مضمون :
اب ہمیں راستہ نہیں ملتا
جرار احمد – ریسرچ اسکالر
شعبۂ تعلیم و تربیت،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
ہندوستان میں خا ص طور پر جب ہم مسلمانوں کی تعلیم کی طرف نظر کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ کی طرح ہمیں پیچھے ہی نظر آتے ہیں،اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ روز اول سے ہی یہ قوم پچھڑی ہے، بلکہ علم کاایسا سر چشمہ اس قوم سے پھوٹا، جس نے عرب کے ریگستانوں کو سیراب کیااور پوری دنیا پر علم و حکمت کو پھیلادیا۔مسلما نوں کا تعلیمی میدان میں پیچھے نظر آنا کوئی نئی بات نہیں، بلکہ کئی دہائیاں گذر گئیں ،ان کی حالت جوں کی توں ہے ۔
حیرت ہے تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہواتھا
پہلے یہ بات تھی کہ مسلم اکثریت غریب ہے اور اب یہ بات ہے کہ ان کے ساتھ تعصب برتا جاتاہے، ان دونوں باتوں کی صداقت سے صرف نظر کرتے ہوئے کچھ ایسے نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی، جس سے مسلم تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں مدد ملے گی ۔
جب ہم مسلم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اس معاشرے کی اکثریت اور خاص کر متوسط طبقہ اپنی اولاد کی تعلیم کے تئیں اتنا سنجیدہ نہیں ہے جتنا کہ اسے ہونا چاہیے ، اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ خود ناخواندہ ہیں یا مسلم طبقہ آج کے دور میں بھی تعلیم کی اہمیت سے واقف نہیں ہے یا پھر فارغ البالی کی زندگی نے اسے بے پرواہ بنادیاہے، جس کے نتیجے میں اس طبقہ کے بچے تعلیم کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں اور بس صرف نام کا اسکول آتے جاتے ہیں۔ ان کی اس روش سے نہ تو ان کے والدین کو کچھ فرق پڑتا ہے اور نہ ہی گھر کے کسی بہی خواہ کو ۔ بچے کا اسکو ل میں داخلہ ہوگیا بس یہی کافی ہے ، اکثر سرپرست یہ سوچ کر اپنے بچوں کا داخلہ اسکول میں کراتے ہیں کہ فلاں نے بھی اپنے بچے کاداخلہ کرایا ہے۔ ان کا بچہ کیا پڑھتاہے ، کتنا پڑھتاہے ، پڑھنے میں کیسا ہے ، اس کی دلچسپی کیا ہے، اس سے نہ تو والدین کو کچھ سروکار ہو تاہے اور نہ ہی اسکول کے ارباب مجاز کو ، بس ہر کوئی اپنی اپنی فارمیلٹی پوری کر رہاہوتا ہیتیجے کے طور پر مسلم معاشرہ روز بروز تعلیمی پسماندگی کی اتھاہ گہرائی میں گرتا جارہاہے ۔ اگر کچھ بچے تعلیم کے تئیں سنجیدہ ہوتے بھی ہیں، تو ان کو مکمل طور سے گائڈ لائن صرف اس وجہ سے نہیں مل پاتی ہے کہ کوئی ایسا ذریعہ ان کے پاس نہیں ہے جس سے یا جہاں سے وہ رہنمائی حاصل کرسکیں،یا پھر بعض مجبوریوں کی بنا پر رہنمائی حاصل کرنا نہیں چاہتے ہیں ، حالانکہ ان کو تو اس جذبے کے ساتھ آگے بڑھ چڑھ کر آنا چاہیے کہ ’ہم نے دنیا کی رہنمائی کی‘ اورایک بار پھر کریں گے، مگر افسوس ان کے ذہن میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ ’اب ہمیں راستہ نہیں ملتا‘۔
زیادہ ترمسلم گارجین کی نظر کمائی پر ہوتی ہے کہ کب بچہ کمانا شروع کرے گا۔جلدی سے بڑا ہوجائے اور ہم اسے کمانے کے لیے باہر بھیج دیں اگر بچے انٹرمیڈیٹ پا س کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے باہر جانے کے خواہاں ہوتے ہیں تو اکثر ان کے اہل خانہ یا پھر کوئی بہی خواہ یہ کہتا ہے کہ ارے باہر جاکر پڑھنے سے کیا ہوگا یہیں پڑھو ۔اگر وہ بچہ آرٹس کا ہو اور گریجویشن کے لیے باہر جانا چاہتا ہے تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بی ۔اے۔ کر کے کیا کروگے اور اگر کرناہی ہے تو باہر جاکر کرنے سے کیا فائدہ یہیں سے کر لو ساتھ میں گھر کاکام کاج بھی دیکھنا۔ اس طرح سے کہہ کہہ کر لوگ اس کے حوصلے کو پست کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے میرا ایک سوال ہے کہ جب اس بچے کو باہریعنی خلیجی ممالک بھیج کر کمانے کی بات آتی ہے تو تب یہی لوگ دن رات ایک کرکے اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ بس کسی طرح پاسپورٹ بن جائے۔ اس وقت یہ لوگ آخریہ کیوں نہیں کہتے باہر جاکر کمانے سے کیا ہوگا یہاں بھی تو پیسہ کما یا جا سکتاہے لیکن اس لالچی دنیا کے لوگ اپنی خواہشات کی تکمیل اور آسائش کی خاطر تب اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں کہ جب وہ بچہ باہر جاکر زیادہ کما سکتا ہے تو باہر پڑھ کر زیادہ علم بھی حاصل کرسکتاہے مگر ان لوگو ں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔قرآن مجید میں علم پر زور دیا گیا اور نبی ﷺنے علم کی تاکید کی ،وہی قوم اس کے تعلق سے بے پرواہ مال و دولت کی حرص میں ڈوبی ہے بقول شاعر۔۔
حرص و ہوا سے جس کو بچایا رسول نے
بھٹکی ہوئی ہے قوم وہ اب خواہشات میں
مسلم معاشرہ تعلیم کے میدان میں اس لیے بھی پیچھے ہے کہ جن گھرانوں میں تعلیم یافتہ افرادہیں ان میں دوسروں کی رہنمائی کرنے کے جذبے کا فقدان ہے۔ وہ زیادہ تر اپنی تعلیمی صلاحیت کی دھونس جمانے اور شیخی بگھارنے میں رہتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے افراد کی بھی کمی ہے جو کہ تعلیم حاصل کررہے بچوں کی کچھ نہیں تو حوصلہ افزائی ہی کریں ۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کی مسلم سماج میں خواندہ افراد کی کمی کی وجہ سے مسلم طلبا کو تعلیم کے تئیں راہ دکھانے والا کوئی نہیں مل پاتا تو حوصلہ افزائی کرنے میں کون سی ڈگری کی ضرورت ہے ۔آخر کیوں لوگ حوصلہ افزائی کرنے میں بخالت سے کام لیتے ہیں ، جنگ میں جس طرح سے ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سے تعلیم میں بھی اگر لوگ اپنے بچوں کی رہنمائی نہیں کر سکتے تو کم سے کم ان کی ہمت اور حوصلے کو پروان چڑھائیں نہ یہ کہ اسے اور پست کریں ۔
جب سے خلیجی ممالک جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے مسلم معاشرے کی غربت کی شرح میں تھوڑی سی کمی آئی ہے مگر پھر بھی تعلیم کی اہمیت کے تئیں ناقص بیداری کی وجہ سے لوگ اعلی تعلیم سے راہ فرار اختیار کرنا بہتر سمجھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ بچوں کو زیادہ پڑھانے سے کیا فائدہ جب اپنا ہی کام کرنا ہے تو پھر پیسہ کیوں خرچ کریں اور وقت کیوں برباد کریں لیکن انجانے میں یہ دونوں چیزیں برباد کر رہے ہوتے ہیں مثلا آج کوئی بھی گھر ایسا نہیں ہوگا کہ جس گھر کا ایک فرد بھی سعودی میں ہے تو اس گھر کے بچوں کے پاس اسمارٹ فون نہ ہوان میں سے اکثر لوگو ں کے گھروں میں فون کے ساتھ ساتھ بائک بھی ہے ،چاہے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو ۔یہ بچے جو ابھی عنفوان شباب میں ہوتے ہیں جن کی عمر ابھی اسکول اور مدرسے جانے کی ہوتی ہے زیادہ تر وقت موبائل اور شوآف میں صرف کرنے لگتے ہیں اور ان کا ذہن تعلیم سے دور ہوجاتا ہے ۔ پہلے کی بہ نسبت اب کچھ علاقوں میں یہ سوچ بدلی ہے اور لوگ تعلیم کی طرف مائل ہو رہے ہیں مگر آج بھی گارجین پہلے کمانے کے بارے میں سوچتے ہیں ‘ کمانے کے بارے میں سوچیں مگر اس حد تک نہیں کہ گذر بسر ہونے کے باوجود ذخیرہ اندوزی کے لیے بچوں کی تعلیم کا سودا کرلیں اور اسے پڑھانے کے بجائے کام پر لگادیں۔ایک دہائی گذر گئی اور اب بھی یہ سلسلہ زوروں پر ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو کمانے کے لیے خلیجی ممالک بھیجتے ہیں اور اس کے لیے گارجین اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ کب ان کا بچہ بالغ ہو اور اسے بدیس بھیجیں۔ بعض مرتبہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عمر بڑھواکر پاسپورٹ بنوا دیا جاتاہے اور عمر سے پہلے ہی بچے کو بالغ کر کے فارن بھیج دیا جاتا ہے تاکہ بچہ جلدی سے کمائی کرکے پیسہ بھیجے جس سے گھر دوار بنے اور آرام ملے گویا زندگی کا یہی نصب العین ہو کہ اچھا گھر ہو اور تما م آسائشو ں سے بھری زندگی ہو۔اس طرح سے عارضی آسائش ، دولت کی خاطر تعلیم بالائے طاق رکھ دی جاتی ہے اور مسلم معاشرے کے نونہالوں کا مستقبل تاریکی میں چلاجاتاہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خود بچوں کا بھی اب یہی ذہن بن گیا ہے کہ بڑے ہوکر باہر جانا ہے جس کی وجہ سے ان کا ذہن تعلیم سے اچاٹ ہوگیا ہے۔
آج مسلم معاشرہ اتنی غربت کا شکار نہیں ہے جتنا کہ پہلے تھا اور یہی وجہ ہے کہ بہت سارے مسلم بچے اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں کچھ گھر پر ہی اور کچھ گھر سے باہر دور دراز مقامات پر، جو طلبا گھر سے دور ہیں ان کے گارجیں میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ میرا بیٹا باہر پڑھ رہاہے اسے وقت پر پیسہ بھیج دیاجا ئے بس وہی کافی ہے، جس کے پس پردہ وہی اسکول والی سوچ کار فرما ہو تی ہے کہ بس اسکول میں نام درج ہوگیا کافی ہے، اس کے بعد بچہ کیا کر رہاہے ، کتنا پڑھ رہاہے ، کتنی کامیابی حاصل کررہاہے ان سب کی گارجین کو کوئی فکر نہیں ہوتی ، اس عدم دلچسپی کی وجہ سے طلبا اپنی تعلیم کی طرف کما حقہ توجہ مرکوز نہیں کرپاتے ، کیوں کہ ان کے اندر بازپرس کا کچھ خوف ہی نہیں ہوتا ہے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ گھروالوں کو ان سب کے بارے میں کیا پتا اور صرف کسی طرح سے کرکے امتحان پا س کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر صلاحیت و قابلیت کا فقدان ہوتاہے اور انہیں نوکری کاملنا دشوار ہوجاتا ہے۔جس سے معاشرے میں غلط پیغام جاتاہے اور لوگ کہتے ہیں زیادہ پڑھنے سے کیا فائدہ دیکھو فلاں کا لڑکا اتنا پڑھنے کے باوجود بھی در در کی ٹھوکریں کھا رہاہے اور نوکری نہیں مل رہی ہے۔ کوئی بھی شخص اس بات پر غور نہیں کرے گا کہ اتنا پڑھنے کے بعد بھی اس کے اند ر کتنی صلاحیت ہے؟ آخر کیوں اسے نوکری نہیں مل رہی ہے ؟اس بات پر غور کرنے کے بجائے لوگ سیدھے سیدھے یہی کہیں گے کہ پڑھنے سے کیا فائدہ آخر پھر بعد میں اپناہی کام کرناہے تو پھر ابھی سے کیوں نہیں اور یہی سوچ اس معاشرے کو اندھیرے میں ڈھکیل رہی ہے۔
کچھ طلبا اپنے کورس کے تئیں یہ سوچتے ہیں کہ ان کے کورس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے اگر وہ فلاں کورس کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ان کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر میدان یا ہر شعبے کے قابلافراد کو منتخب کر لیاجاتاہے اور ان کے لیے جاب زیادہ مسئلہ نہیں ہوتی ہے۔اس بات کے پیش نظر ہمارے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ چاہے جس شعبے میں ہم رہیں اتنی محنت سے پڑھیں کہ ہمارا شمارقابل لوگوں میں ہو اور پھر اچھا مقام حاصل کرکے اپنے معاشر ے کو ایک مثبت پیغام دیں تاکہ دوسرے گارجین کو ترغیب ملے اور وہ لوگ بھی اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے سینہ سپر ہوں ۔مگرضمن میں سب سے پہلی ذمے داری ہمارے والدین اور گارجین کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا داخلہ کراکے ایسے ہی نہ چھوڑدیں بلکہ ان میں اور ان کی تعلیم میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے رہیں اور ساتھ ہی ان کی رہنمائی بھی کرتے رہیں تاکہ وہ بہکنے نہ پائیں اور طلبا بھی پوری ایمانداری کے ساتھ محنت و لگن سے پڑھائی کریں اور اپنی ذمے داری کا حق ادا کرکے یہ ثابت کردیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی نااہل نہیں ہوتاہے ، اس طرح سے ہم اپنے معاشرے کی تعلیمی پسماندگی دور کرکے تعلیم کی روشنی سے پوری دنیا کو راستہ دکھا سکتے ہیں ۔
***