کے ذریعے حب الوطنی کو فروغ دیا ، جس سے آزادی کی قومی جدوجہد میں بڑی قوت ملی تھی ۔ ایسی نظموں میں ہمالہ ، تصویر درد ، ترانہ ہندی، نیا شوالہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ وہ قومی اتحاد و قومی یکجہتی کے حامی تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تحریک آزادی کی جدوجہد بڑی غور و فکر سے جانچا تھا ۔ جس کا اندازہ جگہ جگہ ان کی شاعری میں ملتا ہے ۔
رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستان مجھکو
کہ عبرت خیز ہے ترا فسانہ سب فسانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے اے ہندوستان والو !
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
پنڈت برج ناراین چکبست ( ۱۹۲۶۔۱۸۸۲) : چکبست کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا ۔ انھیں نظم و نثر دونوں پر قدرت حاصل تھی ۔ ان کی نظموں میں ہندوستان کے سیاسی ، سماجی ، تہذیبی حالات اور حب الوطنی و آزادی کے جذبات کی ترجمانی بڑے موثر انداز میں کی گئی ہے ۔ چکبست کو وطن کی محکومی اور بے بسی کا بھی شدید احساس تھا ۔ انھوں نے اردو شاعری کو تحریک آزادی کے اصلی رنگ اور صحیح مزاج سے آشنا کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ ان کی شاعری اعتدال پسندی ، نرم گفتاری اور میانہ روی کے نظریہ کی حامی ہے ۔ ان کی شاعری میں وطن دوستی کا جذبہ تمام جذبوں پر بھاری ہے ۔ ہندوستانیوں کی بے حسی اور بزدلی پر انھیں افسوس ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کوئی ایسی آواز اٹھے جو انھیں بیدار کردے اور یہ ملک و قوم کی آزادی کے لیے جدوجہد کر سکیں ۔ چکبست کی نظموں میں قومیت ، معاشرتی اصلاح اور وطن دوستی پائی جاتی ہے ۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے غافل ہندوستانیوں کو جگانے اور ان کے دلوں میں حرکت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انھیں انگریزی ظلم و جبر کا شدید احساس تھا وہ ہندوستانیوں کی غربت و بے بسی پر بہت غمگین تھے ۔ غیر ملکی حکومت سے انھیں سخت نفرت تھی ۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کے سیاہ و سفید کا مالک ہندوستانی ہی ہوں ۔ اپنی نظم ’’ آوازہ قو م‘‘ میں لکھتے ہیں :
یہ آرزو ہے کہ مہرو وفا سے کام رہے
وطن کے باغ میں اپنا ہی انتطام رہے
گلوں کی فکر میں گلچیں نہ صبح و شام رہے
نہ کوئی مرغ خوش الحاں اسیر دام رہے
یہ جوش پاک زمانہ مٹا نہیں سکتا
رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا
یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا
دلوں میں آکے یہ ارمان جا نہیں سکتا
جوش ملیح آبادی : : جوش ملیح آبادی جنگ آزادی کے موضوع پر کُھل کر لکھنے کی وجہ سے ’ شاعر انقلاب‘ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ان کے کلام کا کافی حصہ جذبہ آزادی سے بھرا پڑا ۔ ان کی نظمیں سیاسی ، سماجی ، انتشار کی آئینہ ہیں اور وہ انقلابی نعرہ بازی سے لبریز ہیں ۔ اُن کے پُر جوش اور ولولہ انگیز اندازِ بیان نے آزادی کے متوالوں کو سر بکف ہونے پر آمادہ کیا ؂
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب انقلاب
جوش کو انقلابی تحریکوں سے بڑی دلچسپی تھی ، اس لیے ان کی نظمیں بغاوت و انقلاب جیسے جذبوں سے سرشار ہیں ۔ ان کی نظموں کے موضوعات میں نسلی منافرت ، سیاسی غلامی ، قومی نفاق اور معاشی جبر و استحصال شامل ہیں ۔ ملک کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں تھے ۔ آزادی کی قدر و قیمت کا انھیں بہت احساس تھا ۔ تحریک آزادی زوروں پر تھی انھیں کامل یقین ہوگیا کہ اب ملک آزادی ہو جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ جوش کی انقلابی شاعری میں وطن پرستی کا جذبہ ، ملک کو محکومی سے نجات دلانے کی تمنا ، جوش ، ولولہ اور حوصلہ پورے طور پر نظر آتا ہے ۔اس لیے ان کی نظمیں بغاوت و انقلاب جیسے جذبوں سے سرشار ہیں ۔ نظم ’’ شکست زنداں کا خواب ‘ سے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں :
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے ، گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے ، توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے ، دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
کیا ان کوخبر تھی ؟ سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
سنبھلو ! کہ وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹو ! کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو ! کہ وہ بیٹھیں دیواریں ، دوڑو ! کہ وہ ٹوٹیں زنجیریں
جوش نے ملک و قوم کی محکومی ، معصوم انسانوں کے قتل و غارت گری کا مشاہدہ کیا ، دراصل وہ مزاجاً جذباتی تھے ۔ آزادی ، مساوت اور انسان دوستی میں یقین رکھتے تھے ، محبت کو وہ اپنا مذہب سمجھتے تھے ۔ موجودہ حالات نے ان کے انقلابی تصور کو ایک ہنگامی صورت میں تبدیل کر دیا ، اسی لیے ان کی نظموں میں انگریزوں سے نفرت ، غیظ و غضب ، خوداری ، بیباکی جیسے عناصر کی بھر مار ہے ۔ جوش کی نظم ’’ بغاوت ‘‘ میں جوش کا مجاہدانہ تیور ، فرنگی حکومت کو للکارنے اور سامراجی نظام کو تاراج کرنے کو تیار نظر آتا ہے ۔نظم سے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے :
ہاں بغاوت ! آگ بجلی موت آندھی میرا نام
میرے گردوپیش اجل ، میری جلو میں قتل عام
زرد ہو جاتا ہے میرے سامنے روئے حیات
کانپ اٹھتی ہے میری چین جبیں سے کائنات
رعب سلطانی سے یہ چہرہ اتر سکتا نہیں
جو خدا سے پڑا ، شاہی سے ڈر سکتا نہیں
علی سردار جعفری( ۱۹۱۳ ء ): سردار جعفری کی نظموں میں حب الوطنی اور آزادی کی جدو جہد نظر آتی ہے ۔ ان کی شاعری دعوت انقلاب ، پیغام بیداری ، جذبہ آزادی اور خواہش آزادی کے جذبوں سے لبریز ہے ۔ انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعے ہندوستان کو جنگ آزادی میں شامل ہونے اور اتحاد ، دوستی ، محبت سے رہ کر وطن عزیز کو غلامی سے نجات دلانے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ سردار جعفری کی نظموں میں شدت پسندی ، جوش ولولہ ، انگریزوں کے تسلط کی مذمت اور آزادی کے جذبے کا مطالبہ بڑی شدت سے کیا گیا ہے ۔ قوم و ملک کو آزادی دلانے کے لیے سردار جعفری نے قلم کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی حصہ لیا ہے ۔ زنداں میں قید بھی کیے گئے لیکن ان کے وطن پرستی کے جذبے میں کمی نہیں آئی ۔ انگریزوں سے انھیں شدید نفرت تھی ، وہ انھیں فرعون سے تعبیر کرتے تھے ۔ ان کی نظم ’’ نئی دنیا کو سلام ‘‘ سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں :
جانتے ہو ہماری نگاہوں میں تم کون ہو
عصر حاضر کے فرعون ہو
تم وہ قاتل ہو گردن پے جن کی
ایک دو کا نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں کا خون
ہم کو غلامی گوارا نہیں ہے
ایک بھی ذرہ اب اس ملک میں تمھارا نہیں ہے
زندگی تم سے تنگ آچکی ہے
ساری دنیا اب اکتا چکی ہے
حسرت موہانی (۱۹۵۱۔ ۱۸۸۱) : حسرت موہانی نے اپنی زندگی جدوجہد آزادی کے لیے وقف کر دی تھی ۔ وہ صرف اور صرف آزادی ملک کے خواہاں تھے کسی منصب کے نہیں ۔ وہ بیک وقت نڈر سیاست دان ، شاعر ، ادیب ، صحافی اور نقاد تھے ۔ ان کے تلخ اور ترش صحافتی رویے سے خوفز دہ ہوکر انگریزی حکومت نے حسرت موہانی کو دو سال کی قیدِ سخت اور پانچ سو روپے جرمانہ پابند سَلاسِل کر دیا ، لیکن ان کی حُریت پسندی اور حُب الوطنی کے جذبات شعری پیکر میں ڈھلتے رہے ۔ تنگی قید سے حسرتؔ کے پائے ثبات میں ذرا بھر لغزش نہ آنے پائی ؂
رُوح آزاد ہے خیال آزاد
جسم حسرت کی قید ہے بے کار
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی ہو
واللہ کبھی خدمتِ انگریز نہیں کرتے
غربت کی صبح میں نہیں ہے وہ روشنی
جو روشنی کہ شام سوادِ وطن میں تھی
حسرتؔ کا عقیدہ تھا کہ آزادی جیسی نعمت حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی سعی و کوشش پر تکیہ کرنا سب سے بڑا گناہ ہے لہذا وہ عوام سے تاکید کرتے تھے کہ وہ عملی طور پر جدوجہد کے میدان میں آتر جائیں تاکہ ’’ نجات ہند ‘‘ کی دیرینہ خواہش پوری ہوسکے :
غیر کی جوجہد پر تکیہ نہ کر کہ ہے گناہ
کوشش ذاتِ خاص پر ناز کر اعتماد
اے کہ نجات ہند کی دل سے ہے تجھ کو آرزو
ہمت ہر بلند سے پاس کا انساد کر
ِ انھوں نے کئی نظمیں آزادی کے نام لکھیں جیسے جورِ غلامانِ وقت ، نجات ہند وغیرہ
فیض احمد فیض (۱۹۸۴۔ ۱۹۱۱ ): آزادی کی دیوی تو نمودار ہوئی لیکن خون میں ڈوبی ہوئی زمین سے آسمان تک فرقہ واریت کا زہر بھر گیا ۔ تعصب اور تنگ نظری کی آگ اتنی بھڑک چکی تھی کہ صدیوں کا تہذیبی سرمایہ اس میں فنا نظر آتا تھا ۔ ہندو مسلم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے اور درندگی ، سفاکی اور بربریت کی وحشی قوتیں بے لگام ہوگئیں ۔ اس نازک مرحلے پر بھی اردو شعرائے نے عوام سے امن و آشتی کی درخواست کی اور قوم کو سامراجی چالوں سے محتاط رہنے کے لیے خبردار کیا ۔ فیض کی ’’صبح آزادی ‘‘ میں یہ بجھی بجھی اور درد کی لہر ان مصروں میں ہمیشہ کے لیے مجسم ہوگئی ہے :
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظا ر تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سستِ موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل
آزادی کے بعد اردو نظم سے تعلق ایک حقیقت یہ بھی رہی کہ ان نظم گو شعراء نے سماجی ، سیاسی اور بین الاقوامی مسائل کو پیش کرنے اور زندگی کی جدوجہد کو گوشہ تحریر بنانے کے لیے جن نئے موضوعات پر آزاد روی کے ساتھ شاعری کی اور نظم کی ہیت میں بھی نئے نئے تجربے کیے اور ایسا کرتے ہوئے وہ فکری اور شعوری طور پر آزاد رہنے اور آزاد خیالی کے ساتھ چیزوں کو سمجھنے کے اس قدر عادی ہو گئے کہ انھوں نے نظم کو بھی ’آزاد نظم ‘ بنا ڈالا جو کافی حد تک مقبول بھی ہوئی ۔
غرض اردو کا اپنا ایک شاندار ماضی بھی ہے ۔ یہی وہ زبان ہے جس نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ تحریک آزادی کے ساتھ اردو قدم سے قدم ملا کر چلی ہے ۔ آزادی کے متوالوں کو ’’انقلاب زندہ باد ‘‘ کا ولولہ انگیز نعرہ اسی زبان نے دیا تھا ۔ اس کے شاعروں نے ملک کے سیاسی افق پر ابھرنے والی ہر تحریک کی موافقت میں نظمیں کہہ کر اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اپنا تعاون دیا ہے ۔ اردو شاعروں نے نہ صرف اپنی تخلیقات کے ذریعے آزادی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ بعض شعرا تو میدان کار زار میں عملی طور پر لینے کی پاداش میں زینت زندان ہوگئے اور بعض نے پھانسی کا پھندا قبول کر کے تحریک آزادی میں نئی رُوح پھونک دی ۔ پنڈت رام پرشاد بسمل کی شاعری اور شہادت نے نہ صرف آزادی کے طلبگاروں کے حوصلے بُلند کیے بلکہ انگریزی حکومت کی بنیاد کو بھی ہلا ڈالا ۔ کاکوری میں سرکاری خزانہ بردار گاڑی کو لوٹنے کے جرم میں رام پرشاد بسمل کو ۱۹ دسمبر ۱۹۲۷ ء کو گورکھپور جیل میں پھانسی دے دی گئی مگر ان کے جوشیلے اشعار زیریلے سانپ بن کر حکمرانوں کا تعاتب کرتے رہے ؂
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہید ملک و ملت تیرے جذبوں کے نثار
تیری قربانی کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
وقت آنے دے بتا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ ارمانوں کی بھیڑ
ایک مٹ جانے کی حسرت اب دلِ بسمل میں ہے ۱؂ بسمل عظیم آبادی
جیسے اشعار سے سر فروشان وطن کے حوصلوں کو توانائی اسی زبان نے بخشی ہے ۔ اسی زبان کے صحافی مولوی محمد باقر بھی تھے جنھیں ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف خبریں شائع کرنے کے جرم میں جامِ شہادت نوش کرنا پڑا تھا اور اپنی ساری جائیداد سے ہاتھ دھونا پڑا تھا ۔
اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ ملک میں سیاسی بیداری پیدا کرنے میں اس ملک کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو نے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ۔ یہ زبان ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی امین بھی ہے ۔ سیکولرزم اس زبان کے خمیر میں ہے ۔ یہ زبان صوفیوں اور درویشوں کی گود میں کھیلی ہے ، خانقاہوں میں اس نے پرورش پائی ہے لہذا مذہبی رواداری اس کی روح میں اتری ہوئی ہے ۔ اردو کے متعلق پنڈت جواہر لال نہرو کا یہ بیان ایک ایسی سچائی ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ :
’’ اردو ہندوستانی کے تہذیبی کڑھاؤ میں تاریخ کی آنچ میں پکے ہوئے لا تعداد عناصر سے تیار کیمیا ہے جسے
ہم چاہیں بھی تو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ تلسی کی رام چرت مانس ہو یا سکھ مذہب کا گرو گرانتھ صاحب یا
شاہ عبد القادر کا قرآن حکیم کا ترجمہ ۔ ان میں زبان کا جو خمیر اٹھ رہا ہے اس سے اردو بڑھی اور پنپی ہے ‘‘
( بحوالہ ماہنامہ ، کتاب نما ، نئی دہلی ، اگست ۲۰۰۸ ء ، ص۔ ۴۳)
اس زبان نے ہر دور میں ہندوستانیوں کے دلوں میں محبت کے دیپ اور اتحاد و یکجہتی کی قندیلیں جلانے کا مقدس فریضہ بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے ۔ غلام ہندوستان رہا ہو یا آزاد ہندوستان اس زبان نے ہمیشہ اقبال کے لفظوں میں اہلِ وطن کو یہی پیغام دیا ہے کہ :
وانہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زبان
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے ۱؂
(بانگ درا : علامہ اقبال ، حمیدیہ کتب خانہ ، دہلی ، جولائی ۱۹۷۲ ، ص ۔ ۵۲ )
غالب ۱۸۵۷ ء کے قتل اور غارت گری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے لیکن ان کی ذہنی قوتیں اس قومی تباہی پر غصے اور رنج کا اظہار کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکتی تھیں کیوں کہ اس وقت ہندوستانی سماج کا ذہن اس سے آگے نہ بڑھا تھا ۔ آزاد ، حالی اور اسمٰعیل کے زمانے میں وطنیت کا صور پھونکا جا چکا تھا ۔ ہندوستانی قوم اپنی مجبوریوں کو محسوس کرنے لگی تھی یہی وجہ ہے کہ آزاد ، حالی اور اسمٰعیل کے کلام میں حبِ وطن کا بہت ابتدائی تصور پایا جاتا ہے ۔ اس میں آزادی کے نقوش شاذ ہی نظر آہیں گے ۔ قوم نے ایک اور انگڑائی لی تو حبِّ وطن کے اسی خام تصور کے بطن سے آزادی کا وہ تصور پیدا ہوا جو اقبال ، چکبست اور ابتدائی بیسویں صدی کے دوسرے شاعروں کے کلام میں جھلکتا ہے ۔ لیکن زندگی کی ضرورتوں نے جلد ہی اس تصور کو بھی نا کافی قرار دے دیا ۔ سیاسی آزادی کے ساتھ عوام کی معاشی آزادی کا مطالبہ ہونے لگا ۔ ہندوستانی قوم نے ایک اور کروٹ لی ، ایک نیا دور شروع ہوا جس کے امیر کارواں جوش ملیح آبادی ہیں ۔ دورِ حاضر کے نوجوان شعراء کا آزادی کا تصور دراصل بازگشت ہے ان سماجی ضرورتوں اور سیاسی تحریکوں کی جن میں سیاسی آزادی کے ساتھ قوم کی معاشی آزادی پر بھی زور دیا جاتا ہے ۔ نئے شعرا وطنیت کے تنگ دائرے سے نکل گئے ہیں ، وطنیت کا تصور جس کا بیج آزاد اور حالی نے بویا تھا اب اتنا بلند ہوچکا ہے کہ دورِ حاضرہ کے شاعر اور ادیب صرف انگریزی حکومت کے خاتمے کو ملک کے لیے کافی نہیں سمجھتے ۔ وہ سماجی انقلاب اور مزدوروں اور کسانوں کے راج کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ وہ بین الاقوامی تحریکوں سے کافی متاثر ہیں اور ان کا خیال ہے کہ سماجی ضرورتیں ، مادّی اور روحانی ،صرف سیاسی آزادی حاصل ہو جانے سے پوری نہیں ہوں گی بلکہ ان کے لیے سماجی انقلاب کی ضرورت ہے ۔ ان کے نزدیک سچّی آزادی انفرادی اور جماعتی صرف ایک ایسے سماجی نظام میں ممکن ہے جس میں ایک فرد دوسرے فرد پر حکومت نہ کرتا ہو اور نہ ایک فرد دوسرے فرد کی ذہنی اور جسمانی قوتوں سے ذاتی فائدہ اٹھاتا ہے ۔ ہماری قومی زندگی اور اسی کے ساتھ ہماری ادبی زندگی ان دنوں ارتقا کے اسی دور سے گزر رہی ہے ۔
اُردو کی برگزیدہ شخصیت منشی پریم چند نے اپنی تمام تر قلمی صلاحیت انگریزی سامراج کے خلاف استعمال کی ۔ پریم چند نے جس دور میں آنکھیں کھولیں ، ہر طرف آزادی کا غلغلہ تھا اور محبان وطن اپنی اپنی بساط بھر کچھ کر گزارنے کے جذبے سے سرشار اپنے وطن کی خدمت انجام دے رہے تھے ۔ کچھ لوگ بم اور بارود سے جنگ کر رہے تھے تو کچھ لوگ سیاسی سطح پر عدم تشدد کے ہتھیار سے لڑ رہے تھے ۔ وہی شاعر اور ادیب اپنے کام سے ہی کام لے رہے تھے ۔ پریم چند ایک ایسے ہی محب وطن فعال ادیب تھے ، جنھوں نے اپنی تحریروں سے تحریک آزادی کا بڑھاوا دیا ۔ پریم چند اپنے وطن اور اپنی قوم کی زبوں حالی پر مغموم تھے ۔ ’’ سوز وطن ‘‘ ان کی ایسی ہی کہانیوں کا مجموعہ تھا جو حبِ وطن کے جذبات سے مملو تھیں اور جنھیں پڑھ کر قومی جذبات بیدار ہوتے تھے ۔ چنانچہ انگریز حکمرانوں نے اس مجموعے کو ضبط کر لیا ۔ پریم چند لکھتے ہیں :
’’ اس وقت میں سر شتۂ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر تھا اور ہمیر پور کے ضلع مہوبامیں تعینات تھا ۔ ’’ سوز وطن ‘‘ کو نکلے چھ مہینہ ہوچکے تھے ۔ ایک دن رات کو میں کیمپ میں بیٹھا ہوا تھا کہ کلکٹر صاحب کا پروانہ پہنچا کہ مجھ سے ملو ۔ جاڑے کا موسم تھا ، میں نے بیل گاڑی جتوائی اور راتوں رات تیس چالیس میل کا سفر طے کرکے دوسرے دن صاحب سے ملا ۔ ان کے سامنے ’’ سوز وطن ‘‘ کی ایک جلد رکھی تھی ۔ میرا ماتھا ٹھنکا ، اس وقت میں ’’ نواب رائے ‘‘ کے نام سے لکھا کرتا تھا ، مجھے اس کا کچھ کچھ پتا چل چکا تھا کہ خفیہ پولیس اس کتاب کے مصنف کی کھوج میں ہے ۔ میں سمجھ گیا کہ ان لوگوں نے مجھے کھوج نکالا اور صاحب کلکٹر نے اس کی جواب دہی کے لیے مجھے بلایا ہے ۔ صاحب نے ایک ایک کہانی کا مجھ سے مطلب پوچھا اور آخر بگڑ کر بولے تمھاری کہانیوں میں Sedition بھرا ہوا ہے ….. آخر کار فیصلہ ہوا کہ میں ’’سوز وطن ‘‘ کی کل کاپیاں جو ایک ہزار چھپی تھیں اور ابھی مشکل سے تین سو جلدیں فروخت ہوسکی تھیں ، حکومت کے حوالے کردوں ۔ میں نے بقیہ سات سو کاپیاں ’’ زمانہ ‘‘ پریس سے منگا کر صاحب کی نذر کر دیں ‘‘
( منشی پریم چند کی کہانی ان کی اپنی زبانی ، زمانہ ، کانپور )
یہ اپنے آپ میں ایک ایسا وقعہ تھا جو اس سے پہلے شاید و قوع پذیر نہیں ہوا تھا ۔ واضح ہو کہ پریم چند کی کتاب ’’ سوزوطن ‘‘ کی ضبطی کے بعد ہی انڈین پریس ایکٹ ۱۹۱۰ ء کے تحت ضبطی کا قانون وضع کیا گیا ۔
بہر حال دھنپت رائے نے ، جو اس وقت تک نواب رائے کے قلمی نام سے لکھتے رہے تھے ، اب اپنے دوست ’’ زمانہ ‘‘ کے ایڈیٹر دیا نرائن نگم کے مشورے پر ’’ پریم چند ‘‘ کا نام اختیار کرکے لکھنا شروع کیا اور ایک وقت ایسا آیا جب گاندھی جی کی ایک تقریر سے متاثر ہو کر انھوں نے سرکاری نوکری سے استعفادہ دے دیا اور آزادانہ لکھنا پڑھنا شروع کیا ۔ پریم چند اس گھڑی کو نیک ساعت تصور کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ مہاتما جی کے درشنوں ن کی یہ برکت تھی کہ میرے ایسے مردہ دل آدمی کے دل میں بھی جان آگئی ۔ اس
کے دو ہی چار دن کے بعد میں نے اپنی بیس سال کی سرکاری ملازمت سے استعفا دے دیا ‘‘
( پریم چند نمبر ’’ زمانہ ‘‘ کانپور ۔ صفحہ نمبر ۱۲ )
پریم چند نے ملازمت سے سبک دوش ہو کر اپنی زندگی کے باقی ایام تصنیف و تالیف میں گزار دیے ۔ ان کے موضوعات میں ملک کی زبوں حالی ، فرقہ واریت ، لسانی تعصب ، تعلیمی پسماندگی ، ذات پات اور چھوت چھات ،خاص اور اہم ہیں ۔ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر خاص طور پر زور دیتے تھے ۔ پریم چند تحریک آزادی کی کامیابی کے لیے قومی یکجہتی کو سب سے زیادہ ضرور اور اہم سمجھتے تھے ۔ وہ انگریزوں کے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے اصول سے بخوبی واقف تھے ۔ اسی لیے ملک کی آزادی کے لیے دیش واسیوں کے اتحاد و اتفاق کو لازمی قرار دیتے تھے ۔ خلافت تحریک سے بالواسطہ طور پر ہندوستان کی جدوجہد آزادی کو تقویت ملی ۔ چنانچہ گاندھی جی نے بھی اس مألے میں بہت دلچسپی لی اور اس کی بھر پور حمایت کی ۔ اگر چہ بہت سے ہندو حضرات اسے ایک مسلم مئلہ تصور کرتے تھے اور عام طور پر اس سے خود کو الگ رکھتے تھے ۔ پریم چند نے خلافت تحریک کے متعلق ہندوؤں کے اس عام رجحان کو دیکھتے ہوئے کہا تھا :
’’ حقیقت یہ ہے کہ ہندوؤں نے کبھی خلافت کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور نہ سمجھنے کی کاشش کی بلکہ اس کو شبہ کی نظر
سے دیکھتے رہے ۔ ہم کہتے ہیں اگر ہندوؤں میں ایک بھی کچلو ، محمد علی جوہر یا شوکت علی ہوتا تو ہندو سنگٹھن اور
شدھی کی اتنی گرم بازاری نہ ہوتی ‘‘ ( قحط الرجال ۔ زمانہ ، فروری ۱۹۲۴ )
ایک موقع پر جب پریم چند نے دیکھا کہ سیاسی لیڈر آپس میں ہی الجھ رہے ہیں اور اپنے اپنے مفاد کو مقدم جانتے ہیں تو بنارسی داس چتر ویدی کو ۲۱ مارچ ۱۹۳۶ ء کو لکھا :
’’ یہ سیاسی لوگ بڑے مایوس کن ہیں ۔ مصنفوں ہی کو ان کی رہنمائی کرنا ہوگی ، صوبہ پرستی ہمارے لیے ایک نیا
خطرہ ہے ۔ جس سے ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا ‘‘
اس کے شعرا و ادبانے تو جوش ملیح آبادی کے لفظوں میں بارگاہِ خداوندی میں یہی دعا مانگی ہے کہ :
دل ملتے ہیں جس سے معبود وہ مے ٹپکا
پیمانۂ ہندو میں مینائے مسلماں میں
(شعلہ و شبنم : جوش ملیح آبادی ، ہمالیہ بک ہاوس ، ص ۔ ۷۲ )
ہندو مسلم اتحاد و یگانگت کے جذبات کو توانائی بخشنے کے لیے اردو میں دیے گئے سر سید احمد خاں کے اس بیان کا کیا کوئی مول ہے جس میں انھوں نے اہلِ وطن کو مخاطب کرکے یہ کہا تھا :
’’ اے میرے دوستو میں نے بار ہا کہا ہے اور پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی
خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندو مسلمان ہیں اگر وہ دونوں آپس میں نفاق رکھیں گے تو وہ پیاری دولہن
بھینگی ہو جاوے گی اور ایک دوسرے کو برباد کردیں گے تو وہ کانڑی بن جاوے گی …. اب تم کو اختیار ہے کہ
چاہو اس دلہن کو بھینگا بناؤ یا کانڑا ‘‘
( مکمل مجموعہ لکچرز و اسپیچیز ، مرتبہ : مولانا محمد امام الدین گجراتی ، مطبوعہ مصطفائی پریس لاہور ۱۹۰۰ ء ، ص ۔ ۱۷۵ )
یہ تو فقط چند ادباو شعراتھے جنھوں نے ہندوستانیوں کے ذہن و دل میں انگریزوں کے خلاف سینہ سپر کرنے میں نہ صرف اپنا تعاون دیا بلکہ اپنا تن من دھن سب کچھ اس ملک پر خندہ پیشانی سے نچھاور کر دیا ۔ انگریز اردو کے ان قلم کاروں سے جو ملک میں ان کے خلاف بے اطمینانی کے جذبات بھڑکا رہے تھے ، حد درجہ خائف تھے اور سراسیمگی کی حالت میں انھوں نے اس زبان کا بہت سا شعری و ادبی سرمایہ ضبط بھی کیا جن میں سے کچھ تو شائع ہوا لیکن آج بھی بہت سا مواد نیشنل اور اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ ہے اور جو ہندوستان کی جنگ آزادی میں اردو کے شاندار اور مثالی کردار کی گواہی دے رہا ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت اس زبان کو کبھی ملک کے توڑنے والی زبان کہہ کر اس کی تضحیک کی جاتی ہے تو کھبی اسے صرف مسلمانوں سے جوڑ کر اس کی توہین کی جاتی ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے اسے اپنا کر اسے سیکولر سانچے میں ڈھالنے میں معاونت کی ہے ۔ فراخ حواصلگی اس زبان کی پہچان ہے تو دوسرے مذاہب کے عقائد کا احترام اس کا سرمایہ افتخار ۔ مذہبی رواداری کی جو مثالیں اس زبان نے پیش کی ہیں اس کی نظیر شاید ہی دنیا کی کوئی دوسری زبان پیش کرسکے ۔ اس کے ہندو شعراء نے اگر عید ، محرم ، اور شہیدان کربلا پر عقیدت مندانہ نظمیں کہی ہیں تو اس کے مسلم شعرا نے ہولی ، دیوالی ، مذہبی کتابوں اور دیوی دیوتاؤں پر نظمیں کہہ کر اپنی وسیع المشربی کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ اس کے گیسوئے سخن کو سنوارنے میں جتنا حصہ مسلمانوں نے لیا ہے اس کے کہیں زیادہ حصہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں نے لیا ہے ۔ دیا شنکر نسیم ، رتن ناتھ سرشار ، درگائے سرور جہاں آبادی ، برج نرائن چکبست ، تلوک چند محروم ، پنڈت دتاتریہ کیفی ، آنند نرائن ملا ، فراق گورکھپوری ، منشی پریم چند ، فکر تونسوی ، جگن ناتھ آزاد ، نریش کمار شاد ، کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی ، پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسی قد آور شخصیات نے اردو زبان و ادب کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ اس زبان کی تاریخ کا روشن باب ہے جسے اردو زبان کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ اردو وہ زبان ہے جو ہمیں تہذیب یافتہ بناتی ہے اور شائستگی کا ہنر بھی سکھاتی ہے ۔ فراق گورکھپوری جو اس زبان کے عاشقوں میں تھے اکثر طلبا سے کہا کرتے تھے کہ
’’ اردو اس لیے بھی پڑھو کہ افسر بننے کے بعد افسر دکھائی دو ‘‘
(بحوالہ ماہنامہ ، اردو دنیا ، نئی دہلی ، اگست ۲۰۰۴ ء ، ص ۔ ۵)
نثری ادب کے مقابلے میں اُردو شاعری نے تحریکِ آزادی کو ولولہ انگیز بنانے میں زیادہ اہم رول ادا کیا ، کیونکہ شاعری دل کے تاروں کو چھولیتی ہے اور یہ جذبات کو بر انگیختہ کرنے کے لیے ایک کار آمد ذریعہ ہے ۔ بقول اقبال ؂
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے
الغرض اُردو شاعری نے مجاہدین آزادی کے قدم سے قدم ملا کر ہندوستانی عوام کو آزادی کی نعمت و رحمت کا احساس دلایا ۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم رکھنے کی تلقین کی اور وطن کے ساتھ والہانہ محبت رکھنے کا درس دیا ، یہاں تک کہ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ ھ کو ہماری آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا :
مُبارک جشن آزادی کہ منزل مسکراتی ہے
کہ روح ارتقا اک نغمہ دل کش سناتی ہے
تبسم ہے فضاوں میں ترنم ہے ہواوں میں
مگر اس دم شہیدان وطن کی یاد آتی ہے
آزادی کی نظموں کا زیرِ نظر مجموعہ صرف نظموں کا مجموعہ نہیں بلکہ احساسِ غلامی کے ارتقا کی تاریخ ہے اور مجھے خوشی ہے کہ مرتب نے انتخاب کی بنیاد قومی زندگی کی انھی حقیقتوں پر رکھی ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔ اس انتخاب سے اس دعوے کی بھی کہ ادب اور زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے ، تائید ہوتی ہے ۔ اگر ان نظموں کو غور سے پڑھا گیا تو نہ صرف آزادی کا تصور کا تدریجی ارتقا واضح ہوجائے گا بلکہ یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ آج ہم کس منزل پر ہیں ، ہمارے رجحانات کیا ہیں اور ہماری آئندہ منزل کیا ہوگی ۔
اس مجموعے کی اشاعت ایک قومی خدمت ہے اور مجھے امید ہے کہ قوم ، مرتب کی حوصلہ افزائی کرکے وطنی آزادی کے جوش کا ثبوت دے گی ۔
———
 NAME: HARIS HAMZAH LONE
WORKS AS A
PHD RESEARCH SCHOLOR at DAVV INDORE,M.P
EMAIL :
R/O : REHMATABAD WATERGAM RAFIABAD
Tehsil : WATERGAM
DISTRICT : BARAMULLA JAMMU AND KASHMIR
POST OFFICE : CHATLOORA RAFIABAD
PIN CODE 193301
CONTACT NO 09469123467

Share
Share
Share