بیسوی صدی میں دکنی شاعری کا ارتقاء : ڈاکٹرعظمت اللہ – مبصر: محسن خان

Share

کتاب : بیسوی صدی میں دکنی شاعری کا ارتقاء

مصنف: ڈاکٹرعظمت اللہ
فون نمبر:09491549259

مبصر: محسن خان
موبائیل۔9397994441

’’بیسوی صدی میں دکنی شاعری کا ارتقاء‘‘ ڈاکٹرعظمت اللہ کی تحقیقی تصنیف ہے جو جون2017 ؁ء میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے تعاون سے منظر عام پرآئی ہے۔ اس کتاب کوتنویر پبلیشر حیدرآباد نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کا انتساب ڈاکٹرعظمت اللہ نے اپنے والد محترم کے نام معنون کیا ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ جدید نسل کے محقق ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم نے لکھا ہے۔

اپنے پیش لفظ میں ڈاکٹرموصوف نے دکنی ادب سے متعلق لکھا ہے کہ ’’اردو کے کئی نام ہیں جیسے ہندی‘ ہندوی‘ گجری‘ زبان ہندوستان‘ ہندو ستانی ‘ زبان دہلوی وغیرہ وغیرہ۔ عام طورپریہ کہاجاتا ہے کہ اب نہ توقدیم اردو باقی ہے اور نہ ہی دکنی ادب لکھاجارہا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے گوکہ قدیم اردوکی ابتدائی شکل باقی نہیں رہی کیونکہ گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کے لب ولہجہ میں بھی تبدیلیاں آگئی ہیں مگر دکنی لب ولہجہ اب بھی باقی ہے۔ دکن اورجنوبی ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں اب بھی دکنی لب ولہجہ ترسیل کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ ہم اسے اگردکنی نہیں کہہ سکتے توجدید دکنی ضرور کہہ سکتے ہیں۔ ۔۔۔قدیم اردو کی ترقی یافتہ شکل جدید دکنی اردواب بھی بولی اورسمجھی جاتی ہے۔ انٹرنیٹ پر دکنی میں نیوزبھی براڈ کاسٹ ہورہی ہے اور فلمیں بھی بنائی جارہی ہیں اورمقبول بھی ہورہی ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب کے مصنف ڈاکٹرعظمت اللہ نے کتاب کے ابتداء میں اپنی بات کے عنوان سے کتاب کی اشاعت کے مقصد کوبیان کیا ہے اور دکنی زبان سے اپنی محبت والفت کوبیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ دکنی زبان سے مجھے بے انتہا محبت ہے چونکہ یہ میری مادری زبان ہے اوریہ زبان دکن کے وسیع وعریض خطہ میں آج بھی بولی جاتی ہے۔پہلی بار مجھے اپنے ایم اے کی تعلیم کے دوران دکنی ادب کاخصوصی مطالعہ کرنے کا موقع ملا اوردکنی ادب کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور دکنی ادب پرقلم اٹھانے کا حوصلہ مجھے میرے استاد محترم عالی جناب سید فضل اللہ مکرم سے ملا۔آپ کی نگرانی میں دکنی شعر و ادب کا ارتقا:آزادی کے بعد کے عنوان سے لکھے گئے تحقیق مقالے کو جامعہ عثمانیہ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا ہے۔ان ہی کی حوصلہ افزائی نے مجھے یہ کتاب منظرعام پر لانے کی ترغیب دی‘‘۔
’’ بیسوی صدی میں دکنی شاعر ی کا ارتقاء‘‘ کو مختلف ابواب میں تقسیم کیاگیا ہے۔ پہلا باب:بیسوی صدی کے اولین دکن شعرا ء پرمشتمل ہے جس میں رحیم صاحب میاں‘ علی صائب میاں‘ نذیر دہقانیؔ ‘ اعجاز کھٹّا کوشامل کیاگیا ہے۔ دوسرا باب :سلیمان خطیب اور ان کے ہم عصر شعراء پرمشتمل ہے جس میں سلیمان خطیب‘سرورڈنڈا‘ ڈھکن رائچوری‘حمایت اللہ‘ پاگل عادل آبادی‘ غوث خواہ مخواہ‘ اشرف خوند میری‘ گلی نلگنڈوی‘ بگڑ رائچوری کوشامل کیاگیا ہے۔ باب سوم: عصر حاضر کے جدید دکنی شعراء کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے جس میں شمشیر کوڑنگلی‘ چچا پالموری‘ فرید انجم‘ قاری سلطان اختر‘ رحیم الدین نیازی کریم نگری‘ نریند رائے نریندر‘ ٹپکل جگتیالی کوشامل کیاگیا ہے۔ کتاب کا آخری باب چہارم دکنی لوک گیت اورڈھولک کے گیت پرمشتمل ہے۔
باب اوّل میں شامل پہلا مضمون :’’بیسوی صدی کے اولین شعراء ‘‘میں ڈاکٹرعظمت اللہ نے دکن میں علم وادب ‘صوفیوں اور مذہبی رہنماؤں کی تحریریں‘ تصوف اورمشاہیر شعراء پرگفتگو کی ہے ۔ساتھ ہی شاہ مخدو م حسینی بنداہ نواز گیسودرازؒ ‘اشرف بیابانیؒ ‘ میراجی شمس العشاق کے تخلیقی کارناموں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ساتھ ہی قطب شاہی دور کے شعراء کی شاعری کوبھی پیش کیاہے۔اس کے بعد بیسوی صدی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’دکنی شاعری کے احیاء میں سب سے پہلا نام رحیم صاحب میاں کا ہے جنہوں نے اپنی طنزیہ ومزاحیہ شاعری سے حیدرآباد کی ادبی محفلوں کو قہقہہ زار بنادیاتھا۔ ان کے کلام میں گہرائی اور گیرائی تونظرآتی ہے لیکن دور جدید میں دکنی زبان ادبی شکل کا روپ دھار لیتی ہے۔بیسوی صد ی کی ابتداء میں رحیم صاحب میاں ‘نذیر دہقانی‘علی صائب میاں اور اعجاز حسین کھٹا نے دکنی زبان کے احیاء میں اہم کردار نبھایا ہے‘‘۔
سلیمان خطیب کے بغیر دکنی شاعری ادھوری تصور کی جائے گی اس لئے کہ سلیمان خطیب نے اپنی شاعری کے ذریعہ دکنی زبان کو بام عروج عطا کیاہے۔ ڈاکٹر عظمت اللہ نے دوسرے باب کوسلیمان خطیب اوران کے ہم عصر شعراء کانام دیا ہے۔ سلیمان خطیب اوران کے ہم عصر شعراء سے متعلق ڈاکٹرعظمت اللہ لکھتے ہیں کہ’’ سلیمان خطیب اس دور متوسط کے قدآور نمائندہ شاعر ہیں جن کی تقلید میں دکن کے سینکڑوں شاعروں نے جدید دکنی زبان میں شاعری کرنی شروع کی ۔ سرور ڈنڈا ‘ڈھکن ‘حمایت اللہ‘پاگل عادل آبادی ‘غوث خواہ مخواہ اور گلی نلگنڈوی اس دور کے وہ اہم شعراء ہیں جنہوں نے دکنی زبان کو اپنا کھوایا ہوا مقام اور وقار عطا کیا۔
ڈاکٹرعظمت اللہ نے سلیمان خطیب کے حالات زندگی اور فن پر تحقیقی معلومات فراہم کی ہیں۔ ساتھ ہی ان کے کلام کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔ سلیمان خطیب کا پہلا شعری مجموعہ’’کیوڑے کا بن‘‘ پہلی بار7ڈسمبر1975 ؁ء میں شائع ہواتھا۔ بعدمیں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ انہوں نے سلیمان خطیب کے اشعار کوبھی اس مضمون میں پیش کیاہے ۔جس سے سلیمان خطیب کی شاعری میں دکنی زبان کے دلچسپ انداز کا علم ہوتا ہے۔
توچ بیگلا بناکو چھوڑی ہے ۔ غیروں کا کیا گلا امّاں
تیرا سایہ جواٹھ گیا سرسے ۔ کوئی سایہ نہیں ملا امّاں
عید کا سلام کرنے آیا ہوں ۔ کون پوچھے گا ہم یتیماں کو
سارے لوگاں ہیں سب کتاباں میں ۔ ماں کاسایہ نہیں زمانہ میں
ڈاکٹرعظمت اللہ نے اس باب میں سلیمان خطیب کے ہم عصر شعراء کاتذکرہ بھی کیا ہے اوران کے حالات زندگی او ر فن کاجائزہ بھی لیاہے۔ میں ڈاکٹرعظمت اللہ کوان کے اس تحقیقی کارنامہ پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اوراردوکے قارئین سے اس کتاب کے مطالعہ کی خواہش بھی کرتا ہوں۔ اس لئے لہ دورحاضر میں کتابیں توبہت ہی لکھی جارہی ہیں لیکن کتابو ں کامطالعہ بہت ہی کم ہوتا جارہا ہے۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ عظمت اللہ جیسے محقق حضرات ادبی شہ پاروں کواردوکے قارئین کے لئے پیش کررہے ہیں۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اردو کے فروغ کے سلسلہ میں اردوکی کتابیں خریدیں اور کتابوں کامطالعہ کریں اوربچوں کوبھی کتابوں کے مطالعہ کے لئے موقع فراہم کریں۔دوسوانیاسی (279)صفحات پرمشتمل اس تحقیقی ومعلوماتی کتاب کی قیمت ایک سوچھپن روپئے (156/-)رکھی گئی ہے جو ڈاکٹرعظمت اللہ اسسٹنٹ پروفیسر اردوناگرجنا ڈگری کالج نلگنڈہ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ فون نمبر:09491549259 پرمصنف سے ربط پیدا کرکے حاصل کیاجاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
مبصر: محسن خان
ریسرچ اسکالر۔شعبہ ترجمہ ۔مولانا آزاد نیشل اردو یونیورسٹی
موبائیل۔9397994441
ای میل:

Share
Share
Share