سردار جعفری ۔ ظہور ذات و صفات کا شاعر : – ڈاکٹر مسعود جعفری

Share
سردار جعفری

سردار جعفری
ظہور ذات و صفات کا شاعر

ڈاکٹر مسعود جعفری
ٹولی چوکی ۔ حیدرآباد
09949574641

سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے ایک قدآورپیمبر تھے۔ وہ کمیو نسٹ پارٹی کے سرگرم کارکن بھی تھے۔پارٹی کے ترجمان نیا ادب سے وابستہ تھے۔ان کا ما رکسی آئڈیا لوجی پر کامل یقین تھا۔ رسویٹ یونین کے زوال تک اس اشتراکی نظریہ کے پاسبان و ترجمان رہے۔روحانیت کو خیالی جنت سمجھتے تھے۔ وہ توہمات کے قائل نہیں تھے۔ ہر چیز کو عقل کی میزان میں رکھتے تھے۔ان کی شاعری مزدوروں ،کسانوں ، کار خانوں کے کرم چا ریوں کی آواز رہی۔ وہ سحرالبیان خطیب بھی تھے۔

ان کی سحر ذدہ گفتگو سامعین کو دم بخود کر دیتی تھی۔بت ست بات پیدا کرنے کا ہنر ان سے زیادہ کسی اور ادیب و شاعر کو نہیں آتا تھا۔نصف صدی تک وہ محفل شعر و نغمہ پر سایہ فگن رہے۔وہ جب تک زندہ رہے دیگر اشتراکی سکون سے سوتے رہے۔انہیں یقین تھا کہ سردار ہی سیاست ،صحافت اور ادبی معرکہ آرائی سے نمٹنے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ادبی و سیاسی مبا حثے انہی کے سہ ماہی رسالے گفتگو میں آکے سانس لیتے تھے۔وہ قومی و عالمی مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالتے تھے۔وہ اپنے ہمعصر لوک پریہ شاعر جگر مرادا بادی کے دو مشہور شعروں میں ایک شعر کی نفی تھے اور دوسرے شعر کا اثبات تھے۔ ملا حظہ فرمایئے۔
فکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کل
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
سردار جعفری اس شعر کے مرکزی نکتہ سے مکمل اتفاق رکھتے تھے۔وہ جلتے ہوئے گردو پیش میں غزل خوانی کو درست نہیں سمجھتے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ شاعر کار زار حیات کی کشاکش میں شرکت کرے۔اپنا حرکیاتی کردار نبھائے۔ نیکی اور بدی کے درمیان خط فا صل کھینچے۔ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ان کے اشتراکی مسلک میں کفر سے زیادہ بد ترین گناہ تھا۔البتہ سردار جعفری ظروف کے شہر مرادآ باد کے مکین جگر کے اس شعر سے صد فیصد عدم اتفاق رکھتے تھے۔
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جا نیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے
سردار جعفری کا تعلق سیاست سے ایسا ہی تھا جیسے ایک پھول کا شاخ سے یا ایک ماہی کا آب رواں سے رہتا ہے۔ان کی سوچ ،فکر اور شاعری سیاسی ہی تھی۔وہ کیسے اور کیوں کر سیاسیات سے دستبردار ہو کر زندگی گزارتے اور صرف پیغام محبت کے دائرے میں اسیر ہو جا تے۔یہ ان کے لئے ممکن نہیں تھا۔وہ تاریخ کے جدلیاتی تصور کے قا ئل تھے۔پرو لتاریہ حکومت ان کی منزل تھی۔وہ ما ورائے کا ئنات کی دنیا کے ماننے والے نہیں تھے۔جو کچھ ہے یہی ہے۔اس کے سوا کچھ نہیں۔جس طرح صیاد اپنے بچھائے ہوئے دام میں الجھ جا تا ہے بری طرح پھنس جا تا ہے۔ اسی طرح سردار جعفری بھی بھی اپنی ایک محبوب نظم میرا سفر میں مارکسیت کی ساری جڑیں اکھاڑ پھینک دیں ۔اشتراکیت کے پرندے کے بال و پر نوچ ڈا لے۔اپنے اسلاف کی طرز فکر کی دھجیاں اڑا دیں۔ آوا گون ،تناسخ ارواح یا Transmigration Of Soul کے حدی خوان بن گئے۔ان کی نظم میرا سفر کی صدا سن کر سجاد ظہیر اپنی قبر میں بے چین ہو گئے ہوں گے۔وہ کہہ رہے ہوں گے سردار یہ کیا بکواس کئے جا رہے ہو۔
——-

مسعود جعفری
Share
Share
Share