پروین شاکر
چراغ بجھتے رہے اور خواب جلاتی رہی
عزہ معین ،سنبھل
ادب کی پرکھ رکھنے والے عظیم شعراء ومصنفین نے ثابت کیا ہے کہ شاعر تلامیذ الرحمن ہوتا ہے ۔شاعری خداداد صلاحیت ہوتی ہے ۔ ذات کا عرفان حاصل ہونے پر ہی شاعر کو عروج وزوال ، واقعات و حادثات اور سسکتی جوانیوں کی عکاسی کرنے کا فن آتا ہے ۔ معاشرے کی زندگی کا فلسفیانہ مطالعہ اور ذات سے وابستگی کی تعبیر و تفہیم ادب کا خاص پہلو ہے جس کا بیان شاعری اور دیگر تخالیق میں قلم کے ذریعے کیا جانا ہی ادب کہلاتا ہے ۔قلم کار کا گہرا شعور اور احساس اسے سماج میں ہورہے واقعات کی طرف عام افراد سے زیادہ متوجہ کرتا ہے اور ایک ذمہ دار شاعر اپنا فرض ادا کرتے ہوئے روایت کی پاسداری اور سوئے ہوئے اذ ہان کو جگانے کا کام کرتا ہے ۔شاعر کی نوک قلم سے وہی کچھ بیان ہوتا ہے جس کا اس کی زندگی پر اثر پڑا ہو ۔جس سے وہ متاثر ہوا ہو ۔پھر چاہے وہ واقعات اس سے وابستہ نہ ہوں لیکن کسی نہ کسی طور سے اس پر یا اس کے ذہن پر اثر ضرور ڈالتے ہیں ۔شاعر واقعات کی مکمل رپورٹ بڑے پر اثر انداز میں قاری کے گوش گزار کر دیتا ہے۔
پاکستان کی معروف شاعرہ اور عالمی ادب کی ممتاز خاتون پروین شاکر نے نہ صرف شعر و شاعری کو اپنایا بلکہ اس میں عورت کی انا و خودداری ،جذبات و احساسات ،بے بسی ،شرم و جھجک اور روایات سے ہونے والے خسار ے ا لغرض سبھی کچھ دنیا کے سامنے رکھ دیا ۔ ان کے اشعار میں زخم ملتے ہیں ۔جھلستے مکان ملتے ہیں۔
وہ ہوا تھی کہ کچے مکانوں کی چھت اڑ گئی اور مکیں لاپتہ ہو گئے
اب تو موسم کے ہاتھوں (خزاں میں) اجڑ نے کو بس خواب کی بستیاں رہ گئیں
اجنبی شہر کی اولیں شام ڈھلنے لگی ، پرسہ دینے جو آئے ۔گئے
جلتے خیموں کی بجھتی ہوئی راکھ پر بال کھولے ہوئے بیبیاں رہ گئیں
پروین شاکر ۱۹۵۲ ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ان کے والد کا نام ثاقب حسین تھا شاعری کا ذوق تھا اور شاکرؔ تخلص رکھتے تھے ۔ پروین کی تربیت بچپن سے ہی صحت مند خطوط پر ہوئی ۔ تعلیمی سرگرمیاں ہمیشہ سے ہی اعلی پیمانے کی رہیں ۔ انگلش لٹریچر اور لنگوئسٹکس میں ماسٹرز کرنے کے بعدانھوں نے پہلے تاریخ اور پھر انگلش لکچرر کے عہدے پر خدمات انجام دیں ۔سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کسٹم اسسٹنٹ کے عہدے پر فائز ہو گئیں ۔ترقی کی منازل طے کرنے کے ساتھ ایک دکھ ان کے لہلہاتے چمن پر بجلی بن کر گرا وہ تھا ان کے شوہر کا طلاق کی حد تک نفرت کرنا ۔پروین شاعرہ تو تھیں ہی لیکن اس شعر کو انھوں نے تضمین کے طور پر اپنی زبان میں استعمال کیا تھا۔
طلاق دے تو رہے ہو عتاب و قہر کے ساتھ – مرا شباب بھی لوٹا دو میری مہر کے ساتھ
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی – وہ جھوٹ بولے گا ا ور لا جواب کر دے گا
پروین شاکر نے ہمیشہ اپنی شاعری کو خالص رکھا ۔وہ وہی کہتی تھیں جو محسوس کرتی تھیں ۔ پروین شاکر نے اپنی طلاق کے بعد بہت درد بھری شاعری کی ہے ۔ان کی زندگی میں ڈھیروں کامیابیوں کے ساتھ ان کے شوہر کا مزاج ان سے نہ ملنا ایک بڑا المیہ تھا ۔ ان کا ہم سفر اپنے وعدوں پر قائم نہ رہا اور جلد ہی ان کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ۔دونوں کے مزاج زیادہ عرصہ ایک دوسرے کو برداشت نہ کر سکے۔ پروین شاکر کی کوششوں کے باوجود ان کا رشتہ رک نہیں پایا ۔ان سارے واقعات کو پروین نے اپنی شاعری کے سپرد کردیا اور ایسے نایاب اشعار وجود میں آئے کہ وہ اردو ادب کے بے مثال نمونۂ کلام قرارپائے ۔
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے میرے فیصلوں کا ریشم پھر
نہ اس کی بات میں سمجھوں نہ وہ میری نظریں
معاملاتِ زبا ں ہو چلے ہیں مبہم پھر
ز ند گی تجھ سے دور رہ کر میں
کاٹ لو ں گی جلا و طن کی طرح
پروین کی شاعری میں سب سے زیادہ ضمیر متکلم (صنف نازک )کا استعمال ملتا ہے۔ جو ا ن کے علاوہ خال خال ہی کسی شاعرہ کے کلام میں نظر آتا ہے ۔ان کی شاعری کے مطالعے کے بعد ان کی حق گوئی،بلوریں کھرا پن ،اور سچے جذبات و تجربات کاتجزیہ کرنے کا ہنر متاثر کئے بنا نہیں رہتا ۔
میرا نوحہ کنا ں کوئی نہیں ہے سو اپنے سوگ میں خود بال کھولوں
وہ اب میری ضرورت بن گیا ہے کہاں ممکن رہا اس سے نہ بولوں
میں اپنے آپ کو ڈسنے لگی ہوں مجھے اب زہر اچھا لگ رہا ہے
پذ یر ا ئی کو میر ی شہر گل میں صبا کے ہاتھ میں پتھر رہا ہے
ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا
ہم تو سمجھے تھے کہ ایک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
بیسویں صدی کے آخری چوتھائی حصہ اور اکیسویں صدی کے آغاز میں پروین شاکر نے دنیائے ادب میں ایک ہلچل پیدا کردی ۔ان کی پر کشش شخصیت اور منفرد انداز بیان ان کی شاعری کو عروج کی لازوال منزلوں سے ہم کنار کرگیا ۔شاعری میں جذبات کی عکاسی کا ایسا نادر نمونہ اور کسی خاتون کے کلام میں نہیں پایا جاتا۔شاعر اپنے اسلوب و لہجے کی بنا پر جانا جاتا ہے ۔ ان کے الفاظ اورموضوعات ہی انھیں زندہ رکھتے ہیں ۔
مر بھی جاؤں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ مرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
پروین شاکر کی شاعری اسی پس منظرمیں تخلیق کی گئی ہے ۔یہ نہ صرف عاشقانہ موضوعات کو اپنے اندر سمو لیتی ہے بلکہ معاشرتی منظر نامے پر چل رہے واقعات اور ملک و قوم کی چیخوں کو سوئے ہوئے کانوں تک پہنچانے کا کام کرتی ہے ۔
جن کے کھیت اور آنگن ایک ساتھ اجڑے ہیں
کیسے حوصلے ہوں گے ان غریب ماؤں کے
پروین شاکر کی شاعری میں احساس اور وقوف احساس بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیںَ۔ا ن کی غزلوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی غزل جذبات کی وضاحت و صداقت کے ساتھ ساتھ عرفان ذات کی بھی آئینہ دار ہے ۔
مجھے بارش کی چا ہت نے ڈ بو یا
میں پختہ شہر کا کچا مکا ں ہو ں
خو شبوئیں مجھ کو قلم کرتی گئیں
شا خ د ر شا خ مر ے ہا تھ کٹے
سکون دل کے لئے میں کہاں کہاں نہ گئی
مگر یہ دل کہ سدا اس کی انجمن میں رہا
چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا
اہرام ہے یا کہ شہر میرا
انسان ہیں یا حنوط لاشیں
پروین شاکر نے ادبی روایات سے رشتہ بنائے رکھا اور غزل میں کلاسیکی قدروں کی آمیزش سے ایک نیا آہنگ و سانچہ تیار کیا ۔ان کی شاعری میں حسن و صداقت بولتی نظر آتی ہے ۔اپنی آپ بیتی کو شعر کے لہجے میں پرو کر بیان کردینے کا فن کسی کسی کے ہی قلم سے ممکن ہوتا ہے ۔ایک جگہ زندگی کے ہمہ جہت تحرک میں اپنے احساس کو پیش کرتی ہیں ؛
جس طرح خواب میرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
اس سے ایک بار تو روٹھوں میں اسی کی مانند
اور میری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے
میں اس کی دسترس میں ہو ں مگر
وہ مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
ہمیں خبر ہے کہ ہوا کا مزاج رکھتے ہو
مگر یہ کیا کہ زرا دیر کو رکے بھی نہیں
خوش نہ تھا مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
اس کے چہرے پہ لکھا تھا لوگو
یاد کرکے مجھے نم ہو گئی ہوں گی پلکیں
آنکھ میں پڑ گیا کچھ کہ کر یہ ٹالا ہوگا آنکھ
نسائی انا کی سلامتی کی بے حد حسین تصاویر پروین کی شاعری میں ملتی ہیں ۔عورت کو ہمیشہ ہی دبایا جانا کچلا جانا پروین کے دل کو کچوکے لگاتا ہے وہ اپنی خودداری سے اس کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ان کی شاعری میں خواتین کے لئے نصیحت بھی ہے اور کشش بھی ؛
میں کیوں اس کو فون کروں
اس کے بھی تو علم میں ہوگا
کل شب
موسم کی پہلی بارش تھی
بچھڑتے وقت دلوں کو اگرچہ دکھ تو ہوا
کھلی فضا مگر سانس لینا ا چھا لگا
ذکر آئے گا جہاں بھوروں کا
بات ہو گی مرے ہر جائی کی
کنار صحن چمن سبز بیل کے نیچے
وہ روز صبح کا ملنا تو فسانہ ہوا
میں سوچتی ہوں کہ مجھ میں کمی تھی کس شے کی
کہ سب کا ہو کے رہا وہ ،بس اک مرا نہ ہوا
اجنبی بن کے جو گزرا ہے ا بھی
تھا کسی و قت و ہ اپنا لو گو
پروین شاکر معاشرتی جھوٹی اقدار کی پاسداریوں اور سماجی ناسور وں پر گہرا طنز کرتی ہیں ۔ ایسی الجھنوں کو جن کو بیان کرنے کی وجہ سے صرف لڑکیوں کے کردار پر انگلیاں اٹھا ئی جاتی ہیں ۔صنف نازک ہونے کی بنا پر ان کو ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے ۔ یہ فرسودہ روایات یہ سماج جس جگہ بچیاں اپنی بے جا شرم ،ادب و آداب کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں انھیں ان کی طرف بھی اعتراض کرنے کی چاہت رہتی ہے ۔
ماں سے کیاکہیں گی کہ خود پر بھی
اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں
پروین شاکر کی نظر سبھی طبقات کے رموز سے پردہ اٹھاتی ہے ۔انھیں نئی نسل کا اقدار عالیہ سے منحرف ہونا ان میں روایتوں کا فقدان فکر مند کرتا ہے۔ نوجوان نسل کی بے راہ روی کا بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں ؛
اس نسل کا فقط ذہن کٹ رہا ہے
اگلو ں نے کٹا ئے تھے فقط سر
ایسی خالی نسل کے خواب ہی کیا ہوں گے
جس کی نیند کا سر چشمہ تک چرس میں ہے
آج ایشیائی ممالک جس دور سے گزر رہے ہیں بالخصوص مسلم معاشروں کی زبوں حالی شاعر ی میں اپنی جگہ بنا رہی ہے ان حالات میں ماضی اور مستقبل پر بھی نظر کرنے کی ضرورت ہے۔ پروین شاکر نے بڑی صداقت کے ساتھ حالات حاضرہ سے پردہ اٹھایا ہے ۔
پانیوں کے چڑھنے تک حال کہ سکیں او ر
کیا قیامتیں گزریں بستیاں نہیں کھلتیں
کائی کی طرح لاشیں چٹانوں پہ اگ گئیں
زر خیزیوں سے اپنی پریشان تھی زمیں
دراصل پروین کی شاعری میں طرز احساس اور طرز اظہار میں ایک نئی جدت ہے ۔وہ آسان الفاظ میں اپنی بات کہنے کا خوبصورت انداز جانتی ہیں ۔
شہر گل میں ہواؤں نے چاروں طرف اس قدر ریشمی جال پھیلا دئے
تھر تھراتے پروں میں شکستہ اڑانیں سمیٹے ہوئے تتلیاں رہ گئیں
وہ مسائل جن کی وجہ سے عہد حاضر کا انسان گھٹ گھٹ کر جی رہا ہے وہ اپنی شاعری میں نئے اسالیب کے ساتھ بیان کر دیتی ہیں۔ جنگ و انتشار کی برباد کی ہوئی سسکتی زندگیوں پر نوحہ لکھنے کاپروین نے نرالا انداز اپنایا ہے۔
جب بھی غریب شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
لہجے ہو ا ئے شا م کے نمنا ک ہو گئے
آنسوؤں میں کٹ کٹ کر کتنے خواب گرتے ہیں
اک جوان میت آ رہی ہے گاؤں میں
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و با لا شجر خا ک ہو گئے
ذرے سرکش ہوئے کہنے میں ہوائیں بھی نہیں
آسمانوں پہ کہیں تنگ نہ ہو جائے زمیں
پروین شاکر نے زندگی کی صرف پذیرائی ہی نہیں کی بلکہ مخالف سمت میں بھی قدم اٹھا یا ہے ۔ ایک جگہ اپنی وجودیت اور تمام اقدار سیب ہی بغاوت کر جاتی ہیں ؛
چکھو ں ممنو عہ ذ ا ئقے بھی
دل ، سا نپ سے دوستی بڑھا دے
پروین شاکر کی شاعری کے مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی غزلوں میں اپنے نازک احساسات کو اپنے شاعرانہ خلوص اور بے حد اثر انداز لہجے میں شیریں تغزل اور ہلکے ترنم میں پیش کر دینے کا ہنر جانتی ہیں ۔ ان کے پڑھنے کا دلنشین انداز بھی نرالا ہے ۔ان کی شاعری اعلی اسلوب اور سچے خیالات کا بہترین امتزاج ہے ۔طرز اظہار کی نیرنگی نے ان کے خیالات میں واقعیت پیدا کردی ہے۔انھوں نے پرانے اشاروں میں بھی نئے گوشے پیدا کر دئے ہیں جس نے ان کی غزل کو فرسودہ ہونے سے بچا لیا ہے ۔ ان کی شروعاتی شاعری سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی کوشش رہی ہے کہ اس میں عوامی شناخت کے ساتھ ساتھ ان کی انفرادیت بھی قائم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام آج ان کے جانے کے طویل عرصہ بعد بھی اسی خوشبو کے ساتھ قائم و دائم ہے اور اس کے پڑھنے والے شائقین کا حلقہ روز بہ روز وسیع ہوتا جا رہا ہے ۔غزل کی کیف و مستی اور لطافت کو قائم رکھتے ہوئے پروین نے اپنی زندگی کے حقائق کو عصری حقیقتوں کے صحت مند خطوط کے ساتھ غزل کے جیسے بڑے حسین لباس میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ سچ ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پی
——-
izza Moin
Abdul Moin
samman shaheed
sambhal 244302