اسلامک ہوسٹلس : – پروفیسر محسن عثمانی ندوی

Share
پروفیسر محسن عثمانی

اسلامک ہوسٹلس
مولانا مناظر احسن گیلانی کا خواب جو تشنہ تعبیر ہے

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

مستقبل کا مؤرخ جب ہندوستان میں اسلام کی تاریخ لکھے گا تو یہ ضرورلکھے کا کہ مسلمان آزادی کے بعد تعلیم، تجارت اور معیشت ہر اعتبار سے انتہائی زار وزبوں حالت تک پہونچ گئے تھے سرکار ی ملازمتوں میں ان کی کوئی جگہ نہیں تھی پرایویٹ سکٹر میں ان کی نوکریاں مفقود ہوگئی تھیں اور اکیسویں صدی کے آتے آتے ان کا فقر وزوال عروج تک پہونچ گیا تھا ۔ عرب ملکوں میں ان کو ملازمتیں نہ ملتیں تو ان کے وہ خاندان جو کبھی خوشحال اور زمین دار تھے سڑکوں پر دست سوال دراز کرتے نظر آتے ۔

اس کی وجہ حکومت کے تیور کا ان کے خلاف ہونا تھا اوروہ تعصب تھا جو اصحاب اقتدار کو ان سے تھا اور وہ بیر تھا جو بہت سے برادران وطن کے دلوں میں ان سے مختلف تاریخی اسباب کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا اور اس دشمنی نے ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنا دیا تھا ۔مسلمان اس تعصب کی مزاحمت نہ کرسکے ،اس کی بنیادی وجہ تعلیم کے میدان میں ان کی پسماندگی تھی مسلمانوں کی تقریبا نصف آبادی نا خواندہ تھی اس کے بعد اکثریت ان لوگوں کی تھی جو برائے نام تعلیم یافتہ تھے اور چند فی صدی جو تعلیم یافتہ تھے ان میں کچھ اپنامقام بنا سکے اور کچھ پاکستان چلے گئے۔
ہندوستان کا موجودہ منظرنامہ یہ ہے کہ سیاست تجارت میڈیا ، سرکاری اور غیر سرکاری ہر سکٹر پر ان لوگوں کا قبضہ ہے جو تعلیم میں آگے ہیں اور جو تعلیم میں آگے ہیں وہ سرمایہ دولت میں بھی آگے ہیں ۔ حکومت کے تمام کلیدی عہدوں پر اعلی ذات کے ہندوں کا قبضہ ہے ۔ برہمن راجپوت اور بنئے سب مل کر چھ فی صدی بھی نہیں ہوتے ہیں اس قلیل آبادی نے اور جین مذہب کے لوگوں نے ہندوستان کی صنعت اور تجارت اور سیاست پر قبضہ کرلیا ہے ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے حکومت کی نکیل ان کے ہاتھ میں ہے ، وہی کار ساز اور وہی کار پرداز ہیں ۔ہندوستان کی جتنی مشہور اور بڑی کمپنیاں ہیں جیسے وپرو ، کنگ فشر ، جٹ ایر ویز ،ایر ٹل ریلائنس ، ٹی سی اس ،ووڈا فون ،بی اس ان ال وغیرہ ،اور جتنے بڑے اخبارات ہیں جیسے ہندوستان ٹائمس اور ٹائمس آف انڈیا ، دی ہندو دینک جاگرن وغیرہ اور جتنے بینک ہیں وہ سب اونچی ذات کے ہندووں کی ملکیت ہیں جو بہت چھوٹی اقلیت ہیں لیکن وہی ملک کی سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں پہلے اگر کانگرس بر سر اقتدار تھی تو ان کی وجہ سے تھی، اور جب انہوں کانگرس سے نظر پھیر لی تو بی جے پی برسراقتدار آگئی ،دلت اور اوبی سی کے لوگوں کی رزرویشن کی وجہ سے کچھ عہدوں تک رسائی ہوگئی ہے اور ان کی مالی حالت بہتر ہوگئی ہے ۔لیکن سب سے خراب اور خستہ اور شکستہ حالت مسلمانوں کی ہے۔ جنہوں نے اس ملک میں آٹھ سو سال تک حکومت کی ہے اور جن کی تعداد ۱۲۰ ملین ہے اور جو عالم اسلام کے تقریبا تمام ملکوں کی آبادی سے زیادہ ہیں وہ تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے تمام گروہوں اور فرقوں کے مقابلہ میں حاشیہ پرہیں، ان کا سفینہ تعلیم بھنور میں ہے بہت بڑی تعداد میں ایسے مسلم بچے ہیں جن کی دینی تعلیم اورناظرہ قرآن کی تعلیم بھی نہیں ہوسکی ہے یہ ان کے والدین کی بے شعوری اور بے حسی کی وجہ سے ہے جس کی آخرت میں ان سے باز پرس ہوگی۔ جہاں تک دینی تعلیم کا تعلق ہے اب ندوہ اور دیوبند کی طرح بڑے مدارس قائم کرنے کے بجائے ہر مسجد میں صباحی اور شبینہ ابتدائی دینی تعلیم اور اردوزبان اور قرآن پڑھنے کا انتظام ہونا چاہئے اور محلہ والوں کو اس کی فکراور نگہداشت کرنی چاہئے ۔ملک میں جو بڑے مدارس ہیں ان کا نصاب تعلیم ایسا ہونا چاہئے کہ ان سے باشعور علما،دین نکل سکیں اور ملت کی صحیح رہنمائی کرسکیں ۔ ملک میں مسلمانوں کے امپاورمنٹ کے لئے عصری تعلیم ضروری ہے ۔ مسلم طلبہ ہائی اسکول کی تعلیم بھی مشکلوں سے مکمل کرپاتے ہیں ان میں اکثر گھر کی مالی مجبوریوں کی وجہ سے درمیان ہی میں تعلیم چھوڑ دیتے ہیں ان کی کوئی ہمت افزائی کرنے والا اورصحیح رہنمائی کرنے والا بھی نہیں ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہ نوجوان اچھی سرکاری ملازمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں پرائیویٹ سکٹر میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔اس دور میں عصری علوم کی جو گروہ قیادت کرے گا اور اس کا پرچم بردار بنے گا وہ ترقی اور کامرانی کے ز ینہ پر چڑھتا جائے گا ۔عصری تعلیم اور امپاورمنٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے عصری تعلیم کسی قوم کی مادی اقتصادی اور سیاسی ترقی کی اساس ہے ۔ اور اس میدان میں جب تک مسلمانوں کی پیشرفت نہیں ہوگی اس وقت تک ان کی غربت اور ذلت کا خاتمہ نہیں ہوگا اور ان کی بے روزگاری ختم نہیں ہوگی ۔دنیوی استحکام اور ترقی اور کامرانی کے سفر کے تمام راستوں کی ابتدا عصری تعلیم سے ہوتی ہے اور دنیوی استحکام اور مادی طاقت اس دین اسلام کے مقاصد میں داخل ہے جو عبادت اور ریاست، دین اور دنیا دونوں کے مجموعہ کا نام ہے ۔ یہ نقطہ نظر غلط اور ناقابل التفات ہے کہ مادی طاقت کی ضرورت نہیں۔
بلا شبہ مسلمانوں کی تعلیم میں حکو مت کی پالیسی بہت اہم رول ادا کرتی ہے ،مثال کے طور پر اگر حکومت مسلم آبادی کے اندر یا نزدیک اسکول نہیں قائم کرے گی تو بچے اسکول کیسے جائیں گے ۔ دشواریوں کے پیدا کرنے یا دشواریوں کو ختم کرنے میں حکومت کا بہت اہم رول ہوتا ہے لیکن جو چیز کہ فیصلہ کن بنتی ہے وہ کسی قوم کا ارادہ اور عزم مصمم ہے ۔عزم وہ صفت ہے جو رکاوٹوں کے تمام خارزار کو ختم کردیتی ہے ۔اگرحکومت اسکول نہیں قائم کرتی ہے تو مسلمانوں کو خود اپنا اسکول قائم کرنا چاہئے ۔افسوس مسلمانوں میں ایسی قیادت نہیں جو تعلیمی بیداری پیدا کرے اور اس کے انتظامات کرے اور اس کام کو اپنا مقصد بنائےٍ۔
مسلمانوں میں دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم دو فیصد سے زیادہ نہیں ہیں ، مسلمانوں میں تعلیم اور خواندگی کا تناسب بہت کم ہے اور مسلمانوں میں جو طبقہ تعلیم حاصل کرتا ہے ان کی غالب اکثریت اسکولوں کا رخ کرتی ہے اور جو خوش قسمت طالب علم ڈراپ آوٹ کا شکار نہیں ہوتے اور اسکول کا مرحلہ مکمل کرلیتے ہیں وہ اعلی تعلیم یا پیشہ ورانہ تعلیم اور ٹکنیکل تعلیم کیلئے اور مقابلہ کے امتحانات کی تیاری کے لئے مختلف تعلیمی اداروں اور کالجوں اور یونیورسیٹیوں کا رخ کرتے ہیں اور اس کے لئے انہیں اپنے گھروں کو خیر باد کہنا پڑتا ہے سے اور چھوٹے شہروں سے یا گاوں سے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔عصری تعلیم حاصل کرنے والی یہ نئی نسل ملت کا بہت بڑا سرمایہ ہے جو اگر ضائع نہ ہو تو ملت کے لئے بہت بڑی طاقت بن سکتا ہے ۔ لیکن تعلیم کے لئے نئی نسل کی یہ ہجرت زیادہ تر ان کے ایمان واخلاق کے زیاں کا باعث بنتی ہے کیونکہ وہ والدین اور بزرگون کی سرپرستی سے محروم ہوجاتے ہیں۔وہ کرایہ کا کمرہ لے کر اور ایسے ساتھیوں کے ساتھ جو اکثر غیر مسلم ہوتے ہیں اور جن کا کردار مشتبہ ہوتا ہے رہتے ہیں اور ان کے شب وروز کسی بڑے شہر کی آزاد فضا میں اور فاسقانہ ما حول میں کسی محتسب اور چشم نگراں کے بغیر گذرتے ہیں ۔رپورٹ ہے کہ اکثر طلبہ منشیات کے شراب کے اور ڈرگس کے عادی ہوجاتے ہیں ۔بڑے شہروں کا رخ کرنے والے مسلم طلبہ میں صرف لڑکے نہیں ہوتے بلکہ لڑکیاں بھی ہوتی ہیں ۔ان کے والدین ایک بار انہیں پہونچاکر اور برائیوں کے ماحول میں تنہا چھوڑ کر تقدیر کے حوالے کرکے واپس چلے جاتے ہیں ۔ ان طلبہ کو اگر اعلی تعلیم کے لئے باہر نہ بھیجا جائے تو تعلیم کا نقصان اور بہت بڑا نقصان ،اور اگر بھیجا جائے تو عفت واخلاق کی دولت کے لٹ جانے کا خطرہ اور بہت بڑبا خطرہ ۔ کئی لاکھ کی تعداد میں وہ مسلم طلبہ جو بڑے شہروں کی آزاد فضا میں زندگی گذار تے ہیں اور بغیر کسی تربیت اور کردار سازی اور ذہن سازی کے شہروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ ملت کا سرمایہ نہیں بن سکتے ہیں ، ان کے عقیدہ اوراخلاق کو خطرہ درپیش رہتا ہے وہ مخالف طاقتوں کے آلہ کار بھی بن جاسکتے ہیں ۔ اگر یہ مسلم طلبہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملت کے کام نہ آسکیں تو ان کی تعلیم کا اور ان کی ترقی کا
ملت کو کیا فائدہ ؟ اس وقت مسلم ہیومن رسورسزکو اور نئی نسل کی دماغی اور فکری اور علمی صلاحیتوں کو ملت کی تعمیراور بہبود کے لئے یکجا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کوشش کی ضرورت ہے کہ اس کا قلیل ترین حصہ بھی ضائسع نہ ہوکہ اس پر ملت کے استحکام کا انحصار ہے ۔
اللہ بھلا کرے مولانا مناظر احسن گیلانی کا جو حیدراباد میں جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات میں استاذ تھے۔ انہوں نے اس اہم تعلیمی مسئلہ کی طرف توجہ کی اور اس کا حل یہ بتایا کہ تمام بڑے شہروں میں اسلامک ہوسٹل کی بنیاد ڈالی جائے جہاں اعلی تعلیم اور انجینیرنگ ، میڈیکل اور تمام پروفیشنل اور عصری علوم کے کورسز کے طلبہ قیام کرسکیں گے ۔ جس طرح فائیو اسٹار ہوٹلوں کا سلسلہ ہوتا ہے جو مختلف شہروں تک پھیلا رہتا ہے اسی طرح اسلامک ہوسٹلس کا بھی چین ہو ۔ یہ اسلامک ہوسٹل صرف اقامت گاہ نہیں ہوں گے بلکہ تربیت گاہ بھی ہوں گے یہان کردار سازی بھی ہوگی اور ذہن سازی بھی ہوگی یہاں اسلامی موضوعات پر اسلامی علوم کے ماہرین کے لکچرس ہوں گے ، یہان قومی اوربین الاقوامی مذہبی اجتماعات کے لئے ہال ہوں گے ء یہاں مسجد بھی ہوگی ، لائبریری بھی ہوگی اور کھیل کا میدان بھی ہوگا اور جدید ذرائع ابلاغ کی ٹریننگ کا انتظام بھی کیاجاسکتا ہے ، سب سے اہم یہ کہ یہاں ایک اتالیق اور مربی اور نگراں بھی ہوگا جو طلبہ کی اخلاقی اور تعلیمی تربیت کرے گا طلبہ چاہے کسی ادارہ میں تعلیم حاصل کریں لیکن جب ہوسٹل میں آئیں گے تو یہاں کے ڈسپلن کی ان کوپابندی کرنی پڑے گی ۔ اس ہوسٹل میں مناسب اور رعایتی قیمت پر طعام وقیام کا نظم ہوگا اور غریب طلبہ کے لئے کھانے کی فیس نہیں لی جائے گی اور اس طرح اس اسلامک ہوسٹل کو امراء سے زکات کی رقم بھی لینے کا حق حاصل ہوگا ۔ زکات کے سلسلہ میں یہ عام غلط فہمی ہے کہ وہ صرف دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ پر خرچ کی جاسکتی ہے ۔ زکات کا مصرف تعلیم وتعلم سرے سے ہے ہی نہیں ، بلکہ غریبوں پر خرچ کرنا ہے ، زکات کی رقم ہر غریب طالب علم پر خرچ کی جاسکتی ہے چاہے وہ دینی تعلیم حاصل کر رہا ہو یا عصری تعلیم حاصل کر رہا ہو ۔نصف صدی پہلے مولانا گیلانی نے جو منصوبہ پیش کیا تھا ملت ابھی تک اسے عملی جامہ نہیں پہنا سکی۔
نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا مولانا مناظر احسن گیلانی کا یہ منصوبہ پایہ تکمل تک نہیں پہونچ سکا اوریہ خواب ہنوز شرمندہ تعبیر ہے ہندوستان کے کم ازکم دس بڑے شہروں میں اسلامک ہوسٹلس کاقیام ہونا چاہئے اس کے لئے وسیع اراضی کی خریداری اور عمارتوں کی تعمیر کا کام کرنا ہوگا ۔ پہلے کسی ایک شہر سے اس کام کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے ، اس وقت امت مسلمہ کی نئی نسل کی حفاظت کے لئے اور اس کو ملت کے لئے کارآمد اور خزانہ قوت بنانے کے لئے یہ کام اب ایسی شدید ضرورت بن گیا ہے جس میں تاخیر اور التوا کی کوئی گنجائش نہیں ۔ مسلمانوں کو طے کرنا ہے کہ اس ملک میں مستقبل کی شاہراہ پر انہیں کیسے گذرنا ہے، تاج بسر گذر نا ہے یا خاک بسر گذرنا ہے ۔ یہاں قعر مذلت میں رہنا ہے یاقصرتوقیر و عزت میں رہنا ہے ملت کی فکر رکھنے والوں کو انتظار ہے کہ کوئی مفکر اورمنصوبہ ساز رہنما اس کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کردے اور اللہ اصحب خیر کو بھی توفیق دے کہ اس عظیم منصوبہ کی تکمیل کے لئے اور اسلام کو اس ملک میں طاقتوراور مستحکم بنانے کے لئے اللہ کی راہ میں خوش دلی اور دریا دلی کے ساتھ اپنا سرما یہ خرچ کریں ۔ اس سے پہلے کہ تعصب کے طوفان میں کشتی ڈوب جائے اس سے پہلے کہ یہ ملک دوسرا اسپین بن جائے اس سے پہلے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ مسلمانوں کے کام کا نہ رہے اور مخالف خیمہ میں چلا جائے ،کسی کوفورا آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔مولانا گیلانی نے جب یہ تجویز پیش کی تھی اس وقت حالات دوسرے تھے اس وقت یہ کافی تھا کہ درد دل سے ایک بات کہی جائے لیکن اب حالات دوسرے ہیں ، پہلے سے بہت زیادہ خراب ہیں، نسیم بہار گرد آلود ہے ،حالت یہ ہے کہ ہر لمحہ شب غم ہے اور امید صبح بہت کم ہے اس لئے وہی تجویزدوبارہ لکھی گئی ہے لیکن قلم کو خون دل میں ڈبوکر لکھی گئی ہے خون تھوک کر کہی گئی ہے خون کے آنسوبہا کر کہی گئی ہے ۔یہ وہی بادہ کہن ہے جو اب ساغر نو میں اور عصر نو میں اہل فکروخرد کے سامنے پیش ہے ،ہم کیا کریں کہ دل اداس ہے، ہر طرف خوف وہراس ہے اگر چہ نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ہے ۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹو اسٹڈیز کی طرف سے مولانا مناظر احسن گیلانی پر ایک کل ہند وقیع سمینار ہونے جار ہاہے مولاناگیلانی کی اس سے بڑی تکریم نہیں ہوسکتی ہے نہ اس سے بڑا کوئی خراج عقیدت ہوسکتا ہے کہ ان کے اس عظیم منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہونچایا جائے اس وقت ضرورت ہے کہ جلسے کم کئے جائیں اور ٹھوس تعمیری کام زیادہ کئے جائیں ۔اسلامک ہوسٹلس کامنصوبہ معمولی منصوبہ نہیں ہے ، یہ ملت کے استحکام کا اور امپاورمنٹ کا منصوبہ ہے ، ملت کے مستقبل کودرخشاں کرنے کے لئے ،اس کے گیسوئے برہم کو سنوارنے کے لئے اور چاک دامانی کو رفو کرنے کے لئے دیکھنا ہے کہ کون سامنے آتا ہے ۔
مردے از غیب بروں آید وکارے بکند

Share
Share
Share