علم اور تعلیم میں فرق
وارث پراچہ
اس بات کو من و من تسلیم کرنا ہوگا کہ علم کی چاشنی انسان کی رو ح میں تازگی کا سبب بنتی ہے ۔ بنیادی طور پر علم (ع ل م )تین لفظوں کا مجموعہ ہے لیکن اس کی وسعت کا کوئی اعداد و شمار نہیں۔ پہلے تو ہمیں اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ علم ہے کیا؟لغت کے لحاظ سے علم کے معنی ہے کسی بھی چیز کو جاننا ،متانت کے ساتھ ااپنے نظریاتی افکار کی بشری استطاعت کی حد تک جانچ پڑتال کرناہی صحیح معنوں میں علم ہے ۔ تجسس اور اضطراب انسان کی جبلت میں شامل ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کس حد تک اپنی لگن کا استعمال کتنی جانفشانی سے علم کی تشتنگی کو پورا کرنے کے لئے صرف کرسکتے ہیں –
ہم بچوں کو علم سے زیادہ تعلیم دلوانے پر آمادہ ہیں۔ حالانکہ یہ دو چیزیں ایک دوسرے کے برعکس ہیں ۔ کیونکہ علم کی خاصیت ہے کہ یہ انسان میں احساس پیدا کرتا ہے اور اگر احساس پیدا ہو جائے تو انسان کی روح میں نکھار آجاتا ہے ۔ جب روح میں خوبصورتی آجاتی ہے تب انسان اشرف المخلوقات کے درجہ کو چھو لیتا ہے ۔ جس سے اس کی روحانیت نشوونماپاتی ہے ۔ لیکن اس کا تقابل اگرتعلیم سے کیا جائے تواس کی تمثیل کچھ یوں ہو گی کہ اگر ایک شخص Ph.D سے بہر ہ ور ہے لیکن وہ بے حس ہو، بدتہذیب ہو کذب و افترا اسکی فطرت میں شامل ہو،تو مجھے یہ لکھنے میں کوئی قباحت نہیں کہ اس بندے نے محض کاغذ کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے ایک عرصہ ضائع کر دیا۔مجھے یاد ہے کہ جب ہم FS.cکے طالب علم تھے تو ہمارے ایک فزکس کے استاد محترم نے ہمارے ہم جماعت طالب علم سے پوچھا کہ بیٹا نیوٹن کے قانون کیا ہیں مجھے سادہ الفاظ میں سمجھاؤ لیکن وہ نا بتا سکا۔ مطلب کہ ہم جس چیز کو پڑھ رہے ہوتے ہیں اس کی تہہ تک ہماری رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ کیونکہ ہمارے ہاں اجتماعی شعور کا فقدان ہے ،تعلیمی ڈھانچہ نحیف و نزار ہے۔ انسانی سوچ پر جمود نے ڈیڑے ڈال لئے ہیں۔ ہم ڈگریوں کو حاصل کرنے کی آراء کے دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ یہی وجہ سے ہے کہ موجودہ دور میں انقلابی شخصیات نمود ار نہیں ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے دوڑ سی لگی ہوتی ہے تین سال کی عمر میں اسے سکول دھکیل دیا جاتا ہے وہ اسی عمل سے گزرتا ہوا ہفتوں سے مہینوں اور مہینوں سے سالوں میں چلا جاتا ہے لیکن ہمیں اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کہ علم کے نام پر کیا حاصل کیا جا رہا ہے ۔ علم کی وسعت کو سمجھنے کیلئے ایک مثال دیتا ہوں۔ کہ تین نا بینا افراد کو ہاتھی کے پاس یہ کہہ کر لایا گیا کہ آج ہم آپکو علم سے ملواتیں ہیں ۔ ان سے پہلے ایک کو ہاتھی کے (سونڈ)ناک پر ہاتھ لگوایا گیا اور پوچھا گیا کہ یہ کیسا لگا۔ اس نے کہا کہ اگر یہ علم ہے تو بہت لمبا ،چوڑا ہے ۔ دوسرے کو ہاتھی کے پیٹ پر ہاتھ لگوایا گیا اور پوچھا گیا کہ یہ کیاہے اس نے کہا کہ یہ تو پہاڑ جتنا ہے ۔ تیسرے شخص کا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگوں پر رکھاگیا تو اس نے کہا یہ تو کوئی بہت بڑا ستون ہے ۔ اس تمثیل سے یہ تو واضح ہو گیا کہ علم کو جس سمت میں بھی چھواجائے یہ لامحدود ہے ۔ ایک شاعر یگانہ چنگیزی اسی خیال کو شعر کی صورت میں قلم طراز کرتے ہیں
"علم کیا علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی”
یہاں پر ایک بات ضمنی طور پر عرض کرتا چلوں کہ علم کا ہونا انسان کے لئے اعتماد کا سبب بنتا ہے۔ لیکن بے بنیاد تعلیم ذہنی خلفشار کا باعث بنتی ہے ۔
حدیث کے الفاظ ہے جس کا مفہوم ہے ۔
علم کسی شے کو اس کی حقیقت کے حوالے سے جان لینے کا نام ہے ۔
علم کے بہت سے ارکان ہیں۔ جن میں ناظر ،تصور،منظور اور استعداد ناظروغیرہ ہے یہ الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔
قرآن میں اللہ نے 700 مرتبہ حکم صادر فرمایا ہے کہ غور وفکرکرو۔ لیکن ہم نے اختراعی دور میں ان چیزوں کو خیر آباد کہہ دیا ہے ۔ دنیا میں بیسیوں مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے غیر رسمی علم حاصل کیاانہوں نے کسی بڑے ادارے سے ڈگریاں حاصل نہیں کی لیکن
ایسے کارنامے سر انجام دیئے کہ بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے والوں کی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ جن میں سے چند لوگوں کی مثالیں ملاحظہ کیجئے۔
ایک بچہ جس نے غربت افلاس میں آنکھیں کھولی اس کا باپ بڑھئی تھا اور اتنی استطاعت نہیں تھی کہ وہ اپنے سپوت کو پڑھا سکے جب بچہ 10سال کا ہوا تو اس پر علم کا جنون سوار ہوگیا اس بچے کو پتہ چلا کہ اس کے ہمسایووں کے گھر میں کتابیں میسر ہیں تو اس نابالغ نے ان گھر والوں سے مستعارکتابیں لینا شروع کر دی۔ جب اس کے ہمسائے عاجز آگئے تو انہوں نے گھر کا کام کتابوں سے مشروط کر دیا۔ لیکن اس بچہ نے ہمت نہ ہاری پہلے ان کے گھر کا کام کرتا پھر کتابیں پڑھنے میں محو ہو جاتا اور پھر جب یہ بچہ بڑاہوا تو ریاست متحدہ ہائے امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ جس نے سیاہ فارم کو آزادی دلوائی جس کا نام "ابراہم لنکن”تھا۔ یہ تھی اس کو علم حاصل کرنے کی جستجوجس نے اسے بڑھا آدمی بنا دیا۔ ماہر ہندسہ جات "شری واستو راما نوجن ” جس نے اے ٹی ایم مشین بنائی وہ کسی یونیورسٹی سے ڈگری ہولڈر نہ تھا۔ رومانوی نثر کے ماہر ولیم شیکشپیررسمی تعلیم کے حامل نہ تھے لیکن مغربی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ اپیل کمپنی کے مالک سٹیو جابز بھی مڈل پاس تھا۔ لیکن اس کی کمپنی نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ کالج سے نکالے جانے والے بل گیٹس جو اس وقت مائیکروسافٹ کے بانی ہیں انہوں نے بغیر کسی ادارے کیساتھ منسلک ہونے کے ایک مستند کارنامہ سر انجام دیا ۔ کہنے کا مقصد اس بات کو عیاں کرنا تھا کہ بھاری بھرکم ڈگریوں کا پلندا اٹھانے سے انسان بڑانہیں بنتا بلکہ اپنی زندگی کو تجربہ گاہ بنانے سے کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ علم کی مثال کھڑے پانی کی مانند ہے ۔ جو جمع ہوکر متعفن جوہڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے اسی طرح علم کو اگر تجربات کے سانچوں میں نہ ڈالا جائے تو اس کو بھی دیمک لگ جاتا ہے اور یہ زنگ آلود ہو جاتا ہے ۔ اس روبہ انحطاط معاشرہ میں چند تبدیلیاں کر کے ہم اپنے علمی افکار کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے میں اجتماعی شعور کی فراوانی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ہمیں نصاب سے ان چند چیزوں کو نکالنا ہوگا جو غیر معیاری اور غیر ضروری ہیں حکومتی سطح پر معلم کا انتخاب کرنے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہیے تاکہ قوم کے معماروں کی اچھی تربیت اور علم کی فراہمی درمے،درہمے اور سخنے کے بغیر ممکن ہو سکے کیونکہ آقا ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے فخر ہے کے میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہو۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے لیکن ہماری مملکت خدادادمیں ایسانہیں پایا جاتا اس سے خائن بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ چھٹیاں محکمہ تعلیم کو نصیب ہوتی ہے مطلب سب سے زیادہ اضمحلال محکمہ تعلیم کو تصور کیا جاتا ہے ۔اگر ان خامیوں کو دور کر لیا جائے تو ہم انقلابی سوچ کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔
——–
Waris Paracha
03059097976
Jaranwala Faisalabad
Pakistan