دین میں قرآن فہمی کی اہمیت – قسط:1- قرآن ہدایت کا سرچشمہ – مفتی کلیم رحمانی

Share


دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط:1
قرآن ہدایت کا سرچشمہ

مفتی کلیم رحمانی
موبائیل نمبر : 09850331536
———

نوٹ: مفتی کلیم رحمانی صاحب یکم جنوری 1965 کو اورنگ آباد کے دیہات پانباڑی میں پیدا ہوئے۔ ابتداء ہی سے دینی تعلیم مکتب میں حاصل کی۔ بعد ازاں علمیت اور امارتِ شرعیہ ، پھلواری شریف ، پٹنہ ، بہار سے افتاء کی تعلیم حاصل کی۔ 1992 سے تاحال پوسد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

آپ نے ہوسد شہر میں 2003 میں ایک دینی و اقامتی ادارے ‘دارلعلوم اشاعت القرآن کی بنیاد رکھی جہاں سے اللہ کے فضل سے ملت کو کئی حفاظ میسر آئے اور آرہے ہیں۔ موصوف کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
1- دین میں قرآن فہمی کی اہمیت -2- اسلام اور حکومتِ الہیہ -3- مقصدِ نماز جمعہ – 4- حقیقتِ علم اور مقصدِ علم 5- نظامِ اسلامی اور نظامِ جمہوری- ایک مطالعہ – 6- حقیقیتِ نماز – 7- نماز اور سورۃ فاتحہ ، ایک پیغام ‘ 8- موجودہ مسا لک کی حقیقت اور دینِ حق ان کتابوں کے علاوہ موصوف کے مضامیین تواتر کے ساتھ برِ صغیر کے موقر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کی کتاب ’’ دین میں قرآن فہمی کی اہمیت‘‘سے منتخب مضامین انشااللہ ہر جمعہ کو قسط وار پیش کیے جائیں گے۔ ( حسنین عاقب )
———
ہدایت کے معنی ہیں سیدھے راستہ کی رہنمائی یعنی اس راستہ کی رہنمائی جو اللہ کو مطلوب ہے اور جس پر چل کر انسان دنیا میں گمراہی سے محفوظ رہتا ہے اور آخرت میں جنّت کا مستحق بنتا ہے۔ ہدایت ہر دور میں کلامِ الہیٰ سے وابستہ رہی ہے۔ کبھی تو یہ ہدایت حضرت آدم ؑ ، حضرت نوحؑ ، حضرت ابراہیم ؑ پر نازل ہونے والے صحیفوں کی شکل میں رہی تو کبھی حضرت موسی ؑ ، حضرت داؤد ؑ ، حضرت عیسٰیؑ پر نازل ہونے والی کتابوں کی شکل میں رہی ۔ لیکن ان نبیوں کے دنیا سے جانے کے بعد انسانوں نے جب ان کتابوں میں تحریف کرڈالی تو اللہ نے خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرما کر اور ان پر قرآن نازل فرما کر قیامت تک کے لئے ہدایت کو قرآن سے وابستہ کردیا، اور اس کی حفاظت کا خود ذمّہ لے لیا، اور آنحضورؐ کے آخری نبی ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہدایت کا راستہ قرآن کی شکل میں قیامت تک موجود رہے گا۔ قرآن کے کتابِ ہدایت ہونے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کتاب کو کہیں ھُدَی لِلنَّاس فرمایا کہیں ھُدَی لِلمُومِنِین فرمایا کہیں ھُدَی لِلمُتَّقِینفرمایااور کہیں ھُدَی لِلمُحْسِنِےِنْ فرمایا۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی بحیثیت مومن ہدایت چاہتا ہے تو اسے بھی قرآن کی پیروی کرنی ہوگی۔ کوئی بحیثیت متقی ہدایت چاہتا ہے تو اسے بھی قرآن کی پیروی کرنی ہوگی کوئی بحیثیت محسن ہدایت چاہتا ہے تو اسے بھی قرآن کی پیروی کرنی ہوگئی۔
یہاں کسی کے ذہن میں یہ بات پید ا ہوسکتی ہے کہ حصولِ ہدایت کے لئے جب قرآن کی پیروی ضروری ہے تو حضرت محمد ﷺ کی پیروی کا کیا مطلب؟ اس کا جواب یہ ہیکہ : قرآن کی پیروی ہی دراصل حضرت محمد ﷺ کی پیروی ہے۔ اور خود آنحضور ﷺ کی پوری زندگی قرآن کی پیروی میں گزری۔ قرآنی ہدایت کے بغیر آپ ؐ ایک قدم بھی نہیں اُٹھاتے تھے۔ کیونکہ خود اللہ تعالی نے قرآن میں
جگہ جگہ آپ ؐ کو قرآن کی اتباع اور پیروی کا حکم دیا۔ چنانچہ سورہ یونس کی آیت ۱۰۹؂ میں اللہ تعالیٰنے آنحضور ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا وَاتَّبِعْ مَا ےَوْحٰیٓ اِلَےْکَ یعنی آپؐ کی طرف جو قرآن کی وحی کی جارہی ہے اس کی اتباع کیجئے اسی طرح سورہ اعراف کی آیت ۲۰۳؂ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضور ؐ کو اتّباعِ قرآن کے اعلان کا حکم دیا ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ اِنَّمَا اَتَّبِعُ مَا ےُوحٰیٓ
اِلَیَّ مِنْ رَّبّیِ یعنی اے محمد ؐ کہہ دیجئے بیشک میں اُسی کی اتباع کرتا ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف بھیجا جارہا ہے۔ یعنی ’’ قرآن مجید‘‘ اسی طرح سورہ زُخرف کی آیت ۴۳؂ میں اللہ تعالی نے آنحضور ؐ ہی کو خطاب کرکے فرمایا :ُ فَا سْتَمْسِکْ بِاالَّذِی اُو حِیَ اِلَےْکَ یعنی جو آپ ؐ کی طرف وحی کی جارہی ہے اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑیے ، یہاں بھی وحی سے مراد قرآن ہے۔
حصولِ ہدایت میں قرآن کتنا فیصلہ کن کردار رکھتا ہے سورہ سبا کی آیت ۵۰ سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے جس میں اللہ تعالی نے آنحضور ؐ سے اعلان کروایا کہ میں وحی الہٰی کی بدولت ہدایت پر قائم ہوں چنانچہ ارشاد ربانی ہے : قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فاِنَّمَا اَضِلُّ عَلیٰ نَفْسِی وَاِنِ ھْتَدَےَتُ فَبِمَا ےُوحٰیٓ اِلَیّ رَبّیِ(سَبَا ۵۰؂) ترجمہ : ( اے محمد ؐ ) کہدیجئے اگر میں گمراہ ہوں تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر پڑے گا اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس وحی کی بدولت جو ( قرآن کی شکل میں میری طرف میرے رب کی جانب سے بھیجی جارہی ہے۔ ) یہا ں تک ان آیات کا ذکر تھا جن میں اللہ نے صرف آنحضوؐ کو قرآن کی اتباع اور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کا حکم دیا ویسے شریعت کا یہ اُصول ہے کہ قرآن کے وہ احکام جو صرف آنحضور ؐ کو خطاب کرکے دئے گئے وہ بھی آپؐ کے ذریعہ سے تمام اُمّت پر عائد ہوتے ہیں لیکن قرآن میں ایسی آیات کی بھی کمی نہیں ہے جن میں تمام ایمان والوں کو خطاب کرکے قرآن کی اتباع اور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسے سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۳؂ میں اللہ تعالی نے تمام ایمان والوں کو خطاب کرکے قرآن کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کا حکم دیا۔ فرمان باری تعالی ہے : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِےْعَا یعنی اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط پکڑلو۔ اللہ کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے جیسا کہ اس سلسلہ میں نبی ؐ نے فرمایا: حَبْلُ اللَّہِ ھُوَالْقُرْآنُ المَجِیدْ اَلَمَمْدُ وْ دُمِنَ السَّمَاءِ اِلیٰ الْاَرضِیعنی اللہ کی رسی وہ قرآن مجید ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے۔
مذکورہ آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے تحریر فرمایا 🙁 سب مل کر قرآن کو مضبوط تھامے رہو جو خدا کی مضبوط رسی ہے۔ ) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے قرآن کو مضبوط پکڑنا ضروری ہے قرآن کو مضبوط پکڑے بغیر اللہ سے کبھی بھی تعلق پیدا نہیں ہوسکتا ۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کی بے سمجھے صرف تلاوت یا حفظ کسی بھی طرح قرآن کو مضبوط پکڑنے کی تعریف میں نہیں آتا جب تک کہ اس کو سمجھ کر اس کے احکام پر عمل نہ کیا جائے۔ یہ بات اور ہے کہ صرف تلاوت یا حفظ پر بھی اجر و ثواب مل جائے لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ نزولِ قرآن کا اصل مقصد حصولِ رہنمائی ہے نہ کہ حصولِ ثواب ! سورہ اعراف کی آیت ۔۳؂ میں بھی اللہ تعالیٰ نے تمام ایمان والوں کو قرآن کی اتباع کا حکم دیا۔ ارشاد خداوندی ہے : اِتَّبعُوْامَا اُنْزِلَ اِلَےْکُمْ مِنْ رَّبِکُمْ۔یعنی اتباع کرو اس کا جوتمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۔۹؂ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اِنَّ ھٰذَا القُرْاٰنَ ےَھْدِی لِلَّتِی ھِیَ اَقْوَمْ ۔یعنی بیشک قرآن رہنمائی کرتا ہے اس راستہ کی جو سب سے سیدھا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ہدایت کا اصل ترجمان قرآن ہے حق و باطل کی راہ میں قرآن کیسے حق کا علمبردار ہے اور باطل کا مخالف سورہ حمٓ السجدہ کی آیت ۔ ۴۲؂ سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے۔ ارشاد ربّانی ہے : لاَ ےَاتِےْہِ الْبَاطِلْ مِنْ بَےْنِ ےَدَےْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہِ : یعنی قرآن وہ کتاب ہے کہ باطل نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے۔ مطلب یہ کہ جو قرآن کی راہ پر چلے گا شیطان اور اس کے ساتھی نہ اس کو آگے سے بہکا سکتے ہیں اور نہ پیچھے سے۔ قرآن کی پیروی کا اس سے بڑا فائدہ اور کیا ہوگاکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں ہر قسم کی گمراہی سے حفاظت کی ضمانت دیدی۔ یہ بھی قرآن کی عظمت کی دلیل ہے کہ خود اللہ تعالی نے سورہ فاتحہ کی آیت میں بندوں کو ہدایت طلب کرنے کی دعاء سکھلائی اور سورہ بقرہ کی آیت ۲/میں بندوں کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا : ذَلِکَ الکِتَابُ لاَ رَےْبَ فِیہِ یعنی تم نے جو ہدایت مانگی وہ یہ کتاب قرآن مجید ہے جس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں۔ اسی لئے بیشتر مفّسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ذَلِکَ الکِتَاب دراصل بندوں کی دُعاء اِھدِنَا الصِّرَاط المُستَقِےْمْ کا جواب ہے جن میں علامہ شبیر احمد عثمانی فاضل دیوبند قابل ذکر ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ہدایت قرآن ہی سے چاہنا ضروری ہے۔ جو شخص ہدایت کی طلب رکھتا ہے لیکن قرآن سے ہدایت نہیں چاہتا تو دراصل وہ بھی بے طلب ہے۔ قرآن سے ہدایت چاہنے کا مطالب یہ ہے کہ قرآن کے معانی و مطلب کو سمجھا جائے اور اس کے
تقاضوں کو پورا کیا جائے۔
قرآن اور آنحضرت ؐ کی سیرتِ طیّبہ میں کتنا گہرا تعلق ہے اسے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ایک فرمان سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے ۔ آپ ؐ کے وصال کے بعد چند اہلِ ایمان حضرت عائشہؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا : ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سیرت بتائیں ؟ حضرت عائشہؓ نے ان سے پوچھا اماقراء تم القرآن کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ اور پھر ان سے فرمایا : کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَیعنی قرآن ہی آپؐ کی سیرت ہے۔ مطلب یہ کہ جو قرآن نے کہا وہی آپ ؐ نے کیا۔ حضرت عائشہؓ کے اس فرمان سے دو اہم باتوں پر روشنی پڑتی ہے جن کو آج بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ کہ آنحضور ؐ کی زندگی کو سمجھنے اور جاننے کا سب سے اہم ذریعہ قرآن ہے۔ اس لئے آپؐ کی سیرت کو جاننے اور آپؐ کی پیروی کے لئے سب سے پہلے قرآن کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ دور صحابہؓ میں دین کے ہر معاملہ میں اُمّت کو سب سے پہلے قرآن سے جوڑا جاتا تھا، یہاں تک آپؐ کی زندگی بھی قرآن سے سمجھی جاتی تھی آج کے حالات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں نے عام طور سے ان دونوں ہی باتوں کو نظر انداز کردیا ہے اول تو آنحضور ﷺ کی زندگی کو جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے اور اگر محسوس کرتے بھی ہیں تو آپ کی وہ زندگی جاننے کی کوشش کرتے ہیں جو نہ قرآن میں ہے اور نہ صحیح احادیث میں بلکہ داستان گو حضرات نے آپؐ کی زندگی سے متعلق جو داستانیں گھڑی ہیں اور جھوٹے راویوں نے حدیث کے نام پر جو جھوٹی احادیث گھڑی ہیں ان ہی کومزے لے لے کر بیان کرتے ہیں اور سُنتے ہیں، اور جہاں تک اُمّت کو پہلے قرآن سے جوڑنے کا کام ہے تو اس سے افسوسناک غفلت برتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ ایمان کی مضبوطی بھی قرآنی تعلیمات سے بے نیاز ہوکر تلاش کی جارہی ہے جبکہ ایمان کی مضبوطی قرآن سے علمی و عملی رشتہ جوڑنے میں ہے۔
جس طرح قرآن کے کتابِ ہدایت ہونے سے متعلق بہت سی قرآنی آیات ہیں اسی طرح بہت سی احادیث بھی ہیں۔ اختصار کے پیشِ نظر ہم یہاں صرف ایک حدیث متن اور ترجمہ کے ساتھ پیش کررہے ہیں۔ جو قرآن کی اہمیت کو واضح کرتی ہے یہ حدیث ترمذی شریف، دارمی
اور مشکوٰۃ شریف میں موجود ہے۔ عَنِ الْحَارِثِ الْاَعْوَرِقَالَ مَرَرْتُ فِی الْمَسْجِدِ فَاِذَالنَّاسُ ےَخُوُضُوْنَ فِی الْاَحَادِےْثِ فَدَخَلْتُ عَلِیِِّ فَاَ خْبَرْتُہْ فَقَالَ اَوَقدْ فَعَلُوْ ھَا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ اِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّیٰ اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ ےَقُوْلُ اَلاَ اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنۃُ قُلْتُ مَاالمَخْرَجُ مِنْھَا ےَا رَسُوْلَ اللَّہِ قَالَ کِتَابَ اللَّہِ فِےْہِ نَبَاُمَاقَبلکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدُکُمْ وَحُکْمُ مَا بَےْنَکُمْ ھُوَالْفَصْلُ لَےْسَ بِالْھَزُلِ مَنْ تَرَکَہ مِن جبَّارِ قَصَمَہُ اللَّہُ وَ مَنِ ابْتَغَی الْھُدٰی فِیْ غَےْرِہِ اَضلَّہُ اللَّہُ وَ ھُوَ حَبْلُ اللَّہِ الْمَتِےْنُ وَ ھُوَالذِّکْرُالْحَکِیمُ وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُستَقِےْمُ ھُوَالَّذی لاَ تَزِےْغُ بِہِ الْاَ ھُوَآءُ وَلاَ تَلْتَبِسُ بِہِ الْاَ لسِنَۃُ وَلاَ ےَشْبَعُ مِنہُ الْعُلَمَآءُ وَلاَ ےَخْلُقُ عَنْ کَثَرۃِ الرَّدِّوَلاَ ےَنْقَضِی عَجَآءِبْہُ ھُوَ الَّذیْ لَمْ تَنْتَہِ الْجِنُّ اِذْسَمِعَتْہ حَتَّی قَالُوْا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنَا عَجَباَ یَّھدِی اِلیَ الرُّشْدِ فَا مَنَّا بِہِ مَنْ قَالَ بِہِ صَدَق وَمَنْ عَمِلَ بِہِ اُجِرَوَمَنْ حکَمَ بِہِ عَدَلَ وَمَنْ دَعَا اِلَےْہِ ھُدِیَ اِلَیٰ صِرَاطِِ مُسْتَقِےْمِِ(رَوَاہُ ترمذِیُّ وَالدَّارمی و مشکوۃ) ترجمہ: ( حضرت حارث اعورسے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں ایک مسجد کے پاس سے گزرا تو لوگ وہاں سے بے فائدہ باتوں میں مشغول تھے، میں حضرت علیؓ کے پاس گیا اور ان کو اس بات کی خبر دی تو حضرت علیؓ نے فرمایا کیا انھوں نے ایسا کیا؟ میں نے کہا ہاں !تو حضرت علیؓ نے فرمایا خبردار میں نے رسول ؐ کو یہ فرماتے سنا کہ : عنقریب ایک فتنہ ظاہر ہوگا ! میں نے عرض کیا اس فتنہ سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ اے اللہ کے رسول ؐ تو آپ ؐ نے فرمایا : اللہ کی کتاب سے کہ اس میں تمہارے پہلوں کی خبر ہے اور جو تم سے بعد میں آنے والی ہے اس کی بھی خبر ان کو ہے۔ اور اس میں معاملہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان واقع ہو اور یہ کتاب حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہے۔ لغو نہیں۔ جس متکبّر نے اس قرآن کو چھوڑا اللہ اس کو ہلاک کرے گا اور جس نے قرآن کو چھوڑ کر کسی اور چیز سے ہدایت طلب کی تو اللہ اس کو گمراہ کردے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے وہ نصیحت و حکمت سے لبریز ہے۔ اور وہ سیدھی راہ ہے اور قرآن ایسا ہے کہ اس کی اتباع سے خواہشیں باطل کی طرف مائل نہیں ہوتیں اس سے علماء سیر نہیں ہوتے اور اس کو بار بار پڑھنے سے اس کامزہ پُرانا نہیں ہوتا اور اس کے نکات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ قرآن ایسا ہے کہ جن بھی نہ ٹھہر سکے جب
انھوں نے سنا یہاں تک کہ وہ کہہ اُٹھے : ’’ ہم نے عجیب قرآن سُنا جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لے آئے، جس نے قرآن کے موافق کہا اس نے سچ کہا اور جس نے اس کے موافق عمل کیا وہ ثواب دیا جائے گا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا۔ اور جس نے اس کی طرف بلایا وہ سیدھی راہ دکھایا گیا۔ ‘‘
مذکورہ حدیث سے کئی اہم باتوں پر روشنی پڑتی ہے جن کا لحاظ ضروری ہے سب سے پہلی بات جو اس حدیث میں فرمائی گئی، وہ یہ کہ نبی کریم ؐ نے ایک فتنہ کے ظاہر ہونے کی پیشن گوئی فرمائی اور اس سے بچنے کی صورت یہ بتائی کی قرآن کو مضبوطی کے ساتھ پکڑا جائے اور دوسری اہم بات یہ فرمائی گئی کہ قرآن میں زندگی سے متعلق ہر معاملہ کا فیصلہ ہے، تیسری بات یہ کہ جو قرآن کو چھوڑ کر کہیں اور سے ہدایت تلاش کرے گا اللہ اس کو گمراہ کردے گا۔ چوتھی بات یہ کہ قرآن کو اللہ کی رسّی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے بغیر کوئی بھی اللہ سے اپنا تعلق نہیں جوڑ سکتا اور پانچویں بات یہ کہ قرآن کی اتباع کی وجہ سے آدمی باطل کی طرف مائل نہیں ہوتا اور چھٹی بات یہ کہ قرآن قیامت تک انسانوں کی رہنمائی کے لئے کافی ہے اور ساتویں بات یہ کی اسی عمل کے اوپر اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے جو قرآن کے مطابق ہو اور آٹھویں بات یہ کہ اسی کو ہدایت کی ضمانت دی گئی ہے جو قرآن کی طرف بلائے۔
——
Mufti Kaleem Rahmani
بانی و مہتمم دار العلوم اشاعت القرآن، کوپرا پھاٹا
پوسد ضلع ایوت محل ، مہاراشٹر۔ الہند
موبائیل نمبر : 09850331536

Share
Share
Share