فلمی نغمہ نگار و شاعر
ڈاکٹر سی نارائن ریڈی (سی نارے) ۔ ایک خراج
ڈاکٹر مسعود جعفری
حیدرآباد ۔ دکن
09949574641
اردو کو ہمیشہ اس بات پر ناز رہے گا کہ اس کے قد و گیسو کو سنوارنے وا لوں میں صرف اہل حجاز ہی نہیں رہے۔فارسی و عربی زبان جا ننے وا لوں ہی نے اسے اپنایا۔ اس ے محبت کرنے والوں میں سنسکرت اور تلگو بولنے وا لے بھی پیش پیش رہے۔حیدرآ باد دکن کو ابتدا ہی سے یہ اعزاز یہ امتیاز حا صل رہا۔شہر قلی قطب شاہ سے 70 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع کوڑنگل تعلقہ میں فروکش رہنے والے حضرت دامودر ذکی اردو کے استاد شاعر رہے۔وہ تلگو ،مرہٹی ،سنسکرت کے ساتھ فارسی و اردو سے واقف تھے۔اردو ان کی مادری زبان نہیں تھی لیکن وہ اردو غزل اور ،نعت کے مستند شاعر تھے۔
ان کے دو شعری مجموعے ارج اور سفینہ ذکی منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کے تلامذہ کا حلقہ بہت وسیع رہا ہے۔ اسی طرح کاکتیہ راجدھانی ورنگل کے کالوجی برادران بھی اردو کے ما یہ ناز شعرا ئے کرام تھے۔ان دو بھا ئیوں کو علی برادران سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔کالوجی رامیشور راو اور کا لوجی نا رائین راو کی مادری زبان مرہٹی تھی۔انہوں نے اردو میں شاعری کی اور اپنی تخلیقات سے اسے زرخیز بنایا۔ترو تازہ کیا۔کالوجی رامیشور راو کے تین شعری مجمو عے کلام شا د حصہ اول و دوم اور کا ئنات شاد د زیور طباعت سے آداستہ ہو چکے ہیں۔ ان کا تخلص شاد اور انکے بھا ئی باغی تخلص کرتے تھے۔ہم نے یہ تمہیدی کلمات سپرد قلم کئے۔یہ دکھانے کے لئے ارض حیدرآ با صدیوں سے لسانی ہم آہنگی کا سر چشمہ رہا۔یہاں شمالی ہند یا دہلی کی طرح اردو ہندی کی رقابت نہیں رہی۔اس کی روشن مثال سی نا رائین ریڈی ہیں جنہوں نے سی نارے اپنا قلمی نام رکھا تلگو کے ساتھ اردو میں بھی شاعری کے پھول کھلا ئے اور چا ہنے والوں سے داد و تحسین کے آبدار موتی سمیٹے۔ان کا اردو شعری مجموعہ بہتا نغمہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔انہوں نے رومن یا دیو ناگری رسم خط کے بجائے فارسی رسم الخط میں شاعری لکھی۔وہ اس سے واقف تھے۔ اردو سے رشتہ تا دم زیست بنائے رکھا۔کبھی اس کا دامن ہاتھ سے نہیں چھو ڑا۔ 12 جون 2017 نے ایوان ادب پر بجلیاں گرا دیں۔موت کے آہنی پنجے نے ذو لسانی شاعر نا رائن ریڈی المعروف سی نارے کو ہم سے چھین لیا۔زندگی ہاتھ ملتی رہ گئی۔اداسی ہر سمت پھیل گئی۔غموں کا رین بسیرا آگیا۔جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے کیا خوب قیامت کا ہے کوئی دن اور۔ وہ85 برس کے تھے۔پھل اور پکنے سے پہلے پیڑ سے جدا ہو گیا۔
کسے پتہ تھا کہ سرسلے کے ایک چھوٹے سے گاوں ہنو ماجی پیٹ کے تلگو گھرانے میں جنم لینے والا بچہ اردو میڈیم اسکول سے اپنی پڑھائی کا آغاز کرے گا۔وہ آگے چل کر حیدرآباد میں چادر گھاٹ ہا ئی اسکول سے تعلیم مکمل کرے گا۔ وہاں انہوں نے تلگو کو ایک اختیاری زبان کی حیثیت سے پڑھا۔ اس کے بعد انہوں نے بی ائے اردو سے کیا ۔گریجویشن تک نا رائن ریڈی کا تعلیمی سفر اردو ہی میں چلتا رہا۔بعد میں انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے تلگو میں ایم ائے اور ڈاکٹریٹ کی۔وہ تلگو کے بڑے شاعر و فلمی نغمہ نگار تو تھے ہی لیکن انہوں نے اردو میں بھی شاعری کی۔غزلیں سپرد قلم کیں۔ سی نارے تخلص رکھا۔ان کی اردو غزلیں سیاست میں چھپتی تھیں۔بڑا پر لطف کلام ہو تا تھا۔مقطعہ دلچسپ ہو تا تھا۔سی نارے لفظ سے نغمگی اور غنائیت جھلکتی تھی۔انہوں نے کم و بیش 80 کتابیں تصنیف کیں۔یہ سب بہ زبان تلگو ہیں۔ایک انگریزی میں بھی کتاب That is What I Saidوہ جو میں نے کہا ہے تحریر کی ہے۔ سی نارے صاحب کو اردو سے بے پناہ لگاو تھا۔ انہوں نے تلگو میں اپنی کتا بوں کے نام یوں رکھے جیسے سی نارے غزلو ،تلگو غزلو یعنی سی نارے کی غزلیں ،تلگو غزلیں۔اس طرح انہوں نے اردو غزل کو تلگو والوں میں روشناس کیا۔اسے ان کی اردو سے والہانہ محبت کا اظہار ہو تا ہے۔وہ سچے سیکولر آدمی تھے۔ ان کی آ فا قیت کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی چار بیٹیوں کے نام دیوی دیو تاوں کے نام پر نہیں رکھے ۔بہتے ہوئے دریاوں کا انتخاب کیا۔ انہوں نے بچیوں کے نام گنگا ،جمنا ،سرسوتی اور کرشنا وینی رکھے۔اس سے ان کی وسیع المشربی کا پتہ چلتا ہے۔سی نارے نے تین ہزار سے زیادہ فلمی گیت لکھے۔پہلا بریک مشہور و معروف فلمی اداکار اور تلگو دیشم پارٹی کے مو نس و معمار ا ین ٹی راما راو نے انہیں فلم گل بکا ولی کتھا میں دیا۔اس فلم کا ایک گانا سوپر ہٹ ہوا۔ننو دو چو کنٹا و ا ا و ونیلا درسانی ائے چاندنی کی ملکہ کیا تو مجھے مجھ سے چھین لے گی۔ حیدرآ باد میں اردو اور تلگو فرمانراوں ،شاعروں ۔ادیبوں کے قد آدم مجسمے حسین شاہ ولی کے بنوائے ہوئے تالاب جسے عرف عام میں حسین ساگر یا انگریزی میں Tank Bund کہا جا تا ہے۔ وہاں نصب کئے گئے ہیں۔نیچے پتھر کے ستون پر شاعر یا بادشاہ کا نام اور اس کی اہمیت کو درج کیا گیا ہے۔اس تعارفی عبارت کو سی نارے نے مرتب کیا ہے۔ ان مجسموں میں انقلابی شاعر سری سری اور مخدوم محی الدین بھی ہیں۔بادشاہوں میں آصفیہ سلطنت کے تاجدار میر محبوب علی خان اور قطب شاہی بادشاہ ابولحسن بھی ہے۔یہاں یہ یاد رکھنا چا ہیئے کہ محبوب علی پا شاہ ہی نے فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ عطا کیا تھا۔یہ1883 کے آس پاس کی بات ہے۔ایک خاص بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے مجسموں کی تنصیب پر کوئی شور و غل نہیں مچا۔
سی نارے فراق گورکھپوری کے ہم سر تھے۔انہیں بھی ملک کا اعلی ترین ادبی اوارڈ گیان پیتھ 1988 میں ان کی رز میہ مثنو ی وس وم بھرا پر ملا۔ وس وم بھرا کے معنی دھرتی کے ہیں۔ اعزازات ان کے قدم چومتے رہے۔وہ مختلف جا معات کے وائس چانسلر رہے۔راجیہ سبھا کے رکن ،پدم شری ،پدما بھوشن کے با وقار رتبوں سے فیض یاب ہوئے۔اہل تلنگانہ و اہل اردو انہیں یاد کرتے رہیں گے۔سی نارے کا بہتا نغمہ اردو کے شعری مجموعوں کے ہجوم میں باقی رہے گا۔جہاں چکسبت ،جوش ملسیانی ،فراق اور نریش کمار کا نام لیا جا ئے گا وہیں سی نارے کا ذکر بھی چا ہتوں سے کیا جا ئے گا۔آنے والی نسلوں کے لئے وہ مشعل راہ رہیں گے۔کوئی نا معلوم محقیق ان کی شخصیت اور شاعری پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے گا۔ان کی یادیں تازہ کرے گا۔
———
Dr. Masood Jafri