مسلم پرسنل لاء چند قابل توجہ امور
مفتی کلیم رحمانی
پوسد (مہاراشٹر)
09850331536
مسلم پرسنل لاء کے متعلق سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ نام نہ قرآن سے ماخوذ ہے اور نہ حدیث سے، اور نہ اسلامی فقہ سے اور نہ اسلامی تاریخ سے ، بلکہ یہ نام ہندوستان کے دستور کے بنانے والوں نے دیا ہیں ، اور بڑی چالاکی اورمکاری سے انہوں نے یہ نام دیا ہیں، وہ یہ کہ ہندوستان کے دستور بنانے والوں نے یہ طئے کرلیا تھا کہ مسلمانوں کو اسلام کے حوالہ سے کوئی حق دینا نہیں ہے، اگر کوئی چیز بھیک اور خیرات میں دینی بھی ہے تو وہ مسلم قوم کے حوالہ سے ، نہ کہ اسلام کے حوالہ سے –
در اصل اس سوچ کے پیچھے ہندوستان کے دستور بنانے والوں کے پیش نظر دین اسلام کے آفاقی اور خدائی دین کے تصور کو دبانا تھا، اور اس میں بڑی حد تک انہیں کامیابی ملی ہے ، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ چند گنے چنے اہل بصیرت کو چھوڑ کر زیادہ تر علماء اور مسلمانوں نے ، باطل پرستوں کے دیئے ہوئے مسلم پرسنل لاء کے نام کو دل و جان سے قبول کر لیاہیں، جب کہ اس نام پر شدید احتجاج کرنے کی ضرورت تھی، اور شد و مد کے ساتھ حکومت ہند کے سامنے یہ بات رکھنے کی ضرورت تھی کہ ، مسلم پرسنل لاء کوئی قانون نہیں ہے ، اور نہ مسلم پرسنل لاء کے نام سے کوئی قانون بنانا درست ہے ، اس لئے کہ مسلمانوں کے تمام قوانین اسلام سے ماخوذ ہیں، اور اسلام کے تمام قوانین ماننے والے کو مسلم کہتے ہیں ، گویا کہ قانون کے سلسلہ میں اصل اہمیت اسلام کو حاصل ہے، نہ کہ مسلم کو، بلکہ لفظ مسلم اسلام کا اسم فاعل ہے یعنی اسلام کی فرمانبرداری کرنے والے کو مسلم کہتے ہیں، اور دستور ہند کے بنانے والوں نے ایک طرح سے اس ترتیب کو الٹ دیا اور اصل اہمیت انہوں نے مسلم کو دی، در اصل ان کے پیش نظر دو مقاصد رہے ہیں ، پہلا مقصد یہ ہے کہ جس طرح ہندو مذہب اور بہت سے مذاہب قوم کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں، او رقوم کی بنیاد پر ہی چلتے ہیں، اسی طرح دین اسلام کو بھی ایک قومی مذہب کی حیثیت سے پیش کیا جائے تاکہ دیگر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کی حیثیت نمایاں نہ ہو، اور دوسرا مقصد یہ کہ چند منافق اور بے دین مسلمانوں کو مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کیلئے استعمال کیا جاتا رہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق کانگریس ، انگریز حکومت سے زیادہ اسلام دشمن رہی ہے ، اسلئے کہ ۱۹۳۷ ء میں انگریز حکوت نے مسلمانوں کے لئے شریعت ایکٹ بنایا تھا، جس میں موجودہ مسلم پرسنل لاء کے قوانین سے زیادہ رعایت حاصل تھی۔اور یہ وہ دور تھا جب کہ پورے ملک میں مسلمان انگریز حکومت کے خلاف جنگ کر رہے تھے ،پھر بھی انگریز حکومت نے خالص قرآنی اور دینی اصطلاح، شریعت ایکٹ منظور کرکے مسلمانوں کی مذہبی حیثت کو تسلیم کیا تھا، اگرچہ شریعت ایکٹ میں بھی اسلام کے صرف عائلی قوانین ، مثلاً نکاح، طلاق ، خلع، فسخ نکاح، عدت، ھبہ، وراثت، وصیت وغیرہ ہی کو تسلیم کیا گیا تھا، لیکن بہر حال یہ حقیقت ہے کہ اس کی قانونی حیثیت موجودہ مسلم پرسنل لاء سے بہت بہتر تھی۔
کیا ہی اچھاہوتا کہ آزادی کے بعد ۲۶ جنوری ۱۹۴۹ ء کو جب ہندوستان کا دستور نافذ ہوا تو کم از کم کانگریس ۱۹۳۷ ء کے شریعت ایکٹ کو جوں کا توں باقی رکھتی، لیکن کانگریس سے یہ توقع اس لئے نہیں رکھی جا سکتی کہ کانگریس نے اپنے قیام ۱۸۸۵ ء سے لیکر آج تک ہر معاملہ میں اسلام اور مسلم دشمنی کا ثبوت دیا ہے اور ہندوانتہا پسندوں کو خوش کرنے اور مضبوط کرنے کا کام کیا ہے، یہاں تک کہ ۱۹۸۶ ء میں شاہ بانو کے مقدمہ میں بہ ظاہر مسلمانوں کے موقف کی تائید کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بدلنے کے پیچھے بھی در اصل ہندوستانی سیاست میں ہندو فرقہ پرستوں کو جوش دلانا تھا، چنانچہ اس کے فوراً بعد سے ہی ملک میں ہندو فرقہ پرستی کی سیاست بڑھی اور مضبوط ہوئی ہے ، در اصل کانگریس کی یہ خاصیت رہی ہے کہ جب بھی مسلمان اس سے ناراض ہوئے ہیں تو ان کی ناراضگی کو دور کرنے کی بجائے کانگریس نے ان سے کسی نہ کسی طرح انتقام لیا ہے، اگر کانگریس شاہ بانو کے مقدمہ میں مسلمانوں کے حق میں مخلص ہوتی تو، جس طرح اس نے دوتہائی اکثریت سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بدلا تھا، تو کیا کانگریس دستور کی متنازعہ دفعہ ۴۴ نہیں بدل نہیں سکتی تھی؟ جس میں یکساں سول کوڈ کی بات کہی گئی ہے، اور جس کی منسوخی کی مسلمان آزادی کے بعد سے ہی مانگ کرتے آرہے ہیں، در اصل نہ کانگریس کو مسلمانوں کے مسائل
سے کبھی دلچسپی رہی ہے اور نہ اس نے کبھی مسلمانوں کے مسائل میں دلچسپی لی ہے، ہاں مسلمانوں کے مسائل کو اُلجھانے سے کانگریس کو ہر وقت دلچسپی رہی ہے۔یقیناًاس وقت ہندوستان سے کانگریس کا اقتدارتقریباً ختم ہو گیا ہے ، اور مستقبل میں بھی کانگریس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات بھی ختم ہو چکے ہیں، کیونکہ اس کی مرکزی ، ریاستی اور مقامی قیادت تقریباً بی جے پی میں جا چکی ہے، یہاں تک کہ اس کی اونچی ذات کا ووٹ بینک بھی پورے طور سے بی جے پی میں جا چکا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ کانگریس نے خود ہی اپنا ووٹ بینک بی جے پی میں منقتل کروادیا، تاکہ دیگر سیکولر پارٹیاں اقتدار میں نہ آئے ، اس لئے اس وقت کانگریس کو کوسنا اور اس کو بُرا بھلا کہنا سانپ کی لکیر کو پیٹنے کی مانند ہے، لیکن مسلمانوں کو مسلم پرسنل لاء کے حوالہ سے اپنے ماضی کی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کرکے اس کے ازالہ کی ضرور کوشش کرنی چاہئے۔ کانگریس نے دستور میں لفظ مسلم کے ساتھ پرسنل لاء کا لفظ رکھ کر بھی بہت بڑی اسلام دشمنی کا ثبوت دیا ہے، وہ یہ کہ مسلمانوں کے علاوہ ہندوستان کا کوئی فرد یا کوئی قوم اسلام کے عائلی قوانین کو تمام انسانوں کے لئے یا تمام ہندوستانیوں کے لئے نہ سمجھ بیٹھے، اس لئے کانگریس نے بڑی مکاری اور چالاکی سے اس کے ساتھ مسلم پرسنل لاء کا لفظ جوڑ دیا تاکہ ہندوستان کی دیگر قومیں مسلم پرسنل لاء کا لفظ سن کر ہی یہ سمجھ لیں کہ یہ مسلمانوں کے ذاتی قوانین ہیں جن کا عام انسانوں اور عام ہندوستانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے قوانین تمام انسانوں کے لئے ہیں، یہ بات اور ہے کہ اسلا م کسی انسان پر ماننے کے سلسلہ میں زبر دستی نہیں کرتا، ہاں جس نے اسلام کو اپنا دین مان لیا ہے، اسلام ضرور اس پر زور دیتا ہے کہ وہ اسلام کے تمام قوانین کو دل و جان سے قبول کرے، یہی وجہ ہے کہ جو اسلام کے قوانین کو دل و جان سے قبول نہ کرے اسلام ایسے شخص کو مسلم شمار نہیں کرتا، چنانچہ ایمان مجمل کو حوالہ سے اسلام کے تمام احکام کو قبول کرنا ضروری ہے، چنانچہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ایمان کے صحیح ہونے کے لئے متفقہ طور پر جو کلمات ضروری قرار دیئے گئے ہیں وہ یہ ہیں ، اَمنتُ بِاللہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَا ءِہ وَ صِفَاتِہ وَ قَبِلْتُ جَمیْعَ اَحْکَامِہِ۔یعنی میں ایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے ناموں اور صفتوں کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کئے، مذکورہ کلمات ایمان کے باب میں بہت ہی ضروری اور اہمیت کے حامل ہیں ، ایک طرح سے یہ کلمات ایمان کی شرائط ہیں انیں تسلیم کئے بغیر کوئی مومن ہی نہیں ہو سکتا۔
اسلام کے عائلی قوانین کے حوالہ سے مسلمانوں کی اب تک کی سیاسی ، اصلاحی، تعلیمی کوشش انتہا ہی ناقص اور ادھوری رہی ہے، بلکہ اس سے اسلام دشمنوں کو زیادہ فائدہ پہونچا ہے اور مسلمانوں کو کم ، اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ مسلمانوں نے اسلامی قوانین یا عائلی قوانین کے حق میں جب بھی تحریک چلائی ہے تو مخالف حالات سے متاثر ہو کر چلائی ہے، چاہے ۱۹۸۰ ء کی دہے میں شاہ بانو کا معاملہ ہو یا ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ کی طرف سے حکومت سے تین طلاق کے متعلق سوال، جب کہ اسلامی قوانین کے حق میں تحریک اسلام سے متاثر ہو کرچلانے کی ضرورت ہے۔چاہے حالات اس کے حق میں ہو یا مخالفت میں،
اسلام کے کسی بھی مسئلہ میں اس کا نظریاتی پہلو سب سے مقدم ہوتا ہے، بد قسمتی سے مسلمان اسلامی قوانین کے حوالہ سے آزادی کے بعد سے آج تک اسلام کے نظریہ کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی جس اہمیت اور وضاحت کے ساتھ حکومت ہند کے سامنے اس مسئلہ کو رکھنا چاہیئے تھا اس میں کمی پائی جاتی ہے ، ابھی مسلمان اور مسلم پرسنل لاء بورڈ، اسلامی قوانین اور دستور ہند کے حوالہ سے ملک میں یہ سوال قابل بحث نہیں بنا سکے کہ انسان کا دستور انسان بنائے یا انسان کادستور انسان کا خالق و مالک بنائے ، ظاہر ہے جب ہم اس سوال کو موضوع بحث بنائیں گے تو دلیل اسی کے حق میں آئے گی کہ انسان کے دستور کا حق انسان کے خالق و مالک ہی کو ہونا چاہیے نہ کہ خود انسان کو، اور اسی میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آجائے گی کہ کوئی بھی بڑا سے بڑا انسان بھی چھوٹے سے چھوٹے انسان کا خالق و مالک نہیں ہے، ساتھ ہی دستور ہند کے حوالہ سے ہندوستانیوں کے سامنے بطور جائزہ یہ بات بھی رکھنے کی ضرورت ہے کہ آزادی کے ستر سال گزرنے کے باوجود ہندوستان میں عدل و انصاف و امن و امان کیوں قائم نہیں ہوا؟ جب کہ آزادی کے بعد سے آج تک ملک میں گاندھی وادیوں، امبیڈکر وادیوں، نہرو وادیوں اور پٹیل وادیوں ہی کی حکومت رہی ہے، یوں تو حکومت کے ہر شعبہ میں بد عنوانی و نا انصافی پائی جاتی ہے لیکن جان و مال کے سلسلہ میں وہ ظلم و ستم پایا جاتا ہے اور اس میں بھی خصوصاً مسلمانوں پر جو ہندوستانی تاریخ کے کسی بھی دور میں نہیں پایا جاتا۔چنانچہ آزادی کے بعد سے آج تک صرف ستر(۷۰) سالوں میں ایک لاکھ کے قریب ہندو مسلم فسادات ہو چکے ہیں جن میں
مرنے والے ننانوے فیصد مسلمان ہی ہیں اور کچھ فسادات تو وہ ہیں جن میں ایک ایک فساد میں مرنے والے مسلمان ایک ایک دو دو ہزار کی تعداد میں رہے ہیں، جیسے ممبئی، بھیونڈی ، احمد آباد، گجرات، بھاگلپور، میرٹھ ، ملیانہ وغیرہ اور آسام کے شہر نیلی کے فساد میں مرنے والے مسلمانوں کی تعداد تو پانچ ہزار رہی ہے، اب ان ایک لاکھ فسادات میں مرنے والے لوگوں کی تعداد معلوم کی جائے اور سر اسری ایک فساد میں مرنے والے پچاس افراد شمار کئے جائے تو کل فسادات میں مرنے والوں کی تعداد پچاس لاکھ ہو جاتی ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کی ماضی کی تاریخ میں صرف ستر(۷۰) سالوں میں پچاس لاکھ انسانوں کے نا حق قتل کی تاریخ ملے گی؟ ظاہر ہے اتنے نا حق انسانوں کے قتل کی تاریخ کسی بھی دور میں نہیں ملے گی ، یہاں تک انگریزوں سے جنگ کرتے ہوئے بھی پچاس لاکھ انسان نہیں مارے گئے ہوں گے، تو کیا یہ صورت حال اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہندوستان کا دستور اور حکومت ،ہندوستانی عوام کے جان و مال کے تحفظ کے سلسلہ میں یکسر ناکام ٹھہرے ہیں، اور چند سالوں سے تو دہشت گردی کے خاتمہ اور گائے کے تحفظ کے نام پر معصوم مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی انتہاء ہو چکی ہے، چاہے وہ بھوپال جیل سے چند مسلم نوجوانوں کے بھاگنے کی فرضی داستان ہو اور پھر ان کا بہیمانہ قتل ، یا پھر دادری کے اخلاق احمد اور راجستھان کے پہلو خان کا ہندو انتہا پسندوں کے ذریعہ بے دردی سے مار مار کر قتل۔ اسلئے ہندوستانی حکومت اور عوام کے سامنے یہ بات شدومد کے ساتھ رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان میں عدل و انصاف انسانی قوانین کے نفاذ سے قائم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اسلامی قوانین کے نفاذ سے قائم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اسلامی قوانین اس اللہ کے بنائے ہوئے ہیں جو الرحمن الرحیم ہے یعنی بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا۔ دوسرا کام مسلم پرسنل لاء کے حوالہ سے کرنے کا یہ ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ دستور میں مسلم پرسنل لاء کی بجائے شریعت ایکٹ یا اسلام کے عائلی قوانین کا نام درج کرے، ویسے بھی ۱۹۳۷ ء سے دستور ہند میں شریعت ایکٹ ہی کا نام چلا آرہاتھا، اس لئے جس طرح حکومت ہند نے دستور میں انگریز حکومت کے دیئے ہوئے بہت سے نام جوں کے توں باقی رکھے ہیں، اسی طرح شریعت ایکٹ کے نام کو بھی جوں کا توں رہنے دیا جائے تو کیا حرج ہے۔
تیسرا کام یہ ہے کہ حکومت ہند اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اسلام کے عائلی معاملات کے تنازعات میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت چلنے والے دار القضاء کے فیصلوں کو قانونی درجہ دے ،بلکہ عائلی تنازعات میں دار القضاء کے فیصلہ ہی کو آخری فیصلہ تسلیم کیا جائے، کیونکہ آزادی کے بعد سے آج تک یہ دیکھا جا رہا ہے کہ سرکاری عدالتیں اسلام کے عائلی قوانین کے خلاف فیصلے دیتے آرہی ہیں ، اس کی بنیادی دو وجہ ہیں، اول یہ کہ سرکاری ججوں کو اسلام کے عائلی قوانین کا صحیح علم نہیں ہے، او ر دوسری وجہ یہ کہ بہت سے ججوں میں اسلامی قوانین کے متعلق تعصب پایا جاتا ہے۔
چوتھا کام یہ ہے کہ حکومت ہند سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ دستور سے متنازعہ دفعہ ۴۴ کو ختم کرے ،جس میں یکساں سول کوڈ کی بات کہی گئی ہے، کیونکہ جب تک یہ دفعہ دستور میں موجود رہے گی، تب تک ملک میں اسلامی عائلی قوانین کے خلاف اور یکساں سول کوڈ کے حق میں آواز اٹھتی رہیگی، ایک طرح سے یہ پورے ہندوستانیوں پر یکساں سول کوڈکی لٹکتی ہوئی ننگی تلوار ہے جس کی سب سے زیادہ زد مسلمانوں پر پڑرہی ہے۔
یقیناًمذکورہ چار کام مسلمانوں کی موجودہ دینی کمزوری اور حکومت کے تعصب کو دیکھ کر ذرا مشکل اور سخت معلوم ہوتے ہیں، لیکن مسلمان اگر اللہ پر توکّل اور عزم و حوصلہ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں تو یہ کام آسان ہیں، اس کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے ہندوستانی انتخابات میں ووٹ نہیں دینے کے حق کو بھی بہ طور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے، ویسے بھی آزادی کے بعد سے اب تک مسلمان جس منفی انداز میں بغیر سوچے سمجھے ووٹ دیتے آئے ہیں، اس سے وہ سیاسی لحاظ سے کمزور ہی ہوئے ہیں، اور یہاں سے اور زیادہ کمزور ہوں گے، مطلب یہ کہ اس وقت مسلمان ہندوستانی انتخابات میں ووٹ نہیں دیکر اپنے آپ کو سیاسی طور پر جتنامضبوط اور محفوظ کر سکتے ہیں ، ووٹ دیکر اتنا مضبوط اور محفوظ نہیں کر سکتے ، چنانچہ ۲۰۱۴ ء کے پارلیمنٹ کے الیکشن میں مسلمانوں نے ووٹوں کے ذریعہ بی جے پی کو ہرانے کی جتنی زیادہ کوشش کی تو بی جے پی اتنی ہی طاقت سے پارلیمنٹ کے الیکشن میں جیت کر آئی، اسی طرح
گذشتہ سال آسام میں مسلمانوں نے ووٹوں کے ذریعہ جتنی طاقت کے ساتھ بی جے پی کو ہرانا چاہا، بی جے پی دو تہائی اکثریت سے اسمبلی میں جیت کر آئی، جب کہ آسام میں مسلمانوں کی آبادی پینتیس (۳۵) فیصد ہے ، اسی طرح کشمیر میں جہاں مسلمانوں کی آبادی اسی (۸۰)فیصد ہے وہاں بھی نائب وزیر اعلیٰ بی جے پی کا ہے، اور ابھی حالیہ اتر پردیش کے انتخاب میں بی جے پی کی تین چوتھائی اکثریت سے کامیابی اس کی واضح مثال ہے۔
غرض یہ کہ مسلمان ووٹوں کی سیاست سے اپنے آپ کو جتنا زیادہ مضبوط اور فرقہ پرستوں کو جتنا کمزور کرنا چاہیں گے، مسلمان اتنے ہی زیادہ کمزور ،اور فرقہ پرست اتنے ہی زیادہ مضبوط ہوں گے، اس کے بجائے مسلمان اگر دعوت دین کا ہتھیار اپنے ہاتھ میں لیں، تو وہ سیاسی لحاظ سے بھی مضبوط و محفوظ ہوں گے، اور اگر مسلمان آزادی کے بعد سے اب تک ووٹوں کی سیاست سے بے نیاز ہو کر دیگر اقوام میں دعوت دین کا کام کرتے تو ہر سیاسی پارٹی میں مسلمانوں سے محبت کرنے والے افراد ہوتے، اور کوئی بھی سیاسی پارٹی مجموعی لحاظ سے مسلمانوں کی دشمن نہیں ہوتی، بہر حال دیر آیددرست آید کے تحت کم از کم آج ہی سے ہم کو اپنے اصل کام اللہ کی بندگی سے جڑنا ہوگا، اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینی ہوگی، اسی راستہ سے ماضی میں بھی مسلمان دنیا میں غالب آئے ہیں، اور حال میں بھی اسی راستہ سے غالب آ سکتے ہیں، اور مستقبل کا غلبہ بھی اسی راستہ سے وابستہ ہے،غیر مسلموں میں دعوت دین کے ساتھ مسلمانوں میں بھی اسلام کی مکمل تعلیمات کی اشاعت کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے، ابھی مسلمانوں نے مجموعی لحاظ سے دین اسلام کو صرف عبادات کے دین کے طور پر قبول کیا ہے،جس میں دن و رات میں پانچ نمازوں کی ادائیگی ہے ۔ ماہ رمضان کے روزے ہیں، زکوٰۃ اور حج ہے، جب کہ دین اسلام ایک مکمل نظام زندگی کانام ہے۔لہذا یَا یُھاَ الذِینَ امَنوا ادْخُلوا فِی السَّلْم کَافّۃََ۔ (سورۂ بقرہ آیت ۲۰۸) یعنی ائے ایمان والون اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ کے عنوان سے مسلمانوں کو اسلام کی مکمل رہنمائی میں لانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ مسلمانوں میں یہ سوچ بھی عام کرنے کی ضرورت ہے کہ دین اسلام کوئی قومی اور خاندانی دین نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد عقیدہ و عمل پر ہے ، جس کا عقیدہ و عمل اسلامی ہے وہی مسلمان ہے ، چاہے اس کا باپ کافر ہو، اور جس کا عقیدہ و عمل اسلام کے مطابق نہیں ہے وہ مسلمان نہیں ہے ، چاہے اس کا باپ مسلمان ہو، لہذا اس حوالہ سے بھی کوئی واضح لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے اس سلسلہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ادارہ ہی کوئی لائحہ عمل مرتب کرے تو بہتر ہے ، مطلب یہ کہ ان عقائد اور اعمال کی فہرست مرتّب کرکے عام کرے، جومسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے، اور ان عقائد و اعمال کی بھی فہرست مرتّب کرکے عا م کرے، جن سے ایک مسلمان اسلام سے خارج ہوجا تا ہے۔
آج سے دو ڈھائی سو سال پہلے ہندوستانی علماء نے قرآن و حدیث کی روشنی میں تمام مسلمانوں کے لئے پانچ کلموں کا نصاب مرتب کیا تھا یہ نصاب ایک طرح سے ایک مسلمان ہونے کے لئے ضروری اور شرط کے طور پر ترتیب دیا گیا تھا، اور معاشرتی طور پر کسے مسلمان تسلیم کیا جائے، اور کسے مسلمان تسلیم نہ کیا جائے یہ پانچ کلمے رہنما خطوط کے طور پر تھے، چنانچہ قاری النکاح حضرات نکاح کی مجلس میں دو لہے کو یہ پانچ کلمے پڑھاتے تھے، تاکہ وہ بھی اور نکاح کی مجلس میں شریک تمام افراد بھی یہ جان لیں کہ یہ وہ کلمات ہیں، جو مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے کے لئے ضروری ہیں، آج بھی معاشرتی سطح پر ان پانچ کلموں کی تفہیم اور اشاعت کی ضرورت ہے، تاکہ ہر مسلمان یہ جان لے کہ مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے کے لئے کچھ عقائد و اعمال کو ماننا ضروری ہے اور کچھ عقائد و اعمال سے بچنا ضروری ہے ، ساتھ ہی غیر مسلم افراد بھی یہ جان لیں کہ کوئی مسلمان صرف مسلمانوں جیسا نام رکھنے سے مسلمان نہیں ہو جاتا، بلکہ اسلامی عقائد و اعمال کو ماننے سے مسلمان ہوتا ہے، اورآج کے حالات میں اس چیز کو واضح کرنا اسلئے ضروری ہو گیا ہے کہ بہت سی غیر اسلامی پارٹیاں اور ادارے صرف مسلم نما نام کے افراد کو مسلمان کی حیثیت پیش کر رہے ہیں، جب کہ ان کے عقائد و اعمال غیر اسلامی ہیں اور وہ دینی لحاظ سے مسلمان کی تعریف میں آتے ہی نہیں ۔غرض یہ کہ مسلم پرسنل لاء کے حوالہ سے ملک میں مکمل اسلام کی دعوت کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے، اور مسلمانوں میں مکمل اسلام کی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ غیر مسلم بھی اور مسلمان بھی مکمل اسلام سے واقف ہوں۔
———
مفتی کلیم رحمانی
(رکن جماعت اسلامی ہند,پوسد (مہاراشٹر)