پرندے بھی بات کرتے ہیں
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی
ورنگل – تلنگانہ
ہجرت کے علاوہ جب ہم پرندوں کی دوسری اہم خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پرندوں میں ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کار جحان بھی پایا جاتاہے، پرندے بامعنی گفتگو کرتے ہیں اور بخوبی اپنی بات مقابل تک پہنچاتے ہیں۔ پرندوں کی یہ خصوصیت اس قدر ترقی یافتہ نہیں ہوتی جس قدر انسانوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پرندوں میں یہ صلاحیت چیونٹیوں اور ڈولفن سے زیادہ موثر اور ترقی یافتہ ہوتی ہے۔ ویسے پرندے خوش گلو ہوتے ہیں۔
اکثر پرندوں کی آواز سریلی اور دل کو لبھانے والی ہوتی ہے۔ ان کے دلکش راگ کو سن کر مادہ پرندے نر کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ یعنی پرندوں کا یہ گانا ، یہ راگ ونغمہ چڑیا کو رجھانے اور انہیں قریب بلانے کے انداز ہیں تاکہ کورٹ شب انجام پاسکے، اسی لئے بعض سائنسداں اس کو نغمہ محبت قرار دیتے ہیں جس میں خوش الحان چڑیا نہ جانے کیاکیا عہدو پیمان بھردیتی ہے کہ اس کی جانب مادہ کی توجہہ مبذول ہوجاتی ہے اور نسل کے تسلسل کاذریعہ پید اہوجا تا ہے۔ گذشتہ برسوں میں کوؤں پر کی گئی تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ پرندہ یعنی کوّا جب کبھی خطرہ محسوس کرتا ہے تو مختلف آوازوں کونکال کراپنے ساتھیوں کو بلا لیتا ہے۔ تجربہ کے دوران ان تمام آوزاروں کو ریکارڈ کیاگیا اور فی زمانہ اس رموزی زبان کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر مستقبل قریب میں یہ ممکن ہوجا ئے توپھر ہم مخصوص صوت پیما (Sonogram)کی مدد سے پرندوں کی پر اسرار گفتگو کو سمجھ سکیں گے۔ ہر پرندے کی زبان یا طریقہ ترسیل علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے۔ اسی لئے ہر پرندے کی زبان کوسمجھنے کے لئے پہلے ان پرندوں کی آوازوں کو توانائی کی لہروں میں تبدیل کرنا ہوگا پھر ان لہروں کو کوڈس میں تبدیل کرنا ہوگا اس کے بعد ان الگ الگ انداز میں وضع کردہ کوڈس کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کرکے بامعنیٰ عبارت کو اخذ کرنا ہوگا، سائنسدانوں کے مطابق یہ مرحلہ دشوار ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ علاوہ اس کے پرندوں کی ’’جسمانی زبان‘‘(Body Language) بھی خیالات کی ترسیل کاموثر ذریعہ ہے سائنسدانوں نے اس اشاراتی زبان کو سمجھ کر بعض حرکات کے معنی اخذ کئے ہیں جیسے اگر کوئی پرندہ دوسرے پرندے کی چونچ سے اپنی زبان کو مس کرنے لگے تو اس کامطلب یہ نکالا ہے کہ ’’میں تمہارا دوست ہو تمہیں نقصان پہنچانا میرا مقصد نہیں ہے۔‘‘ سائنسدانوں نے ایسی اشاراتی زبان کو بڑے پیمانے پر جمع کیا ہے اور ان پر تجربات چل رہے ہیں بڑے بڑے ماہرین طیور (Ornithologist) کا احساس ہے کہ انسان کسی قدر محنت کرے اور اپنے مشاہدے میں حساسیت پیدا کرے تو بآسانی پرندوں کی زبان سمجھ سکتاہے۔
کسی بھی جاندار میں آواز کاپیدا ہونا پیچیدہ عمل ہے۔ کیونکہ آواز کے پید اکرنے کے لئے جسم کے تقریباً تمام ہی اعضاء میں ہم آہنگی ضروری ہے،جب تمام اعضاء ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تب ہی آواز پید کی جاسکتی ہے۔ لیکن جہاں تک پرندوں کا سوال ہے ان میں یہ صلاحیت دوسرے جانداروں کے مقابلے میں قدرے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اسی لئے ہم آ ئے دن دیکھتے رہتے ہیں کہ پرندے دوسرے جانداروں یامختلف قسم کی آوازاں کی نقل کرتے رہتے ہیں اس کی بہترین مثال Raven، طوطا ،شکر خورا (Humming Bird) اور Myna ہے جو ایسی ایسی آوازوں کی نقل کرتے ہیں جس کی نقل خود انسان کے لئے مشکل ہوتی ہے۔ مثلاً دروازے کے بند ہونے کی آواز ، ٹیلیفون کی گھنٹی یا سیٹی کی آواز وغیرہ۔ اس سے اس بات کا انداہ ہوتا ہے کہ پرندوں میںآواز نکالنے کا نظام نہایت ترقی یافتہ ہوتا ہے کیونکہ ہوبہو نقل کے لئے سماعت ، یاداشت اورحسیات وغیرہ کا بہترین ہونا ضروری ہے۔اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آواز کی نقالی ان کی ذہنی صلاحیت کا پتہ دیتی ہے۔قدیم زمانے میں سمجھا جا تا تھاکہ پرندے صرف آواز کی نقل نکال سکتے ہیں جس کوہم فی زمانہ دیوانے کی بڑکہہ سکتے ہیں کیونکہ جب اس سمت تحقیقات کا آغاز ہوا تو معلوم ہو اکہ پرندوں کی نقل جو بامطلب الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے موقعہ کے لحاظ سے بدلتی جاتی ہے، یعنی نقالی کی صلاحیت رکھنے والے پرندے مقابل کو پہچانتے ہیں اور اسی مناسبت سے جملوں کو دہراتے ہیں اسی لئے ہمیں اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ پرندے صرف رٹے رٹائے جملوں کو دہرا نہیں رہے ہیں بلکہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے منقطی انداز میں جواب دے رہے ہیں جس سے ان کی ذہنی چستی او رسوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔ پرندوں کی یہ خصوصیت دراصل خدا کی عطائی ہے، اللہ نے ان کو ایسی سمجھ ودیعت کی ہے کہ ایک حقیر پرندہ خود سے بولتا ہوا نظر آتاہے اسی لئے پرندوں کی اس قوت کو ہم اہل نظر کے سامنے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے بطور شہادت پیش کرسکتے ہیں۔ کیونکہ وہ خدا ہی ہے جو دومختلف ساخت رکھنے والے صوتی آلوں سے ایک ہی آواز پیداکرتا ہے اورایک جیسی ساخت رکھنے والے صوتی آلے سے کئی آوازوں کو پیدا کرتا ہے، پرندہ انسان کی آواز کی نقل اتارتا ہے انسان میں صوتی آلہLarynxپایا جا تا ہے جبکہ پرندوں میں آواز پیداکرینے کاآلہ Syrinx کہلا تاہے جو ساخت کے اعتبار سے Larynx سے یکسر جدا گانہ ہوتا ہے۔ انسان میںآواز نکالنے کے لئے زبان ، ہونٹ اور دانت وغیرہ پائے جاتے ہیں جبکہ پرندہ ان تمام چیزوں سے عاری ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے پرندے اور انسان کی سماعت کا نظام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ پرندہ اگرکوئی آواز ایک مرتبہ سن لے تو اس آواز کو صرف اسی Octavo میں پہچان سکتا ہے۔ جبکہ انسان آواز کو کسی بھی Octavo میں پہچان سکتاہے لیکن انسان آواز کی پہچان کے معاملے میں پرندے سے پیچھے نظر آتا ہے کیونکہ انسان آواز کو ایک سکنڈ کے 20 ویں حصے میں پہچان سکتاہے جبکہ پرندے سکنڈ کے 200ویں حصے میں آواز کوشناخت کر لیتے ہیں اسی طرح پرندے انسان کے مقابلے دس گنا تیز سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں یعنی ایک سکنڈ میں دس آوازوں کو شناخت کرلیتے ہیں جو پرندوں کی ایک عجیب وغریب خصوصیت ہے۔ آوازکی نقالی یا آواز پیدا کرنے کے لئے قوت سماعت کا بہترین ہونا ضروری ہے اگر پرندے بہر ے ہو ں تو وہ آواز پید ا نہیں کرسکتے اور اپنی ازلی خوبصورت خصوصیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ہر پرندے کو اپنی نوع کاگانا سیکھنے کے لئے نہ صرف قوت سماعت بلکہ یاداشات کو بھی بہتر رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ پرندے کا دماغ چھوٹا ہوتاہے جس کا وزن عام طور پر 80یا85 گرام ہوتا ہے ساخت کے اعتبار سے انسان کا اور پرندے کادماغ کا مختلف ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پرندے سیکھتے ہیں اور آواز کو یاداشت میں محفوظ رکھتے ہیں اور وقت پر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ تجربات سے ظاہر ہے کہ پرندے چمپانزی سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں حالانکہ چمپانزی کوانسان کے بعد سب سے زیادہ سمجھ دار جانور تصور کیا جاتا ہے۔یہ اللہ کی قدرت ہے وہ جس جاندار کو جوشئے چاہے عطا کردے، اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ، اس کی ہر کاریگری بے مثال ہے وہ چاہے تو پرندوں کو پستانیوں پر فوقیت دیدے اور چاہے تو چیونٹیوں کو پرندوں کی صلاحتیوں سے زیادہ عطا کردے اورا نہیں انسانوں جیسی خصوصیات بخش دے کہ چیونٹیاں جب ایک دوسرے سے ملتی ہیں توChatکرتی ہیں۔ چیونٹیوں کے سرمیں پانچ لاکھ عصبی خلیے پائے جاتے ہیں جن پر نہایت حساس محاس لگے رہتے ہیں چیونٹیوں کے وجودسے مسلسل ایک کیمیائی مادہ (Pheromones) یا سیال کا اخراج عمل میں آتا رہتا ہے جس کی مددسے وہ اپنے اشارات دوسری چیونٹی تک پہنچاتی رہتی ہے یہ سیال بھی کئی قسم کاہوتا ہے جو اپنے اندر کئی جد اگانہ مطالیب رکھتا ہے۔ چیونٹیاں خطرے کی اطلاع دوسروں تک پہچاتی ہے جس کاذکر قرآن میں بھی موجود ہے کہ’’پیام کی ترسیل کا طریقہ چیونٹیوں میں بھی پایا جاتا ہے ‘‘۔وہ اپنے مردہ ساتھیوں کو دفن کرتی ہیں غذا کا دانہ بھیگ جائے تو دھوپ میں سکھاتی ہیں اگر گیلے پن کی وجہ سے کچھ کونپلیں آجائیں تو انہیں کاٹ پھینکتی ہیں۔ اس موڑ پر اپنے دماغ پرنازاں انسان یہ جان لیں کہ ان میں مکمل دماغ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔’’آسمانوں اور زمینوں میں کتنی ہی نشانیوں ایسی ہیں جن سے یہ لوگ گذرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے۔‘‘(سورہ یوسف)
سائنسدانوں نے پرندوں کی آواز پر کافی تجربات کئے ہیں مگر آلہ صوت سے ہمہ صوتی آواز کے پیدا ہونے کامکمل خلاصہ نہیں پیش کرسکے۔ لیکن انہوں نے اس بات کونہایت اعتماد سے بیان کیا ہے کہ پرندے زندگی کے افعال میں سمجھ بوجھ کاثبوت دیتے ہیں اور انسانوں کو پہچان کر ان کے اطوار سے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ انسان کا متوقع ردعمل کیاہوسکتاہے۔ اسی لئے چڑیا بچے کی برتن سے دانہ چگ لیتی ہے لیکن بڑے افراد کے نزدیک آنے سے بھی ڈرتی ہے۔ اگر انسان اپنائیت کا اظہار کرے توچڑیا انسان کے برتاؤ کو پرکھتی ہے اور اس کے بعد اس کے قریب آتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پرندے افراد کو شناخت کرتے ہیں اور ا ن کے حرکات سے نتائج کو اخذ کرتے ہیں علاوہ ازیں جب پالتو چڑیا بعد ازمشق بولنا سیکھ جاتی ہے تو عقل کو استعمال کرکے منطقی انداز میں جوابات بھی دیتی ہے جو چڑیا کے قوت تجزیہ کی بہترین مثال ہے جس کو ہم خدا کے وجود کی بین دلیل بھی کہہ سکتے ہیں، اور ہم پرندوں کی اس صلاحیت کو یعنی بات کرنے کی صلاحیت کو تخلیق کاایک عجوبہ قرار دے سکتے ہیں جوآواز کی شکل میں پرندوں کو قدرت کی ایک خوبصورت عطا ہے۔ ہمیں اس کا ثبوت دنیوی دلائل سے بھی مل جا تاہے۔مشہور سائنس دان Reynolds (2003) کے مسلسل تجربات نے یہ نتیجہ دنیا کے سامنے لا یا ہے کہ پرندے بھی انسانوں کی طرح پیچیدہ عمل کے ذریعہ تجزیہ کرتے ہیں اور مابعد فیصلہ کرتے ہیں اسی سائنس دان کے مطابق اگر کبھی انبوہ طوطاگان کودیکھنے کا موقعہ ملے تو ملا حظہ کیا جاسکتا ہے کہ تمام طوطے کس طرح ایک دوسرے سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے محو گفتگو ہوجاتے ہیں ہم آپس کی اس گفتگو کو بے جا شور سمجھتے ہیں لیکن بغور دیکھیے تو اس انبوہ میں آپ کو ہر طوطا اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتا نظر آئے گا، بھلے ہی انکی یہ گفتگو ہمیں سمجھ میں نہ آئے لیکن تمام طوطے ایک دوسرے کی بات سمجھ کر جواب دیتے ہیں، اگر ہم اسی سائنسدان کی تحقیق کو ایک قدم آگے بڑھ کردیکھیں تو ان کی ایک خدادادصلاحیت کا انکشاف ہوتا ہے کہ گروہ کا ہر ایک طوطا بیک وقت کئی طوطوں سے بات کرتا ہے اور ان کے سوال کا صحت سے جواب دیتا ہے۔ یہ ایک نہایت پیچیدہ ترسیلی عمل ہے جس سے خودانسان بھی محروم نظر آتے ہیں کہ انسان بیک وقت صرف ایک ہی جانب اپنی توجہ مبذول کرسکتاہے۔ہوسکتا ہے طوطوں یعنی پرندوں کی یہی خوبی ان کو بآسانی انسانی بولی سکھا دیتی ہے۔
کیا پرندے عبادت کرتے ہیں؟
تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ طوطے اکثر اوقات انسانوں سے زیادہ سیکھ جاتے ہیں، سمجھ کر جواب دیتے ہیں اور حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ آواز کی نقالی دراصل ان پرندوں کے لئے ایک زینہ ہے جس پر چل کریہ پرندے ان خصوصیات کو حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں جو صرف انسان کے لئے مخصوص ہیں۔ حضرت داؤدؑ کو حق تعالیٰ نے ظاہری کمالات میں سے ایک کمال حسن صوت کا بھی عطا فرمایا تھا۔ جب وہ زبور پڑھتے تو پرندے ہوا میں ٹھہر نے لگتے اور ان کے ساتھ تسبیح کرنے لگتے۔ ہر مخلوق کی عبادت اور تسبیح کا طریقہ جدا گانہ ہے جس سے وہ مخلوق بخوبی واقف ہے۔ خالق ہی نے تمام مخلوقات کو تسبیح کے طریقے سکھائے ہیں جس سے ہم انسان واقف نہیں، پرندوں کا تسبیح میں شریک ہوجانابہ تسخیر خداوند ی بطور معجزہ ہے اور معجزہ وہی ہے جو عقل کو عاجز کردے۔ اس لئے یہ ضروری نہیں کہ معجزہ کا جس شے پرراست اثر پڑرہا ہے وہ اپنے اندرکوئی قدرت رکھتی ہے یانہیں بلکہ یہاں اہم معجزہ کو صادر کرنے والی قوت ہے جو بے جان میں بھی زندگی پیدا کردیتی ہے، یہی قوت مالک وخالق کائنات ہے اسی خالق نے کل کائنات میں اپنی عادات کو جاری فرمادیا ہے اور ان ہی عادات خداوندی کو انسان معمولات دنیا کا نام دیتاہے حالانکہ ہر معمول خداکی قدرت کا مظہر ہے۔ اسی لئے اللہ فرماتا ہے کہ’’ وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں اور یہ سب جو کچھ کررہے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے‘‘ (النور)۔’’انسانو۔ تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔‘‘(الاسراء)۔