آہ! صادق نقوی بھی نہیں رہے
ڈاکٹر مسعود جعفری
09949574641
ڈاکٹر صادق نقوی ایک جامعاتی استاد ،جید مورخ ،شعلہ نوا خطیب ،نثر نگار اور ممتاز شاعر تھے۔وہ نصف صدی تک شہر کی ادبی ،تہذیبی و مذہبی محافل کی روح رواں رہے۔انہوں نے بچپن ، شباب اور ڈھلتی عمر کی دھوپ پرانے شہر کی بل کھاتی گلیوں ،کچے پکے مکا نوں میں گزاردی۔ان کی سرگرمیوں کا محور دارالشفا تھا۔کمال یار جنگ کی دیوڑھی میں وہ مجالس پڑھا کرتے تو لوگ اپنے رمالوں میں بہتے ہوئے آنسووں کو جذب کرتے تھے۔وہ دن رات اپنے چاہنے والوں کے درمیان گھرے رہتے۔ایک ایسا بھی وقت آیا جب وہ اپنے محبت کرنے والوں کو چھوڑ کر سات سمندر پار امریکی شکاگو میں جابسے ۔
اب وہ حیدرآباد کے لئے دور کی آواز ہو گئے تھے۔اس کے باو جود ہر سال محرم میں آتے رہے اور اپنی تقریروں سے قلوب کو منور کر تے رہے۔وہ علقمہ و فرات کے ساتھ گنگا جمنی تہذیب کے پاسبان رہے۔وہ انگریزی میں ایک جریدہ نور نکالا کرتے تھے۔وہ عالمانہ مقالوں سے آراستہ رہتا تھا۔انہوں نے خالدی صاحب کی نگرانی میں حیدرآ باد کے عاشور خانوں پر ایم فل کیا تھا۔ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ قطب شاہوں کے دور میں مذہبی ادارے اور ان کا کردار تھا۔وہ اردو کے خوش فکر شاعر تھے۔ان کے شعری مجموعے روشن لکیریں،جذبہ صادق اور روشن زاوئے ہیں۔وہ احمد فراز ،ہاشم علی ا ختر اور گیان چند جین کی طرح امریکہ میں فوت ہو گئے۔ 20 جون 2017 کو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔انہوں نے یوں زندگی کی شام کردی۔ صادق صاحب کی اہلیہ ، بیٹے اور بیٹیاں سب شکاگومیں مقیم ہیں۔اب یہاں ان کا قریبی جگری کوئی نہیں ہے۔عام طور پر لواحقین کو پرسہ دیا جا تا ہے۔ تعزیت کی جا تی ہے۔لیکن کسے پرسہ دیں۔ کس سے اظہار تعزیت کریں۔اب تو یہاں ان کی صرف باتیں اور یا دیں رہ گئی ہیں۔جانے کیوں مجھے رہ رہ کے غالب کا ایک شعر یادآ رہا ہے۔میرے ذہن پر ھتوڑے برسا رہا ہے۔
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم
وہ کہیں دور اجنبی دیس پر دیس میں راہی ملک عدم ہو گئے۔کوئی ماتم گسار نہیں کوئی گریہ و زاری نہیں۔ایک اتھاہ خاموشی ایک گہرا سکوت پر پھیلائے چہار سو ٹہرا ہوا تھا۔شکاگو کا آسمان چپ تھا۔اسے کیا خبر تھی کہ اس کی زمین کی آغوش میں جانے والا اردو کا شعلہ نوا خطیب ،تاریخ کا وقایع نگار ،اہلیبت کا مدح خواں ،عزا داری کا ترجماں ، صاحب نظر شاعر و ادیب ہے۔یہ وہ جسد اطہر تھا جس پر ہندوستان ہی کو نہیں نجف اشرف ، نینوا ،مشہد کو بھی ناز تھا۔ وہ اسلامی روح کا امین تھا۔ اس کا ایک ایک قدم راہ خدا میں اٹھتا رہا۔ اس کے ہاتھ میں اسلامی پرچم لہراتا رہا۔وہ سبز انقلاب کا پاسبان رہا۔اس کی زندگی کا ایک ایک پل ہرے علم کی سر بلندی کے لئے وقف رہا۔
پتہ نہیں کتنے سالوں تک نور خاں بازار ،پرانی حویلی ،دارالشفا ،بالشٹی کھیت کی گلیاں ،کوچہ و بازار اسے یاد کرتے ہوئے اشک فشاں رہیں گی۔میر مومن کا دائرہ صادق نقوی کو پکارتا رہے گا۔وہ لحد جو انہوں نے وہاں اپنے لئے بنا ئی تھی۔وہ ابد تک ان کا انتظار کر تی رہے گی۔قبر کی دیواریں ترستی رہیں گی۔منبر و محراب ان کی دید کے لئے پیاسے رہیں گے۔ایسا سحرالبیان مقرر صدیوں میں ایک آدھ بار منصہ شہود پر نمو دار ہو تا ہے۔وہ ایسا ستار ہ تھے جو ہزاروں برس میں طلوع ہو تا ہے۔ساری زندگی دوستوں اور عقیدت مندوں کے ہجوم میں رہے مرتے ہوئے بہ مشکل چار کندھے بھی نہیں تھے۔امریکہ جیسے مشینی ملک میں موت ایک آئی گئی شئے ہو تی ہے۔وہاں شور ما تم بلند نہیں ہو تا۔آگے اور پیچھے صرف جانے والا ہی ہو تا ہے۔جذباتی شہر میں پیدا ہو کر غیر جذباتی شہر میں کوچ کر جا نا ایک حادثہ سے کم نہیں۔
صادق نقوی نے حیدرآ باد میں اپنی یادیں اور کتابیں چھوڑیں ہیں۔انہوں نے اردو کے ساتھ انگریزیں میں بھی بہت کچھ سپرد قلم کیا ہے۔ایران کے وزیر اعظم رفسنجانی کی ہند میں تشریف آوری کے موقع پر ایک نادر و نا یاب کتاب The Iranian Afaquies Contribution to The Qutb Shahi and Agil Shahi Kingdoms کتاب ہذا 2003 میں چھپی اور تشنگان علم و آگہی کے حلقوں میں ارتعاش پیدا کر دی۔خوب داد و تحسین ملی۔
صادق نقوی نے 81 بہاریں دیکھی تھیں۔وہ 6اکٹوبر 1936 میں عالم رنگ و بو میں آئے تھے۔صادق نقوی پر کیا لکھیں ۔روشنائی سوکھ جا تی ہے۔قلم ٹوٹ جا تا ہے۔سلسلہ منقطع ہو جا تا ہے۔تاہم ان کے چیدہ چیدہ شعر درج کئے جا تے ہیں۔انہیں شعروں کے حوالے سے یاد کرنے کی کوشش کی جا تی ہے۔
آج بھی وقت ہے آو یہ ارادہ کر لیں
اپنی دھرتی پہ نہ لا شوں کی تجارت ہو گی
خون مظلوم کا ہو گا نہ شقا وت ہو گی
اپنی تاریخ محبت تھی محبت ہو گی
صادق اپنے گہوارے حیدرآ باد کو بے پناہ چا ہتے تھے۔چاہت کی جھلک دیکھیئے۔
مرا یہ شہر کتنا پر سکوں تھا
یہاں کی ہر گلی اک مدرسہ تھی
جہاں تہذیب فکر و فن کے دھارے
سکون قلب فکر معتبر تقسیم کرتے تھے
وہ تہذیبی شکست و ریخت پر نوحہ کناں ہو جا تے ہیں۔دکھ کی کرچیاں دیکھیئے۔
مری تہذیب بیوہ کی طرح اب
گلی کے موڑ پر تنہا کھڑی ہے
کا ئنات میں ہو ئی جفا وں کے بارے میں سوچ کر صادق نقوی تلملا اٹھتے ہیں۔ان کا غم و اندوہ ۔
ظلم تاریخ کے پردے میں کہاں چھپتا ہے
خون بو سیدہ کتا بوں میں نظر آئے گا
تاریخ لکھوں کیسے اس دور سیاست کی
را توں کا اندھیرا ہے ہر صبح کے منظر میں
صادق نقوی کا عزم محکم اور مستقبل کی تابناکی کی بشارت دیکھیئے۔
میں انقلاب کے نقش قدم ابھا روں گا
اگر حیات کو ترسے گا کارواں اپنا
صادق نقوی نے بہت کچھ صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے۔کئی جلدیں رقم کی ہیں۔ہم نے سمندر سے چند ایک بوندیں لی ہیں۔انہیں ہم زندگی کی راہوں میں یاد کرتے رہیں گے۔پھر بھی انہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔نہ جانے کب ان سے ملا قات ہو گی۔شاید میدان حشر میں یا خواب میں۔ صادق صاحب نے جاتے ہوئے گویا کہا ہو کہ قیامت کے دن ملیں گے۔غالب کے الفاظ میں قلبی تاثرات ہیں۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ان کے وداع ہونے کا وقت ہی ہمارے لئے قیامت ہے۔
۔۔۔۔۔۔