اقبال اور سید قطب کی ادبی خدمات ۔ ایک جائزہ
فیاض احمد وانی
ریسرچ اسکالر
رابطہ: اقبا ل انسٹی ٹیو ٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی کشمیر یونیورسٹی
فو ن نمبر 9858319484 0
فکری وادبی دنیا میں وقتاً فوقتاً ایسے مفکرین اور عبقری شخصیات پیدا ہوئیں جن کی وساطت سے اعلیٰ فکری وادبی ماحول پروان چڑھتا رہا۔ ادباء اور مفکرین کے افکار وخیالات سے ہی ادبی دنیا اپنے پروں کو پھیلاتی ہے ۔ اردو ادب اور عربی ادب کے درمیان گہراتعلق پایا جاتا ہے۔ اردو ادب کے اکثر شعراء ،ادباء اور مفکرین عربی ادب سے کافی متاثر رہے ہیں۔ اسی طرح دور جدید میں عربی شعراء وادباء بعض اردو شعراء سے متاثر نظر آتے ہیں۔
علامہ اقبال (۱۹۳۸۔۱۸۷۷ء)اور سید قطب (۱۹۶۶۔۱۹۰۶ء)اس صدی کی وہ دو عظیم شخصیات ہیں جوارباب فکر ونظر اور علم وآگہی کا ایسا بحر بے پایاں ہیں جنہوں نے برصغیر ہندوپاک کے علاوہ عرب ممالک کی علمی ،ادبی ، فکری، مذہبی اور سیاسی زندگی کو گہرے طورپر متاثر کیا۔ دونوں نے ایک ہی پیغام اور ایک ہی فکر کوپیش کر کے ادبی میدان کو سرسبزوشاداب کیا۔ انہوں نے شاعری اور نثر کو ذریعہ بناکر ابلاغ کا بے نظیر کام انجام دیا۔ علامہ اقبالؒ بنیادی طور پر ایک مفکر شاعر ہیں ۔ انہوں نے اپنے خیالات و نظریات کی ترجمانی اس طرح کی ہے کہ ان کے یہاں حسن اور جمال کی دنیا قائم ہو گئی ۔ علامہ کی طرح سید قطب بھی ایک مخصوص طرزِ فکر رکھنے والے شاعر اور نثر نگار کے طور پر ابھرے ۔ دونوں نے باریک بینی سے کام لیا اور معمولی چیزوں جنہیں عام لوگ نظرانداز کرتے ہیں پر بھی غور وفکر کر کے حقیقتوں کو سامنے لانے کی لامثال کوششیں کیں اور اپنی دعوت کو شدومد سے جاری رکھا۔ دونوں مفکروں نے فکری ،مذہبی ،ادبی،معاشی،سیاسی، تہذیبی، ثقافتی اور نفسیاتی میدانوں میں قابل قدر اور قابل توجہ
خدمات انجام دی ہیں ۔
اقبال کی ادبی خدمات
جہاں تک اقبا ل کی ادبی خدمات کا تعلق ہے وہ بر صغیر پاک وہند کے بلند پایہ مصنف اور شاعر تھے ۔ جو توجہ ان کو اسلامی ممالک اور مغربی ممالک کے مصنفین ، مترجمین اور نقاد کی جانب سے حاصل ہوئی ،بلاشبہ وہ ان کے دنیا میں ایک بہترین ادبی شخصیت درجہ کی تصدیق کرتی ہے۔ اقبال دور حاضر کے بہترین مسلم فلاسفر اور شاعر شمار کئے جاتے ہیں۔ ان کی فلاسفی اور شاعری میں آپسی ربط پایا جاتاہے۔وہ صرف اردو ہی کے شاعر نہیں بلکہ ان کا زیادہ تر کلام فارسی زبان ہی میں پایا جاتاہے۔ ان کی شاعری ، ان کی فکر اور سوچ کی آیئنہ دار ہے۔ اقبال نے اپنے آپ کو کبھی شاعر کہنا پسند نہیں کیا ۔ یہاں تک کہ ان کا خیال تھا کہ آئیندہ آنے والی نسلیں شاید انہیں شاعر تسلیم نہ کریں ۔ لیکن ڈاکٹر شمیم احمد ’ فکر قبال کے نثری مآخذ ‘ میں ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں:
’’اقبال بھلے ہی خود کو شاعر کہلانا پسند نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ فن شعر کی حقیقت و ماہیت سے خوب آشنا تھے ۔ اور اس فن پر انہیں ماہرانہ دسترس حاصل تھی۔ لیکن ان کے ہاں فن ، فکر کے تابع تھا مقصود بالذات نہیں تھا۔ اپنی شعری عظمت کی بنا پر اقبال دنیائے شعر وادب میں ایسے بلند مقام پر فائز تھے کہ نو آموز شاعر بڑی کثرت سے اپنی شعری کاوشیں اصلاح کی خاطر اقبال کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے۔‘‘ ۱
اقبا ل کے اندر مخصوص خیالات تھے جنہیں وہ لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔اور اسی لئے انہوں نے اس کی خاطر شاعر ی کو ایک ذریعہ سمجھ کر اس کا استعمال کیا۔ اقبال کی شاعری کی بدولت اردو زبان و ادب کو ایک نئی نظم ، نئی غزل، نئی رباعی اور نئے قطعہ سے آشنائی ملی۔اقبال کا کلام ادبی خوبیوں سے مالا مال ہے۔ اقبال نے ادبی چمن کو ایسے اور اس طرح پھولوں سے سجایا اور سنوارا کہ اس کے وجود سے آج تک برابر اس کا اعتبار اور اس کی آبرو قائم ہے۔اقبال کی کئی نظمیں اس کی گواہ ہیں کہ انہوں نے کس طرح اپنی خدمات انجام دیں ۔مثال کے طور پر مندرجہ چند اشعار سے زبان وبیان اور خوبی صاف طور سے جھلکتی ہے۔
ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل
طشتِ گردوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خون ناب
نشتر قدرت نے کیا کھولی ہے فصدِ آفتاب
چرخ نے بالی چرالی ہے عروسِ شام کی
نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیمِ خام کی
گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دکھلا تا ہے تو
ہے وطن تیرا کدھر کس دیس کو جاتا ہے تو
نور کا طالب ہوں گھبراتا ہوں اس بستی میں میں
طفلک سیماب پا ہوں مکتب ہستی میں میں ۲
ٓاسی طرح نظم ’ گل رنگیں ‘ کے چند اشعار بھی اقبال کی زبان اور ادب کے حوالے سے پیش خدمت ہیں :
تو شناسائے خراشِ عقدۂ مشکل نہیں اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیبِ محفل ہے شریک شورش محفل نہیں یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں سراپا سوزو ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گدازِ آرزو ۳
اقبال بنیادی طور پر ایک مفکر شاعر ہیں ۔ انہوں نے اپنے خیالات و نظریات کی ترجمانی اس طرح کی ہے کہ ان کے یہاں حسن وجمال کی دنیا قائم ہوگئی۔ اقبال واقعی ایک ایسے منفرد شاعر ہیں جنہوں نے الفاظ کو لغت کی قید سے آزاد کرکے انہیں تخلیقی درجہ عطا کیا ہے۔ اقبال ایک ایسا روشن ستارہ ہے جس کے بنا اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ ان کی تخلیقات میں جگہ جگہ تنقیدی اشارے ملتے ہیں جس سے شعرو ادب کے بارے میں ان کی رائے کا پتہ ملتا ہے۔ انہوں نے شاعری کی شکل میں اپنے افکارو نظریات اور جذبات و محسوسات کا جو ذخیرہ چھوڑا ہے وہ نہایت ہی قابل قدر ہے۔ ان کی تمام تر شاعر ی پیغام بری ہے ۔اقبال کے کلام میں جلال اور جمال کا حسین ترین سنگم ہے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں :
’’ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کے عالمگیر پیغام کے لئے منتکب کیا تھا، اور انہوں نے اس پیغام رسانی کے لئے شعر وادب کی زبان اختیار کی،۔۔۔انہوں نے بڑی خوبی و خوش اسلوبی سے یہ پیغام پہنچایا اور شعروادب کو غیر معمولی اور امکانی حد تک متاثر کیا اور اردو شعر گوئی میں ایک نیا مکتب فکر قائم کیا، انہوں نے ادب و شاعر ی کو نئی ترکیبیں ، نئے خیالات اور نئے معانی و مفاہیم دئے اور اس کو نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔‘‘ ۴
اقبال کے الفاظ و اسالیب ، تعبیرات وتراکیب اور خیالات و استعارات اس قدر حسن اور ادب سے معمور ہے کہ ہندوپاک کا تقریباََ ہر ادیب و شاعر فیضیاب ہوگئے۔ حالانکہ کئی ادیب اور شعراء حضرات اور ناقدین اقبا ل سے اختلاف تو کرتے ہیں لیکن کافی حد تک وہ ان کے قائل اور ان سے متاثر ہیں ۔ اقبال کی قادرالکلامی پر نقادان ادب کے ایک بہت بڑے گروہ نے ان کے سر پر تاج رکھ دیا اور عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔ انہوں نے اپنے کلام میں مختلف النوع چیزوں کو جگہ دیکر زبان وادب کو سجایا اور بڑے بڑے شعرا اور ادبا کے دلوں اور احساسات و جذبات کو اپنی شاعری کی طرف کھینچ لیا ۔ مثلاََ ماہنامہ ’ نگار ‘ کے اس حوالہ کا معائینہ کیجئے:
’’ سائنس ، جدید سوشیالوجی، جدید فلسفہ، جدید فضا اور ماحول ، مغرب اور مشرق کا تصادم اور ان کا امتزاج جس طرح غزل میں رونما ہوا ، اس کی مثال اقبال کی غزلیں ہیں اور یہ اثر ’ بال جبریل‘ اور’ ضرب کلیم ‘ میں اتنا تیز اور نمایاں ہے کہ اقبال کی غزلیں اردو شاعری میں انقلاب کا حکم رکھتی ہیں ‘‘ ۵
اردو زبان کے اس شاعر باکمال کا رول اہم رہا ہے۔ بلکہ اردو زبا ن بھی مستحق داد ہے کہ اس نے فکر وشعر اقبال کا بھاری بوجھ اٹھا کر دبستان اردو میں انہیں سنگ مرمر کی ایک نئی عمارت تعمیر کرنے میں مدد دی۔ اقبال نے چاہے اردو میں اپنا کلام پیش کیا یا فارسی میں ۔ غرض دونوں زبانوں میں ایک تحریکی اور انقلابی ولولہ انگیز کلام عوام الناس کو پیش کرکے اوردو ادب اور فارسی ادب کے تئیں بیش بہا حزانہ چھوڑا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا ۔ ان کے کلام میں کئی جگہوں پر عربی الفاظ اور قرآنی آیات موجود ہیں ۔ قرآن پاک کی سورتوں میں سورہ رحمٰن ، نور ، اآم،الشمس،اور اخلاص کا تشبیہاََ ذکرکرکے استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ اقبال کے کلام میں قرآنی تلمیحات بھی بڑی خوبصورتی سے استعمال کی گئی ہیں۔جیسے:
مازاغَ ، رفعنا لک ذکرک ،ماعرفنا ، لا یخلف المیعاد ،لیس لل انسان الا ما سعی ان الملوک ، وعداللہ حق،لا تدع مع اللہ الٰہََ آخر ، قد کنتم بہِ تستعجلون، ینسلون وغیرہ کو استعمال کیا ہے۔ قیام و سجود ، اذان ، مؤذن ، صلوٰۃ وزکوٰۃ،قرآن کے علاوہ بے شمار عربی الفاظ کا استعمال کیا ہے ۔
اقبال کی نظم میں ہی نہیں بلکہ ان کی نثر میں بھی ان کی انفرادیت کا احساس جابجا ملتا ہے۔ انہوں نے نثری ادب میں مضامین اور مقالات تحریر کئے ہیں ۔ ان کی تمام تر نثری تصانیف اور خصوصاََ مکاتیب کا ایک اچھا خاصاسرمایا بطور یاد گا ر چھوڑا ہے۔ ڈاکٹر شہناز قادری لکھتے ہیں:
’’ اقبال کے مکاتیب کا سرمایہ اردو کے مکاتیبی ادب میں سب سے زیادہ اور متنوع ہے۔۔۔اقبال کے بعض خطوط غیر معمولی ادبی اہمیت کے حامل ہیں ۔‘‘ ۶
گویا اقبال کے مکاتیب کا ذخیرہ اپنی نوعیت کا اہم ادبی سرمایہ ہے۔
اقبال نے غالب کی طرح اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کرکے مندرجہ ذیل مجموعوں سے اردو اور فارسی ادب کی آبیاری کی۔ اردو میں ان کی بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز جبکہ فارسی میں انکے مجموعے میں اسرار خودی ، رموز بے خودی۔ پیام مشرق، زبورعجم، جاوید نامہ ، مسافر ،مثنوی پس چہ باید کرد اور ارمگان حجاز قابل قدر شامل مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی میں سرفہرست The Reconstruction of Religious Thought in Islam تصنیف بھی نہایت ہی اہمیت کی حامل
کتاب ہے۔ ان تمام تصانیف سے اردو زبان نئی رفعت و تجلی سے آشناہوئی۔
اقبال کی شاعری کے حوالے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ وہ ایک طرف فطرت پسند شاعر ہیں جو مظاہر فطرت میں حسن و ازل کی تلاش کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کی فکر کا سر چشمہ قرآن حکیم اور رسول اکرم ؐ کی ذات اقدس نظر آتی ہے۔ چنانچہ اقبال انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر جس زندگی کا نظریہ پیش کرتے ہیں وہ ایمان وعمل ، جہد پیہم ، اورحرکت و توانائی سے تشکیل پاتی ہے ۔ ان کا لہجہ خطیبانہ ہے لیکن شاعری سے اس کی جمالیاتی سطح ارفع ہوجاتی ہے۔
اقبال نے ارد و کو ایسی شاہکار نظموں سے مزین کیا جو فنی اور فکری دونوں اعتبار سے لاثانی نظر آتی ہیں ۔ مثال کے طور پر مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، خضر راہ، ساقی نامہ، جبریل و ابلیس ، لالۂ صحرا اور شعاع امید جیسی نظمیں معنوی گہرائی کے اعتبار سے اردو شاعری کا واقعی بہت بڑا سرمایہ ہے۔غرض فروغ اردو میں اقبال کی خدمات واضح اور صاف طور پر نظر آ تی ہیں ۔ اقبال اردو کے بہت بڑے حامی اور مداح ہیں ۔ مولوی عبدالحق کے پیش نظر اقبال نے ایسے اثرات ڈالے کہ بیسیوں لفظ ، خاص خاص ترکیبیں اور بعض خاص خیال اور افکار ہندوستان کے اردو ادیبوں اور شاعروں میں محض اقبال کے کلام کی بدولت اکثر و بیشتر رائج الوقت ہوگئے۔
سید قطب کی ادبی خدمات:۔
اقبال اور سید قطب کے فکر وفن ، شاعری اور پیغام کے مختلف گوشوں کو عام کرنے اور اجاگر کرنے کی خاطر تا ایں دم بہت کام ہو ا ہے اور ان کی خدمات اور شاعری کے ضمن میں اب تک جدا گانہ طور پر بہت کچھ تحریر کیا جا چکا ہے۔ لیکن دونوں کے باہمی افکار و خیالات اور نطریات کے حوالے سے اب تک کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہو ا ہے۔
جہاں تک سید قطب کی ادبی خدمات کا تعلق ہے ۔ وہ مصری معاشرے کے اندر ایک ادیب لبیب اور عربی زبان کے نہایت ہی بلند پایہ انشا پرداز اور بہترین شاعر کی حیثیت سے ایک مخصوص طرز فکر رکھنے والے نثر نگا ر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔انہوں نے اقبال کی طرح اپنا نظام فکر قرآن کریم کی اساس پر ترتیب دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے بلند افکار و خیالات ہمیشہ سے وعقلمند اور دانشور طبقوں کو اپنی طر ف مائل کرتے رہے۔
عربی ادب میں سید قطب کا ایک الگ مقام حاصل ہے۔ اور یہ عبقری شخصیت اب اردو دنیا یا اردو خواں طبقہ میں بھی محتا ج تعارف نہیں رہی۔ چنانچہ ان کی بعض اہم تصنیفات اردو زبان میں منتقل ہوچکی ہیں۔ جس طر ح اقبال عالم عرب بالخصوص مصر میں متعارف ہوچکے ہیں اسی طرح سید قطب بھی عالم عرب کے علاوہ باقی بیرونی ممالک میں کسی تعارف کے محتاج نہیں رہے۔ سید قطب کی کئی تصانیف اہل علم حضرات سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔ اقبال اور سید قطب کی شعری اور نثری افکار اور خیالات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے دیوان محمد اقبال میں سید قطب کے اس جملے سے یہ معلومات فراہم ہوتی ہے کہ ان دونوں کے الفاظ اور معانی میں کتنا تطابق تھا،ملاحظہ کیجئے:
’’ کدت اتوافق انا و محمد اقبال فی المعانی ، وربما توافقنا فی الالفاظ ۔۔۔‘‘ ۷
سید قطب کا ابتدائی دور تحریر ادب ، شاعری، ادبی تنقید اور سرگرم صحافت کی وادیوں میں فکرو دانش کے چراغ روشن کرنے سے منسوب ہے۔ سید قطب کی جس تصنیف نے بڑے پیمانے پر اہل علم حضرات اور دانشور طبقے کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ ’ العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ہے۔ بعد میں اسکا اردو ترجمہ پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی نے ’ اسلام میں عدل اجتماعی ‘ کے نام سے کیا۔
سید قطب نے قرآن کا نہایت دقت نظر سے مطالعہ کیا۔ اس کی فصاحت و بلاغت ، اس کی لامثال ادبی عکاسی اور بے مثال اسلوبِ بیان پر انہیں بڑا عبور حاصل تھا۔ وہ ایک عالم اور دانشورہی نہ تھے بلکہ ایک صاحب طرز ادیب اور شاعر کے نام سے بھی متصف تھے۔
مصری حکومت نے سید قطب کو جدید طریقۂ تعلیم و تربیت کے مشاہدے اور مطالعے کے لئے انہیں امریکہ بھیجا۔ ۱۹۵۰ء کے آخری ہفتوں میں سید قطب امریکہ اور یورپ کے اس سفر سے واپس تشریف لائے۔ پھر ۱۹۵۱ء میں الاخوان المسلمون سے وابستہ ہوگئے۔ جبکہ اس کی پیشین گوئی شیخ حسن البنا نے ’ العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ‘ کو پڑھ کر ہی کی تھی کہ ان پاکیزہ افکار کے مصنف کو اخوان المسلمون میں ہون اچاہئے۔
سید قطب ۱۹۵۳ء میں قاہرہ سے ایک مجلہ ’ الفکر الجدید‘ جاری کرتے ہیں ۔ مذکورہ پرچے میں دیگر موضوعات کے ساتھاانہوں نے جاگیر دارانہ ظلم ، سرمایہ دارانہ سفاکی اور استعماری نظام حیوانیت پر بڑی سختی سے لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد ۱۹۵۴ء میں سید قطب جریدہ ’ الاخوان المسلمون‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ اس سے قبل ۱۹۵۰ء میں الاخوان کے نوجوان سعید رمضان جو بحیثیت عبقری رہنما ابھرے تھے نے مجلہ المسلون جاری کیا تھا۔ اور ان کی درخواست پر سید قطب ہرشمارے کے لئے ’ فی ظلال القرآن ‘ کے عنوان سے ایک مستقل کالم تحریر کیا کریں ۔ سید قطب نے ان کے اس درخواست یا تجویز کو شرف قبولیت بخش کر یہ کالم مجلہ المسلمون کی جان اور عالم عرب میں دعوت قرآن کا مؤثر وسیلہ بن گیا۔ قاہرہ کے ایک اشاعتی ادارے نے سید قطب سیاس سلسلۂ مضامین کو مستقل تفسیر اور کتاب کی شکل دینے کی تجویز پیش کی۔ اور اس طرح ۱۹۵۴ء تک اس مذکورہ تفسیر اور کتاب کی پہلی ۴ جلدیں مکمل ہوگئیں ۔ سید قطب کو ایک جھوٹے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے اور جیل میں مختلف اذیتوں سے وہ کئی امراض میں مبتلا ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان پر پر مصائب و مشاکل ایام میں انہوں نے بچی کھچی قوت مجتمع کرکے ’ فی ظلال القرآن ‘ کی طبع شدہ جلدوں پر نہ صرف نظر ثانی کی بلکہ بقیہ جلدوں پر بھی کام شروع کرکے اس کڑے ظلم و جبر میں سید قطب نے تفسیر فی ظلال القرآن مکمل کی۔ جس کی بعد میں سید قطب کے برادر اصغر پروفیسر محمد قطب نے انگریزی ترجمہ بعنوان In The Shade of the Quran کیا۔
تفسیر فی ظلال القرآن بلند پایہ ادبی اسلوب ، معتدل طرز بیان ، ضعیف روایات سے مبرا، عصری جاہلیت پر تنقید، جدید تحقیقات کی عادلانہ تفہیم، فقہی اختلافات سے اجتناب، انقلاب آفرین اظہار مدعا اور قرآن و دین کو ایک ہمہ جہت تحریک بنا دینے کا نصاب ہے۔ بعد میں اس کا ترجمہ فارسی میں ’ در سایۂ قرآن ‘ کے نام سے بھی ہوا۔ اس تفسیر میں قرآن کی اثر انگیزی اور طرز تفسیر ایک لاثانی چیز ہے۔ سید معروف شاہ شیرازی فی ظلال القرآن کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ مصنف نے فی ظلال القرآن میں قرآن پاک کی اثر انگیزی ، جس نے عرب کی کایا پلٹ دی تھی، کی راہ میں حائل پردوں کو چاک کردیا ہے ۔۔۔۔فی ظلال القرآن میں علمی موشگافیوں اور فقہی باریکیوں سے ہٹ کر قرآن پاک کے اصل مقصد اور دعوتی رنگ کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے لئے جو زبان استعمال کی گئی ہے۔ وہ سید کا ہی حصہ ہے اور اسے بلا شبہ الہامی زبان کہا جاسکتاہے۔ اپنے اس رنگ میں یقیناًیہ ممتاز ترین تفسیر ہے۔ تفسیر کیا ہے ایک دعوت عمل اور دعوت انقلاب ہے، الفاظ اور معنی کا دریا ہے۔جس میں تحقیقی، علمی ، وجدانی،اور ادبی نکات جابجا موجود ہیں ۔ پورے ذخیرہ تفاسیر میں یہ پہلی تفسیر ہے جو خود قرآن کے اسلوب بیان میں لکھی گئی ہے۔‘‘ ۸
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سید قطب کو قدیم مفسرین سے یہ شکایت تھی کہ انہوں نے قرآنی ادبی تفسیر کا حق ادا نہیں کیا ۔ التصویر الفنی فی القرآن کے مترجم پروفیسر غلام احمدحریری لکھتے ہیں :
’’گرچہ سید قطب کو قدیم مفسرین سے شکایت ہے کہ وہ قرآنی ادبی تفسیر کا حق ادا نہ کرسکے ۔ دوسری صدی ہجری میں تفسیر میں بہت وسعت ہوئی تھی مگر قرآن کے فنی و ادبی حسن و جمال کو زیر بحث لانے کے لئے قرآن میں فقہی، جدلی ، صرفی ، نحوی ، تا ریخی اور فلسفیانہ بحثوں کا انہوں نے آغاز کردیا اور اس طر ح قرآن کے فنی جمال کی نشاندہی کا موقعہ ہاتھ سے کھو دیا۔ ‘ ‘ ۹
سید قطب نے اپنی زندگی کا آغاز ایک ادیب ہی کی حیثیت سے کیا ۔ بچپن ہی سے صحافت سے خاص رجحان تھا۔ مختلف قسم کی ادبی سرگرمیوں اور محفلوں میں شرکت کرتے رہے۔ سید کا ایک الگ قسم کا بلند پایہ ادبی اسلوب تھا ۔ انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا ۔ ادب و بلاغت، شیرینی و اثر آفرینی جابجا نطر آتی ہے۔ اس کے علا وہ اپنی تفسیر کو ادبی پیراہن سے آراستہ کیا اور ادبی و فنی محاسن بھی بڑی خوبصورتی سے خود بخود واضح ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ سید قطب عربی ادب کے ناقد اور ادیب تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فی ظلال القرآن میں ان کا ادب پورے شباب پر نظر آ تا ہے ۔ اس ضمن میں سید معروف شاہ شیرازی جلد نمبر ۱ کے صفحہ نمبر ۹ پر ایک نوٹ میں لکھتے ہیں :
’’ فی ظلال القرآن کے تفسیری ادب ، میں اپنے اسلوب تفسیر ، انداز بیان اور اپنی صورت فکر کے لحاظ سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ اس کا سلوب بھی نیا ہے ۔ عربی زبان میں سید قطب صاحب طرز ادیب ہیں ۔ انہوں نے جدید عربی کو بالکل ایک نیا اسلوب دیا ہے۔ میں اسے ’’ ایمانی اسلوب بیان‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں ۔ نئی نئی تعبیرات کو استعمال میں لاکر اپنے ما فی الضمیر کا اظہا رکیا ہے۔ ‘‘ ۱۰
سید قطب کی ادبی اور تنقیدی تحریروں میں سنجیدگی، پختگی ، امانت داری، اخلاص اور جرات وبیباکی کا بڑا حسین امتزاج کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ سید قطب نے قرآنی اسلوب میں اسلامی مطالعات اور اسلامی فکر پر جو ادب پیش کیا ہے اس میں طٰہٰ حسین کے اسلوب کی گلکاریاں ، رافعی کی روح اور عقاد کی گہرائی سب کچھ نظر آتا ہے۔ گویا سید قطب نے اپنے معاصرین کی تمام خوبیوں کو اپنی تمام تحریروں میں سمو لیا تھا۔
سید قطب بحیثیت قصہ نگا ر بھی کسی سے کم نہیں ۔ انہوں نے لگ بھگ تین ناول دنیائے ادب کو دئے۔ سب سے پہلے ہماری نظر ان کے ایک ناول بعنوان ’ طفل من القریۃ ‘ پر پڑتی ہے۔ اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح طٰہٰ حسین کے اسلوب نگارش نے ان کے دل کے تاروں کو جھنجھوڑا ہے۔ اس کا اندازہ سید قطب کے ان مندرجہ ذیل الفاظ سے ہوتا ہے:
’’ آپ اس کتاب کے صفحات کو پڑھتے ہوئے محسوس کریں گے کہ آپ ’ الایام ‘ کی فضا میں سانس لے رہے ہیں اور الایام کی خوشبو سے معطر فضا سے مشامِ جاں کو معطر کررہے ہیں ۔‘‘ ۱۱
غرض اس کتاب میں الایام کے اسلوب کو ہی اپنا کر وہ انتہائی عالیشان اور بلند وبالا اسالیب تک پہنچ گئے۔
اس کے علاوہ سید قطب کا دوسرا ناول ’ اشواک‘ رومانی فکر کو اجا گر کرتے ہوئے اور خود ان کی اپنی زندگی کے اس پہلو کے خط و خال نمایاں کرتا ہے۔ ان کا مزید ایک اور ناول ’ المدینۃ المسحورۃ ‘ دارالعارف کے سلسلۂ اقراء کے تحت شائع ہونے والے اس ناول میں انہوں نے پر کشش انداز بیان میں علامتی ادب کو ایک دلپذیر مثال پیش کی۔ سید قطب کی ادبی خدمات پر جتنا بحث کیا جائے کم ہے۔ کیونکہ انہوں نے اقبال کی طرح ہمہ جہت موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔ انہوں نے نثر کے ساتھ ساتھ شعر وسخن میں بھی جولانیاں دکھائیں ۔ان کے کئی دواوین بھی ہیں اور جن شعری دواوین کا اعلان ہو اتھا ۔ ان میں الشاطی المجھول، قافلۃالرقیق، الکاس المسمومۃ اور حلم الفجر قابل ذکر ہیں ۔ البتہ ان میں صرف الشاطی المجھول ہی طبع ہوسکا جبکہ باقی زیور طبع سے مزین نہ ہوسکے۔ اس کے علاوہ ان کی وہ نظمیں اور اشعار ہیں جو مجلۃ الرسالۃ وغیرہ میں وقتا فوقتا شائع ہوتے رہے۔ اور جن میں انہوں نے اپنے دل کی دھڑکن ، قلم کی حلاوت اور افکار وخیالات کا حسن سمویا ہے۔ اور نوجوان ادبا ء و شعرا کے ذوق کو نئے مفاہیم ، نئی ٹیکنیک اور اچھو تے موضوعات سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کی ہے ۔اقبال نے شاعری کی دنیا کو ایک لامثال رنگ اور آہنگ سے آراستہ کیا ہے۔ فطرت نگاری میں دونوں شاعر کمال کے تھے۔ مثال کے لئے یہ چند اشعار :
مانندِ سحر صحنِ گلستان میں قدم رکھ آئے تہِ پا گو ہرِ شبنم تو نہ ٹوٹے
ہو کوہ و بیاباں سے ہم آغوش و لیکن ہاتھوں سے ترے دامنِ افلاک نہ چھوٹے ۱۲
یا علامہ کے فارسی کلام میں غنچہ ، گل اور چمن وغیرہ کا بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ جیسے:
زر ہزنانِ چمن انتقامِ لالہ کشیم بہ بزم غنچہ و گل طرحِ دیگر اندازیم ۱۳
ترجمہ:۔ چمن کے لٹیرون سے گل لالہ کا انتقام لیں ۔ کلیوں اور پھولوں کی بزم کی نئی بنیاد ڈالیں ۔
سید قطب نے بھی گلوں اور گلزاروں اور موسم بہار کی رعنائیوں کو اس اسلوب میں پیش کیا اور بڑے دلفریب انداز میں منظر کشی کی ہے ۔ جس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل اشعار سے لگا سکتے ہیں :
زھرۃ قد کاد یعروھا الذبول ثم حیتھا تبا شیر الربیع
فھی ترنو بین صحوِِ و ذ ھول مثلما تحتا ر فی العین الدموع
ترجمہ:۔ گل پر جب افسردگی چھا نے لگتی تھی تو اس وقت موسم بہار کی علامات نے اس میں زندگی کے آثار پیدا کردئے۔ اور اب وہ بیداری و غفلت کے درمیان اسی طرح جھوم رہا ہے جیسے آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آتے ہیں ۔
سید قطب کا اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے اپنے قصیدہ بعنوان ’ الصبح یتنفس ‘ میں اپنا سلوب اور فطرت کے حسن سے ظاہر ہونے والی کائنات کا تعلق جوڑنے کی فکر اور اس فکر کو پیش کرنے کے لئے خیال کی کارفرمائی مربوط اور مکمل شکل میں سامنے لایاہے۔ چنانچہ ان کے یہ اشعار دیکھئے:
نسمات زفھا الفجر الولید بعد ما جا ش بھا صدر الحیاہ
ناعماََ مِثل انفاس الورود بلل الطل شذاھا بِنداہ
ترجمہ:۔ زندگی ایک بچی کی مانند ہے جس کو رات اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے۔ صبح ہوتی ہے تو بچی بھی بیدار ہوتی ہے۔ اور اس طرح سانسیں لیتی ہے جیسے اس کی یہ سانسیں صبح کی نرم و لطیف باد نسیم ہے۔
سید قطب ایک سلیم الفطرت شخصیت ہیں ۔ انہوں نے ہمارے لئے اپنی زندگی اور ادبی ورثے سے بہت بڑا مطالعاتی ذخیرہ چھوڑا ہے ۔ سید قطب کی تصنیف ’ التصویر الفنی فی القرآن ‘ کے اسلوب اور فن میں گوناگوں ادبی صلاحیتوں کا بھر پو ر مظاہرہ ہوتا ہے۔یا مشاہدالقیامۃ فی القرآن کے ادبی مطالعے کے پیش نظر کئی ادبی اور فنی جہتیں سامنے آجاتی ہیں۔ غرض یہ دونوں تصانیف زبان و ادب اور تفہیم قرآن کے لحاظ سے شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ سید قطب کی ادیبانہ صلاحیت کے حوالے سے عبدالباقی محمد حسین تہامی لکھتے ہیں :
’’ سید قطب ادیب شاعر یملک الموھبۃ ، موھبۃ الاِ بداع والتذوق ، واِن ھٰذالعطاء الالٰھی ھوالذی فرخ لنا سید قطب صاحب الظلال والتصویر الفنی و مشاھد القیامۃ فی القرآن ۔‘‘ ۱۴
ترجمہ:۔ سید قطب ایک با صلاحیت ادیب اور شاعر ہیں ۔ ادبی تخلیق اور تذویق پہ کافی دسترس حاصل ہے ۔ کیونکہ یہ ایک خد ادادصلاحیت ہے ۔ یہ آ پ کی اس خداداد صلاحیت کا نتیجہ ہے کہ آپ کی تالیفات میں فی ظلال القرآن ، التصویر الفنی فی القرآن ، اور مشاھد القیامۃ فی القرآن جیسی شاہکار معرض وجود میں آگئیں۔
سید قطب کی ادبی خدمات نے اپنے زمانے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے لگ بھگ چالیس تصانیف لکھیں اور اس کے علاوہ کئی مقالات تحریر کئے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی کئی نظمیں کئی میگزینوں جیسے الاسبوع ، الاھرام ، الرسالۃ، الثقافۃ، العالم العرب وغیرہ کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔انہوں نے زندگی کے آخری ایام میں ایک انتہائی مؤثر اور دلنشین نظم ’ اخی‘ کے عنوان کے تحت لکھی جو کافی مشہور ہے ۔ ملاحظہ کیجئے اس نظم کے چند اشعار:
اخی انت حر وراء السدود اخی انت حر بتلک القیود
ا ذا کنت باللہ مستعصما فما ذا یضیرک کید العبید
اخی ستبید جیوش الظلام ویشرق فی الکون فجر جدید
فاطلق لروحک اشراقھا تری الفجر یرمقنا من بعید ۱۵
معالم فی الطریق جس کا اردو ترجمہ محمد عنایت اللہ اسد سبحانی نے ’ نقوش راہ ‘ کے نام سے کیا ، اس کے صفحہ نمبر ۲۸۶ پر یونس قنوجی نے نظم اخی کا جو منظوم ترجمہ کیا ہے کوملاحظہ کیا جاسکتا ہے :
مرے رفیق! مرے ہم سفر ! مرے ہمدم!
حصار گوشۂ زنداں میں بھی ہے تو آزاد
یہ بیڑیاں یہ سلاخیں یہ سخت زنجیریں
ہلا سکیں گی نہ قصر یقین کی بنیاد
اگر خدا کی رضا ہے تری متاع سفر
تو پھر ضمیر فروشوں کے مکر کا غم کیا
سیاہ روز لٹیروں کی گھات کا کیا خوف
کماں بدوش فلک کے ستم کا ماتم کیا !
تو وہ مسافرِ شب ہے کہ جس کے سینے میں
سحر فروز ہزاروں چراغ روشن ہیں
تجھے دبا نہ سکے گی دبیز تاریکی !
کہ تیری فکر سے لاکھوں دماغ روشن ہیں
تو اپنی روح کے گوشوں کو تا بدار تو کر
افق کی راہ گزر تیرے انتظار میں ہے
لرز رہے ہیں ستوں شب کی بارگاہوں کے
کہ ایک تازہ سحر تیرے انتظار میں ہے ۱۶
سید قطب کی شاعری میں مرثیہ نگاری بہت کم نظر آتی ہے ۔ کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں انہیں موقع پرستوں میں شمار نہ کیا جائے ۔ آپ کی شاعری آپ کے ہم عصر نوجوانوں کو عملی میدان میں زندگی کی تلخیوں کو برداشت کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ ایسے نوجوانوں کو میدان عمل میں اترنے کی دعوت دیتی ہے۔ جنکو تمناؤں اور آرزؤں نے مغلوب کردیاہو۔ سید قطب کا ادبی ورثہ اسلامی ورثہ سے نہیں ٹکراتا یا اسے ٹھیس نہیں پہنچاتا۔اگر ایسا ہوتا تو آپ کی فی ظلال القرآن میں وہ اثر نہ ہوتا اور نہ ہی آپ کی معالم فی الطریق میں وہ وضاحت اور صراحت ہوتی۔
——–
حوالے
۱۔ ڈاکٹر شمیم احمد فکر اقبال کے نثری مآخذ، جید پریس بلی ماران نئی دہلی جنوری ۲۰۰۶ء ص ۲۷۴
۲۔ علامہ اقبال کلیات اقبال
۳۔ ایضاََ
۴۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نقوش اقبال مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ندوۃالعلماء ۲۰۱۲ء ص ۲۶۹
۵۔ ماہنامہ نگار ، لکھنو جنوری ۔ فروری ۱۹۵۰ء
۶۔ ڈ اکٹر شاہناز قادری مکاتیب اقبال کے ادبی پہلو میزان پبلشرز بٹہ مالو سرینگر ۲۰۱۲ء ص ۱۶۹
۷۔ سید عبدالماجد الغوری دیوان محمد اقبال دارابن کثیر دمشق ۔بیروت ۲۰۰۳ء
۸۔ سید قطب شہید فی ظلال القرآن ادارہ منشورات اسلامی ملتان روڈ لاہور اکتوبر ۱۹۹۸ء ص ۳
مترجم۔ سید معروف شاہ شیرازی
۹۔ سید قطب التصویر الفنی فی القرآن ص ۲۶
۱۰۔ سید قطب شہید فی ظلال القرآن ادارہ منشورات اسلامی ملتان روڈ لاہور اکتوبر ۱۹۹۸ء ص ۹
مترجم۔ سید معروف شاہ شیرازی
۱۱۔ یوسف العظم الشہید سید قطب ص ۷۶
۱۲۔ علامہ اقبال کلیات اقبال
۱۳ ۔ بحوالہ ۔ ایم رمضان گوہر انتخاب کلیات اقبال فارسی اعتقاد پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی ۲۰۱۲ء ص ۱۱۷
۱۴۔ سید قطب دیوان سید قطب دارالوفاء للطبع والنشر
۱۵۔ ایضاََ ص ۲۹۱
۱۶۔ سید قطب شہید نقوش راہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی ۲۰۱۲ء ص ۲۸۶
مترجم، محمد عنایت اللہ اسد سبحانی
——–
فیا ض احمد وانی
ریسر چ اسکا لر
رابطہ: اقبا ل انسٹی ٹیو ٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی کشمیر یو نیو رسٹی
فو ن نمبر 9858319484 0