دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط:2
قرآن ایمان کا خزانہ
مفتی کلیم رحمانی
موبائیل نمبر : 09850331536
——–
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ پہلی قسط کے لیے کلک کریں
——–
جس طرح ہر چیز کا ایک خزانہ ہوتا ہے ، جہاں سے وہ چیز حاصل کی جاتی ہے اسی طرح ایمان کا خزانہ قرآن ہے ۔ یوں تو دین میں قرآن اور ایمان کے گہرے رشتے کو دیکھتے ہوئے اس عنوان پر قلم اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن بد قسمتی سے بہت سے مسلمانوں میں آج یہ خیال زور پکڑتا جارہا ہے کہ قرآن کے احکام و اصول کو سمجھے بغیر بھی ایمان کامل اور مضبو ط ہو سکتا ہے اور یہ کہ تکمیل ایمان پہلے ہے بعد میں تعلیمِ قرآن ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کا پہلا اور آخری زینہ قرآن ہی ہے ۔
قرآن کے بغیر نہ ایمان کے پہلے زینہ کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ آخری زینہ کو ۔ جو بھی ایمان کے پہلے زینہ پر قدم رکھنا چاہتا ہے اسے قرآنی احکام و اصول ہی سے علمی و عملی رشتہ جوڑنا ہو گا۔ اور جو ایمان کے آخری زینہ کو پار کرنا چاہتا ہے ۔ اسے بھی قرآنی احکام و اصول ہی سے رشتہ جوڑنا ہو گا۔ جس طرح نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج ، جہاد ، قتال ، دعوت ، تجارت ، زراعت ، نکاح ، طلاق ، عدت ، سیاست ، وراثت اور حکومت کے بنیادی احکام و اصول قرآن میں ہیں اسی طرح ایمان کے بنیادی احکام و اصول بھی قرآن میں ہیں ۔ یہ خیال کہ ایمان کے احکام و اصول قرآن میں نہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا الزام ہے اس لئے کہ اس صورت میں یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اہم چیز کے احکام و اصول بیان نہیں فرمائے جس پر تمام اعمال کے قبولیت کا دارومدار ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری وضاحت کے ساتھ قرآن مجید میں ایمان کے احکام و اصول بیان فرمائے ہیں اس لئے کہ ایمان دین کی سب سے پہلی سیڑھی ہے ۔ اس کو پار کئے بغیر کوئی بھی دین کی دوسری سیڑھیوں کو پار نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کا بیشتر حصہ ایمانی احکام و اصول پر مشتمل ہے ۔
اس لحاظ سے کسی کو یہ کہنا کہ پہلے اپنے ایمان کو کامل و مضبوط کر لو بعد میں قرآن کے احکام و اصول کو سمجھنے کی کوشش کرو یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی بھوکے شخص سے کہا جائے کہ پہلے اپنی بھوک مٹالو بعد میں کوئی چیز کھاؤ، ظاہر ہے کوئی چیز کھانے سے پہلے موت تک اس کی بھوک نہیں مٹ سکتی ۔ اسی طرح قرآنی احکام و اصول کو سمجھے بغیر موت تک کسی کا ایمان کامل و مضبوط نہیں ہوسکتا ۔ کوئی شخص صرف کلمہ کا اقرار اور اس کی تصدیق کر لینے سے تاریکی سے نہیں نکل سکتا جب تک کہ قرآ ن کے احکام و اصول کو سمجھ کر ان کی پیروی نہ کر لے ۔ چنانچہ قرآن کریم کے سورۂ طلاق کی آیت ۱۱؍ اسی بات کی وضاحت کرتی ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ نے آیاتِ قرآنی کے نزول کا ایک مقصد یہ بیان فرمایا کہ اس کے ذریعہ اہلِ ایمان تاریکی سے نکل کر روشنی کی طرف آئے۔ رَسُولاً یَتْلُواٰ عَلَیْکُمْ آیاتِ اللّٰہِ مُبَیّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحَتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۔ترجمہ :۔ رسول ( یعنی محمدؐ ) تمہارے سامنے اللہ کی کھلی ہوئی آیات پڑھ کر سناتے ہیں تا کہ اہلِ ایمان اور نیک اعمال کرنے والوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لائے ۔ ) (سورۂ الطلاق آیت ۱۱) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہدایت کے لئے صرف مطلق ایمان اور چند اعمال صالحہ کافی نہیں ہے بلکہ قرآن کی مکمل پیروی ضروری ہے اور اسی کا نام کامل ایمان ہے ۔
ایمان کو قرآن سے جدا کر کے سمجھنے کی کوشش شیطان اور نفس کے دھوکہ کے سوا کچھ نہیں اس لئے کہ ایمان کی تکمیل کوئی مجرد چیز نہیں ہے بلکہ وہ ایک پر مغز چیز ہے جس کا سرچشمہ و خزانہ قرآن و حدیث ہے دین کی ہر وہ تحریک جس کا رشتہ قرآن سے مضبوط نہ ہو اور جس کے تعلیمی و تربیتی و دعوتی منصوبہ میں قرآ ن کی تعلیم و تفہیم پر خصوصی توجہ نہ ہو تو وہ ایک ناقص تحریک ہے اور اگر وہ تحریک اسی حالت پر قائم رہے تو بہت جلد اس میں دین کے نا م پر غیر دینی نظریات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ پھر اس تحریک پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اس کے نزدیک عین دینداری ،دُنیا داری قرار پاتی ہے۔اور عین دُنیا داری، دین داری قرار پاتی ہے ۔ سورۂ انفال کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حقیقی ایمان والوں کی چند صفات بیان کرتے ہوئے ایک اہم صفت یہ بیان فرمائی کہ جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے ، چنانچہ ارشار ربانی ہے ۔ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہُ زَادَتْھُمْ اِیْمَاناً (انفال۲)(یعنی جب ان کو اللہ کی آیات سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے ۔)آیت میں چونکہ براہ راست اشارہ صحابہ کرامؓ کی طرف ہے جن کی زبان عربی تھی اس لئے وہ تلاوت ہی سے بیشتر قرآن کو سمجھ لیا کرتے تھے لیکن ایک غیر عربی مسلمان کو اپنے ایمان میں اضافہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کے معانی و مطالب کو اپنی زبان میں سمجھے ۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان میں بڑھوتری کرنے والی چیز قرآن کی سمجھ کر تلاوت ہے ، یا قرآن کا سمجھ کر سننا ہے ۔ اس لئے کہ ایمان کی بڑھوتری کا تعلق انسان کی ذہنی و دلی کیفیت سے ہے اور انسان جس بات کو سمجھتا نہیں اس سے ذہن و دل کی کیفیت نہیں بدلتی اسی طرح سورۂ توبہ کی آیت ۔ ۱۲۴ میں بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کے سننے کو ایمان میں زیادتی کا باعث قرار دیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃ’‘ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّقُوْلُ اَیُّکُمْ زادَ تْہُ ھٰذِہِ اِیْمَاناً فَاَ مَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا فَزَادَتْھُمْ اِیْمَاناً وَّھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَْ ۔ (توبہ آیت ۱۲۴)
نزول آیت کا پس منظر یہ ہے کہ جب نبی ﷺ پر کوئی سورۃ نازل ہوتی تو آپ ؐ اہلِ ایمان کو سنا دیا کرتے تھے تو جو منافقین تھے وہ اہلِ ایمان سے بطور مذاق کہتے کہ اس سورت نے کس کے ایمان میں اضافہ کیا تو اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا : جو اہلِ ایمان ہیں اس سورۃ نے ان کے ایمان میں اضافہ کر دیا۔