اقبال اور ٹیگور میں یکسانیت
محمد ریحان
ریسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ
ہندوستان کی ادبی روایت بہت مضبوط اور توانا رہی ہے۔ادبیات عالم میں ہندوستانی ادب کو بڑی رشک اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہاہے۔ یہاں کی ادبی سر زمین کافی زرخیز اور ہری بھری رہی ہے۔اس طرح کی مثال خال خال ہی ملتی ہے کہ ایک ہی ملک کے اندرایک ہی عہد میں بیک وقت دو مختلف زبانوں کے عالمی سطح کے دو شاعر پیدا ہوئے ہوں۔ یہ شرف ہندوستان کو حاصل ہے ۔
جہاں علامہ اقبال اور رابندر ناتھ ٹیگور ایک ہی وقت میں پائے گئے۔ ایک نے اگر اردو شاعری میں مربوط فلسے کو داخل کیاتودوسرے نے بنگلہ ادب کواپنی روحانی فکر سے مالا مال کیا ۔ ایک ’’شاعر مشرق‘‘ کے خطاب سے سرفراز ہو ا تو دوسرا ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا ۔اقبال اور ٹیگور ہندوستانی ادبیات کی شناخت ہیں۔ان کی بصیرت افروز اور فکر انگیز تخلیقات میں نہ صرف ہندوستانی قاریئن کے لئے فرحت و انبساط کا سامان موجود ہے بلکہ ان میں دنیاکے ہر فرد کی دلچسپی کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ان کی تخلیقات کا جادو دوسری زبانوں کے قاریئن کو مسحور کرنے کی پوری صلاحیت اور قوت رکھتا ہے۔ان کی کتابوں کی ایشیائی اور مغربی زبانوں میں ترجمے کی مقبولیت اس کی دلیل ہے۔انگریزی، فرانسیسی اور جرمنی سمیت دنیا کی مختلف زبانوں میں ان کی کتابوں کو منتقل کیا گیا ہے اور داد و تحسین سے نوازا گیا ہے۔
اقبال (۷۷ ۸ ا -۱۹۳۸( شاعر،فلسفی اورمفکر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کاتعلق سیالکوٹ(پنجاب) سے ہے ۔ ان کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اردو، عربی ،فارسی اور انگریزی زبان پر پورا ملکہ رکھتے تھے ۔ انہوں نے شاعری اردو اور فارسی دنوں زبانوں میں کی ہے۔ ’ بانگ درا‘’بال جبرئیل‘ ’ضرب کلیم‘ اور’ ارمغان حجاز‘ ان کی اردو شاعری کے مجموعے ہیں۔ ’اسرار خودی‘ ’رموز بیخودی‘ ’پیام مشرق‘ اور ’جاوید نامہ ‘ ان کے فارسی کلام کے مجموعے ہیں ۔ نثری تصنیفات میں’ علم الاقتصاد‘ ( ۹۰۴ ۱) ’تاریخ تصوف ‘ ، ’’The Development of Metaphysics in persia ‘‘ (ایران میں ما بعد الطبیعاتی نظام کا ارتقاء) ( پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے )’’Reconstruction of Religious Thoughts in Islam‘‘ (تشکیل الہیات جدید) (۱۹۳۰) شامل ہیں۔ان کے خطوط کامجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ان کا رشتہ پروفیسری اور وکالت کے پیشے کے علاوہ عملی سیاست سے بھی رہا ہے۔
ٹیگور(۱۹۴۱-۱۸۶۱( شاعر، ناول نگار ، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، مصوراورموسیقار کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ان کا تعلق بنگال سے ہے۔ انہوں نے بنگلہ زبان میں شاعری کی ،ناول اور افسانے لکھے۔’مانسی‘ (۱۸۸۸) ’سونار تری‘ (۱۸۹۰)’گیتانجلی‘ (۱۹۱۰) ’بلاکا‘ (۱۹۱۴) ’گیتا ملیا‘ ’اروگیہ‘ ’سیشن لکھیا‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ٹیگور کے تقریباً ۱۳ ناول کتابی شکل میں موجود ہیں۔ ’کرونا‘ ’بوٹھاکر ایزپاٹ‘ ’راج رشی‘ ’گورا‘ او ر ’ گھرے بائرے‘ وغیرہ ان کے اہم ناول ہیں۔ٹیگور کے افسانے کی تعداد ۱۵۰ کے قریب پہنچتی ہے۔ ’ گھاٹیر کتھا‘ ’پوسٹ ماسٹر‘ ’ سادھنا‘ ’ پڑوسن‘ خانہ بدوش‘ ’کابلی والا‘ ’مہا مایا‘ ’ادھیاپک‘ ’سنسکار‘ ’درشا‘ اور ’بدنام‘ ان کے بے حد مقبول افسانے ہیں۔ ٹیگور نے اپنی طویل ادبی زندگی کے سفر میں کم و بیش ۴۰ ڈرامے تخلیق کئے ہیں۔جن میں کچھ مزاحیہ تو کچھ المیہ ہیں۔ ’راجا رانی‘ ’چتران گدا‘ ’بے کنٹھ کتھا‘ ’مکت دھارا‘ ’رکت کربی‘ اور ’ پھال گنی‘ ان کے بہت مشہور ڈرامے ہیں۔ان سب کے علاوہ ان کے سفرنامے ، مضامین ، خطبے اور تراجم ادبی دنیا کے لئے بیش بہا سرمایہ ہیں۔
اقبال اور ٹیگور عمر کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک ہی ملک اور ایک ہی عہد میں پیدا ہوئے۔دونوں نے ایک ہی عہد میں سانسیں لی۔دونوں نے ایک ہی حکومت کے زیر حکمرانی زندگی بسر کی۔ دونوں نے ایک ہی سماج کو دیکھا۔ دونوں نے ایک ہی زمانہ اور ایک ہی جیسے حالات میں فکر و عمل کے دئے جلائے ۔ ایسے میں عین ممکن ہے کہ بہت حد تک دونوں کے موضوعات میںیکسانیت ہو۔دونوں کی شاعری کی آواز ایک جیسی ہو۔اور حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔دونوں فطرت کے مظاہر اور قدرت کے حسن وجمال کے مداح ہیں۔ دونوں نے قدرتی مناظر کے فطری حسن کو اپنی نظموں کے ذریعہ دلکشی بخشی ہے۔فطرت سے محبت کا اظہار جا بجا اقبال کے اشعار میں ہوا ہے۔’ ہمالہ‘، ’گل رنگیں‘ ’ابر کہسار‘ ’جگنو‘ ’چاند‘فطرت سے محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر لکھی گئی نظموں کے نمونے ہیں۔اپنی ایک نظم ’خضرراہ‘ میں قدرتی مناظر کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے۔
ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر
گوشۂ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب
شب سکوت افزا، ہو اآسودہ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب!
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب!
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب !
دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب
کہہ رہا ہے مجھ سے ائے جویائے اسرار ازل
چشم دل وا ہو ،تو ہے تقدیر عالم بے حجاب!
ٹیگورکو بھی فطرت سے لگاؤ تھا۔ شام کے بعد کے شفق کی لالی کا ذکر ان کے یہاں بھی ہے۔ صبح کے وقت کے سمندر کی خاموشی کووہ بھی زبان دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیلگو آسمان کو چھوتے ہوئے پرندوں کی پھر پھراہٹ ان کے کلام میں بھی سنا ئی دیتی ہے۔ بلبل کی چہچہاہٹ کو وہ بھی معنی دینے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’گیتانجلی‘‘ سے کچھ بند ملاحظہ ہو:
صبح دم خامشی کا سمندر تھا بھوکا
کہ جیسے ہوں چڑیا کے گیتوں کی لہریں
کھلے پھول جو رہ گزر کے کنارے پہ تھے
کتنے سرشار تھے
بادلوں کے جھروکوں سے گر گرکے
سونے کی دولت تھی بکھری ہوئی
اسی نظم میں آگے کہتے ہیں
نصف اونچائی طے کر لی
سورج نے جب آسماں کی
صدا کوکوکی فاختائیں
ٹھکانوں سے اپنے لگانے لگیں
گرم دو پہر کی دھوپ میں
مضمحل پتیاں رقص کرنے لگیں
پھر بھنور بن گئیں
اور برگد کے سائے میں چرواہا اک اونگھتا
خواب دیکھا کیا
میں نے پانی کنارے بچھی گھاس پر
کر دیا تھا دراز
اس تھکے جسم کو
اقبال کا تعلق اگرچہ غریب طبقہ سے نہیں رہا ہے۔ غربت کی مار نہیں جھیلی ہے۔ تاہم وہ مفلسی اور غریبی کے درد کو محسوس کرتے ہیں۔ انہیں کسانوں اور مزدوروں سے ہم دردی ہے۔ دہقانوں کی حالت زار کو دیکھ کر اقبال یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں-
بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
ہزاراوں برس ہے تو خاک باز
اسی خاک میں ڈوب گئی تیری آگ
سحر کی اذاں ہو گئی ، اب تو جاگ
بتان شب و قبائل کو توڑ
رسوم کہن کے سلاسل کو توڑ
پھر کہتے ہیں
معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک
بیچارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے
دہقاں کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن جسکا ابھی زیر زمیں ہے
جاں بھی ہے گرد غیر،بدن بھی ہے گردغیر
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے
یہ سب کچھ کہہ لینے کہ بعد مزدور کے حالات کو بدلنے کا انقلابی رنگ سامنے آتا ہے
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
ٹیگور کا تعلق بھی متمول خاندان سے ہے۔ ان کا خاندان زمینداروں کا خاندان تھا۔ سامان عیش و عشرت کی کمی نہیں تھی۔ بڑے رئیسوں میں ان کے خاندان کا شمار ہو تا تھا ۔لیکن ان کی شاعری میں بھی غریبوں کی آواز ہے۔ ان کے یہاں بھی زمینداروں کے مظالم کے خلاف صدا سنائی دیتی ہے۔محنت کش طبقہ سے اپنی ہمدردی کے جذبہ کو اشعار کے قالب میں انہوں نے بھی ڈھا لا ہے۔ان کی نظم ’’اے بار پھراؤ مورے‘‘ (اب مجھے لو ٹا دو) کے کچھ حصے کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
وہ جو سر جھکائے ، سامنے کھڑے ہیں
ان اداس چہروں پر تحریر ہے
صدیوں کے ظلم و ستم ، دکھ درد کی کہانیاں
جب تک
ان کے لاغر بدن میں سانس ہے
تب تک
وہ بوجھ اٹھائے چلتے ہیں
اور اس کے بعد
نسل در نسل
اولاد کو یہ بوجھ ورثے میں دے جاتے ہیں
اسی نظم کا اگلا حصہ کچھ اس طرح درد میں ڈوبا ہواہے۔
کسی طرح محنت مشقت سے ، چند دانے بچائے رہتے
اور جب
کوئی ان دانوں کو بھی چھین لیتا ہے
کوئی ظالم ان کے دکھی دل پر وارکرتا ہے
تب وہ بیچارے
یہ بھی نہیں جانتے ، کہ
انصاف کے لئے کس کے در کھٹکھٹائیں
صرف طویل سانس چھوڑکر پکارتے ہیں
’’بھگوان، غریبوں کا بھگوان‘‘
اور
خاموش موت کو گلے لگا لیتے ہیں
قومیت کا تصور انیسویں صدی کا ایک اہم رجحان ہے۔ قومی شعور کو بیدار کرنے میں قلم کاروں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقبال اور ٹیگور نے اپنے ملکی بھائیوں کے دل میں آزادی کا جذبہ پیدا کیا۔ انہوں نے انگریزوں کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے عوام کو تیار کیا۔سامراجیت کے خلاف اٹھ کھرے ہونے کی ترغیب کی۔اقبال غلام ہندوستان اور اس کی عوام سے اس طرح مخاطب ہوتے ہیں۔
رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستا ں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
آزادی ہر انسان کی فطری خواہش ہے ۔ ٹیگور بھی غلامی کی ردا اتار پھینکنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ٹیگور بھی اپنے ہندوستانی بھائیوں سے وہی سب کچھ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں جواقبال نے کہی ہے ۔ اپنی نظم ’’سوپر بھارت‘‘ میں آزادی کے حصول کے لئے گھروں سے باہر نکلنے کی بات کرتے ہیں۔
اے گھر والو
کھولو ، کھولو، دروازے کھولو
چھپ کر نہ رہو
جس کے پاس ، جو کچھ بھی ہے
سب لے آؤ
سب کچھ دینا ہو گا
اب نیند میں غافل سوئے نہ رہو
جاگو، سب جاگو
کون ہے جو طلوع آفتاب کے راستے پر
آواز دے رہا ہے ، پکار کر کہہ رہے ہیں
’’کوئی ڈر نہیں ، خوف نہیں، نکل پڑو، نکل آؤ
بے خوف ہو کر نڈر ہو کر ، اپنی زندگی کی قربانی دو
وہی امر ہوگا
وہی نہ مٹے گا‘‘
کسی بھی بڑے شاعر اور ادیب کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ انسان دوستی کی بات کرتا ہے۔ باہمی اتحاد اور محبت کے نغمے گاتا ہے۔وہ مذہبی تنگ نظری کے خول میں لپٹا ہوا نہیں رہتا۔ انسانیت کی تبلیغ ان کی زندگی کا مقصد ہو جاتا ہے۔اقبال اور ٹیگور بڑے شاعر ہیں ۔ ان کے یہاں آفاقیت ہے ۔ اس لئے یہ دونوں بھی مذہبی تنگ نظری کی دیوار اپنے ارد گرد کھڑی نہیں کرتے۔آپسی ہم آہنگی اور محبت کی تعلیم اقبال کے یہاں بھی ہے اورٹیگور کے نزدیک بھی ۔ہندو-مسلم اتحاد اقبال کے یہاں اس رنگ میں ظاہر ہو تا ہے۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے جی کی بستی
آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں
زنار ہو گلے میں تسبیح ہاتھ میں ہو
یعنی صنم کدے میں شان حرم دکھا دیں
ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پجاریوں کو مئے پریت کی پلا دیں
ٹیگور نے باہمی محبت کا پیغام اس طرح دیا ہے۔ آپسی محبت کا یہ بے نظیر نمونہ ملاحظہ ہو
آؤ، آؤ ، آریہ آؤ
آؤ ، غیر آریہ آؤ
آؤ، ہندو اور مسلمان
چلے آؤ ، اے انگریز ، آج تم بھی چلے آؤ
آؤ ، آؤ اے عیسائی
اور اے بر ہمن، دل صاف کرکے تم بھی چلے آؤ
آؤ، اور سب کا ہاتھ تھام لو
(بھارت تیرتھ، گیتانجلی)
مذہبی لحاظ سے اقبال مسلمان اور ٹیگور ہندو تھے۔ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی فرقہ پرست نہیں تھا ۔ اقبال نے دوسرے مذاہب کو احترام کی نگاہوں سے دیکھا ۔ اقبال نے اگر ابراہیم خلیل، یوسف ،محمد ﷺ، یا دوسرے ولی اللہ کا ذکر کیا ہے تو اپنی عقیدت کا نذرانہ شری کرشن، رام، گوتم بدھ اورگرو نانک کو بھی پیش کیا ہے۔
ہے رام کے وجود پے ہندوستان کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروانہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
یہ وہ چند مثالیں ہیں جو اقبال کے غیر فرقہ وارانہ جذبات کو واضح کرتے ہیں۔
ٹیگور کے مضامین کے مطالعہ سے یہ بات صاف طور سے ظاہر ہو جا تی ہے کہ ٹیگور کے نزدیک فرقہ پرستی کی کوئی جگہ نہیں۔ ان کو انسانیت سے محبت تھی اس لئے وہ مسلمانوں سے بھی محبت کرتے تھے۔انہوں نے ہندوؤں کی فرقہ پرستی کو کبھی قبول نہیں کیا۔بلکہ اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔۱۹۱۷ میں بہار میں گائے کی قربانی کو لیکر ہوئے ہندو مسلم فساد کے واقع کے بعدٹیگور نے لکھا۔
’’ہم خود اپنے مذہب کے نام پر جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔ لیکن اگر دیگر لوگ ان کے
دھرم کے نام پر جانور کی قربانی دیں تو ہم انسان کی قربانی ، انسانوں کے موت کے گھاٹ
اتارنے کا انتظام کر تے ہیں۔ کیا ایسے اقدام کو ظلم و زیادتی کے علاوہ اور کوئی نام دیا جا سکتا ہے‘‘
(اقبال، ٹیگور اور نذرل، شانتی رنجن بھٹا چاریہ،ص ۹۳)
ہم نے دیکھا کہ اقبال اور ٹیگور کے یہاں موضوعات کی سطح پرکس طرح کی یکسانیت پائی جاتی ہے۔اگر ہم آزاد اور غیر متعصب ذہن کے ساتھ ان دونوں کی تخلیقات کا مطالعہ کریں تو ہمیں دونوں کے درمیان کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ فن کی سطح پر دونوں نے اپنے اپنے طور پرنئے نئے تجربے کئے ہیں۔ اقبال نے اردو شاعری کو نئی نئی علامتیں جیسے، شاہین، مرد مومن، کلیمی، براہیمی،شبیری وغیرہ عطا کی۔ اقبال نے اردو شاعری کو فلسفہ کی زبان مہیا کرائی۔اردو نظم کی روایت کو اقبال سے ہی استحکام ملا۔اردو شاعری کو’ خودی‘ کے فلسفہ سے متعارف اقبال نے ہی کرایا۔ شاعری میں فسلفے کی دقیق بحث کو شعریت کا خون کئے بغیر جس انداز میں اقبال نے پیش کیا ہے اس کی مثال دنیا کی چند ترقی یافتہ زبانوں میں ہی مل سکتی ہے۔
ٹیگور نے صرف شاعری کے موضوعات کو لیکر ہی نئے تجربے نہیں کئے بلکہ شاعری کے روپ اور اس کے تکنیک کو بھی نئے ڈھنگ سے پیش کیا۔ہمایوں کبیر فراق گورکھپوری کی کتاب ’’ٹیگور کی ایک سو ایک نظمیں‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔
’’انہوں نے جس موضوع کو چھو لیا اس میں ایک نیا پن پیدا ہو گیا ۔ کالیداس سے
گہری عقیدت تھی لیکن جب انہوں نے کالیداس سے بھی کوئی موضوع لیا تو اس کو
نیا موڑ دے دیا‘‘
(ٹیگور کی ایک سو ایک نظمیں، فراق گورکھپوری، ص ۷)
ہمایوں کبیر جس نئے موڑ کی بات کر رہے ہیں وہ فنی تکنیک کے زمرے میں آتا ہے۔ٹیگور کی ’’تھکے شعورکی شام‘‘ ’’قرضے کی ادائیگی‘‘ ’’شکست خواب آبشار‘‘ ’’حسن کی خوش گوار دعا‘‘ ’’ارض شیریں کی خاک‘‘ اور ’’زندگی‘‘ وہ نظمیں ہیں جو زبان و بیان کے لحاظ سے بنگلہ شاعری کے نقطۂ انتہاء پر ہے۔ان کی شاعری کے اعتراف میں اشرف میرٹھی کا یہ شعر دیکھئے
ایک ہو دیوان حافظ دوسری گیتانجلی
ہو یہ دو چیزیں تو پھر انسان دولت مند ہے۔
اقبال ہوں یا ٹیگور دونوں کی شاعری کا ایک خاص مقصد تھا۔اقبال کی شاعری کا مقصد انسان میں حرکت و عمل کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔وہ سکوت و انجماد کے برف کو پگھلا دینا چاہتے تھے۔وہ دنیا کو دھوکہ یا فریب تصور نہیں کرتے تھے۔ وہ قسمت سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے تھے۔اقبال کی شاعری پیغام ہے حرکت اور زندگی کا رشتہ عمل سے جوڑنے کا۔اقبال کی شاعری اس طرح کے اشعار سے بھری پڑی ہے۔
تو رہ نوردے شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلہ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
پرندو کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیاں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی، آشیاں اور بھی ہیں
ترے سامنے آساماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان ومکاں اور بھی ہیں
جہاں تک ٹیگور تعلق ہے تو وہ روحانیت کے سفیر ہیں۔وہ انسانوں میں انسانیت کی صفت دیکھنے کے خواہاں ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے سارے انسان باہمی اتفاق کے ساتھ زندگی بسر کریں۔وہ ذہن کی آزادی کے ساتھ سارے لوگوں کو آپسی میل محبت کے رشتے سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ٹیگور کے افکار و خیالات کی بنیاد روحانیت سے تعمیر ہوتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ روحانیت نہ صرف انکی ذات کا حصہ تھی بلکہ ان کی شاعری کا بھی۔’’گیتانجلی‘‘ میں جن احساسات و جذبات کو الفاط کے قالب میں ڈھالا گیا ہے ان سے روحانیت کی خوشبوآتی ہے۔
عام حالات میں ٹیگور کا نام آتے ہی ہمارا ذہن ان کی شہرۂ آفاق کتاب ’’ گیتانجلی‘‘ کی طرف منتقل ہو جا تا ہے۔بلا شبہ ’’گیتانجلی‘‘ ایک لا فانی تخلیق ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ اس کتاب پر ان کو ۱۹۱۳ میں ادب کے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا بلکہ اپنی مشمولات کی آفاقیت، رمزیت، وسعت فکر، احساسات و جذبات کی پاکیزگی اور لطیف شعری جمالیات کی بنا پر ایک لافانی تخلیق قرار پاتی ہے۔ٹیگور کی عظمت کا تارا صرف شعری تخلیقات میں نہیں چمکتا بلکہ نثری تصنیفات میں بھی دمکتا ہے۔ کیونکہ یہاں بھی وہی شان ، وہی شوکت ، وہی حکمت، وہی احساس اور وہی جذبہ ہے جو ان کی شاعری میں ہے۔ٹیگور نے ناول ، افسانہ یا ڈرامہ لکھا تو شاعری کی طرح ان اصناف کی بھی فنی خوبیوں کو برتنے کا پورا خیال رکھا۔ ناول ’’گورا‘‘ او ر ’’ گھرے بائرے‘‘ نہ صرف بنگلہ بلکہ دوسری زبانوں کے چند بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ اس طرح ان کے افسانے ’’ پوسٹ ماسٹر‘‘ ’’مظلوم‘‘ ’’دولت کا نشہ‘‘ ’’پڑوسن‘‘ ’’خانہ بدوش‘‘ ’’بیوی کا خط ‘‘او ر ’’کابلی والا‘‘ اپنے موضوع کی معنویت اور فن کی پختگی کی بنا پر شاہکار افسانہ قرار پاتاہے۔ان کی کہانیاں حقیقت نگاری سے بہت قریب تر ہیں ۔ انسانی زندگی سے جڑے عام مسائل ان کی کہانیوں کا موضوع بنتے ہیں۔ ’’پوسٹ ماسٹر‘‘ اور کابلی والا‘‘ میں
جس طرح کے انسانی جذبات اور نفسیات کو کہانی کی شکل میں پیش کیا گیا ہے وہ قاری پر دیر پا اثر ڈالتے ہیں۔ ناول یا افسانہ تخلیق کرتے وقت سماج اور معاشرے کی اصلاح ان کی نظر کے سامنے ہوتی ہے۔ ناول ’’گورا‘‘ میں کردار کے سہارے ذات پات کے نظام اور فرسودہ رسم رواج پر چوٹ کیا ہے۔’’گھرے بائرے‘‘ آزادی اظہار کے بنیادی حق پر لکھا گیا اہم ناول ہے۔ اپنے ناول ’’جوگا جوگ‘‘ میں اخلاقی گراوٹ کی اور جذبہ ایثار کی فنا ہوتی روح کا رونا رویا ہے۔’’مالنچہ‘‘ ٹیگور کاایک ایسا ناول ہے جس میں ا س وقت کی سیاسی اتھل پتھل اور سماج کی بدلتی ہوئی صورت کی مکمل تصویر پیش کی گئی ہے۔
بہر کیف اقبال اور ٹیگور ایک تعمیری تخلیقی فن کار تھے ۔ دونوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت کا استعمال ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے کیا۔ان دونوں نے اپنے فکری دریا کے دھاراکو مثبت رخ دیا۔دونوں نے اپنے موضوع کی معنویت اور چاشنی سے قاری کو متاثر کیا اور اپنے فن سے ادب کے زلف و گیسو سنوارے۔ ان کے افکار سے دنیا تب بھی مستفید ہو تی تھی آج بھی ہو رہی ہے اور آنے والے دنوں میں بھی ہوتی رہے گی۔دونوں کی شخصیت آفاقی تھی ۔ونوں کی معنویت ہمیشہ باقی رہے گی۔
——–