نئی غزل کا منظر نامہ : – ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ

Share


نئی غزل کا منظر نامہ

ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ
داونگرے۔577001(کرناٹک)
فون:0944920221

اردو کی ادبی برادری عقل و دانش سے کم دل اور جذبات سے زیادہ کام لینے کی عادی ہے۔ اسی لیے بیسویں صدی کے اواخر میں قیاس آرائیاں کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایاگیا کہ آنے والا عہد شاعری کا نہیں بلکہ فکشن یا افسانوی فن کا ہوگا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی باتیں سوائے اردو والوں کے کسی اور زبان والوں نے نہیں کیں۔ان کا خیال تھا کہ جدیدیت اور ابہام سے الگ شاعری نہیں کی جا سکتی۔اس بیان کا اثر تھا یا ذاتی دلچسپی،بہت سے فنکار ناول نگاری سے دلچسپی لینے لگے اورانگلی کٹا کر شہیدوں میں شمار ہونے کی خاطراس میدان میں کود پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ناولوں کے انبار لگا دئیے۔ مگرشعراء غزل کے گیسو سنوارنے میں کسی بھی معاملے میں پیچھے نہیں رہے ۔حالانکہ غزل کا کینواس ناول یا فکشن کی طرح وسیع نہیں ہوتا بلکہ تنگ اور محدود ہوتا ہے یہاں صرف دو مصرعوں میں خیال یا جذبہ کومکمل کرناپڑتا ہے۔

غالبؔ نے غزل کی تنگ دامنی کی شکایت کی تھی لیکن انہوں نے اس صنف پر کوئی حملہ نہیں کیا مگر ان کے شاگرد رشید مولانا حالیؔ اس کے پیچھے پڑکر ’’ محترم‘‘ بن گئے۔ آگے چل کر عظمت اللہ خاں ، نظم طبا طبائی ، کلیم الدین احمد ، عندلیب شادانی وغیرہ نے اعتراضات کرتے ہوئے اس صنف کے ساتھ برا سلوک کیا۔ بیسویں صدی کے آخر میں غزل کی دنیا میں ایک تجربہ ظفر اقبال نے بھی کیا۔انہوں نے اپنے شعری مجموعہ ’’ آبِ رواں ‘‘ میں غزل کے رنگ کو بدل کر پیش کیا ۔ یہ تجربہ غزل کو ڈی کنسٹرکشن کرنے والا تھاجو’’ اینٹی غزل‘‘ کے روپ میں ہوا۔اس کے علاوہ مظہر امام ، مناظر عاشق ہرگانوی وغیرہ نے ہیئت کے تجربے بھی کیے گئے اور مصرعوں کو توڑ مروڑ کر’’ آزاد غزل‘‘ کا نام دیا مگروہ تجربے کامیاب نہ ہو سکے۔ ان حملوں اور تجربوں کے باوجوداس صنف کی شعری صورت اور ہیئت میں کوئی تبدیلی رونما ہو ئی ، نہ اس کی مقبولیت میں کمی آئی اورنہ ایک مقام پر رک سکی بلکہ اپنے سالم روپ میں برقرار رہی ،موضوعاتی اعتبار سے اپنے عہد کی ترجمانی میں خلوص اور دیانتداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ممتاز، منفرد راور ہر دلعزیز رہی اور اردو شاعری کی آبرو بن کر رہی۔
ہم نئی صدی میں غزل جیسی نازک صنف کی بات کرتے ہیں تو موجودہ صورت حال کو بھی پیش نظر رکھنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ موجودہ صدی کے آغاز ہی سے سائنس اور ٹکنالوجی کی روز افزوں ترقی نے پورے عالمی معاشرے کو ایک تیز رفتا ر تغیر سے دو چار کر دیا ہے۔نئی صدی کا سورج طلوع توہوامگرسیاسی ، سماجی، مذہبی ، تہذیبی ، اقتصادی اور معاشی اتھل پتھل شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے قدروں کے پیمانے اورمسائل زندگانی کیفیتیں اورصورتیں بدل گئیں۔ زندگی کا سیل رواں آئندہ کس رنگ روپ میں ڈھلے گا؟ کیا اسے ایک صورت ملے گی اوراسے کبھی قرار بھی نصیب ہوگا؟ کہنا مشکل ہے ۔
1990 ء کے بعد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہندوستانی معیشت کے دروازے کھول دئیے جانے کے بعد سے ملک پر نئے نظامِ زر کا شکنجہ کسا جا چکا ہے۔فرد اور جماعت کی ہر ایک قدر سرمایہ اور صارفیت کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔اس صورت حال میں زندگی مادّی ، روحانی اور عمرانی نقطۂ نظر سے ایک عجیب و غریب اضطراب و انتشار کا شکار ہے۔ہر طرف ایک عام ناآسودگی ، نارسائی ، رشتوں کی شکست و ریخت اور محرومی کا احساس طاری ہے اورہر جگہ ایک بے یقینی ، بے چینی، بے چہرگی اوربے اطمینانی کی کیفیت ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کی قیادت میں ہر اعتبار سے مغرب کی یلغار ایسی منظم ، غیر محسوس اور گہری رہی ہے کہ مشرق کی تمام تر تمدنی قدریں اس کے زیر اثر تلملا کر رہ گئی ہیں۔ہر طرف اپنی بے بسی اور لاچاری کا رونا ہے۔
دور حاضرکے شاعر کی بات کریں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ آج کا شاعر اپنے عہد اور عہد کے مسائل سے واقف ہے ۔وہ سائنس ، ٹکنالوجی ، گلوبلیزیشن ،صارفیت ، سرمایہ داری ، سیاست ، تشدد ،تعصب ،بھرشٹا چار، نیا عریاں کلچر ، فرقہ وارانہ فسادات ، عوام میں بڑھتا ہوا فرسٹریشن ، اقدار کی پامالی ، ہماری گمشدہ تہذیب، میڈیا کی کارستانیاں ، ملک کی مخصوص سیاست ،ہوس کی اجارہ داری ،انسان کی نفسیاتی کمزوریاں، زندگی کی الجھنیں ، دہشت گردی ، انٹرنیٹ ، سائبر اسپیس ، کلوننگ ، سروگیسی ، روبوٹ ، ایٹمی اور نیوکلیائی تجربات اس پر مستزاد ، عالمی سماج پر ایک نئے عالمی نظام کی مضبوط گرفت ،عدم تحفظ اور عالمی نظام کے درہم برہم وغیرہ کا علم رکھتا ہے۔آج کے شاعر کو مسائل کا حقیقی عرفان و ادراک ہے ۔ اسے تبدیل شدہ افکار و اقدار کا حقیقت پسندانہ و فنکارانہ اظہار و ابلاغ کا ہنر آتا ہے ۔اس کے لیے حسّی اور جذباتی نشیب و فرازقصّۂ پارینہ ہیں اس کی شاعری اپنے حسّی تجربات کی زائیدہ ہے۔ وہ اپنے پیش روؤں کی اندھی تقلید کرنا بھی نہیں چاہتا ۔اسے اس بات کا احساس بھی نہیں ہے کہ ناقدین ادب اس کی شاعری کو شاعری قرا ر دیں گے یا نہیں۔وہ کسی کے بندھے ٹکے اصولوں کے تحت شعر کہنا پسند نہیں کرتا وہ آزاد ہے اور آزادی چاہتا ہے۔وہ ترقی پسندی ، جدیدیت ، مابعد جدیدیت ، تشکیلیات ، ساختیات و پس ساختیات جیسی اصطلاحات سے الجھنے کے بجائے خود کو الگ اور تنہا محسوس کرتا ہے اور کسی ایک مخصوص نظریے ، فکر ، رجحان یا تحریک سے وابستہ رہ کر خود کو مقید نہیں کرنا چاہتا اور کسی ایک ’’ازم ‘‘سے وابستہ نہیں ہوتا۔ہم اس آزادانہ رہ روی کو راہ فرارنہیں قرار دے سکتے ۔بقول عبدالاحد ساز
’’ میں شاعری کو بہت زیادہ اصطلاحی پا بندیوں میں تقسیم کرنے کا حامی نہیں ہوں ، وہ تمام شعری شہ پارے جو خواہ رویاتی ، کلاسیکی شاعری کی عطاہوں یا ترقی پسند یا جدید شاعری کی دین ہوں اگر مجموعی طور پر ہماری احساس و آگہی فنی معروضات اور اسالیب و پیرایہ اظہار کے سرمائے میں اضافے کا حکم رکھتے ہیں تو بسر و چشم لائقِ احترام ہیں ، انہیں کسی ایک نظریے یا کسی دوسرے رجحان کی بنیاد پر رد کردینا دیانتداری نہیں ہے۔ البتہ اسے ایک سنگ میل گردانتے ہوئے بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں۔ کی شرط بھی مقدم ہے…..میں شاعری میں کسی ازم کے پرچار کا بھی قائل نہیں ہوں۔‘‘
آج کے دورکے ایک اور شاعر عالم خورشیدکا اپنا نظریہ ملاحظہ فرمائیں۔
’’ مختلف حالات اور واقعات نے میرے ذہن و دل پر جو اثرات مرتب کیے اس کا فطری اظہار میری شاعری ہے، میں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ میں اپنے احساسات کے اظہار میں کسی نظریے کو رکاوٹ نہ بننے دوں ، بلکہ صرف حقائق اور سچائی کا دامن تھام کر آزادانہ طور پر جو محسوس کروں وہی لکھوں۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی فکر اور اس کے اظہار پر کوئی قد غن نہیں لگائی ہے۔میرے لیے کبھی یہ مسئلہ نہیں رہا کہ کس موضوع پر لکھنا چاہیے اور کس موضوع پر نہیں لکھنا چاہیے ، یا کس طرح لکھنا چاہیے اور کس طرح نہیں لکھنا چاہیے۔‘‘
ان اقتباسات کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نئی نسل اپنا سفر خود طے کر رہی ہے اور اپنا وجود خود منوانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔وہ زندگی سے اپنا رشتہ قائم کرنے میں جٹی ہوئی ہے۔وہ اپنی ذات کی گمشدگی اور خود کلامی سے زیادہ زندگی کے اثبات اور اس سے مکالمہ کا رویہ پیدا کرنے کی کوشش میں ہے۔اسے زندگی کا درک اورشدید احساس ہے زندگی کا یہ ادراک و احساس اس کی ذات کے حوالے سے شاعری کا جزو بن گیااور زندگی سے متعلق جو رویہ اختیار کیا گیاہے وہ ترقی پسند ی اور جدیدیت سے یکسر مختلف منفرد اور جدا گانہ ہے۔
اس پس منظر میں اکیسویں صدی کے جو نقوش یا آثار و قرائن ابھرے ہیں اس کا احساس و ادراک ، اردو کے چند شاعروں کی غزلوں میں ملتا ہے۔فکر و فن کے اعتبار سے یہ تصویرحالانکہ ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے کہ ہم اسے پورے ایک عہد کی آئینہ دار کہہ سکیں ۔کیونکہ ابھی موجودہ صدی کا 3/4 سے زیادہ زمانہ گزرنا باقی ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ اسی طرح ایک سو سال پہلے (1920 ء کے آس پاس) اگر’’ بیسویں صدی میں غزل‘‘ کے موضوع پر لکھا جاتا تو ممکن ہے کہ اس وقت آزاد غزل ، اینٹی غزل ،ترقی پسند غزل ، جدید غزل ، جدید تر غزل یا پھروجودیت ، جدیدیت ،مابعد جدیدیت، تشکیل ، رد تشکیل ، ساخیتات ، پس ساختیات اور دیگر رجحانات و تحریکات کا تصور بھی محال تھا ۔زمانہ ایک حال میں نہیں رہتا ۔وقت کے ساتھ زندگی کے تقاضات بدلتے ہیں ، ضرورتیں بھی بدلتی ہیں اورنئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔اس لیے غزل کیا رنگ و روپ دکھائے گی دیکھنا باقی ہے۔
غزل چونکہ اپنی ریزہ خیالی کے باوجود ایک مکمل صنف سخن ہے۔فنّی لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اپنے نقطۂ عروج Saturated Point کو پہنچ چکی ہے۔لہذا اس میں ہمیں فکر و احساس کے رنگ روپ دیکھنے کو ملیں گے،اس میں شاعر کے انفرادی میلانِ طبع اور اسلوبِ بیان کا لحاظ رکھنا ناگزیر ہوگا۔عمومی موضوعات سے قطأ نظر اس کی اجتماعی وابستگی ، نظریۂ حیات بھی اہم رول ادا کریں گے۔
زبان وادب میں نظریات و رجحانات پیدا ہوتے رہتے ہیں اوریہ وقت ، حالات ، زندگی اور زندگی کے زائیدہ مسائل کو سمجھنے اور خود اظہاریت کی نئی سبیل دریافت کرنے کے لیے ضروری بھی ہیں ۔ اس میں اس وقت بگاڑ پیدا ہوتاہے جب ادب کسی خاص نظریہ یا رجحان کے تحت تخلیق پانے لگتا ہے۔گوپی چند نارنگ ایک زمانے تک کسی مخصوص نظریہ یا رجحان کے قائل نہیں رہے تاہم جب مابعد جدیدیت کا نعرہ بلند کرنے لگے تو وہ بھی عیوب کا شکار ہو گئے ۔فاروقی صاحب نے بڑے خوبصورت انداز میں نئی نسل کو رد کردیااور کہا کہ نئی نسل نقاد سے محروم ہے اور اسے اپنا نقاد خود تلاش کر لینا چاہیے ۔حالانکہ اس رد اور مخالف بیان میں بعض کو محبت کا پہلو دکھائی دیا تو بعض نے اسے چیلینج کے طور پر قبول کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اکیسویں صدی کا فنکار ہر قسم کی تھیوری سے آزاد ہوگیا۔تاہم آج بھی چند فنکار مخصوص نظریات و رجحانات اور تھیوری کے پرستار ہیں اور انہیں اس بات کی شکایت ہے کہ نئی نسل سنجیدہ نہیں ہے اور وہ سرقہ کی قائل ہے مگر نئی نسل اس کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام سے مطلب رکھ کر آگے بڑھنے کی عادی بن چکی ہے۔یہ نسل گلے شکوے کرنے یا ہنگامہ برپا کرتے ہوئے اپنا وقت برباد کرنے کے بجائے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہے اورمحبوب صنف غزل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہے ۔
ایک اچھے فنکار کو یہ معلوم ہے کہ شاعری نہ تو ترقی پسندی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور نہ ہی جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی محتاج ہے۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کسی ایک مخصوص نظریے کی تبلیغ سے ادب وقت سے پہلے مرجاتا ہے۔اس لیے آج کے شاعرنہ صرف کسانوں اور مزدورں کی مجبوری و بے بسی کے گیت گانے پر اکتفا کرتے ہیں، نہ انقلاب کے ڈھنڈورچی بن کر نعرہ بازی پر اترتے ہیں ، نہ رومانیت کے شیدائی ہیں، نہ وصل ، ہجر اور انتظا ر کا مثلث بناتے ہیں نہ عاشق ، معشوق اور رقیب کا تکون ، نہ معشوق کے گھر کا طواف کرنے کے عادی ہیں ، نہ کسی کے قصیدے گانے میں جٹے ہوئے ہیں، نہ فرسودہ جمالیاتی اور فکری امتزاجی کیفیت اور اس سے رونما ہونے والے حالات کے قصے بیان کرنے میں اپنا وقت گزارتے ہیں، نہ حالات کا رونا روتے ہیں اور نہ ہی کسی طرح کی گھٹن محسوس کرتے رہے ۔وہ فرد کی تنہائی کی بات نہیں کرتے اور وہ فلسفۂ وجودیت کے پیچھے پڑ کر اپنا سر نہیں کھپاتے۔وہ مذہب سے کھلواڑ نہیں کرتے ،انہیں معلوم ہے کہ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج میں بدل چکی ہے۔اس لیے وہ جو زندگی دیکھ رہے ہیں اور جھیل رہے ہیں اسے اپنی غزلوں میں پیش کر رہے ہیں۔

وہ چاٹ لیتا ہے دیمک کی طرح مستقبل
تمہیں پتہ نہیں ماضی جو حال کرتا ہے

بڑے قریب سے ہو کر گزر گئی دنیا
ملا نہ اس سے مرا دل کمال کرتا ہے
حامداقبال صدیقی

نفس کی آگ میں بھونی ہوئی مچھلی دنیا
جس کو کھانا بھی ہے کانٹا بھی نگل جانا ہے
خورشید اکبر

کمایا جیسے اسی شان سے اڑایا بھی
کبھی بھی نوٹ پہ ہم نے ربر نہیں باندھا
شکیل اعظمی

نظر کو تیر کر کے روشنی کو دیکھنے کا
سلیقہ ہے ہمیں بھی زندگی کو دیکھنے کا
ساجدؔ حمید

یہ کس تضاد پہ رکھا ہوا ہے خیمۂ جاں
بدن شریک نہیں روح کی تکانوں سے
شکیل جمالی

اور تھورا سا بکھر جاؤں یہی ٹھانی ہے
زندگی ، میں نے ابھی ہار کہاں مانی ہے
خان حسنین عاقب

اس کو چوراہے پہ نیلام کیا اپنوں نے
جان دی جس نے بہر حال رواداری پر
یس یم عقیل

زندگی مل کبھی تو فرصت سے
بات ابھی تجھ سے سرسری ہوئی ہے
نصرت مہدی

نہ ایک پل ہے میرا اور نہ ایک پل تیرا
مشینی زیست ہے ہر پل عذاب کی صورت
مہ جبین غزال

زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی میں نے
اپنے ہونے کی خبر سب سے چھپا لی میں نے
علینا عطرت
مذکورہ اشعار کے تناظر میں عصری حسیت کے ساتھ ساتھ تخلیقی وفور و شعور اور موضوعات کا تنوع ہم دیکھ سکتے ہیں، ،جذبہ و خیال میں شدت محسوس کر سکتے ہیں اور انفرادی شناخت بھی پا سکتے ہیں ۔فن کار کو بھی اس کی علمیت اور تخلیقیت پر پورا اعتماد ہے مگر اسے اس بات کا شدید احساس ہے کہ اس کا کوئی قاری ہے اور نہ ہی اس پر گفتگو کرنے والا۔اس لیے کہ ہمارے بڑے اور نامور تنقید نگاروں کی نظریں جب بھی اٹھتی ہیں تو صرف اپنے ماضی کے اساتذۂ سخن یا اپنے ہی گروہ کے معاصر فنکاروں پر۔یہ بات صد فی صد درست ہے کہ ہم اسلاف اور ان کی غزلیہ شاعری کو ہی آئیڈیل مانتے ہیں اور ماننا بھی چاہیے ۔لیکن ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ماضی کے جتنے بھی شعراء تھے سب کے سب ہمہ وقتی Full time شاعر تھے اور وہ پیشہ ورProfessional شاعر تھے مگر آج کی نسل کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں کوئی فل ٹائم شاعر نہیں ہے اور نہ ہی شاعری ان کاپروفیشن ہے۔اکثر شعراء جز وقتی(Part time) شاعری کرتے ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ چند کمرشیل شعراء نے شاعری کو اپنا پروفیشن بنالیا ہے مگر ان کی شاعری کو مشاعروں کی شاعری یا ہنگامی شاعری قرار دیا جا سکتا ہے۔
دور حاضر کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ زندگی تناؤ کا شکار ہو چکی ہے۔مقامی سطح لے لے کر عالمی سطح پر امن و سکوں اورزندگی کی بقا و بحالی کے لیے کئی جتن کیے جا رہے ہیں ۔اسی لیے آج دنیا بھر میں کبھی یومِ مادر ، یومِ پدر ، یومِ اطفال ، یومِ خواتین، یومِ اساتذہ ، یومِ امن ،یوم ماحولیات وغیرہ وغیرہ مناکرسب کی توجہ مرکوز کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس طرح سال کے 365 دن میں سے اکثرایام کسی نہ کسی خصوصی دن سے منسوب ہوگئے ہیں۔اس کے باوجود روزانہ نت نئے مسائل اور تنازعات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔امن پسند لوگ اپنے اپنے طور پر حل کر نے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔لیکن ترقی یافتہ ملکوں کی خود غرضی اور طمع اتنی بڑھ گئی ہے کہ انہیں انسانیت کی تکالیف کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔صنعت و حرفت کی اندھا دھند ترقی اورمذہبی منافرت سے پیدا ہونے والے مسائل دنیا کو تباہی و بربادی کی طرف تیزی سے دھکیل رہے ہیں۔
ان حالات میں گھرا ہوا ایک شاعر اپنی محبوبہ سے مجھے سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ…. یاپھر….اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا،سے آگے کچھ کہتا ہوا نظر آئے تو تعجب نہیں کرنا چاہیے۔کیونکہ آج کا دور اورآج کی زندگی اس سے بھی زیادہ سنگین ہو چکی ہے اور ایک کرب کا شکار ہوچکی ہے۔

گرتی ہوئی دیوار کو سب دیکھ رہے تھے
اس شہر میں کچھ اور تماشا بھی نہیں تھا
ظہر امام

میں اپنے گھر میں اکیلا کمانے والا ہوں
مجھے تو سانس بھی آہستگی سے لینا ہے
شکیل جمالی

حادثے شہر میں ہر روز ہوا کرتے ہیں
گھر سے نکلو تو بہت سوچ کر نکلو

یہ دعا کر کے نکلتا ہوں میں اپنے گھر سے
میرے اللہ مرے گھر کی حفاظت کرنا
مشتاق دربھنگوی

لکیر کھینچ کے بیٹھی ہے تشنگی میری
بس ایک ضد ہے کہ دریا یہیں پہ آئے گا
عالم خورشید

خیال ہوں کہ یقیں ہوں کوئی گماں ہوں میں
بدن میں اپنے نہیں ہوں تو پھر کہاں ہوں میں
ردا فاطمہ

لوگوں سے بے پناہ تعلق تو ہے مگر
میرے سوا کوئی مجھے پہچانتا نہیں
سلطان اختر

منہ میں تھا رام رام ، بغل میں چھری عزیزؔ
یہ رام کے نہیں ، یہ تو راون کے لوگ تھے
عزیز ؔ بلگامی

وقت ہاتھوں سے ریت کی مانند
لمحہ لمحہ پھسلتا رہا
قسیم اختر
مذکورہ اشعار آج کی غزل کے حقیقی لہجے اور فکری اساس کا پتہ دیتے ہیں۔ آج کے شاعر کی فکر زمانے کی بدلتی ہوئی صورت حال سے دوچار ہے۔اپنے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کووہ محسوس کرتا ہے اوراس احساس و جذبہ کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالتا ہے اسی لیے غزل عصری حالات کی آئینہ بن گئی ہے۔
غزل میں تغزل کی کیفیت کو نمایا ں کرنے میں اس کی رمز نگاری کا بڑا دخل ہے جس میں شاعر اپنے تخیلات و تاثرات کو کرشماتی طور پر اشاروں میں اظہار کر دیتا ہے۔اسی طرح غزل کی ایک بڑی خصوصیت اس کی داخلیت ہے ۔داخلیت سے مراد شاعر کا اپنے وارداتِ قلبی کا مؤ ثر اظہار کرنا ہے۔جس میں شاعر رمز و ایمائیت کے پردے میں کسی تجربے کی ترسیل کر دیتا ہے اور استعاراتی نظام کے پیرائے میں اپنے مافی الضمیر کو بیان کر دیتا ہے۔لہجے کی اہمیت ہر زمانے میں رہی ہے اور یہ ایک امتیازی خصوصیت ہے جس کا تعلق شاعر اور سامع کے براہِ راست رابطے سے ہے۔لہجے کے ذریعے نازک سے نازک اور سخت و کرخت باتیں بھی آسانی سے شعر میں سموئی جا سکتی ہیں۔آج کی غزلوں میں طنزکا پہلو بھی کارفرماہے ۔نئے نئے ردیف و قوافی کے ذریعے اظہار کے نئے پہلو تلاش کرکے کسی اور ردیف کے تمام ممکنہ معنی اور تلازمات کو دریافت کرتے ہوئے اپنی قوت اظہار کو آزمانے اور اسے مہمیز کرنے کی کوشش آج کے شاعر کرتے ہیں ۔جدید شعرا ء نے اپنے تمام تر نئے پن کے باوجود اساتذہ کی روایت سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کیا۔حالانکہ اس میں جذبہ کی وہ شدت جو ہماری غزلیہ شاعری کی پہچان ہے وہ نہ بھی ہو مگر ان کے یہاں وارداتِ قلبی کا اظہارپایا جاتا ہے۔

یاد آؤں تو بس اتنی سی عنایت کرنا
اپنے بدلے ہوئے لہجے کی وضاحت کرنا

تم تو چاہت کا سمندر ہوا کرتے تھے
کس سے سیکھا ہے محبت میں ملاوٹ کرنا
اویس سنبھلی

بوڑھے برگد کے جھکے شانے بتاتے ہیں مجھے
اس نے ڈھویا ہے کہانی کو روایات سمیت
شمامہ افق

میں نے ہاتھوں سے بجھائی ہے دہکتی ہوئی آگ
اپنے بچّے کے کھلونے کو بچانے کے لیے
شکیل جمالی

محبر میں کبھی ایسی بھی ہو جاتی ہے نادانی
کہ جس کو بے وفا سمجھا وہی کچھ دل کے کام آیا
منصور خوشتر

کم نہیں اس زمیں پہ پیاسے کھیت
سب کو کب مانسون ملتا ہے
رخشاں ہاشمی
دور حاضر کی غزل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ آج غزل میں مشکل اور دقیق فارسی و عربی آمیز الفاظ وتراکیب کی جگہ روز مرہ کی زبان نے لے لی ہے جس میں نئے الفاظ اور عام اشیاء سے نجی استعاروں اور علامتوں کو تراشنے کا رواج عام ہو چکاہے۔مقامی اور علاقائی زبانوں، عوامی ادب کی روایتوں اور مذہبی و تہذیبی قدروں کے اثر سے نئے الفاظ ، محاورے ، کہاوتیں اور اظہا ر کے پیرایے اپنا رہی ہے ۔حالانکہ اب دہلی اور لکھنوء دبستان نہیں رہے جہاں پر غزل کی زبان کو صاف کیا جائے ۔ اس کے باوجود غزل اپنی زبان میں بگاڑ پیدا نہیں کر سکی ہے ۔ خوابوں کا ٹوٹنا ، گھر سے بے گھر ہونا ، پُر ہجوم شہروں کا اجاڑ پن ، ہر طرف امڈتی ہوئی بھیڑ میں انسان کی اجنبیت اور تنہائی اور اسی طرح کی کیفیات کا اظہار ہونے لگا ہے اس طرح آج کی زبان زندگی کی سچائیوں سے عبارت ہے۔

آئینہ خانے کا احوال نہ پوچھو ہم سے
اتنے بڑے جہاں میں اپنی بساط کیا
شائستہ یوسف

پرندے ہو گئے ناراض مجھ سے
کہا جب میں بھی اڑنا چاہتا ہوں
سہیل اختر

میرے وطن سے بچھڑنے کی ہے یہی روداد
میں اپنی شاخ سے ٹوٹا تو پھر ہرا نہ رہا
سہیل اختر

اب موسموں نے چھین لی وہ رونقِ چمن
زخموں کی تتلیوں کو اڑاتے رہے سدا
داؤد محسن

طلب دراز تھی دامن بہت ہی چھوٹا تھا
خدا کے سامنے ہم آسماں پسار آئے
خورشید اکبر

کم ظرف چلی آتی ہے آوازیں لگاتی
سو بار میرے در سے بھگائی ہوئی دنیا
عالم خورشید

تم نے رسماً مجھے سلام کیا
لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے
افتخار راغب

اس کو نہ جانے کیوں کوئی خوش فہمی ہو گئی
اچھا سلوک کرتی ہوں میں سبھی کے ساتھ
مہ جبین غزال

وہ دور ہو تو لگے اس سے کوئی رشتہ ہے
قریب آئے تو میں اس کا کچھ لگوں بھی نہیں
شکیل اعظمی

سفر میں ایک ہجوم تھا مگر یہ راز اب کھلا
کہ کوئی بھی یہاں کسی کے ساتھ چل نہیں رہا
نصرت مہدی
اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج کی غزل نے پرانی دیو مالا تہذیب ، رسمِ عاشقی کی داستان، گل و بلبل کی حکایات ، ساغر وجام اورمئے کدہ کی روایات کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور دورِ حاضر کے تہذیبی اور سماجی تجربہ کو بنیاد بنا کر اپنے منفرد شعری اظہار کو دریافت کرنے کی کوشش میں ہے ۔اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ نئے طرزِ احساس کے پس منظر میں غزل کی روایتی پرچھائیاں بھی نظر آتی ہیں، کلاسیکی منظر بھی دیکھے جا سکتے ہیں ، غزل کا جغرافیہ بھی نظر آتا ہے، غزل کی جمالیات کا عکس بھی جھلکتا ہے اور غزل کی مخصوص تہذیبی و روایتی شناخت اور شائستگی بھی اپنے آثار کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی ہے۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اکسیویں صدی میں غزل کو نئے تجربات کے جھٹکے لگ سکیں گے جیسا کہ 1970 ء سے پہلے اور اس کے بعد ہوا تھا۔اس کا پتہ آنے والے وقت میں ہی چلے گا۔حاصل یہ کہ ادب کی صورت گری میں جہاں انسانی احساس و ادراک اور ذہن و فکر کام کرتے ہیں وہاں وقت اور حالات کا بھی ایک کردار ہوتا ہے۔ان دونوں کی کشا کش کا تجزیہ فوری اور ہنگامی طور پر نہیں کیا جا سکتا۔لیکن ایک قابلِ لحاظ فاصلہ طے ہو جانے کے بعد جو نقوشِ قدم ابھرتے ہیں انہیں دیکھ کر کچھ نتائج بر آمد کیے جا سکتے ہیں اوراندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھ کر کتنا اور کیسا ادب تخلیق ہوا؟ یا حالات کا رخ موڑنے میں ادب نے کیا کردار ادا کیا؟……تاریخ کے اہم موڑوں پر ایک ایک دود و شاعر و ادیب کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں،باقی سب ان کے پیروکار معلوم ہوتے ہیںیا پھر وقت کے ریلے میں بہہ جانے والا ایک انبوہ ہوتا ہے۔
———
ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ
یم۔اے،پی ہیچ۔ڈی
پرنسپال
یس۔کے ۔اے ۔ہیچ ملّت کالج
داونگرے۔577001(کرناٹک)
فون:0944920221

Share
Share
Share