بچوں کے ادب کی تاریخ :-ڈاکٹر سید اسرالحق سبیلی – مبصر: ڈاکٹرعزیز سہیل

Share


کتاب : بچوں کے ادب کی تاریخ

مصنف : ڈاکٹر سید اسرالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج سدی پیٹ

مبصر: ڈاکٹرعزیز سہیل
لیکچرارایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر

اردو ادب میں ابتداء سے ہی بچو ں کے ادب پر خاصی توجہ دی گئی تھی لیکن بدلتے حالات اور تقاضوں کے نتیجے میں سائنس وٹکنالوجی کی ترقی نے ایک طرف بچوں کو کتابوں کے مطالعہ سے دور کردیاہے تودوسری جانب اردو ادباء بھی بچو ں کے ادب سے بے اعتنائی برت رہے ہیں جس کے نتیجے میں بہت ہی کم بچوں کا ادب پروان چڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کے ادب پر زیادہ زوردیاجائے اور تخلیق کاروں کی اس جانب توجہ مبذول کروائی جائے چونکہ بچوں کے ادب کی بہت زیادہ اہمیت ہے- نسل نو کی دلپچسپیوں کو مدنظر رکھ کر ادب کو تخلیق کرنا وقت کا اولین تقاضہ ہے۔

اگر ہم انگریزی ادب کو سامنے رکھیں تو پتہ چلے گا کہ ہری پوٹر کی تخلیق کو دنیا بھر میں مقبولیت آسانی سے مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے ،بچے بڑے سب ہری پورٹر کی تازہ تصانیف کے منتظر رہتے ہیں کیا اردو ادب میں اس طرح کی تخلیقات کو ہم متعارف نہیں کرسکتے ۔خیر ہمارے وسائل محدود ہے لیکن ممکنا کوشش ہونی چاہئے کہ بچوں کو ایسا ادب پڑھنے کو ملے جس کے ذریعے ذہنی تفریح اور تربیت کا سامان میسر آئے۔
بچوں کے ادب کو فروغ دینے کے سلسلے میں ریاست تلنگانہ میں کچھ حد تک ادبی کام انجام دیا گیا ہے ۔بچوں کاتخلیق کرنے اور بچوں کے ادب پر تحقیق و تنقید کے ذریعے اپنی پہچان بنانے والی شخصیت کو اردو دنیا ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی کے نام سے جانتی ہے ۔ڈاکٹرسید اسرار الحق سبیلی نے عثمانیہ یونیورسٹی سے بچوں کے ادب پرہی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ساتھ ہی وہ اسلامی تعلیمات سے بھی آشنا ہے اور وہ ایک عالم دین ہیں ۔انہوں نے جامعہ سبیل السلام حیدرآباد سے حفظ‘ فضیلت ‘ افتا ء کی سندیں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے درس و تدریس کو اپنا پیشہ بنایا ہے۔ ابتداء میں وہ عربی مدرسہ سے وابستہ رہے پھر بعدمیں معلم اردو کی حیثیت سے گورنمنٹ ہائی اسکول میں مدرس مقرر ہوئے۔اس کے بعد اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر گورنمنٹ جونیئر کالج ظہیرآباد میں عمل میں آیا اوراب وہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے گورنمنٹ ڈگری کالج سدی پیٹ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹراسرار الحق نہ صرف بچوں کا ادب لکھتے ہیں بلکہ اپنے حلقہ احباب میں اس بات کا شعور بھی بیدار کرنے کی وقتاً فوقتاً کوشش بھی کرتے رہتے ہیں کہ بچوں کے ادب کی عصر حاضربے انتہا اہمیت ہے اس سلسلہ میں اردو تخیلقات کی جانب توجہہ کرنے کا مشورہ بھی دیتے رہتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ اردو شعراء وادبا ء کو توجہ دلاتے رہتے ہیں اور بچوں کے ادب کی اہمیت کو اجاگرکرنا ان کا اولین فریضہ بن چکا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب’’بچوں کے ادب کی تاریخ‘‘ڈاکٹراسرار الحق سبیلی کی تیسری تصنیف ہے۔ اس سے قبل ان کے دوتصانیف ’’بچوں کا ادب اوراخلاق ‘ایک تجزیہ ‘‘دوہزار پندرہ میں شائع ہوچکی ہے ۔دوسری کتاب ’’بچوں کی باتیں‘‘جوکہانیوں کا مجموعہ ہے دوہزار سولہا میں منظرعام پرآئی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب بچوں کے ادب کی تاریخ کا انتساب ڈاکٹراسرار الحق نے عالم اسلام کے مشہور ادیب ‘ عظیم مصنف اورفقیہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے نام معنون کیا ہے۔یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے۔اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم نے رقم کیا ہے۔پیش لفظ میں ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم نے اسرار الحق سبیلی کی بچوں کے ادب سے متعلق کوششوں کوبیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈاکٹراسرار الحق سبیلی کوبچوں سے والہانہ محبت ہے ۔بچوں کے ادب کے ضمن میں ان کی دوڑ ودھوپ قابل تعریف ہے۔ دوم جماعت کی اردو میں چھوٹا خاندان کی نظم کودیکھ کر وہ چراغ پاہوجاتے ہیں اور دسویں جماعت میں فارسی آمیز مشکل غزل کوشامل نصاب کرنے پر حیرت کااظہار بھی کرتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ بالکل صحیح ہے کہ بچوں کے عمر کے حساب سے ان کی نفسیا ت کوخاطر میں لاتے ہوئے نصاب ترتیب دیاجائے۔ انہوں نے بچوں کے لئے بے شمار کہانیاں لکھی ہیں۔ کہانیوں کے ایک دومجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کی ایک اہم تصنیف ’’بچوں کا ادب اوراخلاق‘‘شائع ہوئی تھی اوراس کتاب کوہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔‘‘اس کتاب کے آغاز میں مصنف نے اپنی بات میں بچوں کے ادب کی ضرور ت اور اس کے مقاصد پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ بچوں کے ادب کی ضرورت کو سماجی ‘ تربیتی ‘ نفسیاتی اور سائنسی اعتبار سے لازمی قراردیاگیا ہے ورنہ بچوں کی نشونما پر غلط اثر پڑے گا۔ بچوں کے ادب کے مقاصد مندرجہ ذیل بیان کئے گئے ہیں۔ (۱) بچوں کی ذہنی وفکری تربیت(۲)خیالات وجذبات کی نشونما(۳) تخلیقی قوت کی بیداری(۴)بلندی ہمتی اوربلند پرواز(۵)فرائض وذمہ داری سے واقفیت (۶)اوراپنے فرائض وذمہ داری کوبحسن وخوبی اداکرتے ہوئے اچھے ‘بااخلاق اور کامیاب شہری اور قو م وملک کے لئے سرمایہ افتخار بننا۔ اس کتاب میں شامل موضوعات میں بچوں کا ادب ‘تعریف ‘ضرورت اورمسائل ‘بچوں کا ادب اور درسی کتب‘ بچوں کے ادب کی ضرورت‘ بچوں کے ادب کا مقصد‘ بچوں کے ادب کے موضوعات‘ بچوں کے ادب کی خصوصیات‘ ادب اطفال اور عمر کے مختلف مدارج‘ بچوں کی نفسیات اورادب اطفال‘ بچوں کے ادب پرتنقیدی نظر‘ بچوں کے ادب کے مسائل اور ان کا حل۔ اس کے علاوہ کتاب کو چارادوار میں تقسیم کیاگیا ہے۔ پہلے دور میں بچوں کے ادب کی ابتداء تا۱۸۵۷ء ‘دوسرے دور میں ۱۸۵۷ تا ۱۹۴۷ء‘تیسرے دورمیں ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۰ء اور چوتھا دور ۲۰۰۰ ء سے حال ‘ تک کا احاطہ کیاگیا ہے۔جس میں بچوں کے ادب اور بچوں کے قلمکاروں کے فن پر بحث کی گئی ہے۔
پہلے باب کے آغاز میں’’ عالمی سطح پربچوں کے ادب کی ابتداء‘‘کے عنوان سے مضمون شامل ہے۔پہلے باب میں بچوں کے ادب کی ابتداء اور مختلف زبانو ں میں اس کے ارتقاء کو بیان کیاگیا ہے۔ اردو ادب میں بچوں کے ادب کی ابتداء سے متعلق لکھا گیاہے کہ’’ اردو کا ابتدائی دور فارسی سے متاثر رہا۔ بچوں کے ادب کے جوابتدائی نمونے اردومیں پائے جاتے ہیں وہ بھی فارسی کی تقلید میں لکھے گئے ہو ں گے۔ ڈاکٹر مظفرحنفی کا خیال ہے کہ ’’نصاب الصیبان جوابوالنصر فراہی کی شہرہ آفاق کتاب ہے اور اس نوع کی تدریسی کتاب جیسے بدیع النصاب‘نصاب بدیعی وغیرہ اردو کے طفلی ادب کے لئے نمونہ رہے ہوں گے۔ یہ کتاب دراصل عربی فارسی کی مختصر منظوم لغات ہے اور اس کے طرز پرامیر خسرو نے فارسی اردو لغت ’’خالق باری‘‘ ترتیب دی ہے جو بچوں کے ادب پر پہلی کتاب ہے۔‘‘
بچوں کے ادب کے دوسرے دور میں انہوں نے ادب کے تخلیق کاروں کا تدکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’کہ ادب اطفال میں بچوں کی نفسیات اوران کی ذہنی سطح اوران کی پسند وذوق کی رعایت کرتے ہوئے باقاعدگی اور شعوری کوشش کے ساتھ بچوں کا ادب تحریر کرنے والوں میں بلا شبہ مولانا محمدحسین آزاد ‘ خواجہ الطاف حسین حالی اورڈپٹی نذیراحمد اولیت کا درجہ رکھتے ہیں اوران کی پیش رو میں چکبست‘ اقبال ‘سرورجہاں آبادی‘اسماعیل میرٹھی اور تلوک چند محروم جیسے شعراء نے بچوں کے اخلاق ‘عادات اوران کی ذہنی نشونما سے متعلق دلچسپ اور مفید نظم ونثر کے وافر نمونے پیش کرتے ہوئے ادب اطفال کی بنیاد کو مستحکم کیاہے۔لیکن تمام کی شعوری کوششوں اور کاوشوں کے پیچھے سرسید اور ان کی تحریک کا بڑا ہاتھ ہے۔‘‘کتاب کے دیگر ابواب بھی قابل مطالعہ اور مصنف کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔
ڈاکٹرسید اسرار الحق سبیلی نے بچوں کے ادب پرتحقیق کرتے ہوئے ایک ادبی شہ پارہ کووجود بخشا ہے اوران کے اس کارنامہ کواردو دنیا میں ایک انفرادیت حاصل ہوگی ۔اور یہ ادبی شہ پارے کی روشنی میں بچوں کے ادب سے متعلق تحقیق و تنقید کی نئی راہیں پھوٹیں گی ۔دور حاضر میں دن بہ دن بچوں کا ادب سمٹتا جارہا ہے ۔ ایسے میں ڈاکٹراسرار الحق سبیلی کی کتاب اردوقلمکاروں کو اس با ت کی دعوت دیتی ہے کہ وہ بچوں کے ادب پر خوب لکھے ۔دلچسپ لکھیں اور ادبی اعتبار سے ‘سائنسی اعتبار سے‘جدیدٹکنالوجی کے حوالے سے ہرموضوع کوپیش کرتے ہوئے بچوں کا ادب تخلیق کریں تاکہ بچے اپنے مذہبی تعلیمات سے وابستہ رہیں۔اپنے اخلاق واداب کی بنیاد پرایک اچھے شہری کہلائے۔ڈاکٹر اسرار الحق سبیلی کے اس ادبی کارنامے کی اشاعت پر میں مبارک باد دیتا ہوں اور ان کے لئے دعاگوبھی ہوں کہ انہو ں نے ادب اطفال کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہے۔اللہ اس میں ان کوکامیاب کرے اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم بچوں کو بنانے اورسنوارنے کا سازوسامان مہیا کرے۔ اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہہ مرکوز کریں۔ ڈاکٹراسرار الحق سبیلی کی یہ کتاب ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤز‘نئی دہلی نے شائع کی ہے۔ تین سو چوریاسی صفحات پرمشتمل اس تحقیقی کتاب کی قیمت دوسواٹھارہ روپئے رکھی گئی ہے جو ہدی بک ڈپو حیدآباد یا مصنف سے گورنمنٹ ڈگری کالج سدی پیٹ ‘فون نمبر:09346651710 پر ربط پیدا کرتے ہوئے حاصل کی جاسکتی ہے۔
——–

مصنف
مبصر
Share
Share
Share