تاریخ تصوف : علامہ اقبال – مرتب : صابر کلوروی : – مبصر – ڈاکٹر علی محمد بٹ

Share
محمد علی بٹ

کتاب : تاریخ تصوف
ڈاکٹر سرمحمدعلامہ اقبال
مرتب از صابر کلوروی

تبصرہ: ڈاکٹر علی محمد بٹ
اسسٹنٹ پروفیسر اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی
اونتی پورہ،۱۹۲۱۲۲،جموں و کشمیر

تاریخ تصوف علامہ اقبال کی ایک نامکمل اور غیر مطبوعہ کتاب ہے جو بعد میں صابر کلوروی نے مکمل کی ہے اس کتاب کا بنیادی مقصدتصوف کی حقیقت اور تاریخ کو اُجاگر کرنا ہے ۔ علامہ اقبال نے اس کتاب کے پہلے دو باب اپنے قلم سے رقم کئے ہیں۔ اس کتاب کا دیباچہ جب پیش کیا گیا تو مختلف قسم کے سوالات اور اختلافات اُبھر کر آئے ہیں جن کا جواب علامہ اقبال نے صاف گوئی سے دیئے ہیں ۔ اس کتاب کوپانچ ابواب میں منقسم کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی ابتداؑ علامہ اقبال کے کچھ خطوط سے کی گئی جو انہوں نے نیاز الدین، سید نصح اللہ کاظمی اور اسلم جیراجپوری کو لکھے ہیں۔ اٗن خطوط میں تاریخ تصوف کے ذکر کے ساتھ ساتھ دو ابواب کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔

مسلمانوں کی سیرت پرعجمی شاعری کے مُضَراثرات کا بھی تذکرہ کیا گیا کاظمی صاحب کو واشگاف الفاظ میں انہوں نے لکھا کہ شاعری میراذریعہ معاش نہیں کہ میں لوگوں کے اعتراضات سے ڈروں۔ اسکے علاوہ پرفیسر نکلسن کی کتاب "اسلامی شاعری اور تصوف” کی جانب ذہن کو مبذول کیا اور اپنی کتاب کےلئے مواد کی کمی کے بارے میں بھی مطلع کیا ہے۔ تاریخ تصوف کا پس منظر اور ابتدائی خاکہ کے بعد پانچ ابواب کی وضاحت کرکےعرضِ مرتب میں اس بات کاتذکرہ ہےکہ علامہ اقبال نے یہ کتاب ۱۹۱۴ء میں لکھنا شروع کی تھی جو بعد میں نا مساعد حالات کی وجہ سے اور بعض ذاتی مصروفیات کی وجہ سے مکمل نہ کر پائے اس کتاب میں علامہ اقبال کی قادریہ سلسلہ کے ساتھ بیعت اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ اُن کی تصوف سے گہری دلچسپی تھی ایران میں اُس وقت رائج تصوف کے بارے میں اُن کی ڈاکٹریٹ کےمقالے میں بھی وضاحت ملتی ہے ۱۹۱۰ء میں جو تاثرات انہوں نے خودی کے بارے میں انگریزی زبان میں قلم بند کئے اُن سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ علامہ کے مطابق تصوف میں عجمی اثرات حلول کرکے قوائے عمل کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک شعر پیش کیا ہے جس میں غلام قوموں کی ترکیب عمل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
غلام قوموں کے علم و عرفان کی ہے یہی رمز آشکار — – زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے فضا ئے گردوں ہے بے کرانہ
مثنوی اسرار خودی میں عجمی اثرات کا بر ملاَ اظہاردو اہم فلسفوں پر تنقید کر کے ملتا ہے ایک جو افلاطون یونانی اور دوم، فارسی غزل کا گل ِسرسید خواجہ حافظ شیرازی جس کی شاعری کا فلسفہ صوفیوں کا حال بیان کرتی ہے۔ حافظ کی تنقید سے علامہ کے خلاف معرکہ شروع ہوا یہ وہ دور تھا جب جنگ عظیم اول جو ۱۹۱۴ سے ۱۹۱۸ تک جاری تھا اور علامہ کے خلاف ۱۹۱۵ سے ۱۹۱۸ تک مخالفت کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ علامہ مغربیت سے متاثر ہو کر تصوف کو زک پہنچانا چاہتاہے۔ مگر علامہ اقبال نےاپنی کتاب اسرار خودی کی نقاب کشائی کی تو اس میں لوگوں کے ذہن میں اس کی اصل جہت سماسکی۔تو دوسری طرف تصوف کے غلط رحجانات کوبے نقاب کرکے حافظ شیرازی کی مخالفت درد سر کا رُخ اختیار کر گئی تھی۔ یہ معرکہ طول پکڑکے کہیں سال تک چلتا رہا۔ اس مخالفت کی اصلیت صوفی برادری کی نا بلدی، فقہاء کی مصلحت حتی ٰ کہ مردِ حُرکی زندگی نےکشمکش سے پرہیز کو آشکار کردیا اِن تمام چیزوں کو علامہ اقبال نے شکست سے تعبیر کیا تھا ۔
مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں—بہانہ بے عملی کا بنی شراب اٰلست
فقہیہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور— کہ معرکہ ہیں شریعت کے جنگ دست بدست
گریز کشمکش زندگی ہے مردوں کی — اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست؟
جب حالات مخالفانہ رُخ اختیار کر گئی تو علامہ اقبال کو دفاعی طرز عمل اختیار کرنا پڑا ۔اسلئے اِنہوں نے حافظ شیرازی کے بدلے صوفی ہمدانی کو تنقید کاہدف بنا یا تاکہ تصوف کی اصلیت عوام الناس کے سامنے لا سکیں۔جب ۱۹۱۸ء میں انہوں نے مثنوی رموز بے خودی شائع کی تب تک تصوف اورخودی(اسلام) کے درمیان اُن کے زہن میں اتفاق پیدا کیا گیا ہے اس کے بعد معاضرت کرکے تاریخ تصوف کو مکمل کرنا مشکل قرار دیا ہے کیونکہ جو بھی علمی مواد اُن کے پاس تھا وہ متعدد مضامین کے ذریعے مختلف رسالوں میں چھاپ چکے تھے۔ علاوہ ازیں انہوں نے انالحق کو خودی مان کر اس کی ترجمانی خطبات، مثنوی گلشن راز جدید اور جاوید نامہ میں کی تاکہ خودی کا تانابانا ہو ۔
تاریخ تصوف کے پس منظر میں پہلے اسرار خودی کی تصنیف کا تذکرہ ملتا ہے یہ وہ زمانہ ہے جب اسرار خودی شائع ہو کر آئی تھی اس سے ۱۹۱۴ء میں انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں عجمی تصوف اور اسلام کے عنوان سے خطاب پیش کیا اور صاف گوئی کے ساتھ اس بات پر زور دیا کہ اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصورات کی آمیزش پائی جاتی ہے اس بات کا انہوں نے بر ملا اظہار کیا کہ مروّجہ تصوف خودی کو مِٹانے کےلئےگھات میں ہے اصل وجہ یہی ہے کہ اسرار خودی کے دیباچے میں اِنہی غلط تصورات کا چرچا اور حافظ شیرازی کی شاعری کے مُضر اثرات سے با خبر کیا ہے اِن حقایق کے خلاف پہلے خواجہ حسن نظامی نے علامہ اقبال کوتنقید کرکے اپنے مُرید ذوقی شاہ سے ایک مضمون رسالہ خطیب میں شائع کروایا بعد میں مظفر احمد قصلی اورحکیم فیروز الدین احمد طغائی نے حافظ کی حمایت کی اس کے علاوہ مولوی محمود علی نے بھی علامہ اقبال کو تنقیدی مشورہ دےکر وحدت الوجود پر نثر میں کسی مستقل مضمون یا کتاب لکھنی چائیے حالانکہ اسلم جیراجپوری کا موقف ہے کہ حافظ کے خلاف لوگ اتنے سخت تھے کہ ایک جماعت نے جنازہ پڑھنے سےبھی انکار کیا یہاں تک کہ اورنگ زیب عالمگیر نے دیوان حافظ کے پڑھنے پر قدغن لگا دی۔ تصوف کے بارے میں علامہ کا دوٹوک موقف تھا کہ قرآن و حدیث میں لفظ تصوف کہیں موجود نہیں ہے اس لئے نہ اسلام تصوف ہے اور نہ ہی تصوف عین اسلام ہے یہ دوسری صدی ہجری میں اسلام کے اندر داخل ہوا ہے اور اُن کے خطوط سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ وہ تصوف کا مخالف نہیں بلکہ اُن خیالات کا اعتراض کیا ہے جو دانستہ یا نادانستہ اسلام میں داخل کئے گئے ہیں کیونکہ وہ جو اسلام سے متصادم ہیں علامہ کا اعتراف ہے کہ وہ پہلے تصوف کے قائل تھے جب قرآنی آیات پر غور کیا تو تصوف کے خاص تصورات جو ابن عربی نے پیش کئے جن میں خاص کر مسئلہ قدم، ارواح کملا، وحدت الوجود، وغیرہ غیر اسلامی ثابت ہوئےاِن مسائل کا دین ِ اسلام کے ساتھ نہ کوئی واسطہ اور نہ ہی مماثلت ہے۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال نے امام غزالی کا کڑا رخ پیش کیا جس میں امام نے اِن تصورات کے قائلین اور حامی بو علی سینا اور الفرابی کو تنقید کا نشانہ بنا یا کیونکہ علامہ کے مطابق جو تصورات فرد یا قوم کو جمود میں مبتلا کریں وہ نقصاندہ اور باطل ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو اسلامی حقائق کا علم بردار کہہ کر وحدت الوجود کی نفی کرکے کچھ ایسے اشخاص کا ذکر کیا جن میں خاصکر پیر مظفر الدین کا حوالہ ہے کہ اِنہوں نے میرا مقصد مطلق ہی نہیں سمجھا اس کتاب میں دعوہ تصوف ذکر کرتےہوئے راقم طراز ہیں کہ اگر تصوف سے مراد اخلاص فی العمل ہے تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں مگر تصوف میں فلسفیانہ طرز عمل کا دخل اور اس میں غیر اسلامی عقائد کا محلول سے بغاوت کی ۔امثالی طور علامہ نے تصوف کے مضر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر قوم ہند یا یہود نے انقلابی ذہنیت کو ترک کرکے تصوف کو جگہ دی ہوتی تو یہ دونوں قومیں صفِ ہستی سے مِٹ گئی ہوتی علاوہ ازیں علامہ کے مطابق کوئی بھی آدمی دو مشقوں ( وحدت الوجود اور وحدت الشہود ) کا ایک ساتھ قائل نہیں ہو سکتا کیونکہ مذہب کا مقصود اعلیٰ عمل ہے نہ کہ عقلی مباحثوں اور تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔معتدد علمأ کرام سے خط و کتابت کے بعد ایسے صوفی اقوا ل و عقائد کا تذکرہ اس کتاب میں درج ہیں جواسلام سے متصادم ہیں ان میں خاص کر ایران کے شعراء کے اشعار کو الحاد وزندیقیت کی طرف اشارہ ہے ۔
تاریخ تصوف کا ابتدائی خاکے میں کتاب کو دو حصوّں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصّے میں چھ ذیلی ابواب کا ذکر ہے جب کہ دوسرے حصّے میں دس ذیلی ابواب ہیں (ص.۲۸) کتاب تاریخ تصوف کے باب اول "تصوف کی ابتدا کیونکر ہوئی” میں تصوف کو عالم باطن کا نام دے کر کچھ بہتریں دل و دماغ والوں کی طرف توجہ مرکوز کی گئی اس کو دو حصّوں قطبِ شمالی اور قطبِ جنوبی میں منقسم کرکے قطبِ شمالی کی وضاحت کرکے تصوف اور اسلام میں آپسی تعلق پیش کیا ہے علامہ اقبال نے علمائے کرام کی ایک جماعت کی طرف اشارہ کیا جو تحریک تصوف کی مخالفت اور اس کی تعلیم کو غیر اسلامی قرار دے کر اس کی نفی کرتے ہیں جب کہ اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ سُنی دنیا میں تصوف کی حکومت قائم ہے اور اس کو حُب رسول ﷺ کا نام دیا گیا ہے اسلئے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ظاہری اور باطنی علم کی جو تفریق سُنی دنیا میں پائی جاتی ہے اس سے علم باطن کو کیوں کر برتراور بزرگ تر سمجھا گیا۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک ہر قوم کا تعلق تصوف(یعنی روحانی زندگی) سے ہے مگر مسلم دنیا میں افلاطون کا فلسفہ، حکیم فیشاغورث، ہیگل کا فلسفہ جو وحدت الوجود کی ایک صورت ہے کیسے منظر عام پر آیا اِن فلسفوں نے مسلم دنیا پر کیسے اپنے اثرات جما دئے اس کتاب میں خاصی وضاحت ملتی ہے کیونکہ اگر صوفیت زندگی کا مقصود ہوتا تو حضرت عمر مسجد میں بیٹھے مراقبہ کرنے والے شخص کو کوڑ ے سے خبر نہیں لیتا اس لئے علامہ اقبال نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ "کسی قوم کا دینوی عروج اس بات پر منحصر ہے کہ وہ آنکھیں کھول کر آس پاس کے دنیا کا مشاہدہ کرے پھر اگر اُس قوم نے دنیا کو ہیچ( جو صوفیت کا بنیادی مقصد ہے :ترک دنیا)سمجھ لیا تو اُس قوم کا خدا ہی حافظ ہے(ص.۳۱) اس لئے علامہ نے تصوف کے حوالے سے مذہب اسلام کا کام کلمہ توحید کو دنیا میں رائج کرنا اس کی شان ہے نہ کہ رہبانیت بلکہ اسلام فطری طور نیکی کو اُبھارتا ہے۔ اس لئے مسلم دنیا کو دو حصّوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو شریعت محمدیﷺ کا حامی و مدد گار کہا تو دوسرے گروہ کوشریعت محمدیﷺ کو ظاہری علم تک محدود کرکے عرفان کو علم محمدیﷺ پر تصوف میں ترجیح دی ہے جو مسلم دنیا میں وحدت الوجود کا موجب بن گیا ہے حالانکہ یہ فلسفہ اسلام سے متصادم بھی ہے اور مخالف بھی۔ آگے لکھتے ہیں کہ صوفی لفظ کن لوگوں کےلئے استعمال ہوا وہ کس قسم کے لوگ تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن میں نئے صوفی گروہ کیسے پیدا ہوئے اور سیا سی انحطاط اُن کی زندگی کا حاصل مقصد کیوں بن گیا اس کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا رواج مسلم دنیا میں قدیم ایرانی قوم کے فلسفہ سے پیدا ہوا جو زرتشی کہلائی جاتی تھی کیونکہ پہلے پہل اسی قوم میں نور اور ظلمت پر بحث اور اختلاف پیدا ہوا اس کو مزید آگے بڑھانے میں آٹھویں صدی کی مسلم فتوحات بنیادی وجہ بن گئی جب مسلمانوں کا یونانی فلسفہ سے براہِ راست عربی تراجم کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس کتاب میں اسلامی فلسفہ تاریخ میں ابن رشد اندلسی کے بارے میں لکھتے ہیں "ابن رشد اندلسی ایک شخص نظر آتا ہے جو اپنی عدیم النظیر دماغی قوت کی وجہ سے اس فلسفیانہ دلدل سےصحیح و سالم نکل کر اپنے تما پیشروؤں کی نسبت ارسطو کے خیالات سے قریب تر ہونے میں کامیاب ہوا” (ص.۳۶) حالانکہ اسلامی دنیا میں اس فلسفےکے اثرات کےلئے والٹر کی کتاب تاریخ علم الحسن، وبیرہ کی تاریخ فلسفہ مغرب اور ڈاکٹر ہنٹ کی تاریخ مسئلہ ہمہ اوست کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے پلوٹائنس کی علمی صلاحیت اوراُس کی ہندوستان کی سیاحت بمقصد علوم باطنی و حقائق فلسفہ جاننے کےلئے اس کی شہرت اور مذہبی اور خالص فلسفہ طرز زندگی نے فلسفی نظام کے طور پرخدا وراء الورا ہے جو انسانی فہم سے ماورا اور تخلیق عالم کی وجہ ہستی مطلق کے اندر حیات طغیانی جو بعد ازاں ہر چیز کا وجود ا یک سے دوسرا نکلنے کی وجہ بنتی ہے اس طرح روحِ انسانی کا انتہائی کمال ذاتِ باری میں فنا ہو کر اپنے خواہش سے دست برداری جس کو عرف عام میں وجد یا کیفیت کہتے ہیں۔ اصل میں انسان کو اپنے جسم سے نجات پا کر ہستی مطلق میں آوالون ہونا ایک ایسا تصور ہے جو اعلیٰ مقصد حیات ہے.علامہ اقبال کے مطابق یہ فلسفہ رومن دنیا میں اُس وقت ظہور پذیر ہوا جب اِن کی تباہی و بر بادی کی منزلیں طے ہو رہی تھی بعد میں مسلم دینا میں یہ فلسفے مِن عن جگہ کر گئے اور اپنے اثرات چھوڑ کر مسلم دنیا میں عقلی اور روحانی جنگ چھیڑ دی جس کا نتیجہ کچھ نفوس جن میں الجاحظ جو آتش کو خدا کہلاتے تھے اور البیرونی و ابن ہثیم جیسے لوگ اس درجے پر پہنچے کر فہم وحواس خدا کو معلوم نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں تک آفتاب کی شعاع نہیں پہنچ سکتی۔ اِن اثرات کا آغاز مصر و شام سے شروع ہو کر جہاں سے تصور روحوں کا حلول و جذب اور افلاطونیت جدید کے وارث انا المسیح کا دعویٰ کرنے لگے تھے اس قسم کے تصورات کو پھلنے اور پھولنے کی وجہ مسلم دینا میں پائی جانے والی مذہبی رواداری تھی اس کتا ب میں عیسائی مسلک مانونیت اور سمانیت کے فلسفوں کا تذکرہ شامل ہے جن کے سبب سے مسلمانوں کے اندر زندیقیوں کی جماعت کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ مثلاً تصوف کا مسئلہ مقامات اور تسبیح کا پانا سمنائیت کے مسائل اور دستور العمل سے ملتا جلتا ہے اس طرح بہت سے غیر اسلامی صوفی طریقوں کااس کتا ب میں حوالہ درج ہے۔ جب یوگ شاستر کا ترجمہ البیرونی نے عربی میں کیا تو صوفیوں کے اندر ایک نیا تصور آلوان ؛ نور کے چھ نقطے کو مراقبہ سے حرکت میں لانا پیدا ہوگیا حتا کہ جسم کے ترکیبی ذرات کیسے منور ہو جاتے ہیں جو اسلامی تصوف میں ہندی الاصل ہے ایام گردش کی وجہ سے جگہ کرگئےاور اِن کا تذکرہ بھی درج ہے۔
اس کتاب میں تصوف کی حقیقی تاریخ کو بنو اُمیہ کے حکومتی نظم و نسق وجہ بتا یا گیاجس کی وجہ سے مسلم دنیا میں لوگ ایک طرف عیش پرسی تو دوسری طرف ترک دنیا اختیار کر گئے جو بعد میں عباسیوں کے فلسفیانہ بحثوں سے پروان چڑھ گئی، امین اور ماموں کی خانہ جنگی اور آئے دن نئے فتنوں کے ظہور نے تصوف کو نصب العین بخشا۔ اب ایسی اصطلاحات وضع کی گئی جس کی بنیاد امام قیشری نے ڈالی جو قُر ون اولیٰ کے مسلمانوں سے بر عکس ہیں۔ اس باب میں تصوف کے بارے میں اُن تمام اسباب پر روشنی ڈالی گئی جن کے سبب سےیہ وجود پذیر ہوے مزید برآں حوالہ جات میں بھی تشریحات پائے جاتے ہیں اس میں بڑی تعداد میں مختلف فرقوں کا آغاز اُن کے عقاید اور سیرت پر روشنی ڈالی گئی۔
باب دوم کا عنوان” تصوف کے ارتقاء پر ایک تاریخی تبصرہ” میں تصوف کے اصل بنیاد اور اس کے ارتقاء کے بارے میں بحثیں ملیں گے۔ دونوں شرقی و غربی اسکالرس نے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے اور لفظ صوف اُن لوگوں کےلئے استعمال کیا گیا جو ایک قسم کے ریشمی کپڑا پہنتے تھے اصل میں یہ بھی مسلمانوں نے غیر اسلامی خاص کر عیسائی راہبوں کی تقلید میں اختیار کیا ہے کیونکہ اس کو ترک دنیا کی علامت سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ امام قشیری نے اس کے متعلق لکھا ہےوہ بھی قابل غور ہےاور تاریخ تصوف میں موجود ہے اس کے ساتھ اُن لوگوں کا ذکر بھی ہے جو پہلے پہل درجہ عابد اور زاہدمیں آتے تھے تاریخی تناظر میں حوالے کے طور پر ابو ہاشم کا ذکر اس لئے کیا گیا کیونکہ اُن کا پہلا صوفی خانقاہ فلسطین میں رملہ کے مقام پر ایک پہاڑی پر بنائی گئی علاوہ ازیں اس تحریک کا خدا فروشی، حوس پرست لوگوں کے خلاف اُٹھنا مردوں تک محدود نہیں بلکہ عورتوں کی خاصی تعداد بھی اس راہ پر چل پڑی جن میں رابعہ بصری،مریم بصریہ، معاذہ عددیہ، شعوانہ، کردیہ حفضہ ،ام حسان اور فاطمہ نیشاپوری قابل اِلتفات ہیں۔ مردوں کے جھرمٹ میں حضرت فضیل ابن عباس،حضرت ابراہیم،حضرت معروف کرخی اور حضرت شفیق بلخی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں اور اِن کی زندگیاں قابل رشک تصور کی جاتی ہے اِن کے دلوں پر محبتِ اِلہٰی غالب تھی کیونکہ وہ دنیا پرستوں کو بے قدری کی نِگاہ سے دیکھتے تھے یہ لوگ نہ فلسفوں کے شکار تھے نہ غلو کےکتاب میں ذوالنّون مصری جوعلم کیمیأ کےسائنسدان تھے اور پانی کی تحلیل کرکے ثابت کیا کہ یہ مفردات سے مرکب ہے(ص.۵۸) اِنہوں نے علم باطن کو عبادت میں داخل کیا ہے اور بعد میں ابوالخیر اور بو علی سینا نے فلسفیانہ بحث چھیڑ کر ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں مختلف آرائیں پیش کی گئی۔ تصوف کے ذریعے توحید کے اسرار علم کا حاصل کرنا اور مسلم دنیا میں رہبانیت کا حلول جس کی نفی ابو بکر صدیق ؓ نے کی جو انسان کےعملی توازن کو کمزور و ناتوان کرنے والا ہے۔ اسی چیز کو علامہ اقبال نے طنزاً کہا کہ اگر کرامت، دُعاؤں اور مراقبہ سے کام چلتا اور حرکت بدلتے تو دنیا کچھ کی کچھ ہوتی اس لئے ہم کتاب اللہ کے مخالف کسی طریقے کو با کل ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں اور تاکیدً کہتے ہیں کہ مختلف فلسفے : تنزلات ستہ اور جدید علمِ معرفت جو رہبانیت کی جڑ ہےاسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اس کو سمجھنے کےلئے حضرت جنید بغدادی کی ایک رائے پیش کی گئی جو اس طرح کی زندگی کو نفی کرتی ہے (ص.۶۰)
باب سوم بعنوان ” ابو المغیث حُسین بن منصور حلاّج” میں منصور حلاّج کی زندگی کے باے میں علامہ اقبال کے مسودے میں صرف عنوان اور حاشیہ ملتا ہے لیکن اس باب کو صابر کلوروی نے مکمل کیا اور سیرت، علمی قابلیت، عقیدے ،تصورات کے ساتھ اُس کے علم غیب اور لوگوں پر اس کے اثرات شامل ہیں بہت سے مستشرقین نے منصور کو دروازلی کا عقد اور یاسوت کیسے لاہوت سے پیدا ہو اس پر بھی بات کی۔ کچھ حکمرانوں جن میں عباسی خلیفہ نے منصور کو علوم القرآن کا جاہل قرار دیا ہے اس باب میں اس بات کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ منصورکبھی اپنے کو شیعہ تو کبھی دوسرے فرقے سے ظاہر کرتا ہےمگر جیل میں سُنی طریقے کے مطابق زندگی گزارتا تھا لیکن اِن کی موت کیسے ہوئی اس بارے میں مختلف آرا جمع کرکے اس کتاب میں درج کئے گئے موت سے پہلے منصور نے اپنے حورایوں (جن کو وہ پیغمبر کہتا تھا) کو اطراف میں روانہ کیا اورخود کو خُدا سے تشبیہ دیتا تھا اُس کی کتاب کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی ۔ الذہبی کےحوالے سے لکھا گیا کہ منصور کے معاصر اور مقرب تریں اُس کو کافر سمجھتے تھے ابن قیم جوزی نے منصور پر رسالہ لکھا اور اس کے طاسین کے کچھ نامکمل عبارتوں کا خلاصہ پیش کیا اِن میں طاسین السرّاج، طاسین الفہم، طاسین الصّفا، طاسین النقطہ اور بستان المعرفۃ ( طاسین آخر) کو ترجمہ کے ساتھ پیش کیا اس باب میں منصور کے عقلی اور عقائدی جائزہ کےلئے تذکرہ مِلتاہے اس باب کے حواشی میں عبداللہ تستری سے لے کر مختلف عالموں کی حقیقت اور فرقوں تک اچھی خاصی تحقیقی مواد (مسالہ) ملتا ہے اور تصوف کے میدان میں کس قسم کے تصور داخل ہوئی اس کی اصلیت کا خاکہ بھی درج ہے اس کے بعد تصوف کے افکار کا تجزیہ کیا گیا اور لوگوں لے دل و دماغ پر کیسے غلبہ پایا اس کی تعلیمات کیسے عام ہو گی اِن آراوںکی وضاحت کرکے کچھ اشعار پیش کئے گئے ہیں
بخود گم بہر تحقیق خودی شو
انا الحق گوئے و صدیق خودی شو

فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آتش

حلاج کی لیکن یہ روایت ہے آخر
ایک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش
اِن اشعار سے ایسا لگتا ہے علامہ اقبال بھی منصور حلاج کے دفعہ میں آگیے اور مرد حُر جو روحانی محرکات کو اظہار کرنے کےلئے بے تاب تھا علماء کے ذہن میں خلبلی مچادی اور وہ بے فاختہ اس کے مخالفت پر اُتر آئے حالانکہ علامہ اقبال کی اس تبدیلی کی وجہ لوئی ماسینوں کا دعوہ کہ منصور وحدت الوجود کے بجائے اسلامی توحید کے قائل تھا (ص.۹۰)
باب چہارم جس کا عنوان ” تصوف اور اسلام ” میں تصوف اور اس کی تاریخ کے بارے میں آگاہی یا رپوٹ کی منظر کشی کی گئی سب سے پہلے تصوف کی اصلیت اور خواجہ حسن بصریؒ کے بارے میں واقفیت مدلل انداز میں رقم طراز کی گئی حضرت مجدد الف ثانی کے حوالےسے تصوف کی تعریف کی گئی اور لا کھوںصوفیوں کو مسلم دنیا کےلئے مشعل راہ سےتعبیر کیا گیا ہے قرآن و حدیث سے مزید وضاحت پیش کی گئی اس کے بعد کتابوں کی فہرست شامل کی گئی اس کے بعد الندیم کی کتاب الفہرست سے مسلم متکلمین کےناموں کےساتھ مانی مذہب کی آغاز کیسے ہوئی اور عیسایت پر اس کےکیا اثرات رہے مختصر طور پیش کی گئی کتابوں کی فہرست میں کل بارہ کُتب کا حوالہ دیا گیا اس کے بعد اقتباس میں ابو اسحاق کے حالات پر تھوڑی روشنی ڈالی گئی اسلام اور تصوف میں پہلے مختصر طور افراد کے تصورات اور اخلاق و مسائل کا موازنہ کیا گیا امثالی طور اسماعیل کا مذبوح ہونا، خدا کی عبادت کی افضلیت، نبی کی فضیلت اور فرعون کاکافر ہونا ،اخلاق میں شہوانیت کو مغلوب کرنا ،اللہ تعالیٰ کا دیدار قیامت میں ہوگااور شیطان مردود تھا اسلام میں نسح قرآن سے ثابت ہیں جب کہ تصوف اس کی ضد پیش کرتا ہے اسحٰق مذبوح تھا، مخلوق کی خدمت عبادت الہٰی سے بہتر ہے، ولی نبی سے بہتر ہے، فرعون نیک آدمی تھا، شیطان معصوم اور نیک تھا، شہوانیت بکل فنا کردو اور دنیا میں ہی اللہ کی دیدار ہوگی محی الدین ابن عربی کی کتاب فتوحات مکیہ اورا س کی اصطلاحات جو کہ عجیب و غریب ہیں کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر اِن کو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے سامنے رکھا جائے تو وہ اُن کو سمجھنے سے قاصر ہوں گے اور عصر حاضر کے تقاضوں کے لحاظ سے بھی یہ اصطلاحات ؛ شجر کو انسان کامل، غراب کو جسم الکلی، عقاب کو القلم و عقل الاول مثال کے طور پرپیش کی گئی جب کہ نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث بحوالہ صحیح بخاری و مسلم قلم بند کی گئی جب کہ ترجمہ میں ” ترجمہ فرمایا نبی کریمﷺ نے” آخر میں حواشی کے اندر صوفی کاملین اور اُن کےمعرکہ آرا کتابوں کا حوالہ ملتا ہے جس میں استفادہ کے طور مکتوبات امام ربانی قابل ذکر ہے اس کے علاوہ محدثین میں ابو ہریرہؓ اور قرآنی آیات کے حوالے کے ساتھ صوفی ملحدوں اُن کے عقائد کے بارے میں ذکر ملتا ہے حتاکہ کچھ ایسے الفاط بھی درج ہیں جن کا تعلق مادہ بدھ مت اور سنسکرت ہے آخری باب یعنی پنجم بعنوان ” تصوف اور شاعری” پر تبادلی خیال کا اظہار کیا گیا اس میں شعرا کے تصورات تصوف کے بارے میں اور اس کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی گئی اور حواشی میں تشریحات اشعارِ فارسی پیش کرکے اُن پر بحث و تفصیلات ملتی ہے اس کے بعد ضمیمہ (انگریزی اشارات) جو ماخذ تاریخ تصوف کےلئے استعمال میں لائے پیش کئے گئے انگریزی میں بھی اشارات لکھے اور اس کے علاوہ جن ماخذ سے استفادہ کیا اُن کی فہرست بھی آخر میں دی گئی جب کہ اشارات(الف) میں موضوعات اور اشارات (ب) میں اسماء دیے گئے۔
اس کتاب کا بنیادی مقصد صوفی جمود کا توڑ پیش کرنا ہے کیونکہ زیادہ زور فلسفیانہ بحث کی رد پر لگایا گیا جب کہ اس سے اُبھرنے والی بے حسی جو مسلم دنیا کےلئے ایک موت بن گئی تھی اس کو حُر میں تبدیل کیا جائے علاوہ ازیں بہت سے شاعروں کی تنقید پیش کی گئی جن میں حافظ شیرازی قابل ذکر ہیں اور بعد میں پیدا ہونے والے اختلافات کا پیش خیمہ بھی ادا کیا گیا جمودی زندگی کو ترک کرنے اور خودی کو اختیار کرنے کےلئے منصور کے حق میں علامہ دفع بھی قابل مطالعہ ہے کیونکہ علامہ اقبال کا ماننا ہے کہ منصور وحدت الوجود کا قائل نہیں تھا بلکہ وہ حقائق کی منظر کشی کے لئے بے تاب تھا۔ آخر میں یہی کہا جائے کاش یہ کتاب علامہ اقبال نے خود ہی مکمل کی ہوتی تو اس کتاب کی نویت کچھ اور ہوتی اور اُن کے پورے تاثرات کا علم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات عیاں ہے علامہ اقبال تصوف کے غیر اسلامی فلسفوں کی آمیزش کو اسلام کے روحانی زندگی سے الگ کرنے کی کوشش میں تھے تا کہ اسلامی تصوت کا ایک شُد نظریہ عوام الناس کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ مسلم دنیا میں ایک نئی روح صاحبہ کے طرز زندگی کے مطابق پیدا ہو جائے ۔وما علینا اللبلاغ المبین ۔
ناشر: الحسنات بُکس پرائیوٹ لمیٹیڈ نئی دہلی ، ISBN: 978-81-907060-5-6

Share
Share
Share