قسط:3- دورِمکّی میں ایمان کی تبلیغ و تعلیم میں قرآن کا کردار: – مفتی کلیم رحمانی

Share

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط:3
دورِمکّی میں ایمان کی تبلیغ و تعلیم میں قرآن کا کردار

مفتی کلیم رحمانی
موبائیل نمبر : 09850331536

——-
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ دوسری قسط کے لیے کلک کریں
——-
یوں تو نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی حیاتِ طیبّہ کے دونوں ہی دور یعنی دورِ مکی اور دورِ مدنی قرآن کے پُراثر کردار سے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن دورِ مکی میں قرآن کا پُراثر کردار کچھ زیادہ ہی نمایاں نظر آتا ہے اس عنوان کو واضح کرنے کی ضرورت ا س لیے ہے چونکہ آج بعض دینی حلقوں کی طرف سے مکی دور کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے گویاکہ دورِ مکی تعلیماتِ قرآنی سے خالی تھا اور یہ کہ ایمان کی تبلیغ و تعلیم میں قرآنی تعلیم کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے اور اپنے اس موقف کے ثبوت میں وہ دورِ مکّی کو پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مکہّ میں تیرہ سال تک صرف ایمان کی دعوت دی اور ایمان پر ہی محنت کروائی۔

اس میں شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے پورے دورِ مکّی میں بحیثیت مجموعی ایمان ہی کی دعوت دی اور ایمان پر ہی محنت کروائی لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ سب کچھ قرآنی تعلیم کی رہنمائی میں انجام دیا اور آپؐ ایک لمحہ بھی تعلیمِ قرآن سے بے نیاز نہ تھے ۔ دورِ مکّی میں نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا بنیادی کام تلاش کیا جائے تو قرآن کے پڑھنے پڑھانے سُننے سُنانے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ ایمان کی حقیقت قرآن میں مضمر ہے جو علمِ قرآن سے جتنا زیادہ واقف ہوگا و ہ اتنا ہی حقیقتِ ایمان سے واقف ہوگا اور جو علمِ قرآن سے جتنا بے تعلق ہوگا وہ اُتناہی حقیقتِ ایمان سے بے تعلق ہوگا۔تکمیل ایمان دراصل تعلیمِ قرآن پر منحصر ہے اس لحاظ سے دورِ مکّی کوپہلے دورِ قرآنی ہونے کا شرف حاصل ہے بعد میں دورِ ایمانی۔
دینِ اسلام میں قرآن و ایمان کے درمیان وہی تعلق ہے جو ایک تالاب اور نہر میں ہوتا ہے۔ جس طرح تالاب سے نہر کا تعلق ختم ہوجانے سے نہر خشک ہوجا تی ہے اسی طرح قرآن سے ایمان کا تعلق کٹ جانے سے ایمان خشک ہوجاتا ہے۔ اور قرآنِ مجید کے سورہ شوریٰ کی آیت نمبر ۵۲ قرآن و ایمان کے متعلق اسی تعلق کو پیش کرتی ہے۔ جس میں اللہ تعالی نے معلّم انسانیت آنحضور ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: (وَکَذٰلِکَ اَوْحَےْنَا اِلَےْکَ رُوحاً مِّنْ اَمْرِنَا مَاکُنْتَ تَدْرِی مَا الکِتٰبُ وَلاَ الاَِیمَانُ وَلَکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوراً نَّھدِی بِہِ مَنْ نَّشَآءُ مِن
عِِبَادِناَ (سورہ شوریٰ آیت ۵۲؂) ترجمہ : (’’ اور اسی طرح بھیجا ہم نے آپؐ کی طرف روح کو ہمارے حکم سے ، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان، لیکن ہم نے اس کو روشنی بنایا۔ ہم اس کے ذریعہ سے ہمارے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں‘‘۔)
اس آیت کی تفسیر میں ایک جلیل القدر مفسر علامہ شبیر احمد عثمانی فاضل دیوبند نے تحریر فرمایا ہے کہ یہاں روح سے مراد قرآن کریم ہے ساتھ ہی اس جگہ موصوف مفسر نے یہ بھی تحریر کیا کہ یہاں بعض مفسرین کی رائے میں روح سے مراد جبریل امین ہے لیکن موصوف مفسر نے یہیں یہ بھی تحریر کیا کہ یہاں خود قرآن کریم کو روح سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ اس کی تاثیر سے مردہ قلوب زندہ ہوتے ہیں اور انسان کو ابدی حیات نصیب ہوتی ہے، دیکھ لو جو قومیں کفر و ظلم اور بداخلاقی کی موت مرچکی تھیں کس طرح قرآن نے ان میں جان تازہ ڈال دی۔ ( مترجم شیخ الہند صفحہ ۶۳۴)
مذکورہ آیت پر غور کرنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ موصوف مفسر کی تفسیر ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ خود اس آیت میں دو ایسے واضح قرینے موجود ہیں جن سے صاف یہ پتہ چلتا ہے کہ آیت میں روح سے مراد قرآن ہے۔ اس لئے کہ اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہم نے روح کو نور بنایا ہم اس کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں، اور نورو ہدایت قرآن کی دومستقل صفتیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی مقامات پر ذکر کیا، اس لئے مذکورہ آیت میں روح سے مراد قرآن ہی ہے نہ کہ جبریلِ امین۔ اس سلسلہ میں اگر بعض مفسرین کی رائے کو درست بھی مان لیا جائے تب بھی آیت میں کہی ہوئی بات کی اصل مراد قرآن ہی کے حق میں جاتی ہے، کیوں کہ جبریلِ امین کو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے پاس قرآن ہی تو دے کر بھیجا تھا۔ اس لحاظ سے ہر دو صورت میں آیت کا مطلب یہی ہوا کہ ائے محمد ﷺ ہم نے آپؐ کی طرف قرآنِ کریم کو بھیجا اس سے پہلے آپؐ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔ البتہ نبوت سے پہلے بھی آپؐ سے ایمان کے خلاف کوئی بھی فعل سرزد نہیں ہوا۔ کیونکہ آپؐنبوت سے پہلے بھی معصوم و بے گناہ تھے لیکن جہاں تک حقیقتِ ایمان اور اعمالِ ایمان سے واقفیت کا تعلق ہے تو وہ آپ ؐ کو قرآن کے ذریعہ ہی حاصل ہوئی۔ قرآن کی اس آیت سے سختی کے ساتھ اس خیال کی تردید ہوجاتی ہے۔ جس میں کہا جاتا ہے کہ
دین میں تعلیمِ ایمان کا مرحلہ پہلے ہے بعد میں تعلیمِ قرآن کا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تعلیمِ ایمان تعلیمِ قرآن سے منسلک ہے۔
تعلیمِ ایمان کو تعلیمِ قرآن سے منسلک قرار دینے کی معر وضات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان کو قرآن کی تلاوت کرتے ہی آنا چاہئے یا مسلمان کو قرآن کا براہ راست ترجمہ کرنے آنا ہی چاہئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایمانی عقائدو اعمال کے متعلق جتنے احکام نازل کیے ہیں ان سے واقف ہونا ضروری ہے اوریہ ہر مسلمان کے بس میں ہے۔کیوں کہ قرآنِ مجید کے جاننے کے مختلف ذرائع دنیا میں ہر وقت موجود رہیں گے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر کوئی غیر عربی داں شخص زندگی بھر قرآن کے الفاظ کی تلاوت کرتا رہے لیکن دیگر ذرائع سے قرآن میں بیان کئے ہوئے ایمانی عقائد و اعمال کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہ کرے تو صرف تلاوتِ قرآن کی بناء پر اسے ایمان کی حقیقت میسر نہیں آسکتی یہ بات اور ہے کہ صرف تلاوت پر بھی اسے اجر و ثواب مل جائے۔
دورِ مکّی میں ایمان کی تبلیغ و تعلیم میں قرآن کا کتنا حصہ تھا نزولِ قرآن کی ترتیب سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ قرآن کی کل ایک سو چودہ ( ۱۱۴) سورتوں میں سے چھیاسی(۸۶) سورتیں دورِ مکّی میں نازل ہوئیں اور اٹھائیس(۲۸) سورتیں دورِ مدنی میں۔ قرآن کی کل چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ(۶۶۶۶) آیات میں سے پانچ ہزار پچانوے آیات دورِ مکّی کی نازل شدہ ہیں اور پندرہ سو اکہتر (۱۵۷۱) آیات دورِ مدنی کی نازل شدہ۔ سورتوں اور آیات کے تناسب سے دیکھا جائے تو تقریباً تین چوتھائی قرآن دورِ مکّی میں نازل ہوا اور ایک چوتھائی دورِ مدنی میں اس میں شک نہیں کہ مکی آیات و سورتیں مدنی آیات و سورتوں کی بہ نسبت ذرا چھوٹی ہیں، لیکن اس تفاوت کو دور کرکے دیکھا جائے تب بھی دو تہائی قرآن کا نزول دورِ مکّی کے حصّہ میں آتا ہے اور ایک تہائی دورِ مدنی کے حصّہ میں۔ دورِ مکّی میں ایمان کی تبلیغ و اشاعت اور صحابہ کرامؓ کی تعلیم و تربیت میں قرآن کا کتنا عظیم کردار تھا ایک مضمون میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا بطور نمونہ چند واقعات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جن سے معلوم ہوگا کہ دورِ مکّی میں ایمان کی تبلیغ و اشاعت میں قرآن کا کتنا موثر کردار تھا۔ (۱)مکہ معظّمہ میں جب رفتہ رفتہ دینِ اسلام کی دعوت بڑھنے لگی تو مکہ کے سرداروں نے مشورہ کرکے اپنے میں سے ایک سردار عتبہ بن
ربیعہ کو آنحضور ﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ آپؐ کواس دعوت سے باز آنے کیلئے کہے، عتبہ آپؐ کے پاس آیا اور دعوتِ اسلام سے باز آنے کے عوض کئی چیزوں کی پیشکش کی۔ آپؐ نے عتبہ کی باتوں کو سنا اور جب عتبہ خاموش ہوگیا تو آپؐ نے اس کے سامنے سورہٰ حٰمٓ السجدہ کی آیات تلاوت کی عتبہ پر ان آیاتِ قرآنی کا اتنا زبردست اثر ہوا کہ جب وہ قریش کے سرداروں کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگے کہ ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ عتبہ بدلی ہوئی حالت سے واپس لوٹا ہے۔ اس کے بعد عتبہ نے قریش کے سرداروں سے کہا : میری رائے یہ ہے کہ تم محمدؐ کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور اس معاملہ میں بالکل غیر جانبدار بن جاؤ اگر محمد ؐ اس دعوت کے نتیجہ میں عرب پر غالب آگیا تو یہ آخر تمہاری ہی قوم کا فرد ہے اس لئے اس کی کامیابی تمہاری کامیابی شمار ہوگی۔ اور اگر وہ اس دعوت کی وجہ سے تباہ ہوگیا تب بھی تمہارا کوئی نقصان ہونے والا نہیں ہے۔ عتبہ کی یہ باتیں سن کر قریش کے سرداروں نے کہا : معلوم ہوتا ہے محمد ؐ نے تم پر بھی جادو کردیا۔ عتبہ نے کہا : تمہارے جو جی میں آئے کرو، میں نے اپنی رائے کا اظہار کردیا۔ ( ماخوذ تاریخِ اسلام جلد اوّل) ’’مصنف مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی‘‘ اس واقعہ سے قرآن کی تاثیر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جو مشرک سردار نبی ؐ سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے آیا تھا ، قرآن کی چند آیات سننے کے بعد قریش سے مطالبہ کررہا ہے کہ ’’ محمدؐ کو اس کے حال پر چھوڑ دو ‘‘۔
(۲) دورِ مکی ہی کا واقعہ ہے جب قریشِ مکّہ کی طرف سے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ بڑھ گیا تو حضور ؐ نے مسلمانوں کو حبش کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کے نتیجہ میں تقریباً بیاسی (۸۲) افراد حضرت جعفرؓ کی قیادت میں حبش چلے گئے اور وہاں رہنے لگے۔ قریش مکہ کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے حبش کے بادشاہ نجاشی کے پاس دو سفیر بھیجے اور مطالبہ کیا کہ ان مسلمانوں کو ہمارے ساتھ واپس کردو ! نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ چنانچہ تمام مسلمان حضرت جعفرؓ کی قیادت میں نجاشی کے دربار میں حاضر ہوگئے۔ حضر ت جعفرؓ نے نجاشی کے دربار میں ایک تقریر کی جس میں انھوں نے اپنی اور تمام مسلمانوں کی سابقہ زندگی پر مختصر روشنی ڈالی اور آنحضرتؐ کی رسالت کے متعلق چند باتیں پیش کی۔ نجاشی نے کہا کہ تمہارے نبیؐ پر جو کلام نازل ہوا ہے اس میں سے کچھ سناؤ، حضرت جعفرؓ نے سورۂ مریم کی تلاوت شروع کی : قرآن کی آیا ت سن کر نجاشی اور تمام
درباریوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ، نجاشی نے کہا : اس کلام میں وہی رنگ ہے جو حضرت موسیٰ کی توریت میں ہے۔ اس کے بعد نجاشی نے قریش کے سفیروں سے کہا : کہ میں ان لوگوں کو کبھی بھی تمہارے حوالہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ قریش کے یہ دونوں سفیر ناکام و نامراد مکہ واپس آگئے۔ اس واقعہ میں بھی قرآن ہی کا کردار سامنے آتا ہے اس لئے کہ قرآن کی آیات سن کر ہی نجاشی کا دل مسلمانوں کی طرف مائل ہوا۔ یہاں تک کہ وہ خود بھی مسلمان ہوگیا۔ (ماخوذ تاریخِ اسلام جلد اوّل)
(۳) مکی دور ہی کا واقعہ ہے قریش مکہ نے ایک مرتبہ مشورہ کیا اور کہا : کون ہے جو محمدؐ کا خاتمہ کردے حضرت عمر فاروقؓ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ، کہا میں اس کام کو انجام دیتا ہوں، یہ کہہ کر ہاتھ میں برہنہ تلوار لیے ہوئے محمد ﷺ کو تلاش کرنے نکلے، راستہ میں نعیم بن عبداللہؓ نے پوچھا کدھر کا ارادہ ہے ؟ حضرت عمرؓ نے کہا محمدﷺ کو قتل کرنے جارہا ہوں ، حضرت نعیمؓ نے کہا کیا تمہیں بنی ہاشم کے انتقام کا ڈر نہیں ! حضرت عمرؓ نے کہا : معلوم ہوتا ہے ، تو بھی محمد ﷺ کا حمایتی ہے۔ یہ کہہ کر تلوار سونت لی حضرت نعیمؓ نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو آپ کی بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں۔ یہ نشتر زن جواب سن کر اسی وقت حضرت عمرؓ بہن کے گھر کی طرف چل دیئے۔حضرت خباب بن اَرت، حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہؓ اور ان کے شوہر حضرت سعید بن زیدؓ کوقر آن شریف کی تعلیم دے رہے تھے۔ حضرت عمرؓ کے آنے کی آہٹ سن کر حضرت خبابؓ گھر کے ایک کونے میں چھُپ گئے ، حضرت عمرؓ گھر میں داخل ہوتے ہی اپنے بہنوئی کو مارنے لگے ، بہن چھڑانے لگی تو بہن کو بھی اس زور سے طمانچہ مارا کہ چہرہ سے خون جاری ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد جب حضرت عمرؓ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو بہن سے کہا اچھا مجھے وہ کلام دکھلاؤ جو تم پڑھ رہے تھے اور جس کی آواز میں نے سنی تھی ، بہن نے کہا پہلے تم غسل کرلو! حضرت عمرؓ نے غسل کیا اور جن اوراق پر قرآن مجید کی آیات لکھی ہوئی تھیں ہاتھ میں لیکر پڑھنے لگے۔ چند ہی آیا ت پڑھی تھی کہ بول اُٹھے کیسا اچھا ہے یہ کلام! یہ سنتے ہی حضرت خبابؓ جو اندر چھپے ہوئے تھے۔ باہر نکل آئے اور مزید سورۂ طہٰ کا پہلا رکوع سنایا۔ حضرت عمرؓ آیات سن رہے تھے اور روتے جارہے تھے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا : مجھے حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں لے چلو تاکہ میں باضابطہ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کروں! ساتھ ہی اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دورِ مکی میں کلمہ پڑھنے کے بعد صحابہ کرامؓ کا اصل کام قرآن پڑھنا اور پڑھانا تھا۔
( ماخوذ تاریخِ اسلام جلد اوّل)
(۴) نبوت کا دسواں سال اسلامی تاریخ میں عام الحزن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیونکہ اس سال ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اورآپؐ کے چچا ابو طالب کا وصال ہوا اسی سال حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی قریش کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت کا ارادہ کیا اور مکہ سے نکل گئے۔ راستہ میں چار منزل کے فاصلے پر برک الغماد کے پاس قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدّغنہ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ کا ارادہ جاننے کے بعد ابن الدغنہ نے کہا: میں آپؓ کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ آپؓ واپس چلئے اور مکہ میں ہی اپنے رب کی عبادت کریں۔ حضرت ابوبکرؓ مکہ میں آئے ، ابن الدغنہ نے مکہ میں آکر اعلان کردیا کہ میں نے ابوبکرؓ کو پناہ دی ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے اپنے مکان کے صحن میں ایک چبوترہ بطور مسجد کے بنالیا اور وہیں قرآن شریف پڑھا کرتے، حضر ت ابوبکرؓ کی تلاوت کا اثر محلّہ کی عورتوں اور بچوں پر بہت زیادہ ہونے لگا تو قریش ابن الدغنہ کے پاس آئے اور کہا کہ ابوبکرؓ کو اس طرح قرآن کی تلاوت کرنے سے روکو! یا پھر اپنی پناہ واپس لے لو! ابن الدغنہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور اس طرح قرآن پڑھنے سے منع کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا ’’ میں قرآن پڑھنے سے نہیں رُک سکتا اگر آپ کو اپنی پناہ واپس لینا ہو تو لے لو! ابن الدغنہ نے پناہ واپس لے لی۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا ’’ میں اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ۔ ( ماخوذ تاریخِ اسلام جلد اوّل)
اس واقعہ سے جہاں اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ دورِ مکی میں کلمہ پڑھنے کے بعد صحابہ کرامؓ کا اصل مشغلہ قرآن پڑھنا تھا تو وہیں اس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ دورِ مکّی میں مشرکین کی پوری کوشش اسی پر صرف ہورہی تھی کہ کسی طرح لوگوں کے کانوں میں قرآن کی آواز نہ پڑے کیونکہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ جو بھی قرآن سن لیتا ہے، وہ ایمان قبول کرلیتا ہے
(۵) نبوت کے گیارہویں سال کا واقعہ مدینہ کا رہنے والا قبیلہ اوس کا ایک شخص سوید بن صامت مکہ آیا ، اتفاقاً اس کی ملاقات آنحضور ﷺ سے ہو گئی ۔ آ پ ؐ نے اسے اسلا م کی دعوت دی اس نے کہا شاید آپؐ کے پاس بھی وہی ہے جو میرے پاس ہے آپؐ نے فرمایا تیرے پاس کیا ہے ؟ اس نے کہا ’’حکمت لقمان‘‘ آپ ؐ نے فرمایا : سناؤ اس نے چند اشعار پڑھے۔ آپؐ نے فرمایا : یہ اچھا کلام ہے ‘‘ لیکن میرے پا س قرآن ہے جو اس سے بہتر ہے، پھر آپؐ نے اس کو قرآن کی آیات پڑھ کر سنائی اس نے قرآن کی آیات سن کر اقرار کیا کہ واقعی یہ اچھا کلام ہے اور اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ (ماخوذ تاریخِ اسلام جلد اوّل)
(۶) نبوت کے گیارہویں سال ہی کا واقعہ ہے مدینہ کا ایک شخص انس بن رافع اپنی قوم بنو عبدالاشہل کے چند لوگوں کو ہمراہ لے کر مکہ آیا تاکہ قریش مکہ سے قبیلہ خزرج کے مقابلہ میں معاہدہ کرے اس وفد کی خبر سن کر آنحضرتؐ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا میرے پاس ایک ایسی چیز ہے جس میں تم سب کی بھلائی ہے۔ اگر تم چاہو تو پیش کروں ؟ انھوں نے کہا : پیش کریں آپؐ نے فرمایا : میں لوگوں کی ہدایت و رہبری کیلئے بھیجا گیا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتاب نازل کی ہے، پھر آپؐ نے انھیں قرآن مجید کا کچھ حصہ پڑھ کر سنایا ، اس وفد میں ایک نوجوان ایاس بن معاذ تھا۔ اس نے جب آنحضرتؐ سے قرآن سنا تو بے تابانہ کہا کہ : اے میرے ساتھیو! تم جس مقصد سے مدینہ سے آئے ہو یہ چیز اس سے بہتر ہے اسے قبول کرلو، لیکن اس کے ساتھیوں نے اسے خاموش کردیا۔ پھر یہ وفد مدینہ واپس چلا گیا اور چند روز کے بعد ایاس بن معاذ کا انتقال ہوگیا ، انتقال سے پہلے اس نے اپنے ایمان کا اظہار کردیا تھا۔ (ماخوذ تاریخِ اسلام جلد اوّل)
(۷) نبوت کے گیارہویں سال ہی کا واقعہ ہے، قبیلہ دوس کا سردار طفیل بن عمر و کسی کام سے مکہ آیا طفیل علم و دانش کے علاوہ بہت مشہور و معروف شاعر تھا، قریش کو جب معلوم ہوا کہ طفیل مکہ آیا ہوا ہے تو اس کی خدمت میں پہنچے اور اس سے کہا کہ : ہمارے اس شہر میں محمدؐ نامی ایک جادوگر پیدا ہوگیا ہے جو بھی اس کا کلام سنتا ہے اس پر جادو کا اثر ہوجاتا ہے اور وہ اپنے
رشتہ داروں سے کٹ کر محمدؐ کا پیروکار بن جاتا ہے اس لئے تم اپنے کانوں کو محمدؐ کی آواز سے بچائے رکھو۔
حضرت طفیل بن عمرو اپنے اسلام لانے کے واقعہ میں خود کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ نے مجھ کو آپؐ کے کلام سے اتنا ڈرایا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھوس لی، تاکہ بے خیالی میں بھی آپؐ کی آواز کانوں میں نہ پڑے۔ ایک روز کی بات ہے کہ میں خانہ کعبہ میں پہنچا تو محمدؐ نماز پڑھ رہے تھے اور معلوم ہورہا تھا کہ آپؐ زبان سے کچھ پڑھ رہے ہیں۔ لیکن کانوں میں روئی ہونے کی وجہ سے میں پورے طور پر سن نہیں پارہا تھا اور نہ سمجھ پارہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اپنے آپ ہی سے کہا کہ میں تو شاعر ہوں! کلام کی خوبی و خرابی سے واقف ہوں اگر بات اچھی ہوگی تو اس پر غور کروں گا اور خراب ہوگی تو رد کردوں گا یہ سوچ کر میں نے کانوں سے روئی نکال لی آپؐ نماز پڑھ رہے تھے وہ کلام مجھ کو بہت اچھا لگا۔ جب آپ نماز ختم کرکے گھر جانے لگے تو میں بھی آپؐ کے ساتھ ہوگیا اور درخواست کی کہ مجھ کو مزید کلام سنائے چنانچہ آپؐ نے قرآن کی چند آیات پڑھ کر سنائی تو میں ان سے متاثر ہوکر اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ (ماخوذ تاریخِ اسلام جلد اوّل)
اس واقعہ سے جہاں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس وقت عرب کا بڑے سے بڑا شاعر بھی قرآن سن کر اس کا گرویدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا تو وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دورِ مکی میں مشرکین مکہ کی پوری تگ و دو یہی تھی کہ کوئی آپؐ سے قرآن نہ سننے پائے۔
(۸) سوید بن صامت اور ایاس بن معاذ کے ذریعہ جب مدینہ میں آپؐ کی رسالت کی خبر پہنچی تو یہ خبر قبیلہ غفار کے ایک شخص ابوذرغفاریؓ کے کانوں میں بھی پہنچی تو انھوں نے تحقیق حال کے لئے اپنے بھائی انیس کو مکہ بھیجا ۔ انیس مکہ آیا اور آنحضرتؐ سے ملاقات کی۔ اور واپس جاکر اپنے بھائی ابوذرؓ سے کہا کہ میں نے محمد ؐ کو ایسا شخص پایا ہے جو نیکی کی دعوت دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔ حضرت ابوذرؓ کو اس سے بھی تشفی نہ ہوئی تو وہ خود مکہ آئے اور آپؐ سے قرآن کی آیات سنی تو اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ (ماخوذ تاریخِ اسلام جلد اوّل)
(۹) نبوت کے گیارہویں سال کے آخری مہینوں میں حج کے موقع پر مدینہ سے
قبیلہ خزرج کے چھ افراد مکہ آئے ۔ آپؐ نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی چند آیات سنائی تو وہ اسی وقت اسلام میں داخل ہوگئے۔ مدینہ جانے کے بعد انھوں نے دوسرے لوگوں کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ چنانچہ ایک سال کے بعد حج کے موقع پر جب یہ حضرات مکہ آئے تو ان کی تعداد بارہ تھی۔ ان میں چھ تو وہی تھے جو ایک سال پہلے اسلام قبول کرچکے تھے۔ اور چھ دوسرے تھے جو ان افراد کی کوششوں سے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ آنحضرتؐ نے ان بارہ افراد سے مکہ کی ایک گھاٹی میں بیعت لی جو اسلامی تاریخ میں بیعتِ عقبہ اولیٰ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ان حضرات نے آپؐ سے درخواست کی کہ کوئی قرآن پڑھنے والے شخص کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ تاکہ وہ ہم کو بھی قرآن پڑھائے اور قرآن کی روشنی میں دوسروں کو بھی اسلام سمجھائے آپؐ نے ان کی یہ درخواست منظور فرمائی اور حضرت مصعبؓ بن عمیر کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے مدینہ پہنچتے ہی لوگوں کو قرآن سُنا سُنا کر ایمان کی دعوت دینی شروع کردی اسی کا نتیجہ تھا کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ ایک سال بعد جب مکہ آئے تو ان کے ساتھ بہترّ (۷۲) مسلمان تھے۔ (ماخوذ تاریخِ اسلام جلد اوّل)
غرض کہ پورے مکی دور پر ایک تجزیاتی نظر ڈالیں تو اشاعتِ دین میں قرآن ہی کا مرکزی کردار نظر آئے گا، اسی لئے مشرکینِ مکہ کی زیادہ کوشش یہی تھی کہ لوگ محمدؐ سے قرآن نہ سننے پائیں ۔ مشرکینِ مکہ کی اسی روش کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا : وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذا القُرْاٰنِ وَالغَوفِیْہٖ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْن (حٰمْ السجدہ ۲۶)ترجمہ : (اور کافر لوگ کہتے ہیں اس قرآن کی مت سنو اور اس کے پڑھنے کے وقت بک بک کرو تاکہ تم غالب رہو ) گویا کہ مشرکینِ مکہ نے یہ اچھی طرح جان لیا تھا کہ اگر کفر کو غالب رکھنا ہے اور اسلام کو مغلوب تو اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو قرآن سننے سے روکا جائے اور اگر کہیں پڑھا جائیں تو وہاں زور زور سے دوسری باتیں کی جائے تاکہ قرآن کی آواز دب جائے مذکورہ آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ فاضل دیوبند نے جو کلمات تحریر فرمائے ملاحظہ ہوں، قرآن کریم کی آواز بجلی کی طرح سننے والوں کے دلوں پر اثر کرتی تھی۔ جو سنتا وہ فریفتہ ہوجاتا۔ اس سے
روکنے کی تدبیر کفار نے یہ نکالی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اُدھر کان مت دھرو اور اس قدر شوروغل مچاؤ کہ دوسرے بھی نہ سن سکیں اس طرح ہماری بک بک سے قرآن کی آواز دب جائیگی۔ آج بھی جاہلوں کو ایسی ہی تدبیریں سوجھا کرتی ہیں کہ کام کی بات کو شور مچا کر سننے نہ دیا جائے لیکن صداقت کی کڑک ،مچھروں اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے کہا ں مغلوب ہوسکتی ہے ان سب تدبیروں کے باوجود حق کی آواز قلوب کی گہرائیوں تک پہنچ کر رہتی ہے۔ (مترجم شیخ الہند صفحہ ۶۲۱)
اُتر کر حراء سے وہ سوئے قوم آیا
اور ایک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
(حالیؒ )

Share
Share
Share