اشاعتِ قرآن اور
شاہ ولی اللہ محدثؒ کا اصلاحی کارنامہ
مفتی کلیم رحمانی
بانی و مہتمم دار العلوم اشاعت القرآن، کوپرا پھاٹا
پوسد ضلع ایوت محل ، مہاراشٹر۔ الہند
موبائیل نمبر : 09850331536
یوں تو ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کی آمد سے ہی قرآن و حدیث کا کچھ نہ کچھ علم آچکا تھا لیکن ہندوستان میں قرآن و حدیث کے علوم کی باضابطہ اشاعت اور عوام کا قرآن و حدیث سے براہِ راست رشتہ جوڑنے کی کوشش سب سے پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے کی اور ایسے دور میں کی جبکہ بہت سے دین کے دعویدار یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ قرآن و حدیث کے علوم کی اشاعت سے مسلمانوں میں گمراہی پھیلے گی۔
تجدیدی و اصلاحی میدان میں شاہ ولی اللہ ؒ کا کیا مقام ہے؟ اس سے ہر صاحبِ علم واقف ہے۔ مختصر یہ کہ آج بھی برِصغیر کا ہر عالم اپنی علمی نسبت شاہ ولی اللہؒ کے خاندان سے جوڑنے کو سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہے۔ اس مضمون میں ہم شاہ صاحبؒ کی اشاعتِ قرآن کی کوشش کو واضح کررہے ہیں۔ کیونکہ آج بھی بعض دینی حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا علمِ قرآن سے رشتہ جوڑنے سے ان کے اندر گمراہی پھیلے گی جبکہ شاہ صاحبؒ نے مسلمانوں کو گمراہی سے نکالنے اور ان میں دینی بیداری پیدا کرنے کے لئے اشاعتِ قرآن ہی کو مرکزی موضوع بنایا تھا۔ شاہ صاحبؒ کی کوشش کو ہم عصرِ حاضر کے نامور عالمِ دین اور صاحب قلم بزرگ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کی تصنیف کردہ کتاب ’’ تاریخ دعوت وعزیمت‘ کے توسط سے واضح کررہے ہیں مولانا علی میاں ندوی ؒ نے اس کتاب کے پانچویں حِصّہ میں شاہ صاحب ؒ کی تجدیدی ، اصلاحی کوشش پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ اس حِصّہ کے چند صفحات کی عبارت ہم من و عن پیش کررہے ہیں۔
’’مرض کا علاج اور اصلاحِ حال کا موثر طریقہ اشاعتِ قرآن کے زیرِ عنوان مولانا موصوف رقمطراز ہیں’’ شاہ صاحب ؒ نے اس مرض بلکہ وبائے عام کے علاج کے لئے قرآنِ مجید کے مطالعہ و تدبّر اور اس کے فہم کو سب سے موثر علاج سمجھا اور یہ بات محض ذہانت قوّتِ مطالعہ اور قیاس پر مبنی نہیں تھی، بلکہ ایسی بد یہی حقیقت تھی جس پر قرآن مجید خود شاہد ہے اور نہ صرف عہدِ بعثت کی
تاریخ بلکہ اسلام کی پوری تاریخ دعوت اور سرگزشت اصلاح و تجدید گواہ ہے خاص طور پر حقیقتِ توحید اور حقیقتِ شرک کو ظاہر کرنے کے لئے اس سے زیادہ واضح اس سے زیادہ طاقتور اور دلنشین ذریعہ کا تصور نہیں ہوسکتا۔ترجمانِ قرآن شاہ عبدالقادر صاحب ؒ نے اپنے مقدمہ موضح القرآن میں جتنے سادہ اور دلنشین ا ندازمیں اس حقیقت کا اِظہار کیا ہے اس سے زیادہ مشکل ہے فرماتے ہیں : ’’ بتانے والے بہت بتائیں جیسا خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں آپ بتایا ہے ویسا کوئی نہیں بتا سکتا اور جیسا اثر اور راہ پانا خدا کے کلام میں ہے کسی کے کلام میں نہیں۔ ‘‘
حجازِ مقدّس کے قیام میں شاہ صاحب ؒ کو ہندوستان کی اس دینی صورتِ حال اور اس کے تعلیماتِ قرآن اور تعلیماتِ اسلام سے بُعد اور منافات کا احساس اور شدّت سے پید ا ہوا ہوگا اور وہاں کی نورانی ، روحانی اور قرآنی فضاء میں جہاں سے توحید کا زمزمہ سب سے پہلے بلند ہوا۔ شاہ صاحب ؒ کے قلب بیدار میں اس کا داعیہ کہ وہ ہندوستان میں قرآن مجید کی دولت کو عام کریں ایسی وضاحت اور شدّت سے پید ا ہوا ہوگا جس کو اس الہام اور اشارہ غیبی سے تعبیر کرسکتے ہیں جو نفوسِ ذکیہ پر ہر عہد میں کسی ضروری دینی کام کی تکمیل کے لئے وارد ہوا کرتا ہے اور جس کی مقاومت اور جس پر غلبہ پانا نا ممکن ہوجاتا ہے ۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ شاہ صاحب ؒ نے قرآن مجید کے فارسی ترجمہ کا کام جس نے فتح الرحمن کے نام سے تکمیل پائی حجاز سے واپسی پر شروع فرمایا اُس وقت ہندوستان کیا تقریباً تمام عجمی ممالک میں جن میں ترکستان و ایران اور افغانستان ، ہندوستان کے قریبی ہمسایہ تھے۔ اور انہیں کے رُجحانات ، مشاغل، ذوق اور تسلیم شدہ حقائق کا سایہ ہندوستان کے علمی اور دینی حلقوں پر پڑتا تھا یہ تسلیم کرلیا گیا تھا کہ قرآن مجید اخص الخواص طبقہ کے مطالعہ اور غورو فکر اور فہم و تفہیم کی کتاب ہے۔ جس کا سمجھنا ایک درجن سے زیادہ علوم پر موقوف ہے۔ اس کو عوام میں لانا عوام کو براہ راست اس کے مطالب سے واقفیت پیدا کرنے اور اس سے ہدایت اور روشنی حاصل کرنے کی دعوت دینا سخت خطرناک ایک بڑی گمراہی اور فتنہ کا دروازہ کھولنے کے مرادف ہے اور عوام میں ذہنی انتشار خود رائی اور علماء سے بے نیازی بلکہ بغاوت اور سرکشی کی دعوت دینا ہے اس طرزِ خیال اور دلیل کو ایک مختصر رسالہ تحفتُ المُوَحِّدین میں بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ بعض لوگ کہہ بیٹھتے ہیں کہ قرآن مجید اور حدیث کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو بہت سے علم اور بے شمار کتابیں پڑھا ہوا ہو اور اپنے زمانہ کا علامہ ہو، ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ھُوَالّذِی بَعَثَ فِی الْاُمِّےِّنَ رَسُولاَ مِّنْھُمْ ےَتْلُوْ عَلَیھِمْ اٰےٰتِہِ وَ ےُزْکِّیھِْمْ وَےْعَلِّمُھُمُ الِکتٰبَ والحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُواْ مِنْ قَبْلُ لَفیِ ضَلَالِِ مُّبِےْن ( الجمعہ ۲) ترجمہ : ۔ ( خُدا تعالیٰ وہ ہے جس نے ان پڑھوں میں پیغمبر بھیجا ان ہی ان پڑھوں میں سے پڑھتا ہے۔) وہ پیغمبر ان پڑھوں پر خُدا کی آیتیں اور ان کو گناہ کے میل سے پاک کرتا ہے اور کتاب اور اس کی تدبیر سکھاتا ہے یعنی رسولِ خُداﷺ بھی ان پڑھ اور آپ ؐ کے اصحاب بزرگوار بھی ان پڑھ تھے مگر جب رسول ؐ نے اپنے اصحابؓ کے سامنے قرآن کی آیتیں پڑھیں تو وہ ان کو سُن کر ہر قسم کی بُرائی اور بِگاڑ سے پاک و صاف ہوگئے۔ پس اگر ناخواندہ آدمی قرآن و حدیث نہیں سمجھ سکتا اوراُس کی سمجھ کی استعداد نہیں رکھتا تو صحابہؓ بُرائیوں اور عیبوں سے کیوں کر پاک و صاف ہوگئے ۔اس قوم پر سخت افسوس ہے جو صدرہ سمجھنے اور قاموس جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر قرآن و حدیث کو سمجھنے میں اپنے آپ کو محض نادان ظاہر کرتے ہیں اور بعضے یوں کہتے ہیں ہم پچھلے لوگ ہیں رسول ﷺ کے زمانے کی برکت اور صحابہ رضوان اللہِ عَلیہم اجمعین کے دل کی سلامت کہاں سے لائیں جو قرآن و حدیث کے معنیٰ بخوبی سمجھ سکیں، ان کے جواب میں حق تعالیٰ فرماتا ہے وَاٰخَرِےْنَ مِنھُمْ لَمَّا ےَلحقُوا بِھِمْ وھْوَالْعَزِےْزُالْحَکِیمْ (الجمعہ ۳) یعنی پچھلے لوگ خواہ پڑھے ہوئے ہوں یا ان پڑھ ہوں مگر جبکہ وہ مسلمان ہوں اور اصحاب کے طریقہ کی پیروی کا ارادہ کریں اور قرآن و حدیث کو سُنیں تو انھیں بھی پاک کرنے کے لئے یہی قرآن و حدیث کافی ہوسکتی ہے اور فرماتا ہے : وَلَقْد ےَسَّرْنَا القُرآنَ لِلذِّکْرِفَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرْ (القمر ۲۲) ترجمہ : اور البتہ ہم نے قرآن کو نصیحت کے واسطے آسان کردیا پس کیا کوئی نصیحت لینے والا ہے ؟ یہ کیونکر آسانی ہوسکتی ہے کہ کافیہ پڑھنے والے اور شافیہ جاننے والے تو اس کے معنی سمجھنے سے عجز ظاہر کرتے اور عرب کے جنگلی لوگ اس کی حقیقت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک جگہ یوں فرماتاہے :اَفلاَ ےَتَدَبّرُوْنَ الْقُرآنَ (محمدؐ ۲۴) کہ قرآن میں کیوں فکر نہیں کرتے پس اگر قرآن مجید آسان نہ ہوتا تو اس میں فکر کیوں کر کیا جائے ، اَمْ عَلیٰ قُلُوْبِِ اَقْفَالُھَا (محمدؐ ۲۴) یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں یعنی باوجود یہ کہ دلوں پر قفل نہیں لگے ہوئے ہیں پھر بھی کیسی گمراہی ہے قرآن کے فکر میں زور نہیں لگاتے ،
( ماخوذ تحفت الموحّدین صفحہ ۵/۶/۷) شاہ صاحبؒ نے اس بد مذاقی اوربے توفیقی اور غلط اندیشی کو دیکھ کر جس کے حدود وَےَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِےِلِ اللّٰہِ (الاعراف ۱۴۵) سے مل جاتے تھے فیصلہ کیا کہ قرآن مجید کا اس سلیس فارسی زبان میں ضرور ترجمہ کرنا چاہئے جو ہندوستان میں قیام حکومتِ اسلامیہ کے بعد سے ملک کی دفتری ، علمی، تصنیفی اور خط و کتابت کی زبان تھی اور تقریباً ہر پڑھا لکھا مسلمان اگر اس میں بول نہیں سکتا تھا تو اس کو سمجھتا ضرورتھا۔ ہندوستان میں فارسی زبان کی اس طویل عملداری میں جس کی مدت سات صدیوں سے کم نہ تھی قرآن مجید کے فارسی میں ایک درجن بھی ترجمے ہوتے تو تعجب کی بات نہ تھی لیکن حسن محمد علقمی المشتہر بنظام نیشاپوری ، ثم دولت آبادی کے ترجمہ سے پہلے جو آٹھویں صدی ہجری کے علماء میں تھے ، کسی فارسی ترجمہ کا سراغ نہیں لگتا۔
نیشا پوری کا یہ فارسی ترجمہ ان کی عربی تفسیر غرائب القرآن میں شامل ہے۔ ہندوستان میں شیخ سعدیؒ کے نام سے ایک ترجمہ مشہور تھا اگرچہ وہ بھی شیخؒ کے مقبولِ عام تصنیفات ’ گُلستان اور بُوستان‘ کی طرح رائج اور متداول نہیں لیکن پھر بھی کہیں کہیں پایا جاتا تھا۔ مگر اس کا انتساب شیخ سعدیؒ کی طرف صحیح نہیں ہے۔ تحقیقی بات یہ ہے کہ وہ علامہ سید شریف علی الجرجانی ( م ۸۱۶ ھ) کا کیا ہوا ہے، تفسیر حقانی کے مؤلف مولانا عبدالحق حقانی کا چشم دید بیان ہے کہ جس کو آج کل جہلاء سعدیؒ کا ترجمہ کہتے ہیں وہ دراصل سید شریف کا ترجمہ ہے، صاحب مطبع نے میرے سامنے رواج دینے کے لئے سعدی ؒ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ الغرض شاہ صاحبؒ نے سفرِ حِجاز سے واپسی کے پانچ سال بعد غالباً اصلاحِ عقائد کی ان کوششوں کا نتیجہ دیکھنے کے بعد جو خصوصی درس و تدریس اور وعظ ارشاد کے ذریعہ ہورہی تھی یہ فیصلہ کیا کہ ہدایتِ عام اصلاحِ عقائد اور اللہ تعالیٰ سے طاقتور رابطہ پیداکرنے کا کوئی ذریعہ قرآنِ مجید کی ہدایت و تعلیمات کی براہ راست اشاعت و تبلیغ سے زیادہ موثر نہیں ہوسکتا اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ اور اس کی اشاعت ، خود شاہ صاحب ؒ کی زبان سے اس کے محّرِکات و اسباب اور اس کے اقدام کی تاریخ سنئے تفسیر فتح الرحمن کے مقدمہ میں فرماتے ہیں۔ یہ زمانہ جس میں ہم لوگ موجود ہیں اور یہ ملک جس کے ہم باشندے ہیں اس میں مسلمانوں کی خیر خواہی تقاضہ کرتی ہے کہ ترجمہ قرآن سلیس اور بامحاورہ فارسی میں بغیر اظہارِ فضیلت اور عبارت آرائی کے اور متعلق قصّوں اور توجیہات کے ذکر کئے ہوئے بغیر کیا جائے تا کہ عوام و خواص یکساں طور پر سمجھ سکیں اور چھوٹے بڑے سبھی معانیِ قرآن کا ادراک کرسکیں اس لیے اس اہم کام کا داعیہ فقیر کے دل میں ڈالا گیا اور اس کے لئے مجبور کیا گیا پہلے ترجموں پر غور کیا گیا تاکہ جس ترجمہ کو معیار کے مطابق پایا جائے اس کی ترویج کی جائے اور یہ ترجمہ حتی الامکان اہلِ زمانہ کے ذوق کے مناسب ہو مگر ان ترجموں میں یا تو بے کیف طوالت ہے یا خلل انداز تقصیر و اجمال اس عرصہ میں زہراوین۔ (سورہ البقرہ والنساء ) کا ترجمہ ہوگیا۔ اس کے بعد سفر حرمین کا اتفاق ہوگیا اور وہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ کئی سال بعد ایک عزیز ترجمہء قرآن پڑھنے لگے اور یہ کام گذشتہ عزم کا محرک بن گیا۔ اور یہ فیصلہ ہو ا کہ سبق کے بقدر ترجمہ لکھ لیا جائے۔ جب ثلث قرآن مجید تک ترجمہ ہوگیا تو ان عزیز کو سفر پیش آگیا اور ترجمہ پھر موقوف ہوگیا ایک مدت کے بعد پھر ایک تقریب پیدا ہوئی اور وہ پرانا خیال تازہ ہوا اور دو ثلث تک ترجمہ ہوگیا۔ بعض دوستوں کو مسودہ صاف کرنے لئے کہا گیا اور یہ کہ اس کے ساتھ متنِ قرآن بھی لکھدیں تاکہ مستقل نسخہ تیار ہوجائے ان سعادت مند دوست نے عیدالاضحٰی ۱۱۵۰ ھ سے تبییض شروع کی اس کے بعد پھر اس عزم کو تحریک ہوئی اور اخیر تک ترجمہ مکمل ہوگیا اور اوائل شعبان میں تسوید ختم ہوئی اور ۱۱۵۱ ھ میں مسودہ صاف ہوگیا اور ۱۱۵۶ ھ میں برادر دینی عزیز القدر خواجہ محمد امین اکرمہ اللہ تعالیٰ بشہودہ کے اہتمام سے اس کتاب کی ترویج ہوئی اور اس کا درس شروع ہوا اور اس کے متعدد نسخے تیار ہوگئے۔ اور معاصرین اس طرف متوجہ ہوئے۔ ( ماخوذ دیباچہ فتح الرحمن) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترجمہ اور قرآن مجید کی تبلیغِ عام کے راستہ میں جو چٹان حائل ہوگئی تھی شاہ صاحب ؒ جیسی عظیم المرتبت ہستی کے ( جس کے علمی تبحر جامعیت باطنی مرتبے اور اخلاص پرتقریباً اس عہد کے صحیح الخیال اور صاحبِ علم طبقہ کا اتفاق تھا ) اقدام سے یہ چٹان ہٹ گئی اور راستہ صاف ہوگیا۔ اسلام کی تاریخ میں مسلسل ایسا ہوتا رہا ہے کہ کسی مسلّم الثّبوت اور بلندشخصیت کے کسی کام کے آغاز کردینے سے غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا بادل چھنٹ گیا ہے اورشاہِ راہ عام کھل گئی۔ ( منقول تاریخ دعوت و عزیمت حصّہ پنجم صفحہ ۱۴۰ تا ۱۴۷ ) اسی حصہ میں ایک جگہ مولانا علی میاں ندوی ؒ ، شاہ صاحب ؒ کے خصوصی کاموں کی توسیع و تکمیل
کے زیرِ عنوان تحریر فرماتے ہیں : شاہ صاحب ؒ کے تجدیدی کارنامہ کو ہم پانچ شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ (۱) قرآن مجید کی ترجمانی، مسلمانوں میں اس کی تعلیمات و مضامین کی اشاعتِ عام ، اس کے ذریعہ سے عقائد کی اصلاح اور دینِ خالص سے عوام کے براہ راست ربط و تعلق کی سعی جمیل اسی طرح اشاعت و تبلیغِ قرآن کے زیرعنوان مولانا موصوف رقمطراز ہیں، جہاں تک عوام تک قرآن مجید کے پہنچانے اور اس کے ذریعہ سے عقائدِ باطلہ اور رسوم فاسدہ کی اصلاح اور ربط مع اللہ کی کوشش کا تعلق ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ نے اس سلسلہ میں اپنے والد بزرگوار کے کام کو بہت ترقی دی اور اس میں بڑی عمومیت و وسعت پیدا کردی۔ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کا درس قرآن سورہِ نساء کی آیت : اِعْدِلْوُاھُوَاَقرَبُ لِلتَّقُوٰی تک پہنچا تھا کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ شاہ عبدالعزیز ؒ نے یہیں سے درس شروع کیا۔ سورہٰ حجرات کی آیت : اِنَّ اَکُرَمَکُمْ عنِْدَاُللَّہِ اَتْقَاکُمتک پہنچے تھے کہ یہ سلسلہ بھی آپکے سلسلہ حیات کے ساتھ ختم ہوا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے نواسہ جو کلّیتہً آپ ہی کے تربیت یافتہ اور آپ کے صحیح جانشین تھے شاہ محمد اسحق صاحب ؒ نے درس شروع کیا ۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ کا درس قرآن ہر ہفتہ سہ شنبہ و جمعہ کے روز ہوتا تھا جس میں خواص بطریق خاص اور عوام بڑے ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔ اس درس میں آپ کی طبیعت اپنے پورے جوش پر ہوتی تھی اور مضامین کی آمد سیل رواں کی طرح اس درس سے دارالسلطنت دہلی میں جو علماء و فضلاء کا بھی مرکز تھا۔ قرآن مجید کا ذوق عام ہوا ۔ اصلاحِ عقائد کی ایک طاقتور رو چلی اور ترجمہ قرآن اور درس و تفسیر کا وہ مبارک سلسلہ شروع ہوا جو اس وقت تک اس برصغیر میں جاری ہے ۔ جس سے لاکھوں انسانوں کی اصلاح ہوئی اور ان کے دل و دماغ حلاوتِ توحید اور لذّتِ قرآن سے آشنا ہوئے خود مدارسِ عربیہ میں اسی درس کے فیض یافتہ اور تربیت یافتہ علماء کے اثر سے متنِ قرآن کے درس و افہام و تفہیم کا سلسلہ شروع ہوا جس کو نصابِ درس میں مختصر تفسیر کی شکل میں تبرکاًجگہ دی گئی تھی اور علمائے دُنیا کا پھیلایا ہوا یہ طلسم ٹوٹا کہ قرآن مجید کی اشاعت عوام میں بڑے دینی خطرات بلکہ ضلالت کا پیش خیمہ ہے اس میں یہ مخفی اندیشہ کام کررہا تھا کہ عوام ان پیشہ ور علماء کے ہاتھ سے نکل جائیں گے جنہوں نے قرآن کو چیستان بنا رکھا تھا اور عوام کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی۔ ( منقول تاریخ دعوت و عزیمت حصّہ پنجم صفحہ ۳۵۴ تا ۳۵۶)-