حمایت اللہ
دکنی لب و لہجہ کا نامور شاعر
ڈاکٹر عظمت اللہ
اسسٹنٹ پروفیسراردو
ناگرجنا گورنمنٹ ڈگری کالج ۔ نلگنڈہ
محمد حمایت اللہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۳۲ ء کو ایک متوسط گھر انے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام غلام مرتضٰی تھا جو حیدرآباد کی فو ج میں کیپٹن کے عہدہ پر فائز تھے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک اسکول، حیدرآباد میں ہوئی ۔ کم عمر ہی میں والد کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔
حمایت اللہ صاحب کی شادی ۱۹۷۴ ء میں اردو کی استاد مشہور مزاح نگار ڈاکٹر رشید مو سو ی سے ہوئی۔
حمایت اللہ پیشہ کے اعتبار سے پی۔ ڈبیلو ڈی اور دیگر سرکاری محکموں میں گتّہ دار تھے ۔ فائن آرٹس اکیڈیمی اور زندہ دلان حیدر آباد کے معتمد عمومی بھی رہے ۔ حیدرآباد ریڈیو نے ان کے کئی مزاحیہ پروگرام نشر کئے ہیں ۔ نشری پروگراموں میں ’’چھو ٹے نواب ‘‘ کا کردار ان کی فطری ظرافت کا بے مثالی نمونہ ہے ۔ وہ مزاحیہ شاعر ہونے کے علاوہ خاکہ نگار بھی ہیں ۔ وہ انڈین پےُپلس تھیٹر سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ ان کے دکنی کلام کو ساری اردو دنیا میں سراہا گیا ۔ امر یکہ، یوروپ ، کینڈا ، سعودی عرب ، کویت، متحدہ عرب امارات ، پاکستان اورقطر وغیرہ کی سیاحت کرچکے ہیں ۔
حیدرآباد میں ۱۹۸۵ء میں منعقدہ عالمی طنز و مزاح کانفرنس کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔
حما یت اللہ دکنی میں میں شعر کہتے ہیں ۔ دکنی کی سلاست اور بانکپن ان کی شاعری میں موجود ہے ۔ دکنی زبان کو فر و غ دینے والے شعراء کی ایک کڑی حمایت اللہ ہیں۔ انہو ں نے قدیم دکنی زبان کے احیاء اور جدید دکنی زبان کی نشونما میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ان کی اسی خصو صیت کے متعلق ان کے مجمو عہ کلام ’’ دھنمڑی‘‘ کے ایک مضمون میں ڈاکٹر زینت ساجدہ نے لکھا ہے کہ :
’’حما یت اللہ کے کلام میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ بے ساختگی بھی ہے ۔ وہ زندگی کے عام مشاہدا ت اور تجربوں سے اپنے موضوعات چنتے ہیں اور ان کو پر مزاح انداز میں اسطرح پیش کرتے ہیں کہ ہر ایک کے لبوں پر مسکراہٹ سے قہقہے تک گدگدانے والی لہریں کروٹیں لینے لگتی ہیں لیکن جوں ہی بات کانوں سے اتر کر دل تک پہنچتی ہے۔ ایک کرب کا احساس دلا تی ہے ‘‘۔ ( مجموعہ ’دھنمڑی‘ از حمایت اللہ (مضمون) ’’تو دکنی ہے پیارے دکھنیچ بول‘‘ ڈاکٹر زینت ساجدہ صفحہ ‘ ۲۸ )
انہوں نے نہ صرف سنجیدہ شاعری کی ہے بلکہ طنز و مزاح سے بھی کام لیا ہے ۔ مزاح نگاری کے میدان میں ’’میک اپ کا ڈبہ‘‘ کے ساتھ داخل ہوئے۔ اس نظم میں نہ صرف طنز و مزاح کا عنصر ہے بلکہ دکنی زبان اور لب و لہجہ بھی غالب ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہو ں ۔
ارے میک اپ کے ڈبّے تو میرے کھیلاں بگاڑانا
بھری خوشیوں کی کمی کو میری آکو اجاڑانا
میں ترپٹ اور وہ کالے کلوٹے میل اچھا تھا
یو ئینچ منڈوے پو چڑجاتی ہماری بیل اچھا تھا
دھنمڑی میں انہوں نے ایک دکنی حمد لکھی ہے جس کاعنوان ’’ وہ اللہ کیسا ہونگا ‘‘ ہے ۔ اس میں وہ خدا کی حمدوثناء کر تے ہوئے اس کی رزاقیت کا ذکر کر تے ہیں ۔ اس حمد میں انہوں نے کئی ایک تلمیحا ت کا بھی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔
ایکیچ ماں کی ممتا کے میں وارے نیارے ہو جاروں
ستر ماں کی ممتا دیا سو وہ اللہ کیسا ہوئینگا
بڑے بزرگاں بولے ہیں پتھر میں بھی کیڑا ہے
پتھر میں بھی دیا غذا سو وہ اللہ کیسا ہوئینگا
نظم ’’ کر م ہو نا تیرا ‘‘ کے چند اشعار ملا حظہ ہوں جس میں انہوں نے خدا کا کرم مانگا ہے چو نکہ خدا کا کرم اور اس کی رحمت ہی سے انسان دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
کرم ہونا تیرا انصاف نکوّ رے میرے مولا
تیرے انصاف سے دوزح میرے گلیّ میں آجاتی
بدی کا جھک گیا پڑلا ترازو کا کا تو کیا غم ہے
تیری رحمت بھی میرے دو سرے پڑلے میں آجاتی
انہوں نے حضور اقدسؐ سے بے پناہ عقیدت تھی ۔ وہ انہیں ہدایت کا سر چشمہ اور کامیابی کی منزل سمجھتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ انسان محمدؐ کی اتباع کرنے پر ہی اپنے منزل مقصود تک پہنچ سکے گا ۔ ساری کراہتی ہوئی انسانیت کا علاج اتباعِ رسول میں پوشیدہ ہے ۔ ان کا ایک شعر عام اردو میں ہے جو یہاں صرف ان کی شخصیت پر نظر ڈالنے کے لئے پیش کیا جارہا ہے۔
میں نبیؐ کے پاس جب پہنچا تو دل کو یوں لگا
جیسا اک زخمی کبوتر گھونسلے میں آگیا
حمایت اللہ کی دکنی شاعری میں سما جی اور سیاسی موضو عات بھی ملتے ہیں۔ جس میں انہوں نے سماج کے ٹھیکہ داروں پر اور سیاستدانوں پر گہراوار کیا ہے ۔ سیاستدانو ں کی منافقت اور ان کی دوغلی پالیسیوں پر طنز کا نشتر چلایا ہے ۔ نظم ’’ نانی ماں کیا ہے کی کیا نئیں کی ‘‘ ان کی بہتر ین سیاسی نظموں میں شمار کی جاتی ہے ۔اس میں سیاسی لیڈروں کی ڈپلو میسی کو موضوع سخن بنایا گیا ہے ۔ اس نظم کا انداز بیان دلچسپ اور اثر آفرین ہے ۔
ہم کب بھی نئیں دیکھے یہ کیسے باتاں
جی نانی ماں کیاہے کی کیانئیں کی
اجی کیسے لیڈر تھے نانی تُمارے
فکر کر کو جنتا کی مرگئے بچارے
ہمارے بھی لیڈر ہیں گبرو نرالے
ڈباڈالے جنتا کو خود ہیں کنارے
الیکشن میں آنے پلاناں بنارئیں
پلاناں بناکو فساداں کرارئیں
فساداں کراکو کمیٹیاں بٹھارائیں
کمیٹیاں بٹھا کو دلو ں کو ملا رئیں
مرگئے سو مردوں کے کررئیں علاجاں
جی نانی ماں کیا ہے کی کیانئیں کی
انہوں نے اپنی شاعری میں علماء اور مرشدوں کی ظا ہر داری پر گہرا طنز کیا ہے ۔ اکثر طنز یہ ومزاحیہ شعراء نے اپنے کلام میں زاہدوں پر چوٹ کی ہے ۔ اس روایت کو حمایت اللہ نے برقرار رکھاّ ہے ۔ ان کے طنز کا انداز نرالا ہے ۔
مرشد تُمے نماز پڑے کس کے واسطے
مطلب کے واسطے پڑے دنیا کے واسط
اللہ کے واسطے پڑو بولے تو کیاجی تم
حوروں کے واسطے پڑے جنت کے واسطے
انہوں نے اپنے کلام میں مختلف النوع مضامین پر اظہار خیال کیا ہے ۔ انہیں ہندوستان اور یہاں رہنے بسنے والے تمام باشندوں سے محبت ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ مذہبی رواداری اور اخوت و بھائی چارگی کا پیغام دیا ہے ۔ وہ تمام ہندوستانیوں کو مذہب کے نام پر لڑنے جھگڑنے سے منع کرتے ہیں اور امن و شانتی کا درس دیتے ہیں ۔ وہ ایک محب و طن شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں حب الوطنی اور انسانیت پو شیدہ ہے ۔ انیسہ سلطانہ لکھتی ہیں۔
’’ حما یت اللہ کی شاعری کے مختصر سے سرمایہ میں ایسے اشعار مل جا تے ہیں جو ان کی درد مندی اور سچے خلوص کے آئینہ دار ہیں۔ اس خلوص کا دائرہ دوست احباب یا رشتہ داروں تک محدود نہیں بلکہ ان کی ہمدردی سارے ہم وطنوں کے ساتھ ہے ‘‘ ۔ (حیدر آباد میں طنز و مزاح کی نشو نما از انیسہ سلطانہ صفحہ نمبر ۔ ۱۰۳)
جب مذہب کے نام پر ملک میں جھگڑے ہو تے ہیں تو انہیں بہت افسوس ہو تا ہے ۔ وہ غمگین ہوجاتے ہیں۔ اور ملک کے بگڑے ہو ئے حالات کو دردمندی کے ساتھ وہ اسطرح قلمبند کرتے ہیں۔اس نظم میں انہوں نے مو جو دہ اردو اور دکنی اردو کے امتزاج سے کام لیا ہے ۔
اے میرے بھارت کے دن کیسا بگڑے
ذری ذری باتوں پہ دن رات جھگڑے
زبانوں پہ جھگڑے علاقوں پہ جھگڑے
دلوں کے بھی ٹکرے ملک کے بھی ٹکڑے
سستا لہو ہے مہنگے انا جاں
جی نانی ماں کیاہے کی کیانئیں کی
نظم ’’ آنکھوں کا عطیہ ‘‘ ان کی اپنے وطن سے محبت کا ثبوت ہے ۔ ایک فرد اپنی آنکھیں عطیہ دینے کے لئے تیار ہے لیکن اس کی ایک شرط ہے ۔ شاعر کی زبانی سنئیے۔ع
مگر ایکچ ہے شرط بس وطن گلزار ہوجانا
محبت، اتحاد اور پیار کی بھر مار ہوجانا
امن آنکھوں کو دکھلا دیو میرا انعام ہو جائینگا
تڑپتی سو روحانی کو میری آرام ہو جائینگا
انہوں نے بنی نوع انسان کو انسانیت سکھلا نے کی کوشش کی۔ وہ ایک درد مند دل رکھتے تھے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آئے ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو جائے ۔ حر ص، طمع، لالچ اور خود غرض جیسی عام برائیوں اور انسانی کمزریوں کے وہ مخالف تھے ۔ انسان ہمدردی کی صفت اپنے اندر پیدا کرکے ان تمام برائیوں سے باز آسکتا ہے ۔ ان کا درد مند دل دوسروں کی مصیبتوں پر کڑھتا ہے۔
ارے کُتاّ بھی اپنے واسط جیتاجی دنیا میں
ہیں انساناں تو انسانوں کے کام آناجی دنیا میں
ایک جگہ و تکبر سے باز آنے کی تصیحت کر تے ہیں ۔
تکبرّ کی ٹُٹینگی ڈور، یہ جھولے پہ مت جھولو
یہ دنیا چاردن کی ہے تُمیں اِتّے پو مت پھولو
ہندوستان میں ذات پات کا نظام بھی کافی جڑپکڑ چکا ہے ۔ لو گ دھرم اور ذات کے نام پر ایک دوسرے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ نچلی ذات یا پست ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر مختلف قسم کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں ان کے دلوں کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔ با لخصوص ہندوستان کے دیہاتوں میں چھوت چھات اور ذات پات کا نظام بہت سخت ہوتا ہے ۔ پست طبقات پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں ۔ حمایت اللہ کے ہاں سماج کا مشاہدہ کا فی عمیق ہے ۔ وہ اپنی شاعری میں چھوت چھات اور ذات پات کی مخالفت کرتے ہیں ۔
میں بڑے لوگوں کے گھر کب بھی نئیں جانا کتے
میں ہریجن ہوں میں دیول میں بھی نئیں جانا کتے
کل صبوں کو دو پجاری آکو یہ بولے مجھے
ایک نوی دیول بنانے بھرکو میں آنا کتے
حمایت اللہ کے ہاں نہ صرف دنیا بلکہ دینی مضامین بھی نظر آتے ہیں ۔ ان کا یہ یقین ہے بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان کے اعمال ہی اس کو آخرت کی زندگی میں فائدہ پہو نچا تے ہیں ۔ عقیدت اور محبت کی و جہ سے کئے جانے والے افعال سے مرحومین کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا ۔ یہ افعال صرف عقیدت اور محبت کے اظہار کے لئے کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے دکنی ضرب المثل کے ذریعہ اس حقیقت کو سمجھا نے کی کوشش کی ہے ۔ ع
قبر کے گُھپ اندھیرے میں برگ بھررؤں میں کرنی کا
قبر پو تم چراغاں لا کو سُلگائے تو کیا ہوتا
حمایت اللہ آزادی کے بعد کے دکنی شعراء میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ جس پود ے کو نذیر احمد دہقانیؔ ، اعجاز حسین کھٹاّ ؔ اور علی ؔ صائب میاں نے لگایا تھا ۔ اس کو آبیاری کر نے والے شعراء میں حمایت اللہ بھی شامل ہیں ۔ سلیمان خطیبؔ ، ڈنڈاؔ اور ڈھکنّ ؔ کے شعری مجموعوں کے بعد حمایت اللہ کا شعری مجمو عہ ’’ دھنمڑی‘‘ اور ان کی دکنی شاعری نے بڑی حد تک جدید دکنی شاعری اور زبان کو متوازن بنادیا ۔ انہوں نے جدید دکنی زبان میں کئی غزلیات کہیں جن میں عشقیہ جذبات کے ساتھ ساتھ ہمیں طنزومزاح کا عنصر بھی ملتا ہے ۔سادگی، روانی اور واقعیت نگاری قدیم دکنی شعراء کا طرّۂ امتیاز رہا ہے۔ محمد قلیؔ ، غواصیؔ ، لطفیؔ ، مشتاقؔ وغیرہ شعراء کے پا س ہمیں یہی اندازبیان ملتا ہے ۔ دکنی شاعری کے یہ بنیادی اوصاف ہیں۔ جنہیں جدید دکنی شعراء نے بھی برقرار رکھا ۔ حمایت اللہؔ کے عشقیہ کلام میں ہمیں یہ و صف نظر آتا ہے ۔ ع
رُس کو میں جانے لگا تو روکنے
بیچ دروازے میں اڑنا آئی رے
کھیل چھپنے کا کبھی کھیلے توہم
چپ کا چپ آکو سنپڑنا آئی رے
لڑکیاں بہت ہی جذبا تی ہو تی ہیں ۔ اور محبوب کی جدائی سے بے چین ہوکر وہ اپنے عشق کا ثبوت اس طرح پیش کرتی ہیں ۔ شاعر کی زبانی ملا حظہ کیجئے۔
میں نئیں آیا تو ساری رات آنکھیوں میں سرا ڈالے
ہوئی کٹیف تو تکیوں کو آنسو سے بھرا ڈالے
حمایت اللہ کی شاعری میں ہمیں سماجی اور معاشرتی مسائل بھی ملیں گے۔ بے روزگاری ، مذہب بیزاری، فیشن پرستی اور مغر بی تہذیب کی تقلید دور حاضر کے بہت بڑے مسائل ہیں جو آج کے معاشرہ کو کھو کھلا کر رہے ہیں ۔ فیشن پرستی اور مغربی تہذیب کی تقلید بظاہر کوئی بڑے مسائل نظر نہیں آتے لیکن اس کے اثرات دیرپا ہو تے ہیں ۔ دھیرے دھیرے اس سے ملک کے نوجوانوں گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مغربی تہذیب اور فیشن پرستی میں ہی لوگ اپنی کامیابی کو ڈھونڈھ رہے ہیں ۔ جو انہیں ناکامی اور گمنامی کی سوا کچھ بھی نہیں دے سکتی ۔ ان کی شاعری میں ہمیں گھریلو مسائل، چھوٹی چھوٹی باتیں ملتی ہیں جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سما ج پر ان کا مشاہدہ کتنا گہرا ہے ۔ انہوں نے آجکل کے نو جوانوں پر طنز کیا ہے جو فیشن اور نت نئے لباس کے نام پرگمراہی کا شکار ہیں ۔ ان کا یہ دکنی چوّا ملا حظہ ہو ۔
بلوزوں کا جو کپڑا ہے اُسے بشرٹ کرلیتیں
اگر چھوٹا پڑا بشرٹ تو اِن شرٹ کرلیتیں
ارے فیشن تو ماڈرن عاشقوں کی رکھ لیا عزت
پھٹا دامن تو کیا پتلون ہے ان شرٹ کرلیتیں
نظم ’’ عید مبارک‘‘میں انہوں نے سماج میں پائی جانے والی غریت اور بے روزگاری کا ذکر کیا ہے ۔ غربت کی وجہ سے انسان کی زندگی میں کوئی خوشی اور مسرت باقی نہیں رہتی ۔ زندگی میں آنے والے خوبصورت اور یادگار لمحے بھی انہیں مایوسی میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ بالخصو ص عید کے مو قع پر معاشی پسماندگی کا یہ احساس اور کرب مزید بڑھ جاتا ہے ۔ شاعر کا کمال یہی ہے کہ وہ جگ بیتی کو آپ بیتی کے روپ میں پیش کرتا ہے۔
بھکیّ اتڑیوں پو خوشی آؤ کتو آتی کیا
کیا کروں لے کو تیری عید مبارک باشا
پیٹ کی جھونپڑی ویران ہے آباد کرو
پھر مجھے بھائینگی یہ عید مبارک باشا
جب غریبی اور مفلسی ختم وہ نے کا نام نہیں لیتی تو انسان اپنی قسمت سے مایوس ہو جاتا ہے ۔ یہ قطعہ ملاحظہ ہو ۔
زندگی اپنی تو نہیں ہے دل سے
قسمتاں کاں سے بدلتئیں تل سے
مری قسمت کو لکھا سو والا
کالے کاغذ پو لکھا پنسل سے
حمایت اللہ کی حِس مزاح کافی بلند تھی وہ نہ صرف سیاستدانوں، سماج کے ٹھیکیداروں اورانسانوں کی کمزوریوں کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ مرزا غالبؔ کی طرح کہیں کہیں خدا سے بھی شوخی کر تے نظر آتے ہیں ۔ ظرافت اور شوخی میں دکنی زبان کے استعمال سے شعر کا حسن دو بالا ہو جاتا ہے ۔ یہاں ایک دکنی قطعہ پیش کیا جارہا ہے۔
عزت دیا سو تو مجھے ذلت دیا سو تو
اچھی بری ہے جو بھی ہے قسمت دیا سو تو
پھر یہ قبر میں پوچھنا کئیکو رکھا خدا
ہم کو برائی کرنے کی ہمت دیا سو تو
حمایت اللہ نے عشقیہ جذبات کو بھی مزاحیہ رنگ میں پیش کیا ۔ انہوں نے دکنی زبان میں غزلیات لکھیں جن میں طنز سے زیادہ مزاح کا پہلو نمایاں ہے ۔ انہوں نے ایک قطعہ میں اپنی معشوقہ سے شکایت کی ہے ۔ جس میں مزاح کا عنصر غالب ہے ۔
آنکھوں کو سب جوڑے جوڑے ملتیں سو دکھ جاتیں
ار مانوں کے دھندلے پتلے دل میں غوطے کھاتیں
تم بی ملنے آتیں پن کی ایسا مل کو جاتیں
کھتوں پو سے ابراں جیسا بن بر سے اڑ جاتیں
’’نانی ماں‘‘ ’’‘ سوکن،‘‘ دکنی شوہر لکھنؤی بیوی’’ میک اپ کا ڈبہ‘‘’’ اردو کی کہانی‘‘ اور’’ آئی رے‘‘ و غیرہ حمایت اللہ کی بہترین نظمیں تصور کی جاتی ہیں ۔ انہوں نے میک اپ کا ڈبہ اور نانی ماں کے ذریعہ بہت زیادہ شہرت حاصل کی۔ انہوں نے مختلف نوعیت کے مضامین پر غزلیں، چوّے ، چھکیّ او نظمیں لکھیں۔ انہیں پیروڈیاں لکھنے پر بھی قدرت حاصل ہے۔ انہوں نے نہ صرف طنزیہ و مزاحیہ شعر کہے ہیں بلکہ سنجیدہ موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ۔ اور ان موضوعات کے ساتھ بھرپور انصاف کیا ہے ۔ ان کا طنز و مزاحیہ سماج اور معاشرہ کی اصلاح چاہتا ہے۔
حما یت اللہ کی شاعری میں ٹھیٹھ دکنی زبان کا استعمال ہوا ہے ۔ لیکن ان کا اسلوب اور لب و لہجہ دکنی زبان کے ساتھ ساتھ عام بول چال کی زبان کا سا ہوتا ہے ۔ ان کے شعری مجموعہ ’’ دھنمڑی‘‘ میں ایک دو نظموں کے علاوہ پورا کلام دکنی میں ہے ۔آج ہم دکنی کے جدید شعراء اور ان کی زبان کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بہت سے دکنی لفظ ماضی کے دھندلکے میں گم ہو چکے ہیں۔ البتہ بول چال میں یہ الفاظ مستعمل ہیں۔ ان قدیم دکنی الفاظ کی نوعیت اور ہئیت میں مقامی بولیوں اور موجودہ اردو کے عام ہونے کی وجہ سے کچھ تبدیلیاں ضرور ہوئی ہیں ۔ لسانی تغیر اور تبدیلی کے ساتھ یہ الفاظ دکن کے علا قے میں آج بھی بو لے جا تے ہیں۔
حما یت اللہ کی شاعری میں ہمیں دکنی محاوروں ، ضرب الامثال کا استعمال کم نظر آتا ہے۔ چو نکہ وہ شہر حیدرآباد کے پروردہ ہیں ۔ البتہ انہیں زبان پر قدرت حاصل ہے ۔ دکنی لب و لہجہ اور اسلوب ہی ان کی پہچان ہے ۔ ان کا سماجی مثاہدہ بھی گہرا ہے ۔ انہوں نے عام لوگوں کے مسائل کو اپنے اشعار میں پیش کیا ۔ یہی ان کا کمال ہے ۔قارئین کو پڑھتے ہو ئے یہ محسو س ہونا چاہئے کہ یہ ان کا اپنا ذاتی غم اور تجربہ و مشاہدہ ہے ۔ جب شاعر جگ بیتی کو آپ بیتی بناکر پیش کرنے کا ملکہ حاصل کرلیتا ہے تو وہ عوام کا پسندیدہ شاعر بن جاتا ہے۔
***
Dr.Azmathullah
Asst.Professor of Urdu
Nagarjuna Govt.Degree College
Nalgonda – TS
mobile: 9491549259