اخترالایمان کی نظم’’ ایک لڑکا ‘‘ کاجائزہ
زائرحسین ثالثی
جعفراآباد ۔ یو پی
اخترلایمان کی شہرۂ آفاق نظم’’ایک لڑکا‘‘ان کے اکثرناقدوں کے لئے توجہ کامرکزبنی رہی ہے۔شایداس لئے کہ اس معصوم لڑکے کی صورت میں،جواس نظم کامرکزی کردار ہے،انہوں نے خوداخترالایمان کی زندگی کے نشیب وفرازدیکھے ہیں۔یہ نظم اظہار ذات کابہترین نمونہ ہے،اس کاموضوع بیک وقت ماضی کی سادگی بھی ہے، عہد طفولیت کی بازیابی بھی ہے اورحال کی ریاکاری بھی۔
نظم کی ابتدا یادوں کی صدائے بازگشت سے ہوتی ہے۔تلخ حقالق اورواقعات سے متصادم ہوکرشاعرنے اپنے شخصی لاشعورکی آسودگی کے لئے عہدطفولیت کی بازیابی کی ہے۔وہ بچپن کے اس دورکی یادوں کوتازہ کرتاہے جب وہ آزاد،محفوظ اورفطرت کی آگوش میں بہت زیادہ مطمئن تھا۔اس نظم کے محرکات اورپس منظرکوسمجھنے کے لئے خوداخترالایمان کی رائے کونقل کرنابہترہوگا۔وہ نظم ’’ایک لڑکا‘‘کے متعلق یادیں کے دیباچے میں لکھتے ہیں؟
’’نظم ایک لڑکا،پہلی بارمیں نے ایک موضوع کے طورپرمحسوس نہیں کی تھی، تصویرکی شکل میں دیکھی تھی۔مجھے اپنے بچپن کاایک واقعہ ہمیشہ یادرہاہے اوریہ واقعہ ہی اس نظم کامحرک ہے۔ہم ایک گاؤں سے منتقل ہوکردوسرے گاؤں جارہے تھے۔اس وقت میری عمرتین چارسال کی ہوگی۔ہماراسامان ایک بیل گاڑی میں لادا جارہا تھا اور میں گاڑی کے پاس کھڑااس منظرکودیکھ رہاتھا۔میرے چہرے پرکرب اوربے بسی تھی ۔اس لئے کہ میں اس گاؤں کوچھوڑنانہیں چاہتاتھا۔کیوں؟یہ بات میں اس وقت نہیں سمجھتاتھا۔اب سمجھتاہوں۔وہاں بڑے بڑے باغ تھے ،باغوں میں کھلیان پڑتے تھے، کوئلیں کوکتی تھیں،پپیہے بولتے تھے۔وہاں جوہڑ تھے، جوہڑ میں نیلوفر کے پھول کھلتے تھے۔وہاں کھیتوں میں ہرنوں کی ڈاریں کلیلیں کرتی نظرآتی تھیں۔وہاں سب تھا،جوذہنی طورپرمجھے پسندہے۔مگروہ معصوم لڑکااس گاڑی کوروک نہیں سکا۔میں اس گاڑی میں بیٹھ کرآگے چلاگیا،مگروہ لڑکاوہیں کھڑارہ گیا‘‘۔
اخترالایمان کے بچپن کا ایک بڑاحصہ مشرقی یوپی کے دیہاتوں میں گزراتھا جہاں چاروں طرف لہلہاتے کھیت ،گھنے جنگل،پرندے تالاب اورجھیلیں تھیں۔یہ فطری ماحول ان کونہایت پسندتھا جہاں بے چین روح کوسکون اوراطمینان حاصل ہوتاتھااورجہاں فطرت ایک شفیق ماں کی طرح چارہ سازتھی۔لیکن عملی زندگی میں ہجرت کاپڑاؤشاعرکواس پرسکون آبائی وطن سے دورلے جاتاہے اوروہ معصوم لڑکاجسمانی سطح پرنقل مکانی کے باوجودذہنی نظم پر اپنے آپ کواس کواس گاؤں سے الگ نہ کرسکا۔نظم میں اخترالایمان نے نئے اوراجنبی ماحول میں عام شمولیت کے سبب سابقہ زندگی سے جڑی خوش گواریادوں کی تخلیقی سطح پرباریافت کی ہے اوراپنے آبائی وطن سے شدیدجذباتی اوروابستگی مظاہرہ کرکے یوں ناسٹلجیا کاظہار کیاہے:
دیار شرق کی آباد یوں کے اونچے ٹیلوں پر
کبھی آموں کے باغوں میں،کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر
کبھی جھیلوں کے پانی میں ، کبھی بستی کی گلیوں میں
کبھی کچھ نیم عریاں کم سنوں کی رنگ رلیوں میں
سحر دم ، جھٹپٹے کے وقت ، راتوں کے اندھیرے میں
کبھی میلوں میں ، ناٹک ٹولیوں میں ، ان کے ڈیرے میں
تعاقب میں کبھی گم تتلیوں کے ، سوٗنی راہوں میں
کبھی ننھے پرندوں کی نہفتہ خواب گاہوں میں
بچپن میں اخترالایمان کوجس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا اور اپنی پسندیدہ فضااوراشیاء کو ترک کرناپڑا،اس سے لاشعوری طورپروہ بے حد متاثر ہوئے اورعمربھروہ واقعات انھیں یادآتے رہے۔
شاعر نے یہاں ایک لڑکے کے مظہرودوربینی سے اپنے ہی تشخیص کوبیان کیاہے۔اس نے آگے چل کریہ بھی قبول کیاہے کہ
’’میں نے اس لڑکے کی شخصیت کوروشن کرناچاہااورایک لڑکا،ضمیرانسانیت کاعلامیہ بن گیا۔۔۔۔۔۔۔ایک سال گزرگیا،دوسال،تین سال، چارسال ۔۔۔ پھرایک دن رات کے ایک بجے کے قریب میری آنکھ کھل گئی۔ذہن میں ایک مصرع گونج رہاتھا۔یہ لڑکاپوچھتاہے،’’اخترالایمان تم ہی ہو؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔’’اخترالایمان کی شخصیت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ایک یہ لڑکا،جومعصوم تھا،دوسراوہ،جس نے دنیاکے ساتھ سمجھوتہ کرلیاتھا۔میں نے نظم کاپہلابندلکھا اورسوگیا۔
شاعر کی ادب شناس شریک حیات سلطانہ ایمان نے ’کلیات اخترالایمان‘کے ’پیش لفظ‘میں لکھاہے کہ ’’مشہورزمانہ مصورجناب مقبول فداحسین نے ازراہ کرم اپنے ہم عصراخترالایمان کے آخری مجموعے’زمستاں سردمہری کا‘کے گردپوش (سرورق، title)کے لئے ایک نہایت خوبصورت تصویر بنائی تھی۔اس تصویر کو ہم نے ’کلیات‘ کے گردپوش کے لئے بھی چناہے۔غورسے دیکھنے پرایسا لگتاہے کہ یہ تصویرنہ صرف اختر الایمان کی نظم’’ایک لڑکا‘‘کی عکاسی کرتی ہے،بلکہ ان کی نظموں کی طرح علامتی بھی ہے۔مثلاًتصویر میں سرخ رنگ خوٗن کے رنگ کی مناسبت سے ہمیں زندگی کی علامت دکھائی دیتاہے اورسیاہ ٹکڑاہمارے قلب کی سیاہی کی عکاسی کرتانظرآناہے،جس کی نفی ہماراضمیرکرتارہتاہے‘‘۔
——–
ZayerHusainSalsi
s/o AlhajMohammadJafar Sahab
Jafrabad (Badi Masjid) Post:- Jalalpur
District:-AmbedkarNagar,PinCode:-224149,State:-U.P.(INDIA)
MobileNumbr:-9795135631,8127767258