سماجی زندگی پر صوفیائے کرام کے اثرات
پروفیسرابوالفضل سید محمود قادری
سابق صدر شعبہ اردو
عثمانیہ یونیورسٹی پی جی کالج حیدرآباد
نوٹ : پروفیسر سید محمود قادری مرحوم کا یہ مضمون ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان کی کتاب مقالات محمود قادری سے لیا گیا ہے۔
اسلام میں تصوف مذہبی زندگی کا وہ طریقہ ہے جس میں عبادت دریافت کے ساتھ ساتھ تزکیۂ نفس اور روح پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس طریق یا منہاج کی غرض و غایت بجز اس کے کچھ اور نہیں کہ روحانی کیف و حسرت حاصل ہو۔ تصوف اور اس کے متعلقات پر ایک عام اعتراض یہہ کیا جاتا ہے کہ اس نے بے عملی کو فروغ دیا اور رہبانیت کی جانب انسانی فکر کو مبذول کیا ہے۔
یہہ مانع تہذیب و تمدن اور اسلام کے بعض اصولوں کے منافی ہے۔ لیکن یہہ سراسر غلط اور لا یعنی باتیں ہیں۔ دراصل تصوف کے بارے میں جس قدر بھی تحقیق ہوئی ہے۔ اس کے مدنظر صاف الفاظ میں یہہ کہا جاسکتا ہے کہ تصوف کی تعلیم اور تربیت کے ذریعہ تالیف قلبی اور روحانی قوت کو استحکام دیا جاسکتا ہے ، چنانچہ خود تصوف کے آغاز کے بارے میں مختلف آرأ ملتی ہیں اور ان تمام آرأ کا محور مندرجہ ذیل باتیں ہوں گی۔
جیسا کہ کہا گیا ہے کہ تصوف کا مشتق ’’ صف‘‘ ہے یعنی طالب الی اللہ اور متوجہ الی اللہ ہونے کی وجہ سے مقربوں کی صفِ اول میں جگہ پائے گا۔ اس کا دوسرا ماخذ ’’صفا‘‘ سے ہے۔ اعمال کی پاکیزگی و طہارت ہی انسان کو خدا سے قریب کردے گی۔ اس کا ایک اور ماخذ ’’ اصحاب صفہ‘‘ سے بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تصوف کی اور بہت ساری تعریفیں اور توضیحات بھی کی گئی ہیں، ان ساری تعریفوں کے باوصف امام قشیریؒ کی تحقیق میں یہہ لفظ دوسری صدی ہجری کے اختتام کے پہلے رواج پاچکا تھا، گویا صحابہ کے بعد تابین اور ان کے بعد تبع تابعین کے پیچھے ہی ان اہل اللہ کی جانب اشارے ملتے ہیں، جن میں حب اللہ یا خشیت دونوں طرح کے جذبے مجتمع نہ تھے۔ یہاں یہہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ صوفیائے کرام نے اپنی تعلیم اور تلقین سے جو دراصل قرآن اور سنت ہی کے تحت تھی، انسان نما حیوان کو حقیقی انسان بنانے کی کوشش کی۔ توہمات و خرافات کے دلدل سے نکالا ۔ مشرکین کو موحد بنایا اور اپنے آپ پر جہالت کے سبب ظلم کرنے والے انسانوں کو اپنی حقیقت سے آشنا کیا جو اپنی ہی حقیقت کے نابلد تھے ، انہیں یہہ بتلایا اور ثابت کیا کہ تم ہی مقصودِ ایجاد عالم و خلاصۂ کائنات پر مسجودِ ملائیکہ اور منظور نظر پروردگار عالمین ہو۔ اپنی حقیقت کو سمجھو کہ تمہارا مطمیح نظر اس حقیر مقامِ ناسوت سے بالاتر اور برتر ہے۔ صوفیائے کرام کی تعلیم مادی تعلیم یا ترقی کی مانع نہیں، حالانکہ یہی انسان ، متبع ذات و صفات و افعال و آثار ہے۔ عرش سے فرش تک موجودات کا مقدر، مظہر عبودیت والوہیت اور عالم غیب و شہود ہے، لیکن اس کو سمجھنے اور اس منصب پر فائز ہونے کے لئے کچھ طریق و اعمال اور ان کی حقیقیتں بھی رکھی گئی ہیں، تب ہی وہ اس مقام اور مرتبہ کو پہچان لے گا۔ اس کے لئے لازم ہے کہ وہ دین محمدی کا سچا اور پکا پیرو اور عاشق ہو۔ احکامِ خداوندی سے سرمو روگردانی نہ کرے، تلاوتِ کلام پاک، احادیث شریف کا مطالعہ، فرائض کی ادائیگی فقہ اور دیگر دینی امور کا پابند ہو۔ اس کے لئے یہہ ضروری ہے کہ۔۔۔
یک زمانہ صحبتِ ہا اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
ورنہ محض تصوف اور مصطلحاتِ تصوف کی پابندی سود مند نہ ہوگی۔ اس ضمن میں حضرت شیخ علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کا یہہ قول آویزۂ گوش ہو، فرماتے ہیں۔۔۔
’’ الصفا من اللّٰہ تعالیٰ انعام واکرام والصوف لباس الانعام‘‘
’’ یعنی صفا اللہ تعالیٰ کا انعام و اکرام ہے اور صوف تو چوپایوں کا لباس ہے‘‘
واضح رہے کہ حضرت شیخ عثمان بن علی ہجویری داتا گنج بخش ؒ ہی وہ عظیم ہستی ہے جنہوں نے برصغیر ہند میں تصوف کی بنیاد رکھی ، آپ کی معرکتہ الآرا تصنیف’’ کشف المحجوب ‘‘ کے بارے میں قطع نظر بزرگانِ سلف کے ، شہزادہ داراشکوہ کے یہہ الفاظ غیر معمولی ہیں۔
’’ حضرت علی ہجویری راتصنیف بیسار است
اما کشف المحجوب مشہور و معروف است
مرشدے است کافل در کتب تصوف
نجوبی آں ، در زبان فارسی ہیچ کتابے تصنیف شدہ
اور خود حضرت علی ہجویریؒ کی عظمت ویزرگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے بارگاہِ داتا گنج بخش پر چلہ کشی فرمائی اور وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے فرمایا تھا ۔
گنج بخش ہر دو عالم مظہر نور خدا
کاملاں راپیر کامل ناقصان را رہنما
اس منزل پر یہہ عرض کہ دوں کہ انسانی کمالات کی پہچان اور اس کی استطاعت سے استفادہ کے لئے تعلیم و تلقین کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر دین و ایمان کا معاملہ تو بہت اہم ہے ۔ موضوع کا لحاظ کرتے ہوئے ، یہاں انسانی فطرت یا جبلت کے اس پہلو کی جانب اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے، جن کا راست تعلق سماج سے ہے اور پھر وہ سماج ، جو اسلامی معاشرت ، قوانین اور امور سے متعلق ہو ، اس میں ان صوفیائے کرام کا کیا منصب و مرتبہ ہوگا، اس بارے میں کچھ عرض کرنے کی جسارت کی جائے گی۔
اولاً یہہ معلوم کیا جائے کہ سماج کیا ہے ؟
سماج Society یا جمعیت Community میں زندگی کا بسر کرنا ۔۔۔ یہہ دونوں لفظ حقیقتاً ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں۔ ان میں فرق صرف نوعیت اور تعداد کا ہے اور یہہ ایک یہی امر ہے کہ ہر سماج میں کچھ مخصوص مقاصد اور اقدار پائے جاتے ہیں۔ موجودہ عہد میں سماج کا ایک عام مفروضہ (Assumption) یہہ ہے کہ تعلیم کا مطمع نظر دراصل ’’ شخصیت کا نشو و نما ہے اور شخصیت‘‘ ایک ایسا تصور ہے جس کی ایک سے زیادہ تعریفیں کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا ایک جامع کلیہ یہہ ہے کہ کسی شخص کے جسمانی ، ذہنی ، جذباتی اور روحانی اوصاف پر مشتمل ہو اور وہ کردار اور مزاج دونوں پر محیط ہو۔ یہہ دونوں چیزیں شخصیت کے دو جزو ہیں۔ ان کا باہمی تعامل طبیعاتی اور معاشرتی ہوگا۔ فرد، دنیا میں خالی ہاتھ نہیں آیا بلکہ وہ کچھ جسمانی عوامل اور اوصاف بھی ساتھ لیتا آیا ہے، جو خلقی ہوتے ہیں اور شخصیت کا ارتقا ان ہی پر منحصر ہوتا ہے۔ یہہ کسی حد تک ماحول کا بھی پابند ہوتا ہے۔ اس مرحلہ پر معلم کی حیثیت کو اہم مانا گیا ۔ یہہ واقعہ ہے کہ انسان خود اپنا آپ معمار ہے۔ انسان اپنے ماحول اور مہیجات سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اسے متاثر بھی کرتا ہے اور یہی تال میل، اس کی شخصیت اور اس کی سماجی کا نصب العین بھی قرار پاتا ہے۔ اس میں معلم و متعلم کے باہمی تعلقات اور نظم و ضبط کے اصولوں کا اطلاق رسمی اور غیر رسمی تدریسی طریقے، کردار کی تربیت، اس کی نشو و نما، مذہبی امور کی پابجائی، ایمان و اعمال کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر حاوی اور احاطہ کی ہوئی باتیں شامل ہیں۔ سماج کی ان اہم باتوں کے پیش نظر جب ہم اسلامی معاشرت، اس کے رہن سہن، تعلیم و تربیت پر غور و خوص کرتے ہیں تو ہمیں معلم اول آقائے نامدار حضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین مبین کے اصولوں اور ضوابط پر قربان ہوجانے کو جی چاہتا ہے۔ دراصل مذہب اسلام فطرت کا مذہب ہے اور داعئی اسلام کی شان میں خود ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ ۔۔۔
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلِقٍ عَظِیْم
اور یہہ خلق عظیم اشارہ ہے ان کمالات ذاتی کی جانب جو جمالِ محمدی ا سے روشن ہیں۔ اس بارے میں حدیث شریف بھی واضح ہے کہ حضورا کی رضا مندی میں خداوند تعالیٰ کی رضامندی ہے اور اسی رضا مندی کے بارے میں قرآن میں یہہ صاف اعلان ہے۔۔۔
’’ الیوم اکملت لکم دِینکم و اتمت علیکم نعمتی ورضیۃ لکم اسلام دنیا‘‘
نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی تتمۂ اخلاق تھا ورنہ جہالت و ضلالت بھری اس دنیا میں اسلام اور دائمی اسلام اور آپ سے پہلے کس قدر گمراہی و بدظنی تھی مگر اس رہبر کامل پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلمت کدہ کو ایماں بالغیب، توحید حق اور رسالت کی روشنی سے جگمگا دیا اور اپنے باعظمت کردا سے معاشرہ کو پاک اور منزہ فرماتے ہوئے ایک ایسے سماج کی تشکیل کی کہ قیام قیامت تک اس کی نظر ملنی مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے اور جب یہہ معاشرہ بن چکا ، ایک ایسی جمعیت تیار ہوچکی ، جس میں للہیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، جس میں خوفِ خداوندی کا جذبہ موجزن تھا، جس میں عشق خدا اور عشق محمد کی آتش موجود تھی ۔ رفتہ رفتہ یہہ آتش بے نام جو عشق کہلاتی ہے، پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور اس کے بعد اُن کے چاہنے والوں میں پیدا ہوتی گئی تو ایک ایسا سماج وجود میں آیا جو اسلام اور اس کے اقدار کا محافظ کہلایا۔
اس مرحلہ پر مزید تفصیلات میں گئے بغیر یہہ عرض کروں گا کہ صوفیائے کرام کے یہاں عشق مجازی سے حقیقت کا نعرہ کچھ یوں ہی نہیں آیا بلکہ ظاہری شرعی احکام سے آراستگی اور باطن میں ماسوا اللہ کا اطلاق ، منازلاتِ سلوک و مقاماتِ عروج کا مصداق ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے ۔۔۔
ظاہر توعاشق و معشوق باطنست
روئے ترا کہ دیدہ بکوئے توساکنست
اس ضمن میں بزرگانِ سلف کے اعمال و اقوال پیش نظر رہیں تاکہ ہماری سماجی زندگی پر اس کے اثرات کو دیکھا جاسکے۔ یہاں بزرگانِ سلف سے میری مراد اصحابِ رسول اللہا سے ہے جب کہ نبئی برحق کی سیرتِ طیبہ مینارۂ نور ہے اور اس نور سے اکتساب کرنے والوں کی حیثیت ذی مرتبت صحابیت کا کمال تمام رکھتی ہے۔ ان حضرات نے حضور اکرم اسے راست استفادہ فرمایا اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین ، ان حضرات کے بعد جب اسلام کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور اسلام عرب سے نکل کر عجم کے دوردراز علاقوں اور قوموں میں پھیل گیا تو اسلام کی تعلیم اور اس کی توضیح کے لئے معلمین کی ضرورت محسوس ہوئی بلکہ سلف صالحین ہی اپنی ذات سے مشعل راہِ طریقت کہلائے۔ ان حضراتِ اقدس نے اپنی اپنی جگہوں پر علم و حکمت کے ذریعے، ایک ایسے معاشرہ یا سماج کی تشکیل کی جو فی الواقعی اسلام اور اس کے آئین کے عین مطابق تھی۔ ان صوفیائے کرام نے اپنے اپنے مسلک یا طریق کے تھوڑے بہت اختلاف کے باوجود ، کام تو وہی فرمایا جو اسلام اور اس کی روح کو اس کے مستحقہ اعلیٰ مقام پر پہنچاتا ہے ، چنانچہ طریقت کے سلاسل کبریٰ میں سے صرف چار نے ہندوستان میں اپنا اثر و نفوذ دکھلایا جو حسبِ ذیل ہیں۔
۱) چشتیہ ۲) قادریہ ۳) نقشبندیہ اور ۴) سہروردیہ
ان چاروں کے علاوہ ذیلی سلسلوں میں اویسی ، مداری، شطاری، رفاعی اور قلندری سلسلے بھی مشہور ہوئے، طوالت کے خوف سے ان سلاسل کی تفصیلات اور ان کے مشن پر روشنی نہیں ڈالی جارہی ہے بلکہ ذیل میں چند ایک ایسے واقعات کو درج کرنے پر اکتفا کیا جارہا ہے جن کا راست تعلق انسانی سرشت سے زیادہ اس کے سماجی پہلو سے ہے، دراصل یہی وہ اہم امور ہوں گے، جن کی ادائیگی سے، فرد کی شخصیت اور اس کے مضمرات سامنے آتے ہیں اور اس کا اثر سماج کے دیگر افراد پر پڑتا ہے اور یہہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے تاآنکہ انسانی گروہ یا جماعت اس عمل سے متاثر نظر آتی ہے۔ صوفیائے کرام کے یہہ اعمال ہی انسانی زندگیوں میں ایک انقلاب کا موجب بنتے رہے اور یہہ انقلاب ان کیلئے سعادت و نعمت کے مترادف ہوتے رہے۔ اس سے سماجی مزاج اور کردار کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ، ایمان اور عقیدہ درست اور راسخ ہوتا رہا ہے۔
گناہ کی خاصیت:
حضرت فضیل بن عیاض ؒ فرماتے ہیں کہ جب مجھ سے گناہ سرزد ہوتا ہے تو میں اس کا اثر اپنے گدھے اور خادم کے اخلاق میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ مجھ سے سرکشی کرنے لگتے ہیں۔
زُہد کی حقیقت : حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ زُہد کی حقیقت یہہ ہے کہ جس چیز سے آدمی کا ہاتھ خالی ہو اُس سے اس کا دل بھی خالی ہے۔
متعلقاتِ عبودیت :
حضرت ابوعلی ھود جائی ؒ فرماتے ہیں کہ رضا، عبودیت کا گھر ہے اور صبران کا دروازہ اور گھر میں پہنچ کر فراغت و اطمینان ہوتا ہے اور کمرہ میں داخل ہو کر راحت ملتی ہے۔ مراد یہہ ہے کہ جس طرح گھر کے تین درجے عادتاً ہوتے ہیں۔ اول دروازہ، دوسرے صحن یا گھر کا اندرونی حصہ اور تیسرے حجرہ جہاں آدمی راحت پاتا ہے، اسی طرح عبدیت میں تین درجے ہیں۔ اول صبر، دوسرے رضا بالقصا اور اس کے بعد تفویض۔
عالی ظرفی :
حضرت حارث ؒ فرماتے ہیں کہ عالی ظرفی یہ ہے کہ تم لوگوں کے معاملہ میں انصاف کرو اور اپنے لئے اُن سے انصاف کے منتظر نہ رہو۔
حسنِ خلق کا معاملہ :
حضرت وہبؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص چالیس دن کسی خصلت و عبادت کی پابندی کرے تو اللہ تعالیٰ اس خصلت کو اس کے لئے مثل طبی عادت کے بنادیتا ہے۔
استقامت :
استقامت یہہ ہے کہ وقت (وقت حاضرہ) کو قیامت سمجھو یعنی ایسا سمجھنے سے تمام احوال و اعمال میں استقامت پیدا ہوجائے گی۔
عرض ان چند باتوں کے قطع نظر انسانی اعمال و افعال کی لاتعداد گرہیں ایسی ہیں جن پر بزرگانِ سلف اور صوفی حضرات نے اپنے اپنے تجربات اور مشاہدات کو عملاً ظاہر فرمایا ہے جن کی پابندی سے ایک نیک اور صالح معاشرہ و سماج پیدا ہوسکتا ہے اور پھر یہہ تمام باتیں ان بزرگانِ دین نے اس محسن انسانیت ، منبع اخلاق و مصدرِ اخلاص، مالک کونین حضور نبی اکرم رحمت للعلمین سے حاصل فرمایا جو وجہ تخلیق کائنیات ہیں، جن کی شان میں لو لاک لما خلقت الافلاک آیا ہے ۔۔۔ لیکن اس تربیت اور کردار سازی میں سماجی اہمیت کو سمجھنے اور برتنے کے لئے ایک شیخ کامل کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت عبدالوہاب ثقفی ؒ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اگرچہ تمام علوم کو جمع کرلے اور مختلف طبقات کے لوگوں کی صحبت اختیار کرے ، مگر اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے درجہ کو اُس کے بغیر نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ کسی شیخ کامل یا امامِ مصلح اور شفیق کی تربیت میں رہ کر مجاہدہ نہ کرے اور جو شخص کسی استاد کی خدمت میں رہ کر ادب و تعلیم حاصل نہ کرے جو اس کے اعمال کے عیوب اور نفس کی رعونیت اُس کو محسوس نہ کرادے، چنانچہ حدیثِ قدسی ہے کہ :
الشیخ فی قومہ کان نبی فی امۃ
ایک اور حدیث شریف میں صاف یہہ بات آئی ہے کہ :
علماءِ امت کانبیاء بنی اسرائیل
علماء کے بارے میں یہہ اشارہ قطعی علمائے تصوف سے ہے۔
عوارف المعارف میں بھی صاف لکھا ہے کہ ۔۔۔
’’تم کو جو کچھ خدا سے طلب کرنا ہے
شیخ سے طلب کرو اور جو اللہیت تم چاہتے ہو،
وہ شیخ کی صورت سے تم کو نصیب ہوگی‘‘
مولانا روم کا ارشاد عالی ہے ۔۔۔
از خدا خواہیم توفیق ادب
بے ادب محروم مانداز لطف رب
One thought on “سماجی زندگی پر صوفیائے کرام کے اثرات : – پروفیسر سید محمود قادری”
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم !آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے پروفیسرقادری صاحب کے مقالے کو شائع کیا ۔ اب ا یسے مقالے کہاں لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹرعطااللہ ۔ شکاگو