سائنس کے مطابق اہرام مصر Pyramids of Egypt – از ڈاکٹر عزیز احمد عرسی

Share

Photo Dr Azeez Ahmed Ursi, Warangal

ڈاکٹر عزیز احمد عرسی ،ورنگل
#09866971375

سائنس کے مطابق اہرام مصرPyramid of Egypt
پتھر سے نہیں مٹی کی اینٹوں سے بنایا گیا ہے
اس کا اظہار قرآن نے 1450 برس قبل کردیا تھا۔

pyramid


Davidovits فرنچ سائنسداں نے اہرام مصر خصوصاً خوفوؔ اہرام کی تعمیر کے سلسلے میں اپنا یہ نظریہ پیش کیا کہ اہرام کو re-agglomerated stone( یعنی قدرتی حالت میں پائے جانے والے سنگ آہک )کو استعمال کرکے بنایا گیا۔اس سائنسدان کے نزدیک اہرام سے متعلق تمام نظریے غلط ہیں کہ اہرام کو بڑے بڑے گرانائٹ کے پتھروں کو تراش کر بنایا گیا اور ان پتھروں کو بتدریج اونچائی کی جانب جانے والے راستے (Ramp)کے ذریعہ اوپر پہنچایا گیا بلکہ اس کے نظریہ کے مطابق یہ اہرام مصنوعی پتھروں سے بنایا گیا۔ اس سائنسدان نے اپنے تجربوں میں واضح کیا کہ یہ گرانائٹ نہیں بلکہ مصنوعی طور پر بنائے گئے پتھر ہیں۔اس موڑ پر ہم قرآن کی متذکرہ بالا آیت پر غور کریں کہ فاو قد لی یا ہامان علی الطین فاجعل لی صر حاًلعلی اطلع الی الہ موسیَ(القصص۔38)۔ یعنی ائے ہامان تو میرے لئے مٹی کو آگ میں پکا ۔پھر میرے لئے ایک بلند عمارت بنوا تاکہ میں اس پر چڑھ کر موسی کے خدا کا سراغ لگا سکوں۔یہاں فرعون ہامان ؔ کو حکم دے رہا ہے کہ میرے لئے مٹی کو آگ میں پکا کر ایک بلند عمارت بنا۔یہاں ہم اپنے آپ سے ایک سوال کرتے ہیں کہ قرآن نے بلندعمارت کی تعمیر کے طریقہ کار کے بارے میں کیوں بتایا۔اس کا یہی جواب سامنے آتا ہے کہ جو اونچی عمارت قبل ازیں بنائی جاچکی ہے یا فی الحال بنائی جانے والی ہے وہ مٹی کو آگ میں پکا کر اس سے حاصل ہونے والی اینٹوں ہی سے بنائی جاتی ہے۔اس طرح اس آیت میں مصر کے قدیم عمارات کے طریقہ تعمیر پر بھی روشنی پڑتی ہے اور آگے بنائی جانے والی اونچی عمارات کے طریقہ تعمیر کا اشارہ بھی ملتا۔اس کے علاوہ بھی قرآن میں سورہ غافر میں ایک آیت ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ’’فرعون نے کہا کہ ائے ہامان میرے لئے ایک بالا خانہ (Tower)بنا ، شاید کے میں جو آسمان کے دروازے ہیں ان دروازوں تک پہنچ جاؤں اور موسیٰؑ کے معبود کو دیکھوں۔‘‘
اس بات کی مزید وضاحت کے لئے یہاں حضرت موسی ؑ کے دور کے فرعون کے بارے میں ، اس کے زمانے کے بارے میں اور ہامان ؔ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔
مصر کی تاریخ کئی ادوار پر مشتمل ہے۔جس میں ہر دور کو ایک سلطنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ان تمام ادوار میں چوتھا دور(4th) اور انیسواں(19th) دور تاریخ مصر میں کافی اہمیت اور شہرت رکھتا ہے۔کیونکہ چوتھے دور میں Great Pyramidتعمیر ہوا ۔اور انیسویں سلطنت کی شہرت کی وجہہ تیسرا فرعون ہے جو حضرت موسیٰؑ کے دور میں زندہ تھا،تاریخ کے مطابق اسی انیسویں فرعون پر اللہ نے عذاب بھیجے اور بالآخروہ دریائے نیل میں غرق ہوگیا، ان عذاب یعنی’’ ضربات مصر‘‘ (Plagues of Egypt) کا تذکرہ انجیل میں بھی ہے۔

حضرت موسیٰ 1392قبل مسیح میں پیدا ہوئے :
حضرت موسیٰ ؑ جلیل القدر پیغمبر تھے ،Seder Olam Rabbah ’’السدر کبہ تیکون اولام ‘‘کے مطابق آپؑ 2076 قبل ہجری یعنی 1392قبل مسیح میں مصر میں پیدا ہوئے اور 1952 قبل ہجری یعنی1272قبل مسیح میںآپ نے اس دنیا سے ملک شام میں پردہ فرمایا۔آپؑ کے بھائی حضرت ہارون ؑ بھی پیغمبر گزرے ہیں۔ رعمسیس دوم کی دور حکومت1279قبل مسیح سے 1213قبل مسیح تک تھی ۔ رعمسیس دوم یعنی حضرت موسیٰؑ کے دور کا فرعون 1213قبل مسیح میں غرق ہوا اور حضرت موسیٰ ؑ اس واقعہ کے بعد تقریباً 7سال زندہ رہے۔اس طرح آپ ؑ کی عمر شریف 110برس تھی۔بعض مورخین جیسے مشہور پادری جیروم (Jerome) اور Ussher نے اس سلسلے میں دوسری تواریخ پیش کی ہیں۔(Seder Olam Rabbah کو The Great Order of the World بھی کہا جاتا ہے ،یہ دوسری صدی عیسوی میں عبرانی زبان میں لکھی گئی تقویم ہے جو انجیل کے واقعات اور تواریخ کو بیان کرتی ہے ۔اس میں تخلیق کائنات سے لے کر سکندرؔ کے ایران فتح کرنے تک کی تواریخ سلسلہ وار دی گئی ہیں )۔

حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے کا فرعون : ۔

حضرت موسیؑ کے دورمیں جو فرعون تھا اس کا نام رعمسیس دوم (Ramsses II)تھا ۔بعض محقیقین کے مطابق حضرت موسیٰ ؑ کی پرورش کرنے والا رعمسیس اول تھا اور آپ کا مقابلہ رعمسیس دوم سے ہوا تھا۔لیکن بیشتر محقیقین کہتے ہیں کہ مقابلہ رعمسیس دوم سے ہوا تھا اور آپؑ کی پرورش بھی اسی فرعون نے کی تھی۔ جس کا اظہار قرآن میں اس طرح ہے کہ’’قال الم نربک فینا ولیدا و لبثت فینا من عمرک سنین‘‘ (الشعرا ۔18-26)۔کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن کے زمانے میں نہیں پالا تھا اور تو نے عمر کے بہت سے سال ہم میں نہیں گزارے۔ مورخین نے مکمل تاریخ مصر میں گیارہ فراعنہ کو’’ رعمسیس‘‘ کا لقب دیا جن کو ترتیب وار ایک تا گیارہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔رعمسیس دوم مصر کی انیسویں سلطنت کا تیسرا بادشاہ تھا۔اس نے 25برس کی عمر میں بادشاہت سنبھالی۔ اس کے باپ کا نام ستی اول تھا، اس کا دور حکومت 1279قبل مسیح سے 1213قبل مسیح تک تھا۔اس نے 66یا 67برس تک حکومت کی ،یہ بادشاہ 1303قبل مسیح میں پیدا ہوا اور اس کی عمر 90برس تھی۔
رعمسیس دوم کو ’’رعمسیس دی گریٹ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔تاریخ میں رعمسیس دوم کے ایک وزیر کا نام Khayلکھا ہے،اس کے نام کا تلفظ ’’رائے ‘‘ ہے ، یہ وزیر رعمسیس دوم کے آخیری دور میں اس کے ساتھ تھا۔اس وزیر کی دوسرے وزراء کے مقابلے میں کافی زیادہ اہمیت تھی حتیٰ کہ ’’جشن سد‘‘ کا اعلان بھی یہی وزیر کیا کرتا ۔یہ جشن بڑے پیمانے پر ہر برس منایا جاتاتھا۔گذشتہ دنوں مصر Luxor میں Khayکا مٹی کی اینٹوں کا ایک مقبرہ دریافت ہوا جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وزیرKhayکا ہے۔یہ وزیر ملک کے معاشی حالات پر گہری نظر رکھتا اور رعمسیس دوم کے دور کی تعمیرات کی نگرانی کرتا،حتیٰ کہ مختلف تعمیرات میں استعمال ہونے والی آگ میں پکائی کچی مٹی کی اینٹوں پر اپنی دستخط کا مہر بھی ثبت کرتا۔ایسی کئی اینٹیں اس دور کے مختلف اہراموں سے حاصل ہوئی ہیں۔ممکن ہے قرآن میں اسی وزیر کا ذکر کیا گیا ہو۔ ائے ہامان تو میرے لئے مٹی کو آگ میں پکا ۔پھر میرے لئے ایک بلند عمارت بنوا تاکہ میں اس پر چڑھ کر موسی کے خدا کا سراغ لگا سکوں۔ (القصص 38) ۔ Khayاور ہامانؔ میں کوئی مماثلت نہیں لیکن اس وزیر کے ان کارہائے نمایوں میں مماثلت ہے جس کا اشارۃً ذکر قرآن نے کیا ہے۔(واللہ اعلم)۔ کیونکہ ہامانؔ کا کردار ہزاروں سال پرانا ہے اسی لئے ہامان کی صحیح حیثیت پر روشنی ڈالنا کسی قدر ناممکن ہے۔ شاید یہی وجہہ ہوگی کہ کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ ممکن ہوہامانؔ دراصل مصر میں رائج کسی منصب کا نام یا لقب تھا ہوگا جو بادشاہان مصر کے دربار سے وابستہ وزیر تعمیرات کو دیا جاتا تھا ،یہ بھی عین ممکن ہے کہ ا ن وزراء کا اصل نام تاریخ نے اجاگر نہ کیا ہو،ممکن ہے ہر دور کے ہامان ؔ کا نام بھی الگ الگ رہا ہوگا۔جس کو قرآن نے اشارتاً استعمال کیا ہو کیونکہ خود فرعون یا رعمسیس ؔ لقب رہے ہوں ورنہ فرعون موسیٰ ؑ کا نام ایک تحقیق کے مطابق Ozymandias تھا۔
رعمسیس دوم کو عمارات بنانے سے بڑی دلچسپی تھی۔اس نے دریائے نیل کے کنارے Thebes میں مندر کی عمارات کا سلسلہ بنایا جس کومعبد الرامسیوم (Ramesseum) کہا جاتا ہے۔یہاں پر رعمسیس دوم کا بہت بڑا مجسمہ بنا ہوا ہے۔ابو سمبل میں رعمسیس دوم نے مندر تعمیر کروایا جس میں اس کے بیٹھی ہوئی حالات(Sitting condition) میں چار مجسمے بنے ہوئے ہیں ابو سمبل کا ہر مجسمہ 66فٹ اونچا ہے۔اس کے علاوہ رعمسیسؔ دوم نے ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جو آج کے علاقہ ’’ قنتیر‘‘ (Qantir)میں واقع تھا۔ یہ علاقہ قاہرہ سے 60میل کے فاصلے پر موجود ہے ۔اس شہر کا دارالحکومت بر- رعمسیس i-Ramesses Pکہلاتا تھا۔ بعد میں یہ شہر تباہ و تاراج ہوگیا ، ممکن ہے اسی شہر کی اونچی عمارات اور قوم فرعون کی تعمیرات کو برباد کرنے کا ذکر اللہ نے قرآن میں کیا ہے کہ ’’فرعون کی قوم والے جو کچھ بنا رہے تھے ہم نے اس کو برباد کردیا اور اونچی اونچی عمارتوں کو مسمار کردیا‘‘ (الاعراف 137)۔
موجودہ دور میں اہرام پر کافی تحقیق ہوئی ہے بلکہ آج بھی اہرام مصر کے بارے میں تحقیقی کام چل رہا ہے ، بعض اوقات جب اس تحقیق کے نتیجے سامنے آتے ہیں تو پرانے بیان کردہ قیاسات کی نفی ہوتی ہے اور ایک نیا نظریہ پیش ہوتا ہے، اس طرح اہرام مصر دنیا کی ایک ایسی عمارت بن گئی ہے جس کے بارے میں بیان کردہ حالات اور اعداد و شمار سب سے زیادہ متنازعہ ہیں۔
چند حقائق

اس اہرام کے بارے میں جب غور کیا جاتا ہے تو جو بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں وہ
(۱) اس کی پلاننگ( ۲) وزنی پتھروں کی تراش خراش اور( ۳) ان پتھروں کی اہرام کی اونچائی پر منتقلی۔
ان میں سب سے اہم پتھروں کی منتقلی کا مسلہ ہے جس پر پہلے غور کیا جائے گا۔
* کیا یہ انسان کی جسمانی قوت سے ممکن ہے۔ * کیا بتدریج اونچے ہوتے راستے (Ramp)پر اس قدر بڑے پتھروں کا مزدوروں کی کم تعداد کے ذریعہ چڑھانا ممکن ہے۔ * کیا کسی ایسے راستے کا بنانا ،اس کوبرقرار رکھنااور اس کی حفاظت (Maintain)کرنا ممکن ہے ۔*کیا 20تا 30برس کے عرصے میں ڈھائی ملین پتھر کے بلاکس کی منتقلی ممکن ہے۔ * کیا لاکھوں پتھروں کو ایک جیسا تراشنا ممکن ہے۔ *پتھروں کو تراشنے والے آلات و اوزار آج تک دستیاب نہیں ہوئے۔
ان نکات کا جواب یہی ہوگا کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ روزانہ بلا ناغہ 320بلاکس کااوپر پہنچانا قطعی ممکن نہیں۔جب تعمیر چل رہی تھی توRampکے راستے پر کام کرنے والے مزدوروں کا جم غفیررہا ہوگا جو یقیناً کام کی رفتار میں رکاوٹ پیدا کرے گا،علاوہ ازیں اس قدر بڑے پتھروں کو کسی بھی ذریعہ سے اٹھانا مشکل بلکہ ناممکن ہے کیونکہ انہیں اٹھانے کے لئے پتھر سے زیادہ قوت درکار ہوتی ہے جومزدوروں کے بس سے باہر ہے ۔ پتھروں کو اوپر پہنچانے کے سلسلے میں کوئی بھی نظریہ، نظریہ ہی رہے گا ۔اس لئے موجودہ دور میں جو نظریہ کچھ حد تک قابل قبول نظر آتا ہے وہ مصنوعی پتھروں کا نظریہ ہے۔اس نظریہ کے مطابق پتھروں کو بنایاگیا،کام کرنے والے مزدوروں نے پتھر بنانے کا ساز و سامان دوسری ضروری اشیاء سنگ آہک (Limestone) اور بکٹ وغیرہ بتدریج اونچے ہوتے راستے کے ذریعہ اوپر منتقل کیا اور حسب منشا سائز کے سانچوں میں اس ساز سامان کو انڈیل کر انہیں مصنوعی پتھر میں تبدیل کیا گیا۔ وزنی ساز سامان کو اوپر لے جانے کے لئے دریائے نیل کی مٹی استعمال کی گئی تا کہ کم از کم مزاحمت میں زیادہ وزنی سامان اوپر پہنچایا جاسکے۔ایک نظریہ کے مطابق اس ساز و سامان کو اوپر لے جانے کے لئے لکڑی کی ٹرین بنائی گئی ماہرین وزنی سامان کو مزدوروں کی قوت کی مدد سے ڈھکیل کر اوپر لے جاتے۔ بڑے غور و خوص کے بعددور حاضر کے محقیقین نے اس بات کوتسلیم کیا ہے کہ صرف خوفوؔ کا اہرام ہی نہیں بلکہ مصر کے فراعنہ کی تمام تعمیرات میں یہی ٹیکنک اپنائی گئی۔
مصنوعی پتھروں کا نظریہ اس لئے بھی قابل قبول نظر آتا ہے کہ اہرام میں نصب پتھروں میں بڑی مقدار میں پانی پایا جاتا ہے جبکہ قدرتی پتھروں میں پانی نہیں ہوتا۔ جب اہرام کے پتھروں کا الکٹرانی خورد بینی مشاہدہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس میں کوارٹز(Quartz)کی قلمیں موجود ہیں جو مٹی کو گرم کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اہرام پر کئے گئے تجربوں سے ثابت ہوا کہ اس میں silicon dioxide بھی موجود ہے جو کسی بھی قدرتی پتھر میں نہیں پایا جاتا۔
پروفیسر Michel Barsoum نے اپنے تجربات کے ذریعہ ثابت کیا کہ اہرام کے دیو ہیکل پتھر سنگ آہک،مٹی اور پانی کے اونچی حرارت پر ایک دوسرے سے ملنے کا نتیجہ ہے، اہرام کے ان بڑے بلاکس کا ایکسرے تجزیہ کروایا گیا تو اس میں air bubbles کی موجودگی کا پتہ چلا جو ممکن ہے اس وقت پیدا ہوئے ہونگے جب سانچوں8 میں مٹی ڈالی جارہی ہوگی۔ عام طور پر یہ بلبلے پانی کی تبخیر evaporation کے وقت پیداہوتے ہیں۔
اٹلی کے ایک پروفیسر Mario Collepardi نے اپنے تجربات سے ثابت کیا کہ یہ مصنوعی پتھر اس علاقے میں کثرت سے پائی جانے والی سنگ آہک کی مٹی اور نارمل مٹی دریائے نیل کا پانی ملا کر اس مرکب کو جب ان بلاکس کو بنانے والے سانچوں میں ڈالا گیا اور ان سانچوں کو 900ڈگری پر گرم کیا گیا تو یہ آگ سانچوں کے اندر موجود مٹی کے مرکب کو اس کی متعین شکل اور قدرتی پتھر جیسی سختی و مضبوطی عطا کرتی ہے۔ اس موڑ پر میں سورہ القصص کی ایک آیت کی جانب متوجہہ مبذقل کرواتا ہوں جس میں اونچی عمارت تعمیر کرنے کے لئے فرعون ہامان ؔ کو مخاطب کرتا ہے کہ ’’ ائے ہامان تو میرے لئے مٹی کو آگ میں پکا ۔۔۔۔‘‘
سائنسدانوں نے اہرام مصر کے بڑے پتھروں کو مٹی سے بنائے جانے سے متعلق تھیوری کو 1981میں پیش کیا اور2006ء میں مختلف سائنسدانوں نے اس نظریہ کو تجربہ گاہوں اور دوسرے مقامات پر تجربات کے ذریعہ صحیح ثابت کیا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرعون کی یہ تعمیری ٹیکنک جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ حضرت موسیٰؑ کے دور کے فرعون رعمسیس دوم کی تعمیرات سے متعلق ہے ، یہاں اس ٹیکنک کا اطلاق کس طرح خوفوؔ کے گریٹ پیرامڈGreat Pyramid اور رعمسیس دومRamsses II کی دوسری تعمیرات پرکیا جاسکتا ہے۔کیونکہ خوفوؔ کا اہرام رعمسیس دوم یعنی حضرت موسیٰ ؑ کے دور کے فرعون سے ہزاروں برس قبل تعمیر ہوچکا تھا۔یہاں قرآن کی اس آیت کے ایک حصے کی تشریح میں خوفوؔ کے اہرام کی تعمیر کا ذکر کیوں کیا جارہا ہے۔اس کا ممکنہ جواب یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن نے فرعونی تعمیری ٹیکنک کا ذکر اشارتاً کیا ہے،یہ بات ممکن ہے کہ یہ تعمیری ٹیکنک مصر کے تمام فراعنہ کی مشترکہ ٹیکنک رہی ہو۔چونکہ حضرت موسیٰؑ کے دور کے فرعون رعمسیس دوم کی بنائی ہوئی تمام اونچی عمارات ڈھا دی گئیں کیونکہ اس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا اسی لئے اللہ نے ممکن ہے اس آیت کی وضاحت کے لئے مصری تعمیرات میں اہرام مصر کو محفوظ رکھا۔ مورخین کے مطابق حضرت موسیٰؑ کے فرعون سے بہت قبل دوسرے فراعنہ جیسے خوفوؔ وغیرہ نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا تھا، اکثر سائنسی دانشوروں یہی خیال ہے لیکن حقیقت سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔(واللہ اعلم)۔

Share
Share
Share