الٰہی! میرے الفاظ میں معانی رکھ دے : – صادق رضامصباحی

Share
صادق رضامصباحی

انشائیہ :
الٰہی! میرے الفاظ میں معانی رکھ دے

از:صادق رضامصباحی،ممبئی
رابطہ نمبر:09619034199

لکھنا ایک فن ہے ،ایک عظیم فن،مقدس فن ،حرمت والافن ،ایسافن کہ جس کے متعلق خودقرآنِ کریم قسم کھاتاہے :ن والقلم ومایسطرن ۔آیت کی گہرائی میں اترکرمعلوم کریں توپتہ چلتاہے کہ قلم کی حرمت ہر لکھنے والے کامقدر نہیں ۔اس کے لیے نیک جذبہ چاہیے اورنیت صاف ۔اگرہم اپنے قلم اوراپنی تحریرکے تئیں مخلص نہیں تو پھر الفاظ محض الفاظ ہی رہ جاتے ہیں،ان میں معانی پیدا نہیں ہوتے ۔الفاظ میں معانی اس وقت پیداہوتے ہیں جب لکھنے کاجذبہ مکمل طورپرمثبت ہو ۔

یہاں ایک بہت بڑے سوال کاجواب بھی مل گیاکہ آج پہلے کی بہ نسبت بہت بڑی تعداد میں کتابیں شائع ہورہی ہیں،تقریروں اورخطابات کاایک لامتناہی سلسلہ ہے ، مذہبی چینل شب و روز مصروف ہیں ،اصلاحی اجلاس پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ ہونے لگےہیں ،ہرسال لاکھوں طلبہ مدارس سے فارغ ہورہے ہیں اور دعوتی وتبلیغی سلسلوں کا تاحدنگاہ پھیلاہوا عظیم الشان کارواں ہےمگر کیا اس اعتبارسے اس کانتیجہ بھی نکل رہاہے ؟تو پھر نتائج نہ نکلنے کی وجہ کیاہے ؟اسی نیت کا عدم اخلاص ہے جو نتائج اور عدم نتائج کےدرمیان دیوار بن کر کھڑا ہے اور منزلوں تک رسائی میں مزاحم بن رہا ہے ۔ مصنفین اور محررین کی اتنی بڑی اکثریت کے باوجود تبدیلی اس لیے نہیں آرہی ہے کہ لکھنے والوں کے مقاصدمیں کہیں نہ کہیں منفی جذبہ ہے اور جب نیت منفی ہو تو پھر اسے راستے نہیں مل پاتے اورمنزلیں اس کی پہنچ سے بہت دورچلی جاتی ہیں ۔بظاہرہمیں لگتاہے کہ ہم منزل سے جالگے مگر در حقیقت وہ منزل نہیں سراب ہوتی ہے اوریہ سراب خوش فہمی کا دوسرا نام ہے اس لیے ہمارا یہ کہنابالکل بجاہے کہ ہمارے مصنفین اورمحررین کی عظیم اکثریت خوش فہمیوں میں جی رہی ہےاوراپنی انہی ’’فتوحات‘‘پرنازاں وفرحاں۔کہنے کوتوآج مصنفین بہت ہیں اور قطار اندر قطارلکھنے والے کھڑے ہیں مگربس وہ لکھتے ہی ہیں، حقیقتاً ’لکھنا‘‘ کسے کہتے ہوں وہ اس سے نابلدہیں(الاماشاء اللہ)،ان کے الفاظ ،معانی سے یکسرخالی ہیںاورجہاں معانی نہ ہوں،تاثیرنہ ہوتونتیجے کی امید دیوانے کی خواب کی طرح ہے ۔
حدیث نبوی انما الاعمال بالنیات (ترجمہ:عمل کا دارو مدار نیتوں ہی پرہے)کیاصرف دینی احکام و مسائل کےلیے ارشاد فرمائی گئی ؟نہیں ،ہرگزنہیں۔یہ حدیث نبوی ایک فطری اصول ہے اورفطرت دین و دنیا کا امتیاز روا نہیں رکھتی ،یہ یکساں طور پرسب پر جاری ہوتی ہے۔اس لیے اسے دینی واسلامی معاملات کے علاوہ دنیاکے ہرشعبے کے لیے ایک رہ نماسمجھیے اوراسے فطری اصول کے طورپربرتیے ۔ظاہرہے فطرت سے آج تک کوئی بغاوت نہیں کرسکا۔اگرکسی نے کبھی بغاوت کرنے کی جسارت بھی کی تواس کاانجام نہایت بھیانک ہوااوردوسروں کے لے قابل عبرت ۔ آنکھوں میں اگربصیرت کا نور ہو اور دماغ مشاہدات اور مطالعات سے معمور تو یہ قابل عبرت مثالیں آ پ کوہرجگہ سانسیں لیتی دکھائی دیں گی ۔یہاں ایک سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی حقیقت کے باوجود انسان فطرت سے بغاوت پرآمادہ کیوں ہوتاہے؟
راقم السطور ان صفحات میں بارہاعر ض کرچکا کہ انسان فطری طورپرجلدباز واقع ہوا ہے۔وہ جلدازجلد بلندی پرپہنچ جانا چاہتا ہے اور وہ اس کے لیے ہرمثبت ومنفی ہتھکنڈہ اپناتا ہے مگرایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ فطرت سے بغاوت کے کتنے بھیانک جرم کاارتکاب کررہا ہے۔اسے احساس ہی نہیں ہورہا ہے کہ یہ جرم ایک دن اسے بہت نیچے لے جاکر
پھینک دے گا۔ ظاہری رکھ رکھائو،تصنع ،بنائو سنگار، تکلفات سے بھرپور زندگیوں کو دیکھ کرہماری آنکھیں دھوکہ کھاجاتی ہیں مگر واقعہ یہ ہوتاہے کہ ہمارے اندرون میں اتھل پتھل مچی ہوتی ہے اورہمارے اندر کا پورا جغرافیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہوتا ہے ۔اس لیے میرے دوست ! نیتوں کاقبلہ درست ہونا ضروری ہے جب تک ’’قبلہ‘‘درست نہیں ہوگا’’نماز‘‘مکمل نہیں ہوگی ۔کبھی سوچا کہ پہلے کے لوگ کام توتھوڑا کرتے تھے مگراس کے اثرات کثیرکیوں ہوتےتھے۔؟اس کے پیچھے بس ایک ہی راز ہے : نیت ۔آج ہم اکثرکہتے ہیں بلکہ اب تو یہ شکوہ عام تر ہوچکا کہ کاموں میں برکت نہیں ہورہی ۔جنابِ عالی!برکت نہ ہونے کاشکوہ کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کردیکھ لینا چاہیے ،اگریہ چاک نظر آئے تو سمجھ لینا چائیے کہ اندرکہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے اور پھرہمیں اس کی’’ رفوگری‘‘ کی فکر کرنی چاہیے ورنہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری کوششیں چھلنی میں پانی بھرنے کے مترادف ہیں ۔ہماری کوششوں کاسفرہمیں تھکادے گا،پیروں کوچھلنی کردے گا اور آخرمیں ہمیں بڑھاپے کی دیواروں سے ٹکرادے گا مگرجب ہم پیچھے مڑکردیکھیں گے اورنتائج کاتجزیہ کرنے بیٹھیں گے تواحساس ہوگا کہ نتائج اوراثرات کے نام پر ہمارے پلو میں کھوٹا سکہ بھی نہ آسکا،ایسا ’’سکہ‘‘ جو واقعتاً ہمارے لیے تسکینِ قلب کاباعث ہو اور ہمارے لیے توشۂ آخرت۔اس لیے میرے ہم پیشہ ،ہم منصب دوستو!آئوہم سب بارگاہ رب العلیٰ میں بس ایک ہی دعاکریں:
’’بارالہ!ہمارے الفاظ میں معانی رکھ دے ۔‘‘

Share
Share
Share