قرآن کے بارے میں کچھ سائنس دانوں کے خیالات
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی
ورنگل – تلنگانہ
قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کردہ ضابطہ حیات ہے چونکہ آج کا دور سائنس کا دور ہے۔ اسی لیے انسان نے آج ہر شئے کو سائنس کی عینک سے دیکھنا شروع کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اُس نے قرآن کو بھی سائنس کی آنکھ سے دیکھااور اس میں سائنسی کلیات کو تلاش کیا۔ اسلام نے کبھی سائنس کی مخالفت نہیں کی بلکہ حد میں رہ کر کھوج کرنے کی ترغیب دی۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ
سائنس کہ منشائے قدرت کا عجب انعام ہے
حد میں رہ کر کھوج کرنے کا حسیں پیغام ہے
دنیا کی ہر سائنسی ترقی جو فطری اصولوں کے تحت آگے بڑھتی ہے بالآخر اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اگر سائنسی ترقی قرآن میں بیان کردہ حقائق سے نہ ٹکرائے تو سائنس کی صحت پر یقین کیا جاسکتا ہے۔ اور بالفرض محال اگر سائنسی تحقیق میں قرآن سے تضاد پایا جائے تو اسکا مطلب ہوگا کہ ابھی سائنسی تجربہ ادھورا ہے اور جب یہ اپنی تکمیل کے دائرے میں داخل ہوگا تو پھر قرآن سے مطابقت اختیار کرے گا۔ ویسے مورسؔ بوکائے کے مطابق ’’قرآن کریم میں ایک بھی بیان ایسا نہیں ہے جو جدید سائنس کے لحاظ سے تنقید کی زد میں آئے۔‘‘
ذیل میں قرآن کے بارے میں دنیا کے بعض مشہور سائنس دانوں کے خیالات پیش کئے جارہے ہیں۔ اس سے قرآن کی عظمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا کہ وہ اللہ کی کتاب ہے۔ لیکن نوجوانوں کے متزلزل خیالات کو قرار آئے گا۔
Keith L. Moore : (کیتھ ایل مورے)
موجودہ دور کی کئی طبی کتابوں کا خالق شہرہ آفاق کتاب The Developing Human” کا مصنف کئی باوقار ایوارڈس کا حاصل کرنے والا، علم الجنین کا ماہر کہتا ہے کہ ’’میں مسلمانوں کے تابناک ماضی سے واقف ہوں۔ انہوں نے دسویں صدی عیسوی میں میدان طب میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ قابل قدر ہیں۔ لیکن میں قرآن میں بیان کردہ عقیدے اور مذہبی حقائق سے واقف نہیں ہوں۔ جب میں نے قرآن میں انسانی نمو کے متعلق بیان کردہ حقائق پڑھے تو یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ یہ کلام محمدؐ کو اللہ نے عطا فرمایا ہے۔ کیونکہ ساتویں صدی عیسوی بلکہ اسکے بعد بھی کئی صدیوں تک انسانی تولید، نمو اور جنین کے ارتقاء سے متعلق معلومات دریافت طلب تھیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت محمدؐ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ انسانی جنین کے نمو کے درجات پیچیدہ ہیں جو مسلسل ترقی پاتے رہتے ہیں۔ اور موجودہ سائنس کے بیان کردہ تمام درجات کا قرآن میں اجمالی ذکر موجود ہے۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ انسانی جنین کی درجہ بندی کا نظام ساتویں صدی عیسوی میں بیان کردیا گیا جبکہ قرآن کی بنیاد سائنس پر نہیں ہے۔‘‘
T.V.N. Persaud(ٹی۔وی۔این۔ پرساوڈ)
22طبی نصابی کتب اور 181سائنسی مضامین کا مصنف جو بیک وقت تین طبی علوم اناٹومی، طفلانہ امراض اور نسوانی و تولیدی سائنس پر مہارت رکھتا ہے یہ کہتا ہے کہ ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ حضرت محمدؐ امّی تھے۔ لکھنے پڑھنے سے واقف نہیں تھے۔ اگر انہوں نے چودہ سو برس قبل سائنس پر مشتمل اسقدر جامع نکات بیان کئے ہیں جو حیرت انگیز طور پر آج کے دور میں بھی مکمل صحیح ثابت ہوتے ہیں تو یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔ بلکہ وہ خدائی اشارے یا الہام تھا جس نے سائنس سے متعلق یہ بیانات اس قدر قدیم دور میں لکھوائے اور ڈاکٹر مورے کی طرح مجھے بھی کوئی تامل نہیں کہ میں قرآن کو خدا کا کلام مان لوں۔
E.MarshallJohnson (ای۔مارشل جانسن)
یہ مشہور سائنس داں ہے جو امریکہ کی یونیورسٹی تھامسن جیفرسن میں اناٹومی کا پروفیسر ہے۔ اسکی 200سے زائد تصانیف موجود ہیں۔ ابتداًء یہ سائنس داں اس بات کو ماننے کیلئے قطعی تیار نہیں تھا کہ قرآن میں Fetus(رحم مادر میں نشونما پانے والا جنین) کے متعلق اطلاعات ہوسکتی ہیں۔لیکن جب ڈاکٹر زندانیؔ نے توجہہ دلائی تو قرآن میں انسانی نمو سے متعلق آیات پڑھ کر کہنے لگا کہ ’’میں ایک سائنس دان ہوں انسانی جنین اور نمو کے متعلق سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ اگر مجھے میرے موجودہ علم کے ساتھ ساتویں صدی عیسوی میں بھیج دیا جائے تب بھی میں وہ معلومات بہ وضاحت نہیں دے سکتا جو قرآن میں بیان کی جاچکی ہیں۔ علاوہ اسکے مجھے باوجود تحقیق ایسی کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی کہ ایک فرد واحد حضرت محمدؐ نے ان معلومات کو کسی دوسرے مقام سے حاصل کیا۔ لہٰذا مجھے یہ کہنے میں قطعی مزاحمت نہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔
Durga Rao(درگا راؤ)
میرین جیالوجی (سمندری ارضیات) کے ماہر سائنس داں ڈاکٹر درگاراؤسے پوچھا گیا کہ قرآن کے مطابق سمندر کی گہرائیوں میں تاریکی ہے۔ اور اس تعلق سے آپکی سائنس کیا کہتی ہے۔ تب درگا راؤ نے جواب دیا کہ موجودہ دور میں جدید آلات کی موجودگی میں کچھ عرصہ قبل ہی یہ ممکن ہوا کہ سمندر کی گہرائی کو ٹٹولا جائے اور اس کا جائزہ لیا جائے۔ بعد از تحقیق یہ معلوم ہوا کہ سمندر کی تہہ میں تاریکی ہوتی ہے۔ لیکن اسکا اظہار آج سے چودہ سو برس قبل کس طرح کیا گیا ہوگا جبکہ کوئی انسان سمندر کے اندر بغیر عصری آلات کے 20تا 30میٹر گہرائی میں بھی داخل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہ خیال کرنا بھی مشکل ہے کہ آج سے چودہ سو برس قبل اس طرح کا کوئی علم موجود تھا۔ علاوہ اس کے کسی شئے کا مبہم انداز میں ذکر کرنا علیحدہ بات ہے لیکن تمام تفصیلات کا بیان کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ اس لیے میں سمجھتاہوں کہ کوئی عام انسان ایسی تفصیل کے ساتھ اس خصوص میں اظہار نہیں کرسکتا۔ اسی لیے قرآن میں بیان کردہ اطلاعات کا منبع کوئی مافوق الفطرت ذریعہ ہے۔
Joe Leigh Simpson(جو۔ لی۔ سمپسن)
یہ نسوانی امراض اور Obstetricsکا پروفیسر ہے سالمیات اور انسانی جینیات پرعبور رکھتا ہے۔ اپنے متعلقہ میدان میں کئی ایوارڈس حاصل کرچکا ہے۔ جب قرآن اور حدیث میں اپنے مضمون سے متعلق آیات یا سطور دیکھتا ہے تو یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ احادیث اس زمانے میں موجود علم سائنس کو بنیاد بنا کر نہیں لکھی گئیں۔ جینیات اور مذہب کے درمیان کوئی تضاد نہیں بلکہ مذہب اسلام روایتی سائنسی طریقہ کار کے ذریعہ علم کو آگے بڑھاتا ہے۔ قرآن میں بیان کردہ سائنسی بیانات صدیوں بعد بھی اپنی مکمل اہمیت رکھتے ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآنی معلومات راست خدا سے اخذ کردہ ہیں‘‘۔ اس سائنس دان نے جن احادیث کو پڑھنے کے بعد مندرجہ بالا خیالات کا اظہار کیاوہ ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔
’’تم میں سے ہر کوئی اپنے تمام تخلیقی اجزا کو اپنے رحم مادر میں 40دنوں میں جمع کرتے ہو‘‘ اور دوسری حدیث کا مفہوم اس طرح ہے کہ ’’جنین پر 42 راتیں گذرنے کے بعد خدائے تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو جنین کو ایک شکل دیتا ہے۔ اور اس میں ہڈیاں، گوشت، جلد کے علاوہ بصارتی و سمعی نظام پیدا کرتا ہے۔‘‘
Yushidi Kusan(یوشی دی کوسان)
یہ سائنس داں ٹوکیو آبزروٹیری کاڈائرکٹر ہے۔ جب اس نے قرآن میں بیان کردہ تصور کائنات اور کائنات کی ابتدا سے متعلق آیات کا مطالعہ کیا تو کہا کہ ’’میں قرآن میں موجود فلکیاتی حقیقتوں کو پڑھ کر متاثر ہوا۔ جدید اسٹرونامر (ماہر فلکیات) نے کائنات کے ایک چھوٹے حصے کا مطالعہ کیا۔ اور ہم ماہرین کی تمام تر کوششیں اسی حصہ کائنات کو سمجھنے میں صرف ہوئی کیونکہ ہمارے فلکیاتی مطالعہ کا واحد ذریعہ دوربین ہے جو ہمیں لا محدود کائنات کے کچھ حصے بتاتی ہے۔ لیکن قرآنی آیات کے مطالعہ کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ مجھے مستقبل میں کائنات کی تحقیق کا بہترین طریقہ معلوم ہوا ہے۔ کیونکہ قرآن نے کائنات کا نہایت اعلیٰ انداز میں مشاہدہ کیا ہے۔ جسکے باعث ہی قرآن میں تمام چیزیں واضح اور صاف انداز میں بیان کی گئی ہیں۔
William Hay(ولیم ہے)
یہ امریکہ کا مشہور ماہرسمندری علوم ہے۔ جب اس سائنس دان نے قرآن میں بیان کردہ حقائق جسیے سمندر کی اوپری اور اندرونی سطح کا بیان، سمندری اراضیات، سمندر کے اندرونی حصّے کی تاریکی وغیرہ کے متعلق پڑھا تو کہنے لگا کہ ’’مجھے قدیم کتاب مقدس قرآن میں سمندر سے متعلق حقائق پڑھ کر کافی دلچسپی محسوس ہوئی۔ اور میں یہ معلوم نہ کرپایا کہ یہ معلومات قرآن میں کیسے وارد ہوگئیں۔ میرا خیال ہے کہ مستقبل میں ان آیات کے مزید مطالب دریافت ہوں گے۔ اور یہ کام آگے بڑھتا رہے گا‘‘۔ جب اس سائنس دان سے پوچھا گیا کہ قرآن کا منبع کیا ہوسکتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ ’’یہ اللہ کا کلام ہونا چاہئے۔‘‘
Professor Armstrong(پروفیسر آرم اسٹرانگ)
یہ NASAکا مشہور سائنس داں ہے جسکو علوم فلکیات وہیت میں مہارت حاصل ہے۔ اس نے قرآن میں موجود فلکیات سے متعلق مضامین کا مطالعہ کیا اور دوران گفتگو پوچھے گئے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’میں اس بات سے کافی متاثر ہوں کہ کس طرح جدید علوم فلکیات کا ذکر اسقدر قدیم کتاب میں موجود ہے میں انسانی تاریخ کا عالم نہیں ہوں اور چودہ سو برس پہلے کے حالات سے بھی واقف نہیں ہوں ۔ لیکن میں نے جو دیکھا ہے وہ یقیناًقابل ذکر ہے اور عام انسانی تجربات ان حقائق کا اظہار نہیں کرسکتے۔‘‘
Professor Siaveda(پروفیسر سیاویدا)
جاپان کے اس مشہور میرین جیالوجسٹ کو جب بتایا گیا کہ قرآن میں پہاڑوں کے اشکال اور ان کے زمین کے اندر جمے رہنے کا ذکر موجود ہے اور کئی ایسے راز ہائے کائنات کا تذکرہ ہے جس کو کہ آج کے دور میں یعنی سائنسی ترقی کے دور میں دریافت کیا جارہا ہے تو اس سائنس داں نے کہا کہ ’’قرآن میں ان تمام چیزوں کا تذکرہ مجھے پر اسرار نظرآتا ہے اور مجھے اس بات پر یقین نہیں ہوتا اگر مجھ کو بہم پہنچائی گئی معلومات واقعی قرآن میں موجود ہیں تو یہ کتاب واقعی قابلِ ذکر ہے۔ جس کا مجھے اعتراف ہے۔‘‘
Maurice Bucaille(مورس بوکائے)
یہ غیر متعصب سائنس داں ہے جس کی کتاب ’’بائبل، قرآن اور سائنس‘‘ کو بہت زیادہ شہرت ملی۔ کئی برس کی تحقیق کے بعد فرینچ اکیڈمی آف میڈسن کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن میں تولید اور فعلیات سے متعلق آیات کا ذکر کرتے ہوئے مورس بوکائےؔ نے کہا کہ ’’میرے لیے یہ ناممکن ہے کہ میں اس بات کی وضاحت کروں کہ کس طرح یہ تمام معلومات قرآن میں بصراحت بیان ہوچکے ہیں جوسائنسی اعتبار سے دور حاضر کی دریافت ہے‘‘ اسی سائنس دان نے اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھا ہے کہ ’’جنین کے بڑھنے اور ترقی کرنے کے بعض مدارج کا قرآنی بیان پوری طرح اس معلومات سے مطابقت رکھتا ہے جو اسکے بارے میں آج ہمیں حاصل ہے‘‘۔ اور قرآن مجید میں ایک بھی بیان ایسا نہیں ہے جو جدید سائنس کے لحاظ سے تنقید کی زد میں آسکے۔‘‘
Tejatat Tejasen(تیجاٹٹ تیجاسن)
یہ سائنس داں خدا کی خصوصی نعمت سے نوازا گیا۔یہ تھائی لینڈ میں میڈسن اور اناٹومی کا پروفیسر ہے۔ جب ہم اس سائنس دان کے بارے میں غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کے لیے صرف عقل کے گھوڑے دوڑا کر دور کی کوڑی لانا ہی زندگی نہیں ہے بلکہ کسی کے حضور بلا اختیار خودسپردگی ہی دراصل عقلمندی ہے۔ ہر معاملہ میں عقل کی کسوٹی کا استعمال انسان کو خدا سے دور لے جاتاہے اور عقل کی سیڑھی چھوڑ کر عشق کی منزل پر قدم رکھنا اس کو خدا کے قریب کردیتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اب تک بیان کردہ تمام سائنس داں محو تماشائے لب بام ہیں جبکہ یہ وہ سائنس داں ہے جو عقل کی پر خطر راہوں سے گذر کر عشق کی حد میں داخل ہوا تو بے اختیار پکار اٹھا کہ ’’نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
ریاض سعودی عرب میں منعقدہ آٹھویں میڈیکل کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے تیجاٹٹ تیجاسن نے کہا کہ میں گذشتہ تین برس سے قرآن کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اور میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ قرآن میں چودہ سو برس قبل جو حقائق بیان کئے گئے ہیں انکو سائنسی توضیحات کے ذریعہ ثابت کیاجاسکتا ہے۔ حضورؐ چونکہ اُمّی تھے اسی لیے ان معلومات کی فراہمی پر انکو پیغمبر کہا جائے گا کہ تمام علوم اور راز ہائے کائنات خالق نے انکو عطا فرمائے اور وہ خالق کوئی دوسرا نہیں بلکہ اللہ ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ وہ وقت آن پہنچتا ہے جب میں کہہ اٹھوں کہ ’’لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ مُحَمَّدُالرَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘۔
(نوٹ: مضمون کی تیاری میں ڈاکٹر زندانیؔ کی ویڈیوٹیپ سے مدد لی گئی)