دکن کی چند ہستیاں
(تنقیدی مضامین )
مصنف :ڈاکٹر رؤف خیر
09440945645
مبصر: ڈاکٹرعزیز سہیل
اردوادب اور شاعری میں یکساں طورپر حیدرآباد دکن سے جنہوں نے اردو دنیا میں نام کمایا ہے ان ہستیوں میں حیدرآباد دکن کے ایک مایہ ناز سپوت ڈاکٹر رؤف خیر بھی ہیں۔ وہ ایک کامیاب شاعر اورانشا پرداز ہیں۔ ان کے قلم میں وہ جادو ہے کہ کسی بھی موضوع پر بے باک‘بے خوف وخطرلکھنے سے نہیں ڈرتے اور وہ اپنی اسی خصوصیت کے باعث ادبی حلقوں میں انفرادیت رکھتے ہیں۔
اکثرہندوستان بھر سے شائع ہونے والے اردو کے مقبول ومعیاری رسائل میں ان کے مضامین اور غزلیں پابندی سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔وہ مختلف اردو کے سمیناروں‘ادبی مذاکروں اور کل ہند مشاعروں میں مدعو کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹررؤف خیر کی اب تک ایک درجن سے زائد تصانیف شائع ہوکر منظرعام پرآچکی ہیں ۔زیرتبصرہ کتاب ’’دکن کی چند ہستیاں ‘‘حالیہ دنوں منظرعام پرآئی ہے۔
زیرتبصرہ کتاب دکن کی چند ہستیاں ڈاکٹر رؤف خیر کے تنقیدی مضامین پرمشتمل ہیں جن میں ڈاکٹررؤف خیر نے خورشید جامعی فن اور شخصیت ‘سلیمان اریب‘شاذ تمکنت‘ تاب ‘ اوج یعقوبی‘مضطر مجاز‘سعدی‘ اقبال متین‘ روحی قادری ‘غیاث متین‘ طالب رزاقی‘ ذکی بلگرامی ‘طالب خوند میری‘ رضا وصفی‘ مصحف اقبال توصیفی ‘ ڈاکٹرمحمدعلی اثر‘ڈاکٹرمحمد مقبول فاروقی‘یوسف قادری‘اثر غوری‘اعظم راہی‘ ولی تنویر‘ داؤد اشرف‘ولی دکنی‘ شہیدکوزگوی‘ علیم صبا نویدی جیسی شخصیتوں پر طبع آزمائی کی ہے اور ان کے فکر وفن کواجاگرکیاہے۔ڈاکٹررؤف خیر نے ان شخصیات کے فن پر تحقیقی انداز سے روشنی ڈالی ہے اورادب کی ان ہستیوں کواپنے فن سے دوبارہ جلا بخشی ہے۔ وہ کتاب کے پیش لفظ میں ان معزز شخصیات سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ زیادہ ترمیں نے اپنے آپ کو حیدرآباد تک محدود رکھاہے تاکہ یہاں کے ادبی ماحول کا ایک مختصرہی صحیح جائزہ لیاجائے۔ اردو دنیا کے سامنے ان شخصیات کی فکر اور فن کو پیش کیاجائے ۔ حیدرآباد میں قلندر مزاج‘ گوشہ نشینی فنکار‘بڑی بے نیاز انداز زندگی گذار کررخصت ہوگئے ہیں۔ انہیں بالکل بے نام ونشان ہونے سے بچانے کی میں نے کوشش کی ہے تاکہ ادب کی تاریخ میں ان کا ذکر بھی آجائے‘‘۔
زیرتبصرہ کتاب کا پہلا مضمون خورشید احمد جامعی فن اور شخصیت کے عنوان سے شامل ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹررؤف خیر نے بڑے دلچسپ انداز سے جامعی کا خاکہ پیش کیاہے اور ان کا یہ انداز منچلہ انداز ہے۔ ان کی تحریر کے مطالعہ سے ایک ذہنی تفریح کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ جامعی کی شخصیت سے متعلق رؤف خیر کے اچھوتے انداز کوملاحظہ کریں۔ جامعی صاحب کا پہلا مجموعہ ’’رخسار سحر‘‘شائع ہوا تواردو ادب میں تہلکہ مچ گیا۔ نئی نسل جو ساحرلدھیانوی اور شکیل بدایونی کے اثر سے نکل نہیں پائی تھی اب جامعی کے اسلوب کی دیوانی ہوگئی۔ کئی قدیم شاعر چپکے سے اپنا چولا بدلنے لگے۔ جامعی کے بعض ہم عمر وہمعصرشاعر تو جامعی کے مصرعے کے مصرعے گلانے لگ گئے توجہ دلائی گئی تو جلالی و جلیلی نگاہ قہر آلود سے دیکھنے لگے۔ کچھ لوگ جامعی کی نقل کی خوشہ چیں اور نقال جامعی کا رنگ نہ لاسکے۔ کچھ لوگوں نے ان کے تخلص پر ہاتھ ڈالا مگر زندگی بھرجامعی کی طرح ایک شعر نہ کہہ سکے‘‘۔
یہ درد وغم کا اداس موسم‘یہ وقت کے اجنبی قرینے
نہ یاد محبوب کی گھٹا ہے نہ مست وساغر بہ کف مہینے
ڈاکٹر رؤف خیر ادب میں نشتر مار لکھنے والوں میں شامل ہیں ۔ان کے فن پر دورائے نہیں لیکن ان کا انداز کا تنقیدی اور طنزبھرا ہوتا ہے۔ انہو ں نے اپنے اس مضمون کے ابتداء میں جامعی تخلص کا مفہوم پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فارسی میں جامعی کامطلب ہوتا ہے ’’عبدالرحمن جامعی‘‘اور اردو میں جامعی سے مراد’’خورشید احمد جامعی‘‘ باقی جامعیوں کواپنے سابقوں‘لاحقوں کے بغیر نہیں جانا جاسکتا۔
زیرتبصرہ کتاب میں ایک اورمضمون’’ بے ’’حلف ‘‘ہوگیا غیاث متین ‘‘کے عنوان سے شامل ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹررؤف خیر نے غیاث متین کی شخصیت او ر فن پر بہت کچھ لکھا ہے ۔انہوں نے غیاث متین کی وضع وقطع اور خصوصی وصف کوبیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ غیاث بھائی بڑے زندہ دل‘ خوش اخلاق اور خوش لباس آدمی تھے۔آنکھ ‘ناک کی طرح مسکراہٹ ان کے چہرے کا حصہ تھی۔ بڑے رکھ رکھاؤ کے انسان تھے۔ زیادہ تر سفاری سوٹ زیب تن کئے رہتے تھے ۔ بہت خوش خوراک بھی واقع ہوئے تھے مگر انصاف پسند بھی تھے۔ ان سے ملنے کے لئے کبھی عثمانیہ یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوتا اور اگر لنچ کا وقت ہوتا تو کہتے چل آ ‘لنچ کرلے اور جا کینٹن سے کچھ لے آ۔جب کھانے بیٹھتے توبیگ احساس‘ عقیل ہاشمی‘ افضل الدین اقبال اور یوسف سرمست کے ٹفن غیاث متین بھائی کے حوالے ہوجاتے۔ ڈاکٹررؤف خیر نے غیاث متین کی ایک نظم کوبھی اس مضمون میں شامل کیا ہے جس کے دوبند اس طرح سے ہیں ۔
مجھے بھی کاندھا دینا ہے
ان لاشوں کوجو موجودتو ہیں لیکن دکھائی نہیں دیتی
مگراگرایسا نہ کرسکا تو
تومیرے کتبے پرلکھوادینا
یہاں ایک شخص دفن ہے
جس کے نام کے پہلے ہی حرف کے اعداد
سب سے زیادہ تھے
یعنی پورے ایک ہزار
لیکن وہ
ایک بھی نہ تھا
بہرحال اس کتاب میں شامل دیگر مضامین بھی اہمیت کے حامل ہے جن کے مطالعہ سے حیدرآباد دکن کے ادبی ستاروں کی زندگی کے روشن پہلووں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کتاب میں ڈاکٹررؤف خیر نے دکن کی ممتاز ومایہ ناز شخصیتوں کی خدمات کواجاگرکرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے اوراکثرمضامین میں انہو ں نے اپنے شخصی تاثرات کوبھی شامل کیا ہے ۔ان میں سے اکثر شخصیات سے ڈاکٹررؤف خیربالمشافہ ملاکرتے تھے اوران کی شخصیات سے متاثر بھی تھے۔انہوں نے ضروری سمجھا کہ ادب کے مثالی شہزادوں کو اردو کی نئی دنیا کے لوگوں سے واقف کروایاجائے اور ان شخصیات کو ادب میں دوبارہ جلا بخشی جائے۔زیرتبصرہ کتاب تحقیقی وتنقیدی مضامین پر مشتمل ہے ۔جس کی اشاعت پر میں ڈاکٹر رؤف خیرصاحب کو صمیم قلب سے مبارک باد دیتا ہوں اورامید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی منفرد تحریری انداز سے ادبی تخلیقات جلا بخشیں گے۔یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشینگ ہاؤس نے شائع کی ہے۔یہ کتاب ایک سوبیانو صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت دوسوروپئے رکھی گئی ہے ۔کتاب کو مصنف کے مکان نمبر9-11-137/1‘موتی محل ‘گولکنڈہ سے یا ہدی بک ہاوس پرانی حویلی سے حاصل کیاجاسکتا ہے ۔ 09440945645 فون نمبرپر ربط بھی کیا جاسکتا ہے۔
——–