احساسِ مروت کی موت پرہمارامرثیہ
صادق رضا مصباحی
ممبئی – موبائل نمبر:9619034199
اقبال نے کہاتھا
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اگرہم اس شعرکا حقیقی مصداق دیکھناچاہتے ہیں تو ہم میں سے ہرایک کو آئینے کے سامنے کھڑے ہوجاناچاہیے ،آئینے میں جوچہرہ اور جو پیکر منعکس ہوگا وہ یقیناًاس شعرکے حقیقی مصداق تک پہنچادے گا ۔آئینے کی مثال دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہم میں سے بیشترلوگ کم ازکم دوچہروں کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں اور ایسالگتاہے کہ ہم میں سے تقریباًسبھی کااحساسِ مروت کچلاجاچکاہے۔ہمیں دوسروں کی قدر وقیمت کاذرہ برابربھی احساس نہیں ،ہاں ہمارا یہ احساس اس وقت فزوں ہو جاتا ہے جب کسی سے ہمارا تعلق مادی ہوتاہے اوراس مادی تعلق کاجال مکڑی کے جالے کی طرح ہمیں ایک دوسرے سے باندھے رکھتا ہے ۔
اگرہمیں کسی سے کوئی فائدہ نہیں،کوئی مطلب نہیں،کوئی کام نہیں ،کوئی لالچ نہیں توپھرہمارے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ وہ شخص کتنالائق وفائق اوردوسروں کے لیے کتنا کار آمد ہے۔وہ زمانہ تاریخ کے دوش پر سوار ہو کربہت دورجا چکاجب کسی بےاصولی ،جھوٹے ، مکار، فریبی اوربرے شخص کی سماج میں کوئی عزت نہ تھی ،ہرکوئی اس سے کتراتا تھا اوردوسروں کواس سے بچنے کی تلقین بھی کرتاتھا ۔ اس بات کی قطعاً پروا نہیں کی جاتی تھی کہ یہ فریبی شخص کس قدر دولت مند اور صاحبِ مسند و اقتدار ہے۔گئے زمانے میں اصول وضابطے جسم میں پھیلی شریانوں کی طرح ہمارے فکری واخلاقی وجودمیں پھیلے ہوتے تھے اورہمیں خون پہنچاتے رہتے تھےمگراب یہ رگیں کاٹی جاچکی ہیںاورخون کی فراہمی بندہوچکی ہےاس لیے ہمارا پورا فکری و اخلاقی وجودہی بے جان اورمردہ ہو چکا ہے۔اب شاید ہی ہم میں کوئی ایسا ہو جو ہم سے اصولی اور اخلاقی بنیادوں پرترکِ تعلق کرتا ہو یہی وجہ ہے کہ ہمیں برا کام کرنے میں ذرہ برابربھی نہیں جھجک محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ ہمیں معلوم ہے کہ اب کوئی واعظ وناصح باقی نہیں رہا اور اگر کوئی واعظ و ناصح ہے بھی تو ہمیں اس کے دامن پربھی داغ دھبے نظرآتے ہیں۔ گویا آج ہم ایک ایسے حمام میں کھڑے ہیں جس میں ہم سب ننگے ہیں۔
آپ سب میرے ساتھ اس بات کی عینی شہادت دیں گے کہ آج چاپلوسوں کازمانہ ہے ، اصولی لوگوں کا نہیں۔آپ کتنے ہی اچھے انسان ہوں ،پڑھے لکھے ہوں،صاحبِ اَقدار ہوں،روایات کے امین ہوں او ر معاشرے کے جوہر ہوں مگرآپ کی تمام صلاحیتیں اس وقت تک کنارے پڑی سڑتی رہتی ہیں جب تک کہ آپ کے اندرایک اور ہنر نہ ہو اور وہ ہنر ہے چاپلوسی کا، جھوٹی تعریف کا،موقع پرستی کا،منافقت کا ۔ سر پیٹ لینے کوجی چاہتاہے کہ ہم بڑی خوب صورتی سے اپنے ان سارے عیبوں کومصلحت کوشی کے لفافے میں پیش کرتے ہیں۔ اگرآپ کے اندریہ ہنرہے تو پھر سمجھیے یہ مذکورہ ساری صلاحیتیوں پربھاری ہے اور آپ ایسی حقیقی خوبیوں والے افراد پر’’غالب ‘‘ہی رہیں گے ۔کتنے ایسے لوگ میری نگاہ میں ہیں جو دوسروں کاکام محض اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں ان سے کام پڑتارہتاہے یا انہیں ان سے کسی فائدے کی توقع ہوتی ہے ۔اگران کے پاس کوئی حقیقی ضرورت مندانسان کسی ضرورت یامددکےلیے چلاجائے تویہ لوگ اکثرمعذرت کرلیتے ہیں اور اگر کام کربھی دیں تو پھر احسان جتلاکر شرمندہ کرنا ان کامعمول ہے۔ جب کہ دوسری طرف اپنے مفاد اور مطلب کے لوگوں کویہ کہہ کرفائدہ پہنچاتے ہیں کہ دراصل وہی لوگ ان کے صحیح معنوں میں بڑےمخلص اور عزیز ہیں۔ ایسا اس لیے ہورہاہے کہ یہ دورمادی دورہے ،مشینی دورہے ، سائنسی دور ہے ۔اس مشینی اور سائنسی دور نے ہر انسان کو اتنا جلدباز بنادیاہے کہ اسے صرف اورصرف دنیا نظر آرہی ہے ،اسے آخرت نظرنہیں آرہی ،وہ جلدازجلد فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور معاشرے میں اپنا ’’مقام ‘‘ بنانے کے لیے ہاتھ پیرمارتاہے ۔اس کے لیے وہ ہرحربہ آزماتاہے ۔ یہی وجہ ہے اب ہم میں انسانیت نہیں رہی ،ہم میں احساسِ مروت نہیں رہا۔مشینوں کی حکومت اورمادیت کے بوجھ تلے ہمارا احساس،انسانیت ،مروت ،محبت سب کچھ کچلا جارہاہے ،سب کی موت واقع ہورہی ہے مگرہمیں ان کی مو ت پررتی بھربھی افسوس نہیں ہے کیوں کہ ہمیں اپنی اقدار،روایات اورورثے کی اہمیت کااندازہ نہیں اور جسے کسی چیزکی اہمیت کااندازہ ہی نہ ہواسے اس چیز کی طرف متوجہ کرنابھیس کے آگے بین بجاناہے لہٰذا یہ سطور ان عناصرکی موت پربطور پرسہ یابطورمرثیہ لکھی جارہی ہیں،اصلاح کے لیے نہیںکیوں کہ اصلاح کی طرف سے ہم نے اپنے سارے دروازے بند کر رکھے ہیں،اب ہم موت کی دستک پرہی یہ دروازہ کھولیں گے ۔