زبیر رضوی کی یاد میں
وہ موسم جاچکا جس میں پرندے چہچہاتے تھے
محمد ریحان
جامعہ ملیہ اسلامیہ
پچھلے دو سالوں میں بڑی بڑی ہستیاں ہم سے اچانک اور ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئیں۔ موت سے کوئی شکایت نہیں اور ہو بھی نہیں سکتی ۔یہ دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے۔کیا مومن اور کیا کافر سبھی اس سچائی کو تسلیم کرنے پر مجبور اور بے بس ہیں کہ جو بھی یہاں آتا ہے اسے ایک دن جانا ہی ہوتا ہے۔ آنے جانے کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔لیکن کسی کے ہمارے درمیان سے اچانک بچھڑ جانے کااتنا ملال کیوں ہوتا ہے۔کچھ انسان در اصل سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں۔ ایک سایہ دار درخت کی اہمیت ایک راہ گیرجانتا ہے۔
ہم سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھنے میں سکون اور طمانیت محسوس کرتے ہیں ۔اس درخت کی شاخوں اور پتیوں سے ایک انجانی انسیت قائم ہوجاتی ہے۔اس کے سائے میں بیٹھ کراس کی ہمیشگی کے لئے دعا کرتے ہیں۔ لیکن پھر کیا ہوتا ہے۔ کبھی اچانک بہت تیز آندھی آتی ہے اور کئی درخت اس کی چپیٹ میںآجاتے ہیں۔ ان درختوں میں کچھ سایہ دار درخت بھی ہوتے ہیں۔ان کے جڑ سے اکھڑ جانے کا دکھ ہوتا ہے۔کچھ انسان در اصل سایہ دار درخت کی طرح ہم پر سایہ بنائے رکھتے ہیں۔ ان سے ایک انجانی سی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ہم انہیں کھونا نہیں چاہتے۔ کیونکہ وہ ساری عمر اپنے لئے کم اوروں کے لئے زیادہ جیتے ہیں۔ان کی زندگی میں ہم اپنی خوابوں کی تعبیر پاتے ہیں ۔ ایسی ہی شخصیت زبیر رضوی کی تھی ۔ یہ شخص ایثار و قربانی کا پیکر، اخلاص و محبت کے جذبے سے سرشار اورسہل پسندی وآرام طلبی کا کا فرتھا۔ جس طرح اے پی جے عبدالکلام کی موت پروگرام کے دوران لیکچر دیتے ہوئے ہوئی تھی اسی طرح ان کی موت بھی گذشتہ سال دہلی اردو اکیڈمی کے ایک پروگرام کے دوران ہوئی تھی ۔ گذشتہ دو چار سالووں میں اردو کے بڑے شاعروں کی اموات جس تیزی سے ہوئی ہیں ان سے متاثر ہو کر اسرار جامعی نے اپنے خیال کا اظہار کچھ اس طرح کیا:
اے میرے رفیقان سخن وقت دعا ہے
اردو پہ مری آکے عجب وقت پڑا ہے
ظالم ملک الموت بھی اردو کا ہے دشمن
چن چن کے بڑے شاعروں کے پیچھے پڑاہے
زبیر رضوی کا ہمارے بیچ سے جانا صرف ایک شاعر کا جدا ہونا نہیں تھا۔بلکہ ان کے ساتھ ایک ایسا ذہن بھی ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا جو جدید دور کے ذہنوں سے بہت مختلف تھا۔آج کا نوجوان چاہے اس کا تعلق کسی بھی شعبۂ ہائے زندگی سے ہو وہ ذمہ داری قبول کرنے سے گھبراتا ہے۔محنت سے دور بھاگتا ہے ۔ آرام پسندی سے قربت پیدا کرتا ہے۔ آج ہمارا جسم تھکے بغیر آرام کرنا چاہتا ہے ۔ ہم لوگوں کو کچھ نہیں دیکر بہت کچھ پانے کی توقع کرتے ہیں۔اونے بونے لکھاڑی ایک آدھا ادھورامضمون لکھ کر اپنے آپ کو ادیب کہلوانا چاہتے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے افسانے اور بازاری ناول لکھ کرادب عالیہ میں ان غیر ادبی تخلیقات کو شمار کرنے لگتے ہیں۔ابھی لکھنا شروع نہیں کیا کہ کافکا اور چیخوف سے موازنہ کرنے لگتے ہیں۔ ایک ٹوٹی پھوٹی تقریر کے سہارے مقرر کا خطاب جیتنے کی خواہش دل میں پال لیتے ہیں۔ خیال کی تک بندی سے میر و غالب کی فہرست میں اپنا نام درج کروانا چاہتے ہیں۔ ہماری ایک کتاب اگرجیسے تیسے منظر عام پرآگئی تو ہر انعام اپنی جھولی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔اپنی ہر گفتگو میں اس’’ کاوش‘‘ کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ ہم در اصل اپنی بات سے پہچان بنانے کے عادی ہیں کام سے نہیں۔ہم بول کر بڑا بننا چاہتے ہیں کچھ کر کے نہیں۔یہی ہے آج کے ہمارے اردو’’ ادیب‘‘ کی حقیقت۔اور اس طرح کے ادیبوں کی تعداد افسوسناک حد تک بہت زیادہ ہے۔
زبیر رضوی کی شخصیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ذمہ داری کسے کہتے ہیں اور ا سے نبھایا کیسے جاتا ہے۔وہ اپنی محنت پر یقین رکھتے تھے۔کسی بھی کام کوپوری یکسوئی او ر کامل دلجمعی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔اس کا ثبوت ان کا رسالہ ’’ذہن جدید ‘‘ ہے۔ زبیر رضوی نہ صرف اس کا اداریہ لکھتے بلکہ اس کے تمام مسودے خود ہی پڑھتے اور خود ہی ایڈٹ کرتے۔ اشاعت اور خریدار تک اس کی تقسیم کے سارے کام خود ہی انجام دیتے ۔ ان کا یہ جریدہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بے نظیرتھا۔اس کا دائرہ کافی پھیلا ہوا تھا۔ اس میں ادبی مضامین ،افسانے، شاعری اور تبصرے کے علاوہ فلم اور تھیئٹرسے متعلق بھی مضامین شامل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ادب سے متعلق عالمی اور قومی خبریں بھی شائع ہوتی تھیں۔وہ خود بھی صرف شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ رقص و موسیقی اور مصوری و بت تراشی کی باریکیوں سے واقف تھے۔ ان فنون پر اکثر ان کے مضامین شائع بھی ہوتے تھے۔ جن میں ان کا نظریہ بہت صاف اور سلجھا ہوا ہوتا تھا۔آخری عمر تک لکھتے پڑھتے رہنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔زندگی کے آخری پڑاؤ میں آکر انسان ذہنی و جسمانی دونوں اعتبار سے کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔اس کے بازو شل ہو جاتے ہیں۔وہ اپنے حصے کا کام انجام دینے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ لیکن زبیر رضوی نے آخری سانس تک نہ صرف اپنے ذمہ کا کام خود کیابلکہ وہ اضافی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اپنے کاندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کی قوم کے جوانوں میں موج دریا کے تھپیڑوں کو برداشت کرنے کی سکت نہیں۔انہیں ساحل کابے جان و بے ہلچل سکون زیادہ پسند ہے۔اس کو ایک شعر میں انہوں نے یوں کہا :
ساحل کا سکوں تم لو میں موج خطر لے لوں
یوں وقت کے دریا کو تقسیم کریں باہم
دنیا میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو چیزوں کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اور اپنے دل و دماغ سے انہیں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔دوسرا وہ جو چیزوں کو اپنی نظر سے دیکھنے کے باوجود کسی بنے بنائے اصول کے زیر اثر ان میں معنی و مفہوم تلاش کرتا ہے۔ یعنی اپنی حسیت کو اہمیت نہیں دیتا۔زبیر رضوی نے زندگی کو اپنے تجربات اور مشاہدات سے سمجھنے کوشش کی ہے۔ان کی زندگی میں کئی تحریکوں نے جنم لیا۔ وہ چاہتے تو کسی ایک سے وابستہ ہو کر اپنے خیالات کو شعر کے قالب میں ڈھالتے ۔لیکن انہیں یہ بات معلوم تھی کہ کسی ایک فکر اور رجحان کے ماتحت ہو کر چیزوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔زبیر رضوی نے ترقی پسندی کے آخری دور ، جدیدیت و مابعد جدیدیت کے رجحانات کو دیکھا۔ان ادوار کے مطالبات اور مسائل سے انکار نہیں کیا ۔ ہاں اتنا ضرور کیا کہ کلاسیکی لہجے میں ان مطالبات اور مسائل کو پیش کیا۔ خلیق انجم نے ان کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی شاعری میں وہ سوز وگداز نہیں جو روحانی اور افلاطونی محبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔لیکن پھر بھی ان کے یہاں سطحی قسم کے شعرا کی بوالہوسی اور لمس جسم کا تقاضا نہیں ہے۔وہ عورت کے جسم کے خریدار نہیں البتہ اس کے وجود کی صحبت کی آرزو رکھتے ہیں اور اس کے قلب و روح اور ذہن و دماغ سے قریب ہونا چاہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ان کی نظم ’’مصالحت ‘‘ کافی اہم ہے۔اس طرح کے خیالات ان کی غزلوں کے اشعار میں بھی بیان ہوئے ہیں:
اپنی ذات کے سارے خفیہ رستے اس پر کھول دئے
جانے کس عالم اس نے حال ہمارا پوچھا تھا
کوئی ٹوٹا ہوا رشتہ نہ دامن سے الجھ جائے
تمہارے ساتھ پہلی بار بازاروں میں نکلا ہوں
یہ لمحہ لمحہ تکلف کے ٹوٹتے رشتے
نہ اتنے پاس میرے آ کہ تو پرانا لگے
نظر نہ آئے تو سو وہم دل میں آتے ہیں
وہ ایک شخص جو اکثر دیکھائی دیتا ہے
تم اپنے چاند تارے کہکشاں چاہے جسے دینا
مری آنکھوں پے اپنی دید کی اک شام لکھ دینا
زبیر رضوی کی نظم نگاری غزل کے مقابلے میں زیادہ وزن رکھتی ہے۔اس کی وجہ در اصل یہ ہے کہ نظم میں وہ اپنے خیالات فطری بہاؤ کے ساتھ پیش کرنے میں قادر تھے۔ان کی نظموں کا بیانیہ محاکاتی بھی ہے اور مکالماتی بھی۔نظم کی جو جامع تعریف ہو سکتی ہے اس پر ان کی نظمیں پوری طرح اترتی ہیں۔ ان کی نظموں میں خیال کا تسلسل کہیں نہیں ٹوٹتا ۔ پہلی سطر بعد والی سطر اور بعد والی اس کے بعد والی سطر سے اس طرح گھل مل جا تی ہے کہ آپ ا س کو کسی طرح الگ کر ہی نہیں سکتے۔ اگرآپ ’’سیاہ پٹی‘‘ ،تبدیلی ‘‘ اور’’ دوسرا آدمی‘‘ وغیرہ کا مطالعہ کریں تو حقیقت از خود واشگاف ہو جائے گی۔یہاں ’’دوسرا آدمی‘‘ نظم پیش کئے دیتا ہوں تاکہ بات ہوا ہوائی معلوم نہ ہو :
سنو پھر آج ہم میں سے کسی کو موت نے تاکا
اچانک مر گیا کوئی
چلو یار پئیں دیوار سے سر پھوڑ کے روئیں
نشہ اترے تو اس کی یاد میں ایک مرثیہ لکھیں
پرانے تذکروں میں اس کے خد و خال کو ڈھونڈیں
کتابوں کے ورق الٹیں
رسالوں اور اخباروں کی پچھلی فائلیں کھولیں
دماغ و دل کے گوشے میں چگپی یادیں کریدیں
تلخیاں بھولیں
فراموشی کی ساری گرد جھاڑیں
رنجشیں بھولیں
ہر اک خوبی ہم اس کے نام سے منسوب کر دیں
اور ایسے شخص کا پیکر تراشیں
کل جو اپنے درمیا ں زندہ نہیں تھا
زبیر رضوی کے ادبی سرمائے میں کئی مجموعے اور کتابیں شامل ہیں۔ جن میں لہر لہر ندیاگہری، خشت دیوار ، دامن، پرانی بات ہے، سبزۂ ساحل اورمسافت شب کافی اہم ہیں۔ زبیر رضوی اردو ادب کے ذخیرے میں آخری وقت تک اضافہ کرتے رہے۔تمام مصروفیتوں کے باوجود اپنا رسالہ پابندی سے نکالتے رہے۔ مشاعروں میں اپنی مترنم آوازوں سے سامعین کا دل جیتنے والے زبیر رضوی کبھی اپنی کاوشوں اور کارناموں کی گردان نہیں کرتے ۔وہ صرف اور صرف اردو کی خدمت کرنا جانتے تھے ۔ لکھنا اور پڑھنا انہیں زیادہ عزیز تھا ۔ ان کی طبیعت میں خودنمائی نہیں تھی۔
پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے
ہمارے دور کا انسان نیکی کر کے چیخے گا
زبیر رضوی نے ہمیںیہ بتایا ہے کہ لگن اور dedication کیا چیز ہوتی ہے۔ افسانے کو کیسے حقیقت بناتے ہیں ۔ خواب اور اس کی تعبیر کے فاصلے کیسے طئے کئے جاتے ہیں۔ ا نہوں نے اردو کے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی تاکے اردو زبان کویہ شکایت نہ ہو کہ اردو کے اس سپاہی نے قربانی دینے میں تساہلی سے کام لیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس لیتے ہوئے اس دکھ کاا ظہار کیا کہ ہماری نوجوان نسل کتنی سہل پسند ہو گئی ہے۔ انہیں جو کرنا تھا اور جو کچھ وہ کرسکتے تھے اسے پوری محنت،لگن اور ایمانداری سے کیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جس داستان کا آغاز انہوں نے کیا تھا ہم اس کو انجام تک کیسے پہنچاتے ہیں۔جس راستے پر وہ چلے تھے ہم اس پر کہاں تک چل سکتے ہیں۔ کون ایک ذہن رسا اور طرزفکر کی وراثت کو آنے والی نسل تک منتقل کرتا ہے۔
میں اپنی داستاں کو آخر شب تک تو لے آیا
تم اس کا خوبصورت سا کوئی انجام لکھ دینا
——-
Mohammed Rehan