قسط – 15
اردو کےادیب اورنثرنگار
قرۃ العین حیدر – نسیم حجازی
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
اردو کے ادیب اور نثر نگار ۔ چودھویں قسط کے لیے کلک کریں
قرۃ العین حیدر (۱۹۲۸۔۱۹۹۹ء)
اردو کی منفرد مصنفہ ، دانشور ، افسانہ نگار ، ناول نگار قرۃ العین حیدر نے اپنے تجربات اور اسلوب کی ندرت اور تازہ کاری کے وسیلہ سے اپنی شناخت قائم کی ہے ، قرۃ العین حیدر کی پیدائش علی گڑھ میں ہوئی ، ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے مشہور انشائیہ نگار اور افسانہ نویس تھے ، ’’کار جہاں دراز ہے ‘‘ میں قرۃ العین حیدر نے اپنے آباء و اجداداو ر خاندان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ، قرۃ العین حیدر کی والدہ نذر سجاد حیدر رسالہ ’’تہذیب نسواں ‘‘ اور ’’پھول‘‘ وغیرہ میں مضامین لکھا کرتی تھیں-
قرۃ العین حیدر نے دہرہ دون میں کانونٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی ، پھر لکھنؤ کے کالج میں داخلہ لیا اور ۱۹۴۷ میں انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ، تقسیم ملک کے بعد وہ کچھ عرصہ پاکستان میں مقیم رہیں ، لیکن بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ہندوستان واپس آگئیں ، انھوں نے انگریزی صحافت میں کام کیا اور السٹرٹیڈویکلی کی مدیر معاون رہیں ،وہ شعبہء اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی ویزیٹنگ پروفیسر رہیں ، ان کے افسانوں کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں ’’ستاروں سے آگے‘‘ ’’شیشے کے گھر ‘‘’’پت جھڑ کی آواز‘‘ ’’روشنی کی رفتار‘‘ ’’جگنووں کی دنیا‘‘ ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں ۔ ناولوں میں ’’میرے بھی صنم خانے ‘‘ ’’سفینہء غم دل‘‘ ’’آگ کا دریا‘‘ ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ ’’دل ربا‘‘ ’’سیتا ہرن‘‘ ’’چائے کے باغ‘‘ مشہور ہیں،ان کے رپورتاژ میں’’ستمبر کا چاند‘‘ ’’کوہ ودمان‘‘’’گل گشت‘‘ اور ’’خضر سوچتا ہے‘‘ معروف ہیں ، تراجم میں ’’ہمیں چراغ ہمیں پروانے‘‘ ’’آدمی کا مقدر‘‘ ’’کلیسا میں قتل ‘‘ ’’تلاش‘‘ وغیرہ قابل قدر ادبی کاوشیں ہیں ، انھوں نے بچوں کے لئے بھی کتابیں تصنیف کیں ۔
’’میرے بھی صنم خانے ‘‘ سے لیکر ’’چاندنی بیگم‘‘ اور ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں وقت کی گریزاں نوعیت کا احساس ہوتا ہے ، موجودہ دور میں وقت کی لہروں اور انسانی حافظہ کی نقش گری کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے رجحان نے تقویت پائی ہے ، اردو فکشن میں اس کی سب سے اچھی مثال ’’آگ کا دریا‘‘ ہے جس میں شعور کی رو کی کارفرمائی سے ایک نئی ٹکنیک معرض وجود آئی ہے ، قرۃ العین حیدر نے وقت اور انسانی وجود کی اس میں شرکت زندگی کے انجام یعنی موت اور نسل انسانی کی مسلسل بقاء کو آگ کا دریا کا مرکز اور محور بنایا ہے ، قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں ندی نے وقت کے استعارہ کی حیثیت حاصل کرلی ہے ، وقت کا فلسفہ قرۃ العین حیدر کا مرغوب اور پسندیدہ موضوع ہے ۔
شعور کی رو نفسیات کی ایک اصطلاح ہے جسے ولیم جیمس نے وضع کیا تھا اور تراشا تھا ۔ آگ کا دریا میں کہانی کا آغاز ڈھائی ہزار سال قبل کی ہندوستانی تہذیب سے ہوتا ہے ، پھر اس کے بعد مسلمانوں کی آمد ہوتی ہے پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط ہوتا ہے ، پھر یورپ کی تہذیبی بالا دستی آتی ہے ، پھر ملک کی تقسیم کا زمانہ آتا ہے ، اس پورے تاریخی دور کی تہذیبی عکاسی اس ناول میں کی گئی ہے ، یہ تاریخ نہیں ہے لیکن تاریخ کے پس منظر میں کرداروں کو اجاگر کیا جاتا ہے ، قرۃ العین حیدر کا ایک سوانحی ناول بھی ہے جس کا نام ہے ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ اس میں کوئی منظم پلاٹ نہیں ہے ، تاریخی اور تہذیبی تناظر میں بلیغ انداز میں واقعات بیان کئے گئے ہیں ، کار جہاں دراز ہے نہ تو پورے طور پر سوانح ہے اور نہ پورے طور پر تاریخ کی کتاب ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان میں آنکھ مچولی ہے ، قرۃ العین حیدر کو ادب کی دین یہ ہے کہ ان کا اسلوب علامتی طرز بیان رکھتا ہے ، ان کے تخلیقات کے نام بھی علامتی ہیں ، ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ ’’سفینہء غم دل‘‘ ’’شیشے کے گھر ‘‘اور ’’پت جھڑکی آواز‘‘ ’’آگ کا دریا ‘‘ اور’’گردش رنگ چمن‘‘ علامتی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔
قرۃ العین حیدر کے اسلوب کا ایک وصف وہ منظر کشی بھی ہے جو واقعات و تجربات کے پس منظر کا کام دیتی ہے ، اور اس میں ایمائیت کا عنصر اپنی جھلک دکھا تا ہے ، ان کی تحریروں میں رمزیت ، ایمائیت او رعلامتی طرز خاص طور پر نمایاں ہے ، اور یہ ان کے اسلوب بیان کی خصوصیت ہے ۔
نسیم حجازی (۱۹۱۴۔۱۹۹۶ء)
نسیم حجازی جن کا اصل نام محمد شریف ہے۔ ۱۹/مئی ۱۹۱۴ء کو سوجان پور نزد دھاریوال، ضلع گورداس پورمشرقی پنجاب میں پیداہوئے۔ ان کے والد چودھری محمد ابراہیم محکمہ انہار میں ملازمت کرتے تھے۔ آبا و اجداد کی ذات آرائیں تھیں جس کی بابت تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ محمد بن قاسم فاتح سندھ کے ساتھ آنے والے افراد میں آرائیں بھی شامل تھے جن کا حسب و نسب شہید احد حضرت یسار الراعی اورحضرت اسلم اسودالراعی سے جاکر ملتاہے اور اسی مناسبت سے نسیم حجازی نے اپنے عربی کے استاد غلام مصطفی کے مشورے سے اپنا قلمی نام نسیم حجازی اختیا ر کیا اور بعد میں اسی نام سے ان کی شہرت ہوئی۔
نسیم حجازی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے کچھ فاصلے پر حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم مشن ہائی اسکول دھاریوال ضلع گورداس پور سے حاصل کی۔ میٹرک کاامتحان ۱۹۳۲ء میں پاس کیا۔ بعد ازاں ۱۹۳۸ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ اسی دوران لکھنے لکھانے کا شوق پیدا ہوچکاتھا۔ اپنا پہلا افسانہ ’’شودر‘‘ تحریر کیاجوماہنامہ ’’حکایت الاسلام‘‘ میں جنوری ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا۔ اگلے ماہ کے شمارے میں ان کا ایک اور افسانہ ’’جستجو‘‘ شائع ہوا۔ انھوں نے اپنے ان دونوں افسانوں میں ہندو معاشرے میں عدم مساوات کے قضیہ کو اجاگرکیا۔ جہاں ایک جیسا جسم رکھنے کے باوجود ذات پات کی بنیاد ، انسانوں کو اونچی نیچی ذا ت میں تقسیم کرتی ہے۔ ہندومعاشرے میں پائی جانے والی اس غیر خدائی تقسیم کا انھیں اتنا کرب تھاکہ انھوں نے اسی موضوع پراپنا ایک اور افسانہ ’’انسان اور دیوتا‘‘ کے نام سے سپرد قلم کیا۔ نسیم حجازی نے اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ تحریک پاکستان کی تائید میں انھوں نے کئی پرزور مقالات سپرد قلم کیے جس کی وجہ سے انھیں بہت سی مشکلات و مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑااوربہت سی تلخ حقیقتوں اور تجربات سے وہ گزرے جس کو انھوں نے اپنے دو ناولوں ’’پردیسی درخت‘‘ اور ’’گم شدہ قافلے‘‘ میں فن کی باریکی اور رنگینی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ادبا ان دونوں ناولوں کو ان کی زندگی کے ترجمان قرار دیتے ہیں۔ نسیم حجازی کی شہرت ایک تاریخی ناول نگارکی حیثیت سے مسلم ہے لیکن ان کی عملی زندگی کا آغاز بہ حیثیت صحافی ہوا۔ وہ ابتدا میں کراچی کے روز نامہ ’’حیات‘‘ سے منسلک ہوئے۔ اس کے بعد ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۸ء تک ہفت روزہ ’’تنظیم‘‘ جو کوئٹہ سے شائع ہوتاتھا اس سے منسلک رہے۔ اسی دوران راولپنڈی سے شائع ہونے والا روزنامہ’’ تعمیر‘‘ میں بھی ۱۹۴۰ء سے ۱۹۵۲ء تک ان کے قلم سے نکلی ہوئی تحریریں شامل اشاعت رہیں۔ صحافت کے میدان میں ان کا اصل کام اخبار روز نامہ’’کوہستان‘‘ کے حوالے سے یادرکھنے کے قابل ہے۔ انھوں نے کوہستان کے اڈیٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔ یہ اخبار بہ یک وقت راولپنڈی، لاہور اور ملتان سے شائع ہوتارہا۔ مگر یہاں بھی انھیں کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ وہ ۱۹۶۶ء میں مجبورا اس اخبار سے علاحدہ ہوگئے۔
———-
ختم شد