مطالعہ کبیرؔ : ’’پیغمبران سخن‘‘ کے حوالے سے : – عبدالحفیظ خان

Share


مطالعہ کبیرؔ : ’’پیغمبران سخن‘‘ کے حوالے سے

عبدالحفیظ خان
ریسرچ اسکالر ۔ دہلی یونیورسٹی

’’کبیربانی‘‘ اور بالخصوص اس کے دیباچے میں کبیرؔ اور ان کے کلام کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ جس کا مطالعہ کرتے ہوئے سب سے پہلے سردار کے اس نظریہ سے ہمارا سامنا ہوتا ہے:۱؂
’’بڑی شاعری کی یہ عجیب وغریب خصوصیت ہے کہ وہ اکثروبیشتر اپنے خالق سے بے نیاز ہو جاتی پھر اس کے وجود سے شاعر کا وجود پہچانا جاتا ہے۔کیوں کہ اس کی زندگی کے حالات گذرے ہوئے زمانے کے دھندلکے میں کھو جاتے ہیں اور واقعات افسانے کا لباس پہن لیتے ہیں‘‘۔

جب ہم ان کے اس بیان پر غور کرتے ہیں تو ایک طرف تورچرڈذ،ایلیٹ اور دیگر مغربی مفکرین کے یہاں پائے جانے والے تنقیدی رجحان، جسے اصطلاح میں ’’نئی تنقید‘‘کا نام دیا گیا،کا اثر صاف طور پر نمایاں ہے۔اس ضمن میں ابوالکلام قاسمی ایلیٹ کے ایک قول کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۲؂
’’جوجذبات شاعری میں ملتے ہیں انھیں شاعر کی سوانح میں نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ ادب پارے کو سوانحی حوالوں سے کاٹ کر ایک خود مختار اکائی کے طور پر دیکھنے کا محرک یہی قول بنا‘‘۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ سردار کے تنقیدی نظام میں نئے رجحانات کے لیے بھی جگہ تھی اور انھوں نے اسے برتا بھی۔یہ الگ بات ہے کہ کبیر پر تنقید کرتے ہوئے ان کی کچھ مجبوری بھی تھی کہ کبیر کے سوانحی حالات اکثر وبیشتر غیرمعلوم یاکم ازکم مشکوک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سردارجعفری قدیم تاریخ نگاری کے طور طریقوں سے بے اطمنانی کا اظہار بھی کرتے ہیں،ان کا خیال ہے کہ قدیم تاریخ نے ان بزرگوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔لیکن وقت سب سے بڑامنصف ہے۔علم اور دولت کی باہمی کشمکش اور اہل علم کی ناقدری کا گلہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:۳؂
’’لکشمی اور سرسوتی کی باہمی رقابت میں جیت سرسوتی کی ہوئی اور گن لکشمی کے گائے گئے‘‘۔
دراصل جب ہم قدیم تاریخ نگاری پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ اس وقت میں اکثر وبیشتر مورخین ایسے ہوتے تھے جو کسی نہ کسی دربار سے کلی یا جزوی طور پر وابستہ ملتے ہیں۔ایسے میں وہ مورخین پوری طرح سے آزاد بھی نہیں ہوتے ہیں زیادہ تروہ متعلقہ بادشاہوں، امراء اور دربار کے واقعات ، ان کے جنگ وفتح کی تاریخ کی صورت میں محفوظ کرتے ہیں۔لہذا ایسی صورت میں کبیرؔ یا ان جیسے بھگتوں اور صوفیا کے واقعات اور حالات زندگی کے انھیں پہلوؤں پر روشنی پڑپاتی ہے جن کا کسی نہ کسی صورت ان درباروں اور بادشاہوں سے تعلق ہوتا ہے بقیہ تصویر پس آئینہ ہی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ان صوفیا کے حالات زندگی کی کچھ دھندلی تصویریں ان تحریروں سے بھی مل سکتی ہیں جو ان کے چیلوں اور عقیدت مندوں کی لکھی ہوتی ہیں جن میں حقائق سے زیادہ عقیدت کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے محققین کو ان کے تعلق سے حقائق کی تلاش میں کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں اکثر و بیشتر پوری کامیابی بھی نہیں مل پاتی ہے۔ ایسے میں اکثر وبیشتروہ جن نتائج تک پہنچ پاتے ہیں وہ بھی مشکوک ہوتے ہیں۔قدیم تاریخ نگاری کی اسی کوتاہی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۴؂
’’یہ بات شاید پرانے تاریخ نگاروں کو معلوم نہیں تھی کہ تاریخ محض واقعہ نگاری نہیں بلکہ سماجی اور معاشی رشتوں کی تبدیلی کی داستان بھی ہے اور فکروشعور کا سفر بھی ۔اس فضا میں آتے جاتے کردار پرچھائیوں کی طرح گھومتے رہتے ہیں اور اگر پرچھائیوں کا نام فراموش ہو جائے تو بھی فرق نہیں پڑتا ۔فکروشعور کا سفر جاری رہتا ہے۔‘‘
سردار جعفری تاریخ کی اس کم مایگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کبیر پر گفتگو کا آغاز ان الفاظ میں کرتے ہیں:۵؂
’’یہی وجہ ہے کہ حالات وواقعات کا کبیر ،سن اور تاریخ کا کبیرزندہ نہیں ہے لیکن فکروشعور کا کبیر ،جذبے اور احساس کا کبیر،شعر اور نغمے کا کبیرزندہ ہے ۔ ہر دوہا اس کی ہستی ہے،ہر پد(نظم)اس کی ذات، ہرخیال اس کی زبان اور جب ہم اس کے بولے ہوئے لفظوں کو دہراتے ہیں تو کبیر کا ساز بجنے لگتا ہے۔شاہی فرمان اور ڈنکے کی آوازیں گونگی ہو جاتی ہیں اور کبیر کے دل سے نکلنے والی صوت سرمدی سے روح سرشار ہو جاتی ہے۔پنڈت کا منتر اور ملا کی اذان آسمانوں کے سناٹے میں گم ہو جاتی ہے اور کبیر کا حرف محبت دھرتی کے سینے میں دھڑکنے لگتا ہے‘‘۔
کبیرؔ کے تعلق سے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پرشورام چترویدی لکھتے ہیں:۶؂
’’کبیر صاحب کی شخصیت، ان کی سوانح عمری اور ان کے فکر کا تعارف پیش کرنے والی متعدد کتابوں کا سراغ ملتا ہے البتہ ایسی تحریریں تقریباً معدوم ہیں جن میں ان کی تاریخ ولادت اورتاریخ وفات کے باب میں کسی ذمہ داری کے ساتھ گفتگو کی گئی ہو
اور انھیں ہر قسم سے معتبر بھی سمجھا جاسکے۔کبیر صاحب نے خود اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں لکھا ہے اور ان کے معاصر سمجھے جانے والے کسی مورخ کی تحریروں میں بھی ان کا وضاحت کے ساتھ کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے۔دیگر دستیاب موادوں کی بنیاد محض جن شروتیوں ،اندھ وشواس، نیز پھٹکر اور موہوم سیاق ہیں جن پر پوری طرح بھروسہ کر لینا تاریخی حقائق کے چاہنے والوں کے لیے بہت مشکل ہے‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں توکبیر کی ولادت،ان کی وفات اور خاندان تقریباًکچھ بھی ایسا نہیں ہے جو تاریخ کے صفحات میں بالاتفاق موجود ہو، سب پر مورخین و ناقدین کی اختلاف رائے ہے۔اس کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر سردار نے بھی تاریخ کے حوالے سے کیا۔بہرحال یہاں سردار نے خود کو ان اختلافات کے دلدل سے دور ہی رکھنے کی کوشش کی ہے۔اور یو ں سرسری گذرجاتے ہیں:۷؂
’’یہ بات اہم نہیں ہے کہ کبیر داس جلاہے کے بیٹے تھے یا کسی برہمنی کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے اور جلاہے کے گھر میں پرورش پائی تھی۔اہم یہ ہے کہ رامانج(بارہویں صدی) اور ان کے سلسلہ فکر کی ایک معنوی اولاد رامانند (چودہویں اورپندرہویں صدی)کے خیال سے کبیر کے خیال کا کیا رشتہ ہے ۔بھگتی کے انتر گیان کا تصوف کے وجدان سے کیا تعلق ہے ایران کے صوفی شعراعطار،رومی اور حافظ کی فکر نے ہندوستان کی فکر کو جس حد تک متاثر کیا ہے،ان کے درمیان کتنی مشترک قدریں ہیں اور اثرات کی یہ بہتی ہوئی گنگا جمنا کبیر کی شاعری میں کتنا حسین سنگم حاصل کرتی ہے۔صرف اس طرح تفریق اور نفرت کی وہ دیواریں گرائی جا سکتی ہیں جنھیں کبیر نے ڈھا دیا تھا لیکن ان کے بعد کی نسلوں نے پھر اونچا اٹھا دیااس پر لڑنے مرنے والے کہ کبیر لنگی پہنتے تھے یا دھوتی باندھتے تھے،یہ بھول جاتے ہیں کہ اصلیت لباس میں نہیں برہنگی میں ہے جس نے معنی کے جسم سے لفظوں کے پردے اٹھا دیے ہوں اور رام اور رحیم کو ایک کر دکھایا ہو اس کو سوت اور کپاس کا لباس پہنانے کی کوشش اور اس لباس کی تفریق پر منافقت اور نفرت انگیزی کتنی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے‘‘۔
منقولہ بالا اقتباس سے جہاں ایک طرف اس دیباچے کے اصل محرک کی جانب اشارہ ملتا ہے وہیں ،تصوف جسے سردار اپنی سابقہ تحریروں میں کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے (ترقی پسند ادب)جبکہ یہاں نہ صرف اسے قابل توجہ سمجھا ہے بلکہ کبیر کی بھگتی کو مسلم تصوف سے ملانے کی بھی کوشش کی ہے۔اور اس کا مقصد قومی یکجہتی کی بگڑتی ہوئی فضا کو سازگار بنانا۔اس اقتباس میں کبیر کی ذات اور ان کی ولادت کا تذکرہ بالکل سرسری ہے ۔البتہ بعد کے سطور میں ایک دوہا جو کبیر کے ایک چیلے دھرم داس سے منسوب کیا جاتا ہے اس کی بنیاد پر ان کی سن ولادت سم وت ۱۴۵۵ کے اختتام پر جیٹھ کی پرنیما کو سوموار کے دن مطابق ۱۳۹۸ء قرار دیتے ہیں۔لیکن قوسین میں لکھتے ہیں:۸؂
’’بعض لوگوں کے نزدیک سال پیدائش ۱۴۴۰ء ہے۔۔۔انتقال کا سال ۱۵۵۱ء بھی کبیر پنتھوں کے ایک مشہور دوہے کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا ہے‘‘۔
الغرض یہ کہا جا سکتا ہے کی کبیر کی ولادت کب ہوئی اس سلسلے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے ۔رہی بات دھرم داس کے دوہے کی تو اس کی بنیا د پر بھی کبیر کا سن ولادت ۱۴۵۵سم وت نہیں بلکہ ۱۴۵۶سم وت نکلتا ہے۔ ملاحظہ ہو وہ دوہا جس کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا:
چودہ سو پچپن سال گئے، چندروار ایک ٹھاٹ ٹھئے
جیٹھ سدی برسایت کو پورنیما سی تتھی پرگٹ بھئے
گھن گرج دامنی دمکے بوندیں برسے جھر لاگ گئے
لہر تالاب میں کمل کھلے تنھ کبیر بھانو پرگٹ بھئے
اس دوہے کی بنیاد پر اچاریہ شکل جی نے اپنی کتاب ’’ہندی ساہتیہ کے اتیہاس‘‘ میں کبیر کی پیدائش جیٹھ کی پورنیما کو سوموار کے دن وکرم سم وت ۱۴۵۶ مانا ہے ۔ہزاری پرساد ترویدی کی بھی یہی رائے ہے۔البتہ پنڈت پرشورام چترویدی کبیر کی سن ولادت سم وت ۱۴۵۵ (ہندی ساہتیہ کا ورہت اتیہاس کا چوتھا حصہ)لیکن اس قول کے ثبوت میں کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کر سکے ہیں ۔جب کہ سم وت ۱۴۵۶قراردینے والے دھرم داس کے دوہے کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:۹؂
’’چودہ سو پچپن سال گئے ،اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ۱۴۵۵ سم وت بیت گیا تھا اور سم وت ۱۴۵۶ چل رہا تھا لہٰذا اچاریہ رام چندر شکل ،ڈاکٹر ہزاری پرساد ترویدی اور
شیام سندر داس ۔۔۔کے مطابق کبیر داس کی پیدائش سم وت ۱۴۵۶ ہی درست معلوم ہوتا ہے۔‘‘
وہیں کبیر پنتھوں نے عقیدت مندی میں ان کی پیدائش کو خدائی شکل دے کر اسے کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے،اس کے لیے ملاحظہ ہو یہ پد ؂
گھن گرجے،دامنی دمکے،بوندیں برسیں،جھرلاگ گئے
لہرتالاب میں کمل کھلے تہاں بھانو پرگٹ بھئے
اس فوق فطری انداز کو کچھ نقادوں نے عقیدت جان کر اس کو مشتبہ قرار دیا۔لیکن سردار نے اس کی توضیح نہایت خوبصورت انداز میں پیش کی ہے۔لکھتے ہیں:۱۰؂
’’اس دوہے کے الفاظ ممکن ہے کہ حقیقت ہی کی ترجمانی کرتے ہوں لیکن اگر انھیں استعارے کی زبان سمجھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے جنگو کے گھن گرج میں،قتل و غارت کی بجلیوں میں جہاں خون کی بارش ہو رہی تھی کبیر کی پیدائش(ظہور)سے یکایک منظر پر سکون ہو گیااور آسمان پر سورج نکل آیا۔اور تالابوں میں کنول کے پھول کھل گئے۔قرون وسطیٰ کے جنگ آلود ہندوستان میں کبیر کی یہ شخصیت مبالغہ آمیز نہیں معلوم ہوتی۔‘‘
مقام پیدائش کے سلسلے میں بھی متعدد رائیں ہیں ۔عموماً ان کی مقام پیدائش کے سلسلے میں کاشی اور مقام وفات مگہرکو تسلیم کیا جاتا ہے البتہ اس سے مختلف رائیں بھی ملتی ہیں مثلاً کبیر پنتھی ساہتیہ کے مطابق ’’ستیہ پرش کا تیج کاشی کے لہر تالاب میں اترا‘‘(بحوالہ: اتری بھارت کی سنت پرمپرا:ص:۱۰۴) اس کے علاوہ بنارس ڈسٹرکٹ گزٹیر کے مطابق ان کی ولادت اعظم گڑھ ضلع کے بلہرا نامی گاؤں میں ہوئی۔(ایضاً) ایک اور رائے کے مطابق مگہر کو ہی کبیر کی جائے ولادت مانا جاتا ہے ۔یہ مگہر نامی گاؤں آج بھی بستی ضلع میں گورکھپور سے تقریبا پندرہ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔اسی مگہر کو ان کی جائے وفات مانا جاتا ہے۔بہر حال اب تک کی دستیاب شواہد کی روشنی میں کاشی ہی ان کی جائے پیدائش کے طور پر زیادہ قابل قبول ہے۔اس سلسلے میں کبیر کا یہ پد ملاحظہ ہو ؂
سکل جنم شیو پوری گنوایا
مرتی بیر مگہر اٹھ دھیا
اسی کے حوالے سے سردار نے بھی لکھا ہے کہ :’’۔۔۔وہ بنارس میں پیدا ہوئے اور مگھر(ضلع گورکھپور)میں وفات پائی۔‘‘ ۱۱؂
سردارکبیر کے اس عمل یعنی مرنے سے پہلے مگھر چلے جانے کوبھی ان کی انقلابی ذہنیت سے تعبیر کرتے ہیں ۔جیسا کہ عام ہندو عقیدہ ہے کہ کاشی میں مرنے والے کی مکتی ہو جاتی ہے اورمگھر میں مرنے والا دوبارہ گدھے کا جنم لیتا ہے۔اس کے برخلاف وہ جس طرح سارے انسانوں کو برابر مانتے ہیں اسی طرح شہروں کے معاملے میں بھی اونچ نیچ پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔
خود کبیر نے بھی اپنے کو کاشی کا جلاہا کہا ہے ؂
تو برہمن ،میں کاشی کا جلاہا
سگل جنمو سیوپوری گوائیا
مرتی بیر مگھر اٹھ دھایا
اس طرح یہ مانا گیا کہ کبیر کی مقام پیدائش کاشی ہی ہے اور مقام وفات مگہر۔اس سلسلے میں ایک قصہ مشہور ہے کہ سوامی رامانند کا ایک معتقد برہمن ان سے ملنے آیا تو اس کے ساتھ اس کی بیوہ بیٹی بھی تھی۔سوامی نے بیٹی کو اس کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہونے کی دعا دی۔یہ سن کر برہمن گھبرایا البتہ سوامی جی کے قول کے مطابق ان کے یہاں بیٹے کی ولادت ہوتی ہے جسے معاشرے میں بدنامی کے خوف سے اس برہمنی بیوہ نے لہر تالاب کے کنارے چپکے سے رکھ دیا۔جہاں سے نیرو اور نیما جلاہے نے انھیں اٹھا لیا اور ان کی پرورش کی۔کبیر کے سوانحی حالات کے سلسلے میں یہ واقعہ موضوع بحث رہا ہے۔جب کہ کبیر داس کے بھکتوں نے اسے مافوق فطرت اور بعید از قیاس عقیدت میں کچھ اس طرح بدل دیا۔ان کا ماننا ہے کہ کاشی کے لہر تالاب میں ایک کمل کھلا تھا اس کمل میں تیز روشنی کی صورت میں ایک اوتار نے جنم لیا جس کی پرورش ایک جلا ہا خاندان نے کی ،جسے بعد میں لوگوں نے کبیر داس کے نام سے جانا ۔اس ضمن میں ڈاکٹر رجنی بالا اگروال رقمطراز ہیں:۱۲؂
’’یہ ممکن ہے کہ کبیر کسی بیوہ برہمنی کی بھول کا نتیجہ تھے ۔مگر اس مکروہ کہانی کو خدائی نام
دے دیا گیا ہے‘‘۔
ڈاکٹر اگروال نے اس پر مزید سوال بھی کیا ہے:۱۳؂
’’سوال یہ ہے کہ ان قصوں میں کسی برہمنی کی گود سے ہی ان کی پیدائش کیوں مانی گئی اور اس برہمنی کی پہچان کس نے کی ؟یقیناًلہر تالاب پر انھیں خفیہ طریقہ سے رکھا گیا ہوگا اور رکھنے والا سماج کی نظروں سے دور ہوگا‘‘۔
سوامی رامانند کی دعا اور بیوہ برہمنی کی کوکھ سے کبیر کی ولادت کے سلسلے میں تبصرہ کرتے ہوئے پرشو رام چترویدی لکھتے ہیں :۱۴؂
’’مہاراج رگھوراج سنگھ کا انومان ہے کہ’ مذکورہ بالا بیوہ برہمنی سوامی رامانند جی کی سیوا میں ہی رہا کرتی تھی‘‘۔
اس قول سے ایک سراغ تو کم از کم ملتا ہے جس سے اس مافوق فطری قصے کو فطری بنایا جا سکتا ہے۔اس کی بنیاد ڈاکٹر اگروال کے ظاہر کردہ شبہ’’یہ ممکن ہے کہ کبیر کسی بیوہ برہمنی کی بھول کا نتیجہ تھے ۔مگر اس مکروہ کہانی کو خدائی نام دے دیا گیا ہے‘‘کو بھی جواز مل جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ایسے متعدد خود ساختہ مذہبی لوگوں کے کالی راتوں کے قصے منظر عام پر آتے رہتے ہیں ۔کیا اس وقت ایسا نہ ہوتا رہا ہوگا ؟ لیکن وہ منظرعام پر کیوں نہیں آئے ؟ اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ، اس وقت اتنے ذرائع نہ تھے، اندھ وشواس تھا اور یہ بھی ممکن نہ تھا کہ مظلوم ظالم کے سامنے کھل کر اپنی شکایت رکھ سکے۔اس صورت میں بیوہ برہمنی کا سوامی جی کی خدمت میں رہنا پھر اس کا حمل سے ہونا ، اسے خدائی شکل دینا وغیرہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے ، مسئلہ کی تہہ تک قاری اپنی تخیل سے جا سکتا ہے۔اس بات کی توثیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ کبیرداس اپنے قبل ازوقت برہمن ہونے کا تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں ؂
پورب جنم ہم برہمن ہوتے اوچھے کرم تپ ہینا
رام دیو کی سیوا چوکا پکری جولاہا کیتا
کبیرکی ولادت اور ان کے اصلی والدین کے تعلق سے اکٹر شیام سندر داس لکھتے ہیں :۱۵؂
’’کبیر کا بیوہ برہمنی لڑکی کی اولاد ہونا ناممکن نہیں ہے لیکن سوامی رامانند جی کے آشرواد کی بات برہمن دوشیزہ کا کلنک مٹانے کے مقصد سے ہی جوڑی گئی جان پڑتی ہے۔جیسا کہ دیگر عظیم شخصیات کے سلسلے میں جوڑی گئی ہیں۔مسلم گھرانے کا پروردہ ہونے پر بھی کبیر ہندو نظریات میں شرابور ہونا ان کی رگوں میں بہنے والے برہمن یا کم از کم ہندو خون کی ہی جانب اشارہ کرتا ہے‘‘۔
ذات: کبیرداس نے اپنی ذات جلاہا بتائی ہے۔اور یہ ان کے کلام سے ثابت بھی ہوتا ہے ؂
چھانڑے لوک امرت کی کایا
جگ میں جولہہ کہلایا

کہے کبیر رام رس بھاتے
جلہا داس کبیرا ہو

تو برہمن، میں کاشی کا جلاہا
سگل جنمو سیوپوری گوائیا
مرتی بیر مگھر اٹھ دھایا
جس طرح کبیر نے اپنی ذات کے تعلق سے زیادہ تر جلاہا کا لفظ استعمال کیا ہے اور کہیں کہیں کوری اور کمینہ بھی کہا ہے۔اس سے سردار نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کبیر کے اجداد پہلے کوری رہے ہوں گے اور کبیر کے عہد تک ان کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا ۔اور وہی کوری جب مسلمان ہوئے تو اپنے لیے جلاہے یا مومن کا لفظ استعمال کرنے لگے۔اپنے اس مفروضے کو مزید تقویت دینے کے لیے شمالی ہندوستان کے بنکروں کا ذکر کرتے ہیں جو اب بھی ہندو بنکر اپنے لیے کوری اور مسلم بنکر جلاہے کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔اور یہ نیچ سمجھے جانے کی وجہ سے کمین یا کمینہ سمجھے جاتے ہیں۔
یہاں سردار نے کبیر کی ذات سے متعلق خود انھیں کے کلام سے نکلنے والے مختلف نظریات کو جس
خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا ہے اس سے ان کی اجتہادی صلاحیت کا اندازہ بہرحال ہوتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ وہ جس نتیجے پر پہنچے وہ کس حد تک درست ہے۔آگے چل کر ان بنکروں کے داخل اسلام ہونے کے منطقی دلائل تاریخ کے اوراق سے کس طرح چن کر لاتے ہیں ،ملاحظہ ہو:۱۶؂
کوریوں اور جلاہوں کی بستیاں پنجاب سے بنگال تک کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں پورے پورے قصبے ان سے آباد ہیں ،شمالی ہندوستان میں بہار اور بنگال تک ترکوں کی حکمرانی، پرتھوی راج کی شکست (۱۱۹۲ء) کے ساتھ پہنچی۔ ۱۱۹۹ء میں قطب الدین ایبک نے بنارس فتح کیا اور اس کے فوراًہی بعد محمد بختیار نے بہار کو تہ تیغ کیا اور نالندہ کی مشہور عالم یونیورسٹی کو خاک میں ملا دیا۔بودھ بھکشوؤں کو قتل کردیا اور کتابوں کو آگ لگا دی۔ اس طرح بدھ دھرم جس کا زوال بہت پہلے سے شروع ہو گیا تھااور آٹھویں صدی تک مکمل ہو چکا تھا ،بارہویں صدی کے خاتمے پر تقریباً نیست و نابود ہوگیااور نالندہ کے بچے کھچے بھکشونیپال اور تبت کی طرف بھاگ گئے۔بدھ مذہب کے افسوسناک زوال کے بعد ہندوستان کے نیچ ذات کے اچھوتوں کے لیے اسلام ہی ایک پناہ گاہ رہ گیاتھا۔ترک حکمرانوں نے، جومسلمان سے بڑھ کے فاتح اور حکمراں تھے وہ اپنے طبقاتی مفاد کو مذہب پر ترجیح دیتے تھے۔اسلام پر ایمان لے آنے والے محکوموں کو برابری کا درجہ نہیں دیا۔وہ اب بھی کوری سے جلاہے ہو جانے کے بعد بھی کمینے ہی سمجھے جاتے تھے۔اس لیے ان کی آخری پناہ گاہیں بھگتی اور تصوف کی پریم نگریاں بن گئیں اور ان دونوں خدا پرست اور انسانیت دوست تحریکوں کا حسین امتزاج کبیر داس اور ان کی شاعری کی شکل میں ظاہر ہوا‘‘۔
کبیر کے مذکورہ بالا پداور سردار کے تاریخی حوالے کبیر کے جلاہا ہونے کی ایک جواز تو فراہم کرتے ہیں البتہ ان سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ ان کی پیدائش بھی جولاہے کے گھر میں ہوئی تھی۔واضح ثبوتوں کی عدم موجودگی میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی ولادت کا قضیہ مشکوک ہے البتہ یہ تقریباًیقینی ہے کی وہ ناجائز رشتے کی اولاد تھے اور نیرو اور نیما نے ان کی پرورش کی۔
اسی طرح سے کبیر داس کے دو پدوں میں ترتیب وار ’کوری‘ بھی آئے ہیں جس سے سردار کے مذکورہ بالا تاریخی حوالے کو تقویت بھی ملتی ہے ؂
’’کہے کبیرا کوری‘‘اور’’سوتے سوت ملائے کوری‘‘
سردار کا خیال ہے کہ کبیر ایک مسلمان صوفی تھے جو ہندو بھکتی کی زبان میں بات کرتے تھے۔ باربار جولاہا کا لفظ استعمال کرنے پر سردار خیال ظاہر کرتے ہیں کہ بھلے ہی کبیر نے ہندو دھج اپنا رکھی تھی،انھوں نے اسلام کو ترک نہیں کیا تھا۔سردار انھیں ہندو مسلم اتحاد کا حسین مظہر قرار دیا ہے۔یہاں سردارباتوں باتوں میں اس جانب بھی اشارہ کرجاتے ہیں جو زیر مطالعہ کتاب کی تخلیق کا محرک بنی۔وہ ہے ہندومسلم اتحاد کے گمشدہ بلکہ فراموش کردہ مشترکہ تہذیب کے نادر نمونوں کو منظرعام پر لاکر ہندوستان کی موجودہ فضا کو کسی حد تک مسموم ہونے سے بچانا۔لکھتے ہیں:۱۷؂
’’اس عہد میں جب تک حکمرانو ں کی تلوار ہندوستان کے سر پر چمک رہی تھی۔اس مسلمان جولاہے کے حرف محبت میں کتنی کشش ہوگی جس نے اپنے آپ کو سر سے پاؤں تک ہندوؤں کے رنگ میں رنگ لیا تھا۔اور یہ بھی یقین کیا جا سکتا ہے کہ کبیرسے آشنا ہونے کے بعد عام ہندو،عام مسلمان سے نفرت نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
ہندوستان میں بالخصوص ۱۹۴۷ء کے بعد جس طرح سے ہندومسلم کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کی گئیں،دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔کہیں نہ کہیں اس نفرت بھرے ماحول کوکچھ سرد کرنے کے مقصد سے ہی سردار نے کبیر کو اپنا موضوع چناتاکہ عام لوگ کبیر کے حرف محبت سے آشنا ہو سکیں۔اور اسے فارسی اور دیوناگری دونوں رسم الخط میں پیش کرنے کا مقصد بھی یہی جان پڑتا ہے کہ بیک وقت اس سے ہندو اور مسلمان دونوں دونوں کو روشناس کرایا جا سکے۔سردار جعفری نے بڑی کامیابی کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ کبیر کے یہاں نہ صرف مسلمانی روایت پائی جاتی ہے بلکہ وہ انھیں ایک موحدشکل میں دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ستیندر نے اپنے مضمون ’کبیر:جیون پریچے‘ میں کبیر کے ایک معاصرسنت ریداس کا قول نقل کیا ہے:۱۸؂
جاکیں عید بقریدنت گورے بدھ کریں مانیے سیش سہید پیروں
اس کے بعد لکھتے ہیں،ترجمہ:
’’اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ کبیر کی ولادے خالص مسلم گھرانے میں ہوئی تھی۔وہ جنم سے مسلمان تھے۔اس نظریے کو ماننے والے کبیر پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے
یہاں قرآن سے مشابہت دکھاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ مشابہت اتفاقاً نہیں آئی بلکہ کبیر کے گہرے مسلمانی اقدار اور عقائد کے سبب ہیں۔ادھر کبیر کی ہی ساکھی میں وہ واضح طور پر کہتے ہیں’میں نہ ہندو ہوں اور نہ مسلمان‘ اس کے جواب میں انھیں مسلمان ماننے والے کہتے ہیں کہ کبیر جنم سے مسلمان ہوتے ہوئے بھی ’’زندیق‘‘ یا ’’زند‘‘ تھے۔‘‘
کبیر کہتے ہیں ؂
کہے کبیر ہمارے گووند ،چوتھے پد میں جن کا زند
خاندان: مورخین کے مطابق ان کی بیوی کا نام ’لوئی‘تھا جس سے دو اولادیں ہوئیں،کمال اور کمالی۔کچھ ناقدین نے انھیں ان کی شاگرد دوست قرار دیتے ہیں ۔لیکن خود کبیر نے ان کے تعلق سے جو باتیں لکھی ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ شاگرد دوست تو تھیں ہی ساتھ ہی ان کی بیوی بھی تھیں۔اس کے علاوہ کچھ لوگ ان کی ایک سے زیادہ ،دو یا تین بیویاں ہونے کا بھی اندازہ لگاتے ہیں۔خود کبیر کے ایک پد سے پتا چلتا ہے کہ ان کی دو منکوحہ بیویوں میں سے پہلی کو کسی سبب کبیر ناپسند کرتے تھے جب کہ دوسری بیوی سے ان کی اولادیں ہویں۔اسی پد سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی کو کسی اور نے حاصل کر لیا جس پر کبیر خوش بھی دکھائی دیتے ہیں۔البتہ بقول پرشورام چترویدی ان کی دو بیویوں کا مطلب مجازی بھی ہو سکتا ہے ۔ اس صورت میں پہلی ’مایا‘ اور دوسری ’بھکتی‘ ہوں گی۱۹؂۔(ان کی ایک بیوی ’دھنیا‘ کا بھی کہیں کہیں ذکر ملتا ہے جسے کبیر نے ’رام جنیا‘ کا نام دے دیا تھا)لوئی کے تعلق سے ڈاکٹر شیام سندر داس لکھتے ہیں:۲۰؂
’’لوئی ایک بن کھنڈی بیراگی کی پرورش کی ہوئی لڑکی تھی۔وہ(لوئی)اس بیراگی کو اسنان کرتے وقت لوئی میں لپٹی اور ٹوکری میں رکھی ہوئی گنگا جی میں بہتی ہوئی ملی تھی۔لوئی میں لپٹی ہوئی ملنے کی وجہ سے ہی اس کا نام لوئی پڑا ۔بن کھنڈی بیراگی کی موت کے بعد ایک دن کبیر ان کی کٹیا میں گئے وہاں دیگر سنتوں کے ساتھ انھیں بھی دودھ پینے کو دیا گیا۔اوروں نے تو دودھ پی لیا پر کبیر نے اپنے حصے کا رکھ چھوڑا۔ پوچھنے پر انھوں نے کہا کہ گنگا پار ایک سادھو آرہے ہیں ۔انھیں کے لیے رکھ چھوڑا
ہے۔تھوڑی دیر میں سچ مچ ایک سادھو آپہنچا جس سے دیگر سادھو کبیر کی سچائی پر حیرت
میں پڑ گئے ۔اسی دن سے لوئی ان کے ساتھ ہولی‘‘۔
وفات: ان کی پیدائش ہی کی طرح ان کی وفات کے باب میں بھی اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔کچھ مورخین نے ان کی وفات سم وت ۱۵۷۵ ماگھ شکل ایکادشی بدھوار کو مانتے ہیں تو اکثر ۱۵۰۵سم وت یا اس سے علاوہ کوئی اور تاریخ مانتے ہیں۔ان دو تاریخوں میں ہی ستر برسوں کا فاصلہ لگتا ہے۔اگر کبیر کی وفات ۱۵۰۵سم وت ہی مان لیا جائے تو ان کی کل عمر چھیالیس سال ہی ہوگی۔اس رائے کو ماننے والے مورخوں میں ڈاکٹر فیور ہیں۔نواب بجلی خان نے سم وت ۱۵۰۷ میں بستی ضلع کے عامی ندی کی ساحل پر کبیر داس کا روضہ بنوایا تھا۔ ڈاکٹر شیام سندر داس نے ثبوتوں کی کمی کے سبب اس کو رد کیا ہے۔
کبیر داس نے کاشی کیوں چھوڑا؟ اس کے پیچھے بھی متعدد اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔سردار نے اسے کبیر کے انقلابی ادا سے تعبیر کیا ہے۔ڈاکٹر ستیندر نے اپنے مضمون’’کبیر:جیون پریچے‘‘ میں ایک پد نقل کرتے ہیں:۲۱؂
جیوں جل چھوڑی باہر بھیو مینا،پورب جنم ہو تپ کا ہینا
اب کہو رام کون گت موری،تجیلے بنارس متی بھئی تھوری
سکل جنم سیو پوری گنوایا ، مرتی بار مگہر اٹھ آیا
بہت ورش طے کیا ، مرن بھیا مگہر کو باسی
کاسی مگہر سم بیچاری ،بھگت کیسے اترس پاری
کہو گرو بھاجی سیو سب کو جانے، مواکبیر رمت شری رامے
اس پد سے یہ نتیجہ نکالا کہ بنارس جہاں پر کہ کبیر کی زندگی کا زیادہ تر وقت گذرا ، وہ اسے بہت پیار کرتے تھے۔لیکن انھیں اسے چھوڑ کر مگہر کیو ں جانا پڑا ؟ اس سلسلے میں مختلف رائیں پائی جاتی ہیں۔مثلاً ایک تو کبیر کا وہ پد ؂
جو کاسی تن تجے کبیرا، تو رامہی کون نہورا
چرن برد کاسی کو نا دیہوں ،کہے کبیر بھلے نرکہیں جیہوں
ان دو پدوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کبیر نے کاشی اس لیے چھوڑی کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بھگوان کے بھروسے رہنے والا شخص خواہ کاشی سے باہر بھی اپنی جان دیتا ہے تو اسے رام کا دھام ملے گا۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا ماننا تھا کہ رام پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر ستیندر نے یہ سوال بھی کیا ہے کہ وہ محض رام کا بھروسہ ثابت کرنے کے لیے ہی اپنی جان سی عزیز کاشی کو کیوں چھوڑتے؟لہٰذا اس مسئلے کا ایک دوسرا حل یہ ہوسکتا ہے، اس کے ثبوت میں کبیر کا یہ پد نقل کیا جاتا ہے ؂
کہا اپرادھ سنت ہو کینھا، باندھ پوٹ کنجرکوں دینھا
کنجر پوٹ بہو بندن کرے اجہوں نہ سوجھے کاضی اندھیرے
تین بیر پتیارا لینھا، من کٹھور اجہوں نہ پتینا
اس پد کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ کسی قاضی نے کبیر کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ہاتھی کے پیر کے نیچے ڈال دیا تھا۔ہاتھی کو جب روندنے کے لیے اکسایا گیا تو اس نے پوٹلی بنے ہوئے کبیر کو پہچان لیا اور نہیں کچلا،قاضی نے مسلسل تین کوششیں کیں لیکن سب بے کار گئیں۔اسی سلسلے میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ کبیر داس سکندر لودی کے زمانے میں تھے اور لودی کے سزایافتہ بھی تھے اور اسی سزا کی وجہ سے ہی کبیر داس نے مجبوراً کاشی کو چھوڑ دیا ۔سکندر لودی کی حکومت کا دورانیہ۱۵۱۷ء مطابق سم وت ۱۵۷۴ تا ۱۵۲۶ء مطابق ۱۵۸۳ سم وت تک مانا جاتا ہے۔اس صورت میں اگر کبیر کی وفات ۱۵۰۵ سم وت مان لیا جائے تو سکندر لودی کے عہد میں ان کا موجود ہو ناناممکن ہوجاتا ہے۔
اسی طرح سے گرو نانک نے کبیر کی کئی ساکھیوں اور پدوں کا تذکرہ کیا ہے۔اور گرونانک کی ولادت سم وت ۱۵۲۶ میں ہوئی اور وفات ۱۵۹۶ سم وت میں۔کہا جاتا ہے کہ جب گرونانک ۲۷ برس کے تھے تب ان کی ملاقات کبیر سے ہوئی تھی۔گرونانک پر کبیر کے گہرے اثرات کو دیکھتے ہوئے ان کی یہ ملاقات صحیح معلوم ہوتی ہے۔اس صورت میں کبیر کے سم وت ۱۵۵۶ تک زندہ رہنا ماننا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ اننت داس اپنے ’’کبیر پریچے ‘‘ میں لکھتے ہیں:۲۲؂
’’کبیر بیس برس کی آیو میں چیتن ہوئے تھے اور سو ورش تک بھکتی کرنے کے بعد انھوں نے مکتی پائی‘‘
اس طرح کبیر کی کل عمر ایک سو بیس سال ہوتی ہے۔
کبیر کی ولادت اور ان کی وفات کے سلسلے میں چند اہم رائیں ذیل میں نقل کی جاتی ہیں ،ملاحظہ ہو:
۱۔ کبیر کسوٹی۔ ولادت ۱۴۵۵سم وت (۱۸۹۸ء) اور وفات ۱۵۷۵سم وت (۱۴۹۴ء)۔
۲۔ بھکتی سدھا۔ ۱۴۵۱سم وت(۱۳۹۴ء) اور ۱۵۵۲سم وت (۱۴۹۴ء)۔
۳۔ ڈاکٹر ہنٹر ولادت ۱۴۳۴سم وت (۱۳۸۰ء)۔
۴۔ ولسن وفات ۱۴۰۵ سم وت (۱۴۴۸ء)
۵۔ کبیر اینڈ دی کبیر پنتھ ،ولادت ۱۴۹۷سم وت (۱۴۴۰ء)،وفات ۱۵۷۵سم وت(۱۵۱۸ء)۔
ان کی وفات کے سلسلے میں بھی متعدد افسانے وضع کیے گئے۔کبیر بھکتوں نے تو اسے خدائی اور مافوق فطری بنا دیا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ جب کبیر کی وفات ہوئی تو ان کی لاش پر ہندوؤں اور مسلمانوں نے تلواریں کھینچ لیں۔ہندوان کی لاش کو جلانا چاہتے تھے اور مسلمان اسے اسلامی طریقے کے مطابق دفن کرنا۔لیکن کبیر جو اپنی پوری زندگی میں انسانیت کے بیچ کسی بھی مذہب کی دیوار کھڑی کرنے کے قائل نہ تھے ،جس طرح ان کی پوری زندگی ذات پات اور مذہب وملت سے بالاتر خالص انسانی محبت سے عبارت تھی ،موت کے بعد بھی کچھ ایسا ہی ہوا جس سے دونوں مذاہب کے ماننے والوں کی خواہش پوری ہوگئی اور جھگڑا بھی بڑی خوش اسلوبی سے دور ہو گیا۔ہوا یوں کہ کبیر کی لاش پھولوں کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔جسے دونوں فریقین نے آدھا آدھا بانٹ لیا۔اس طرح ہندو رسم بھی ادا ہو گئی اور اسلامی رسم بھی۔تحقیق کے میدان میں حقائق کے متلاشی کے لیے یہ واقعہ معتبر نہیں ہو سکتا۔لیکن جب اصل حقیقت تک رسائی نہ ہو سکتی ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ چنانچہ سردار نے بھی زیر مطالعہ کتاب میں اسے یوں بیان کرتے ہیں:۲۳؂
’’کہا جاتا ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی لاش پر ہندوؤں اور مسلمانوں نے تلواریں کھینچ لیں ۔ہندو ان کی لاش کو جلانا چاہتے تھے اور مسلمان دفن کرنا چاہتے تھے۔لیکن اس جھگڑے کا فیصلہ اس طرح ہوا کہ کبیر کی لاش پھولوں کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوگئی جسے دونوں فریقین نے آدھا آدھا بانٹ لیا۔اس طرح ہندو رسم بھی ادا ہو گئی اور مسلمان رسم بھی اور باہمی اختلاف ختم ہو گیا۔اب مگہر میں املی کے ایک
درخت کے نیچے کبیر کا مزار ہے اور بنارس میں اک مٹھ ہے جو کبیر چوڑے کے نام سے مشہور ہے‘‘۔
البتہ اس اقتباس کی ابتدا ہی ’کہا جاتا ہے‘ سے کر کے سردار کسی حد تک اپنے اوپر عاید ہونے والی ذمہ داری کو کم کر لیتے ہیں۔
استاد اوررامانند سے رشتہ: مشہور ہے کہ جب کبیر بھجن گا گا کر لوگوں کو درس دینے لگے تب انھیں پتہ چلا کہ بنا کسی گرو سے تعلیم حاصل کیے ہمارا درس مکمل نہیں ہوگا کیوں کہ لوگ انھیں ’’نگڑا‘‘ یا ’’بے استادا‘‘ کہہ کر چڑاتے تھے۔لوگوں کا کہنا تھا کہ جس نے خود کسی استاد سے درس نہ لی ہو وہ دوسروں کو کیا درس دے گا۔الغرض کبیر کو کسی کو اپنا گرو بنانے کی فکر ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ اس وقت سوامی رامانند کاشی میں مشہور گرو اور سنت تھے۔لہٰذا کبیر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن انھوں نے کبیر کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنی شاگردی میں لینے سے انکار کر دیا۔اس پر کبیر نے ایک چال چلی جو اپنا کام کر گئی۔رامانند بیچ گنگا گھاٹ پر روزانہ صبح سویرے اسنان کرنے جایا کرتے تھے۔کبیر اسی گھاٹ کی سیڑھیوں پر پہلے سے جاکر لیٹ گئے۔سوامی جی اسنان کر کے لوٹے تو انھیں اندھیرے میں نہ دیکھ سکے اور ان کا پاؤں کبیر کے سر پر پڑ گیا جس پر سوامی جی کے منھ سے ’رام رام‘ نکل گیا۔تبھی کبیر نے اٹھ کر ان کے پاؤں پکڑ لیے اور کہا کہ آپ ’رام رام‘ کا منتر دے کر آج میرے گرو ہوئے ہیں۔رامانند جی سے کوئی جواب نہ بنا تبھی سے کبیر نے خود کو رامانند کا شاگرد مشہور کردیا۔
کبیر ان پڑھ تھے،اس کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں۔سردار بھی اس کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی اس روایت کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ کبیر ایک مسلم صوفی پیر تقی کے شاگرد بھی رہ چکے ہیں۔البتہ کبیر اپنی نظموں میں رامانند کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔جب کہ پیر تقی کے تعلق سے اتنی عقیدت نظر نہیں آتی ہے۔
کبیر کے رامانند کا شاگرد ہونے کی بات متعدد کتابوں میں مذکور ہے ۔سردار اس کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کبیر کے ابتدائی دور کے کلام میں رامانند کے اثرات زیادہ دکھائی دیتے ہیں اس کے بعد رفتہ رفتہ اس میں کمی آتی جاتی ہے۔اس سے سردار نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کبیر رامانند کے شاگرد تو ہوئے البتہ یہ مدت بہت مختصر ہے۔
شیام سندر داس اسے غلط مانتے ہیں( ۲۴؂)۔ان کا خیال ہے کہ رامانند کبیر کے استاد نہیں تھے۔اپنے اس دعوے میں انھوں نے متعدد دلیلیں بھی پیش کی ہیں ۔جن میں سے چند اہم تفصیلات کا تذکرہ ذیل میں اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
’کاشی میں ہم پرگٹ بھئے ہیں راما نند چتائے‘ کبیر کا یہ جملہ اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ رامانند جی ان کے گرو تھے۔بقول ڈاکٹر شیام سندر داس جن مخطوطوں کی بنیاد پر یہ گرنتھا ولی ترتیب دی گئی ہے اس میں یہ جملہ نہیں ہے اور نہ یہ گرنتھ صاحب میں ہی ملتا ہے۔لہٰذا اس کو ثبوت مان کر اس کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔فقط رائج کہانیوں کی بنیاد پر رامانند جی کو ان کا گرو مان لینا ٹھیک نہیں۔یہ قصے بھی تاریخی تحقیق میں درست نہیں ٹھرتے۔رامانند جی کی موت بہت بعد میں بھی ماننے سے سم وت ۱۴۶۷ ہی ہوتی ہے ۔البتہ اس سے چودہ یا پندرہ سال قبل بھی ان کے زندہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔اس وقت کبیر کی عمر گیارہ سال کی رہی ہوگی۔کیوں کہ ہم اوپران کا جنم سم وت ۱۴۵۶ ثابت کر آئے ہیں۔۔۔اور اگر رامانند کی موت ۱۴۵۳سم وت کو ہوئی تو یہ قصے سرے سے جھوٹے ٹہرتے ہیں ۔کیوں کہ اس وقت تو کبیر کو دنیا میں آنے کے لیے ابھی تین چار سال باقی رہے ہوں گے۔
کبیر کے رامانند کا شاگرد ہونے کا معاملہ مشکوک ہے۔البتہ جب تک اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں ہوتا ہم اسے بالکل غلط بھی قرار نہیں دے سکتے۔ہو سکتا ہو بچپن میں ہی رامانند سے کچھ بات چتے یا وعظ و نصیحت سنی ہو۔’’گرو کے سبد مرا من لگا‘‘یا ان کے بارے میں دوسروں سے سنی ہو اور ان باتوں نے ان پر اتناگہرا اثر ڈالا ہو کہ جس کے چلتے انھوں نے آگے چل کر انھیں اپنا استاد مان لیا ہو۔اس سلسلے میں ڈاکٹر شیام سندر داس لکھتے ہیں:۲۵؂
’’کبیر مسلمان ماں باپ کی اولاد ہوں یا نہ ہوں البتہ مسلمان کے گھر میں پرورش پانے کے باوجود ان کا ہندوانہ نظریہ ان پر بچپن ہی سے کسی بااثر ہندو کا اثر ہونا ظاہر کرتا ہے‘‘
کبیر کی ایک ساکھی اس ضمن میں نقل کی جاتی ہے :۲۶؂
ہم بھی پاہن پوجتے ہوتے بن کے روجھ
ست گرو کی کرپا بھئی سرتیں اترئیا بوجھ
لیکن شیام سندر داس اور شری یگل آنند جی کی پیش کی گئی کبیر کی ساکھی دونوں میں اس بات کی وضاحت نہیں ملتی کہ وہ ستیہ گرو آخر کون تھے؟ بہرحال ڈاکٹر دھرم ویر اپنی کتاب ’’کبیر اور رامانند :کوندنتیاں‘‘ میں طویل بحث کے بعد یہ ثابت کرتے ہیں کہ رامانند کے کبیر کا استاد ہونے کی دلیل میں جو ساکھی پیش کی جاتی ہے ؂
ستیہ گرو کے پرتاپ سے مٹ گیو سب دکھ دند
کہہ کبیر اودھا مٹی، گرو ملیا رامانند
یہ ساکھی شری یگل آنند جی کی مرتب کردہ ’’ستیہ کبیر کی ساکھی‘‘ سے ماخوذ ہے۔جو کہ ۱۶۰۰ سے ۱۸۴۲ کے درمیان کی تخلیق ہے۔جس کو اس بات کے لیے حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ رامانند کبیر کے استاد تھے مگر اسے دھرم ویر نے کبیر سے منسوب کی ہوئی جعلی کتاب قرار دی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ یہ کتاب کبیر کی نہیں ہے بلکہ غلط ان سے منسوب کردی گئی ہے۔ لکھتے ہیں :۲۷؂
’’حیرت ہے کہ ڈاکٹر ترویدی نے اتنی ناقص کتاب کو کبیر کی بانی مانا ہے‘‘۔
اس کے جعلی ہونے کے ثبوت میں دھرم ویر نے اس میں شامل دو ساکھیوں کا ذکر کیا ہے۔جن میں کبیر کے عام نظریہ کے خلاف دوبارہ جنم لینے کی بات کہی گئی ہے۔ملاحظہ ہو ؂
۱۔ گرو کومانس جوگنے، چرنا برت کوپان
تے نر نرکے جاہگیں ،جنم جنم ہوئے سوان
۲۔ جوکامنی پردہ رہے ،سنے نہ گرو مکھ بات
سو تو ہوگی شکری، پھرے ادھارے گات
اس پر دھرم ویر کو اعتراض ہے کہ کیا کبیر اس پر یقین رکھتے تھے کہ انسان گناہ کرنے کے بعد اگلے
جنم میں ’’کتا‘‘، ’’عورت‘‘ اور ’’سوری‘‘ کی شکل میں پیدا ہوتا ہے؟کیا دوبارہ جنم کونہ ماننے والے کبیر اس قسم کی ساکھی گا سکتے تھے؟یہ اور ان جیسی دیگر ساکھیوں کے حوالے سے دھرم ویر اس کتاب کو جعلی قرار دیتے ہیں ۔اور ساتھ ہی اس بات کا بھی دعوہ کرتے ہیں کہ اس کتاب کے علاوہ دوسری کسی کتاب میں کبیر کے رامانند کا شاگرد ہونے کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔اس کے علاوہ دھرم ویر نے رامانند کو کبیر کا استاد نہ ہونے کے متعدد اسباب اور دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ رامانند کبیر کے استاد نہیں تھے۔
طویل بحث و مباحثے کے بعد دھرم ویر ایک سوال قائم کرتے ہیں’’کیا کوئی برہمن گرو کسی اچھوت کو یہ گیان دے سکتا ہے کہ ’تو اچھوت نہیں ہے اور تو ایشور ہے؟‘‘
رامانند کے خیال سے کبیر کے خیال کا تعلق: جیسا کہ اوپر کی تفصیل سے یہ بات سامنے آئی کہ کبیر کے استاد رامانند تھے یہ معاملہ مشتبہ ہے۔لیکن اس پوری بحث کا حاصل ہے کہ ہندی اور اردو کی تحقیق ابھی اسی نتیجہ تک پہنچ سکی ہے۔جس کی بنیاد پر کچھ بھی پورے وثوق کے ساتھ کہنا مشکل ہے۔دوران مطالعہ کئی متضاد رایوں سے بھی سامنا ہوتا ہے،اور کئی غیر فطری واقعات سے بھی۔رہی بات دونوں کے خیالات میں باہم تعلق کی، تو یہ بات یقینی ہے کہ ان کے فکری ڈانڈے کہیں نہ کہیں جا ایک دوسرے سے ضرور ملتے ہیں، یہ یکسانیت جزوی ہی سہی۔ جس کی بنا پر انھیں ان کا شاگرد قرار دیا جانے لگا۔اس پر تفصیل سے گفتگو ہو گی ، لیکن اس سے قبل ایک سوال کہ کیا محض خیالات میں یکسانیت سے کسی کو کسی کا شاگرد مانا جا سکتا ہے؟بہرحال اس تعلق کو سمجھنے کے لیے ذرا تفصیل میں جانا پڑے گا۔
بھکتی تحریک کے آغاز سے کافی عرصہ قبل ہی بجریانی سدھوں اور ناتھ پنتھی فقراء نے مذہبی رسوم اور عبادات کی مخالفت کرنا شروع کر دی تھی۔ وہ مذہبی ظاہرداری کے خلاف تھے۔ تیرتھ یاترا، اشنان، بت پرستی، مندروں کی زیارت وغیرہ جیسے رسوم کو انھوں نے غیر ضروری قرار دے دیا تھا۔اور ان کی یہ تحریک کافی مقبول بھی ہوئی۔صوفیا کے مانند یہ بھی مذہب کو رسوم عبادات سے بالاتر تصور کرتے تھے۔انھوں نے ویشنودھرم کے بنائے ہوئے ضوابط کو ختم کرنے کی تعلیم دی۔کیوں کی وہ انسانی روح کے انبساط کے لیے نروان یا نجات کو ضروری جانتے تھے۔جو مذہبی ظاہر داریوں سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔گویا یوں کہا جا سکتا ہے کہ اب مسلم تصوف کے ساتھ ہندو بھکتی بھی شروع ہو گئی تھی جو دھیرے دھیرے ایک دوسرے کو متاثر بھی کرتے رہے۔ادھر ہندوستان میں مسلمانوں کی طاقت استوار ہوئی۔اسلامی تعلیمات عام ہوئیں۔بت شکنی کی ہوصلہ افزائی ہوئی۔مادی حالت بھی عام آدمی کے لیے حوصلہ شکن تھے۔ایسے میں ہندؤں کی اپنے مذہب کی روحانی قوت پر شبہ ہونے لگا اوران کی عقیدت ڈاواں ڈول ہونے لگی۔ان حالات میں وشنو فلسفہ کی سخت گیری سے اختلاف بڑھنے لگا۔ان حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے محمد حسن لکھتے ہیں:۲۸؂
’’جلد ہی وشنو علما کو یہ محسوس ہو گیا کہ اگر اس وقت عقیدت اور بھکتی کے ذریعہ حوصلہ نہ پیدا کیا گیا تو مادی حالات کی ہمت شکنی انھیں مذہب سے بددل کر دے گی۔بھکتی نے ان حالات سے مقابلے کی دعوت نہیں دی ،اس نے طاقت سے مخالف قوتوں کو للکارنے کی ہمت نہیں بخشی ہاں ان مصائب کو برداشت کرنے کی طاقت اور حوصلہ ضرور دیا‘‘۔
بھکتی تحریک کا کب، کیسے اور کن حالات میں آغاز ہوا اور اس کی ارتقاکے مختلف مراحل کیا رہے اس پر بحث کرتے ہوئے محمد حسن آگے لکھتے ہیں:۲۹؂
’’بھگتی کا فلسفہ یوں تو رامانج چاریہ (سم وت ۱۰۷۳)ہی کی تعلیمات سے شروع ہوتا ہے۔لیکن گجرات کے سوامی مدھواچاریہ (سم وت ۱۲۵۴۔۱۳۳۳)اور مشرقی ہند کے جے دیو کے بغیر یہ فلسفہ ہمہ گیر نہ ہو سکتا تھا۔پندرہویں صدی میں رامانج چاریہ کے چیلوں میں سوامی رامانند ہوئے جنھوں نے وشنو تعلیمات کے احیا کی تحریک نئے سرے سے کھڑی کر دی۔دوسری طرف بلبھ اچاریہ نے کرشن جی کوعوام کا نجات دہندہ قرار دے کر ان کی تعلیمات اور شخصیت کو نیا روپ بخشا۔اس طرح وشنوئی احیا کے ساتھ ساتھ کرشن بھکتی اور رام بھکتی کی دو شاخیں ہندی شاعری میں پیدا ہوئیں جنھوں نے ایشور کی دو صفات ’حق‘اور ’انبساط مکمل‘ کو ان دو شخصیتوں کے ذریعہ ظاہر کیا‘‘۔
بھکتی تحریک کی چار شاخیں قرار دی گئیں:
(۱) گیانا شری سلسلہ
(۲) پریم مارگی یا صوفیوں کا سلسلہ
(۳) رام بھکتی سلسلہ
(۴) کرشن بھکتی سلسلہ
انھیں بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱) سگڑ بھکتی، جس میں رام بھکتی اور کرشن بھکتی سلسلہ شامل ہے۔
(۲) نرگڑ بھکتی، جس میں اول الذکر دو سلسلے یعنی گیانا شری سلسلہ اور پریم مارگی یا صوفیوں کا سلسلہ شامل ہیں۔
نرگڑ بھکتی: یہ لوگ خدا کو کسی مجسم پیکر کی صورت میں نہیں دیکھتے بلکہ اسے اس کی صفات کی وجہ سے جانتے ہیں۔نرگن کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد حسن لکھتے ہیں:۳۰؂
’’وہ لوگ جو معبود حقیقی کا تصور کسی مادی پیکر کی شکل میں نہیں کرتے اور اسے ایک نور مجسم قرار دیتے ہیں جس کی کوئی شکل وصورت نہیں۔انھیں ہندی میں نرگن وادی قرار دیا گیا‘‘۔
رامانج جنھوں نے شنکرآچاریہ کے ’ادویت‘ کے برخلاف ’وششٹ ادویت ‘ کا نظریہ پیش کیااور ’آتمن‘ اور ’مایا‘ کو ’برہمن‘(ذات مطلق)کے صفات قرار دیا ہے۔ان کے تعلق سے محمد حسن لکھتے ہیں:۳۱؂
’’رامانج نے عالم ظاہر کو جسم اور ایشور کو روح قرار دیا ۔فرد کو بھی ایک درجہ دیا گیا حالانکہ وہ اپنی تکمیل کے لیے دوسرے مختلف عناصر کی مرہون منت ہے لیکن پھر بھی فرد بھکتی کے ذریعہ حقیقت عظمیٰ سے وصال حاصل کر سکتا ہے۔رامانج کا موضوع ایشور اور افراد کا روحانی تعلق ہے اور وہ بھکتی کے راستے اور اس تک پہنچنے کے سارے وسائل کی پوری طرح ضابطہ بندی کرتے ہیں‘‘۔
اس طرح سے پہلے ہمارے سامنے ’’ادویت واد‘‘ کانظریہ آتا ہے جس کے مطابق خدا ہی کا وجود مطلق ہے اور بقیہ تمام چیزوں کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے،عالم ظاہر محض وہم وخیال ہے۔اورپھر اس فلسفہ کے برخلاف ’’وششٹ ادویت واد‘‘ کا آغاز ہوا۔محمد حسن آگے رامانند کے تعلق سے لکھتے ہیں:۳۲؂
’’عام طور پرشمالی ہند میں وشنوئی تحریک کے احیاء کا علم بردار سوامی رامانند کو تسلیم کیا جاتا ہے۔۔۔سوامی رامانند کے عہد کے بارے میں اختلاف ہے لیکن تحقیق سے اب تک جو کچھ ثابت ہوسکا ہے اس کے لحاظ سے ان کا عہد پندرہویں صدی کی آخری چوتھائی اور سولہویں صدی کی تیسری چوتھائی قرار پاتاہے‘‘۔
اب جب کہ ہم نے وشنوی علما شنکرآچاریہ اور رامانج کے بالترتیب ’ادویت واد‘ اور ’وششٹ ادویت واد ‘کو سمجھ لیا تو پھربقول سردار جعفری ان کی معنوی اولاد سوامی رامانند اور کبیر کے درمیان پائی جانے والی فکری مماثلت اور اس کے ابعاد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رامانندنے’برہمن‘(ذات مطلق) کو دور آسمانوں سے اتار کر دنیا میں دشرتھ کے پتر رام چندر جی کی شکل میں مجسم کردیا۔ اور رام بھکتی کو نجات کا واحد راستہ قرار دیا ہے، ایشور کی بھکتی اور عبادت کو رام چندر کی بھکتی میں مضمر قرار دیا ہے۔اور انھیں کو آواگون کے چکر سے نجات دلا کر نروان کا راستہ دکھانے والا قرار دیا۔ ان کی عبادت کو عوام میں مقبول بنایا۔رامانند ہی کی طرح کبیر نے بھی رام نام کو اپنی اپاسنا کا محور و مرکز بنایا۔
رامانند اور کبیر میں یکسانیت یہی ہے کہ دونوں ’رام ‘نام کی عبادت کرتے ہیں۔لیکن یہاں یکسانیت فقط نام تک محدود ہے۔کیوں کہ رامانند ’رام ‘ جو سگن ہے ،دشرتھ کا بیٹا ہے،اس کی پوجا اور اپاسنا کرتے ہیں ۔جب کہ کبیر کا ’رام‘ مجسم نہیں ہے ، وہ نرگن ہے۔دشرتھ کا بیٹا نہیں ہے بلکہ وہ دوسرے ناموں کی طرح جلوہ حقیقی کا ایک نام ہے ۔وہی رام ہے،وہی رحیم ہے، وہی اللہ اور بھگوان ہے۔کبیر وحدت کے قائل ہیں اور پیکر سے آزاد خداکا تصور رکھتے ہیں۔رامانند کا ’رام‘اوتار گرہن کرتا ہے جب کہ کبیر کا ’رام ‘اوتار گرہن نہیں کرتا۔اس طرح سے معلوم ہوا کہ رامانند اور کبیر کے یہاں پائی جانے والی یکسانیت محض نام کی ہے۔آئندہ صفحات میں اس یکسانیت اور اس کی حقیقت کو مزید مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔پہلے کبیر کے رام کے تعلق سے ڈاکٹر دھرم ویر اپنی کتاب’’کبیراوررامانند: کوندنتیاں‘‘ کے پانچویں ادھیائے ’رام اور نرگن‘کا سرسری جائزہ لیتے ہیں جس میں وہ لکھتے ہیں:۳۳؂
’’۔۔۔دراصل کبیر اپنے بھگوان کی بھکتی نہیں کرتے بلکہ اپنے محبوب سے اتھاہ پریم کرتے ہیں‘‘۔کبیر کے رام نہ تو پرانوں کے ’دشرتھ ست‘ ہیں نہ ویدانتوں کے ’نرگن برہما‘ ہیں‘‘۔
ایک دوسرے مقام پر دھرم ویروشنو علما اور رامانند کے ’رام‘ اور کبیر کے ’رام‘ کے فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۳۴؂
’’کبیر کا ’نرگن رام‘اوتار گرہن نہیں کرتا جب کہ وشنو کا ’نرگن رام‘اوتار گرہن کرتا ہے۔ویدانت اور وشنو فلسفہ میں ’نرگن‘،’سگن‘ کی توسیع اور ’سگن‘ ’نرگن ‘کا اوتار ہے لیکن کبیر کے یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔کبیر کا ’نرگن‘’سگن‘ کو جانتا تک نہیں ہے جب کہ وشنوؤں کے نرگن رام کا کام بنا سگن بنے نہیں چلتا‘‘ ۔
یہ اور اس کے علاوہ ایسی متعدد مثالیں ہیں جو بظاہر دونوں میں یکساں معلوم ہوتی ہیں لیکن در حقیقت ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔سردار جعفری کبیر کی بھکتی پر مسلم تصوف کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کبیر کو حافظ اور رومی کے قریب قرار دیا ہے۔اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو کبیر شنکرآچاریہ کے مقابلے میں رامانج سے زیادہ قریب تر معلوم ہوتے ہیں۔آئیے اب کبیر کی بھکتی اور مسلم تصوف میں پائی جانے والی یکسانیت کو سمجھنے کے لیے محمد حسن کا یہ اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں:۳۵؂
’’۔۔۔ان (کبیر) کا یہ تصور اسلام اور ہندو مذہب دونوں سے جدا گانہ ہے۔ہندو مذہب کی بہت سی تعلیمات پر انھیں اعتقاد نہیں۔آواگون، تناسخ کے وہ سخت مخالف ہیں۔ذات پات کو بے کار سمجھتے ہیں۔تیرتھ یاترا،اشنان اور مورتی پوجا کو مذہب کے اجزاء تسلیم نہیں کرتے۔دوسری طرف اسلامی رسوم کو بھی صوفیوں کی طرح لغو جانتے ہیں۔نماز،روزہ،حج،قربانی اور زکوۃ ان کے نزدیک ایمان کے اجزاء نہیں بلکہ خدا تک پہنچنے کا ذریعہ محض عرفان نفس ہے‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف ہندوان سے نالاں رہتے تھے کہ وہ برہمن نہ ہو کر بھی جنیو پہنتے تھے اور مذہبی رسوم کی مخالفت کرتے تھے۔وہیں دوسری طرف مسلمان بھی کچھ انھیں اسباب سے ان کے مخالف تھے کہ وہ خدا کو ہندو دیوتاؤں کانام دیتے تھے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں دونوں مذاہب کے کچھ لوگ ان سے خفا تھے وہیں ان کے ماننے والے بھی دونوں مذاہب کے تھے۔بلکہ سکھ مذہب کے گرنتھ صاحب پر بھی ان کا صاف اثر دکھائی پڑتا ہے۔
کبیر کی تعلیمات میں تصوف، ناتھ پنتھیوں،اور ویدک اصولوں کا اثر صاف جھلکتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کبیر اس عظیم تہذیبی اختلاط کے سنگم کی حیثیت رکھتے ہیں جو مسلمانوں کے ہندوستان آمد کے بعد شروع ہوا تھا۔کبیر کی بانی کامجموعہ ’’بیجک‘‘ کے نام سے چھپا ہے جس کے تین حصے ہیں، ’رمینی‘، ’سبد ‘ اور ’ساکھی‘۔رمینی اور سبد کی زبان برج بھاشا ہے اور کہیں کہیں پوربی ہندی اور اودھی بھی استعمال کی گئی ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ زیادہ تر صوفیا اور بھگت دستکاروں یا سماج کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ اپنی مفلسی کے باوجود ترک دنیا اور بھگتی کی مددسے انقلابی حیثیت کے حامل ہو گئے۔ ظاہری مذہب کے پابند اور حکمراں طبقہ جہاں اونچ نیچ کی تفریق کرتے رہے وہیں ان صوفیا اور بھگتوں نے اس فرق کو مٹانے کا کام کیا۔یہ صوفیا مذہب کی ظاہر پرستی کے مخالف تھے اور عالمگیر انسانی اخوت کے قائل تھے۔ان صوفیا اور بھگتوں نے مال اور دولت کی محبت کو عشق حقیقی اور مجازی کے راہ کا روڑا جانا اور ترک دنیا کو اپنی تعلیمات کا بنیادی جزء بنایا۔اسی ضمن میں سردار جعفری نے جلال الدین رومی کی ایک مثال نقل کی ہے کہ انھوں نے’دولت کو اس کلاہ سے تشبیہ دی ہے جو گنجے کے سر کو چھپاتی ہے، خوبصورت زلفوں والے ننگے سر ہی اچھے لگتے ہیں۔۳۶؂
البتہ کبیر نے ترک دنیا کی تعلیم نہیں دی بلکہ وہ خود اس دنیا کے معاملات میں برابر کے شریک رہے، شادی کی، ان کی اولادیں ہوئیں، اورروزی روٹی چلانے کے لیے چرخہ چلاتے تھے۔سردار نے ان کے یہاں طبقاتی کشمکش کو اجاگر کیا ہے۔ان کے یہاں’’ اودھو مایا تجی نہ جائے‘‘ کا تصور پایا جاتا ہے۔مایا کو تجنے کے بجائے اسے فتح کرنے کا تصور پایا جاتا ہے۔سردار نے کبیر کے یہاں مایا کے تصور کو شنکرآچاریہ(آٹھویں صدی)کے ’ادویت واد‘اور ان کے نقاد رامانج (۱۱۷۵ء تا ۱۲۵۰ء) کے ’وشسٹ ادویت واد‘کے مابین باریک فرق کے ذریعہ سمجھانے کی کوشس کی ہے۔دونوں ہی اپنی شد کی تعلیم ،کہ برہمن ہی سب کچھ ہے اور وہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔لیکن جب اس کی تفسیر کی باری آتی ہے تو دونوں کے درمیان فرق نمایاں ہوجاتی ہے۔اس کی وضاحت کے لیے سردار کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:۳۷؂
’’شنکرآچاریہ کا کہنا ہے کہ چوں کہ برہمن(ذات مطلق)ہی حقیقت ہے اس لیے مادی دنیا (مایا،سنسار)کی اپنی کوئی حقیقت نہیں وہ صرف وہم و خیال (امتھیا)ہے۔اسے انھوں نے ’ادویت‘ کہا ہے۔(یعنی وہ وحدت جس میں دوئی کی سمائی نہیں ہے) لیکن رامانج کا کہنا ہے کہ برہمن(ذات مظلق)، آتمن(روح،خودی) اور مایا(سنسار) الگ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں الگ نہیں ہیں۔ کیوں کہ آتمن اور مایا دونوں برہمن کے ’وشیشن‘ (صفات)ہیں۔ گویا شنکرآچاریہ صفات سے انکار کرتے ہیں اور رامانج صفات کو عین ذات مانتے ہیں۔اس صورت میں برہمن کی وحدت باقی رہتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ آتمن(روح،خودی،فرد،جیو) کی حقیقت اور اصلیت بھی باقی رہتی ہے۔اس کو ’وششت ادویت‘ کہا گیا ہے۔‘‘
جب ہم شنکرآچاریہ کی فکرکا جائزہ لیتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ’مایا‘کی اپنی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے بلکہ یہ محض وہم ہے۔ ایسی صورت میں مایا کو تجنے یا فتح کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتااس کے برخلاف رامانج ’مایا‘کو اس کی حقیقی صورت میں تسلیم کرتے ہیں اور اسے ’برہمن‘(ذات مظلق) کی صفت قرار دیتے ہیں ایسی صورت میں اسے تجا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اسے داسی بنایا جاسکتا ہے۔ ان دونوں سے الگ کبیر ’مایا‘کو نہ تو تجنے کی بات کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے پیچھے بھاگتے ہیں بلکہ اسے فتح کرلیتے ہیں۔اس طرح سے کبیر کا راستہ دونوں کے بالکل درمیان سے ہوکر گذرجاتاہے۔ شنکرآچاریہ اور رامانج کے درمیان اس فرق کو محمد حسن نے ان لفظوں میں نمایاں کیا ہے:۳۸؂
’’شنکرآچاریہ نے دنیا کومایا قرار دے کر انفرادی روح کو کوئی خاص درجہ نہیں دیا تھا۔رامانج نے عالم ظاہر کو جسم اور ایشور کو روح قرار دیا۔فرد کو بھی ایک درجہ دیا گیا حالاں کہ وہ اپنی تکمیل کے لیے دوسرے مختلف عناصر کی مرہون منت ہے،لیکن پھر بھی فرد بھگتی کے ذریعہ حقیقت عظمیٰ سے وصال حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
منقولہ بالا دواقتباسات سے ان دونوں کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے۔یعنی شنکرآچاریہ نے صرف برہمن یا حقیقت عظمیٰ کی ذات کو حقیقی قرار دیا ہے۔اس کے علاوہ فرد اور سنسار کو وہم قرار دیا ہے۔اور اس فلسفے کو ’ادویت واد‘ کا نام دیا ہے۔جب کہ رامانج نے برہمن،آتمن اور مایا تینوں کے وجود کو
تسلیم کیا ہے۔اور ان کا خیال ہے کہ یہ تینوں ایک دوسرے سے الگ بھی نہیں ہیں۔بلکہ آتمن اور مایا دونوں برہمن کی صفات ہیں۔اور اس فلسفے کو ’وششت ادویت واد‘ کا نام دیا۔یعنی ذات مطلق کو تو دونوں ہی مانتے ہیں البتہ فرق اتنا ہے کہ ایک اس کے علاوہ دیگر کو وہم اور دھوکہ قرار دیتا ہے تو دوسرا ان چیزوں کو ذات مطلق کے صفات قرار دیتا ہے۔
اسی طرح سردار جعفری کو شنکراچاریہ کے یہاں غیر ہندو افکار کی آمیزش مشکل معلوم ہوتی ہے جب کہ رامانج کے فلسفہ کو بہت سی روایات کا سنگم قرار دیتے ہیں۔وہ رامانج کو جلال الدین رومی اور حافظ شیرازی کے قریب بھی پاتے ہیں۔
اب ان کے درمیان فرق کو ذہن میں رکھتے ہوئے کبیر کا مطالعہ کرتے ہیں تو پہلی نظر میں کبیر کو رامانج کے قریب پاتے ہیں لیکن انھیں پوری طرح سے رامانج کا شاگرد ماننا بھی مناسب نہیں ہے جس کا ذکر سردار نے بھی کیاہے۔رامانج کے اس فلسفے پر تبصرہ کرتے ہوئے سردار آگے لکھتے ہیں:۳۹؂
’’جیو اور مایا کو برہمن سے الگ پہچاننے کے بعد جیو کو حقیر اور مایا کو بے کار اور بدکار نہیں سمجھا جا سکتا۔اس طرح جیو کی اہمیت کا اعتراف فرد کی عظمت کا اعتراف ہے۔اور وہ فرد شودر بھی ہو سکتا ہے اوربرہمن بھی اور مسلمان بھی۔‘‘
یہاں تک تو ہمیں کبیر کے یہاں رامانج سے یکسانیت نظر آتی ہے کہ کبیر مایا کو تج دینے کی بات نہیں کرتے بلکہ اسے فتح کرنے کی بات کرتے ہیں۔کبیر کا ماننا ہے کہ مایا ہری بھکتوں کی چیزی(کنیز)بن جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ فرد کی اہمیت کو بھی یکساں طور پر مانتے ہیں۔ذات برادری اور مذہب وملت کے نام پر ان میں کسی قسم کی تفریق نہیں کرتے۔کبیر کے یہاں ترک دنیا تو نہیں ہے البتہ مایا کے پیچھے بھاگنے کا رویہ بھی نہیں ملتا۔وہ مایا کو ٹھگنی مانتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ مایا کی پوجا نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اسے تجا جا سکتا ہے۔بلکہ اس پر فتح حاصل کی جاتی ہے۔اسی طرح سے جب ’جیو‘(فرد) کی بات آتی ہے تو وہاں بھی یہ فرق نمایاں ہونے لگتا ہے کیوں کہ رامانج نے تو ’جیو‘اور ’مایا‘ کو الگ حقیقت مانتے ہوئے اسے ’برہمن‘(ذات مطلق) کا صفت قرار دے دیاایسی صورت میں فرد کے درمیاں اونچ نیچ اور ذات پات کی تفریق مناسب نہیں لگتی جب کہ رامانند کے یہاں یہ عقیدہ موجود ہے ۔اس کے برخلاف
کبیر کی تعلیمات نے حقیقی معنوں میں ذات پات، اونچ نیچ اور مذہب کی بنیاد پر فرد کے درمیان تفریق پر قدغن لگایا، وہ نرگن کا گیان کرنے کے ساتھ ہی سرگن کی سیوا کو بھی اپنا مذہب مانتے ہیں۔ وہ نہ پوجا پاٹ، نماز روزے اور دیگر مذہبی ظاہر پرستی کے قائل ہیں اور نہ ہی پہاڑوں پر جا بیٹھنے اور جنگلوں میں کھو جانے کے۔بلکہ ان کا ماننا ہے کہ خدا اسی دنیا میں ملتا ہے۔اسے وہ پاتا ہے جو دنیا میں رہ کر دنیا سے بے نیاز رہتا ہے۔یہاں آکر کبیر کا نقطہ نظر بالکل اسلامی معلوم ہوتا ہے۔کہ تقوی اسی کا نام ہے کہ انسان اسی دنیا میں رہ کر اس سے بے نیاز ہے،اسی طرح حقوق اللہ اور حقوق العباد کا شعور بھی ہمیں کبیر کے یہاں بدرجہ اتم ملتا ہے۔
سرگن کی سیوا کرو، نرگن کا کرو گیان
نرگن سرگن کے پرے، تہیں ہمارا دھیان
الغرض یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کبیرکے یہاں رامانج اور ان کے معنوی شاگرد رامانند کے اثرات کے ساتھ ساتھ مسلم صوفیا کا بھی اثر ملتا ہے۔جسے سردار جعفری نے متعدد مثالوں سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندو مسلم روایات کے صحت مند عناصر کے اسی امتزاج اور اختلاط کے نتیجے میں سردارنے بجا طور پریہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ کبیر رامانند کی صحبتوں کے علاوہ(جس کی وضاحت گذشتہ صفحات میں کی گئی کہ اول تو یہ مشکوک ہے اور اگر ایسا تھا بھی تو مختصر مدت کے لیے)مسلم صوفیا کی مجلسوں سے بھی فیضیاب ہوئے۔اور وہ ان مجلسوں میں بھی شریک ہوئے جو مسلم صوفیوں اور ہندو سنتوں کے درمیان منعقد ہوئے۔شیخ تقی کے بارے میں سردار کا خیال ہے کہ کبیر یاتو شیخ تقی کے شاگرد تھے یا کم از کم ان کے ہم مجلس ضرور رہے۔نیز ڈاکٹر تاراچند کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کبیر کے انداز بیان کا خمیر مسلم صوفیا کی زمین سے ہی اٹھا۔سردار نے متعدد مثالوں کے ذریعہ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ کبیر کے یہاں یقیناًہندو بھکتی اور مسلم تصوف کا سنگم ہے ،اور بالخصوص ان کے یہاں جلال الدین رومی کا انداز پایا جاتا ہے۔سردار لکھتے ہیں:۴۰؂
’’ہندو بھگتی کبیر کو مقام فنا کی سیر کراتی ہے ۔جہاں عجزوانکسار،خضوع وخشوع ہے۔اور مسلم تصوف مقام بقا پر پہنچاتا ہے۔ جہاں قوت وعظمت، جلال وجمال،بے
باکی اور بلند آہنگی کے ڈنکے بج رہے ہیں۔کبیر کے الفاظ میں آسمان گرج رہا ہے۔ اگرکبیر کے یہاں یہ تصور موجود ہے جوبھگتی اور تصوف دونوں جگہ مشترک ہے کہ قطرہ یا حباب دریا میں محو ہو جاتا ہے، جیو،فرد،آتماجا کر وجود مطلق(برہمن) میں مل جاتی ہے۔تو دوسری طرف یہ تصور بھی موجود ہے جو رومی کی دین ہے کہ قطرہ دریا کو پی لیتا ہے۔آتمن برہمن کو جذب کر لیتی ہے لیکن یہ دوسری بات اتنے صاف لفظ میں نہیں کہی گئی ہے ‘‘۔
جس کی مثال رومی کا یہ شعر ہے۔
بزیرکنکرہ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
اس کے برعکس سردار کبیر کا عام انداز وہ قرار دیتے ہیں جو رومی کے اس شعر میں ہے:
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
چوغلام آفتابم،ہمہ آفتاب گویم
اس کے بعد سردار نے متعدد مثالوں کے ذریعہ کبیر اور رومی کے درمیان پائی جانے والی یکسانیت کو ثابت کیا ہے، پوری بحث کا لب لباب سردار یہ نکالتے ہیں کہ کبیر کے یہاں طبقاتی کشمکش تھی۔ اس لیے یہ محض اتفاق نہیں کہ اکثر صوفیا سماج کے دبے کچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جن کے اندر انسانیت کے دکھوں کا درد تھا لیکن وہ ان مسائل کو بزور طاقت تو ختم نہیں کر سکتے تھے لہٰذا انھوں نے ان کی طرف سے انتہائی حقارت سے منھ پھیر لیاظاہری مذہب سے بغاوت اور باطنی مذہب کی تبلیغ شروع کی جو اپنے آپ میں انقلابی قدم تھا۔اسے سردار قرون وسطیٰ سے جدید صنعتی اور تجارتی عہد کی طرف پہلا قدم قرار دیتے ہیں۔یہی وجہ تھی کی تصوف اور بھکتی نے جاگیر دارانہ نظام کی فکری بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیاتھا۔ اس سے نہ صرف کبیر کو اپنا موضوع بنانے کا ان کا ترقی پسند نقطہ نظر واضح ہوتا ہے وہیں اس کا مقصد بھی واضح ہے ۔سردارجعفری لکھتے ہیں:۴۱؂
’’ہمیں آج کبیر کی رہنمائی کی ضرورت ہے ۔اس روشنی کی ضرورت ہے جو اس صوفی کے دل سے پیدا ہوئی تھی۔ آج دنیا آزاد ہورہی ہے۔سائنس کی بے پناہ ترقی نے
انسان کا اقتدار بڑھادیا ہے۔ صنعتوں نے اس کے دست وبازو کی قوت میں اضافہ کردیا ہے۔ انسان ستاروں پرکمندیں پھیک رہاہے پھر بھی حقیر ہے، مصیبت زدہ ہے، دردمند ہے، وہ رنگوں میں بٹا ہوا ہے۔ قوموں میں تقسیم ہے۔ اس کے درمیان مذہب کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں۔فرقہ وارانہ نفرتیں ہیں۔ طبقاتی کشمکش کی تلواریں کھنچی ہوئی ہیں۔بادشاہوں اور حکمرانوں کی جگہ بیوروکریسی لے رہی ہے۔دلوں کے اندر اندھیرے ہیں۔چھوٹی چھوٹی خود غرضیاں اور رعونتیں ہیں۔ جو انسان کو انسان کا دشمن بنا رہی ہیں۔ جب وہ حکومت اور شہنشاہیت اور اقتدار سے آزاد ہوتا ہے تو پھر اپنی بدی کا غلام بن جاتاہے۔اس لیے اس کو ایک نئے یقین نئے ایمان اور نئے نئی محبت کی ضرورت ہے جو اتنی ہی پرانی ہے جتنی کبیر کی آواز اور اس کی صدائے بازگشت اس عہد کی آواز بن کر سنائی دیتی ہے۔۔۔یہ کبیر کی، رومی کی غرض تمام سنتوں اور صوفیوں کی تعلیمات کی نئی تفصیر ہے جوایک نئی انسانیت کی بشارت لیے ہوئے ہے۔‘‘
———-
حوالہ جات

(۱)۔علی سردار جعفری، پیغمبران سخن:ص:۱۳
(۲)۔ ابولکلام قاسمی، نظریاتی تنقید:مسائل ومباحث:ص:۱۵۴
(۳)۔ علی سردار جعفری، پیغمبران سخن:ص:۱۳
(۴)۔ علی سردار جعفری، پیغمبران سخن:ص:۱۴
(۵)۔ ایضاً،ص:۱۴
(۶)۔ پرشورام چترویدی، اتری بھارت کی سنت پرمپرا:ص:۱۰۰
(۷)۔علی سردارجعفری، پیغمبران سخن:ص:۱۴۔۱۵
(۸)۔علی سردار جعفری، پیغمبران سخن:ص:۱۵
(۹)۔ ڈاکٹرشیام سندر داسکبیر گرنتھا ولی
(۱۰)۔ علی سردار جعفری، پیغمبران سخن،ص:۲۴
(۱۱)۔علی سردار جعفری، پیغمبران سخن،ص:۱۵
(۱۲)۔ ڈاکٹر رجنی بالا اگروال،سنت کوی کبیر کا سماج درشن :ص: ۵۸
(۱۳)۔ ڈاکٹر رجنی بالا اگروال، سنت کوی کبیر کا سماج درشن :ص: ۵۸
(۱۴)۔پرشو رام چترویدی، اتری بھارت کی سنت پرمپرا، ص:۱۰۱
(۱۵)۔ ڈاکٹر شیام سندر داس، کبیر گرنتھاولی:ص:۲۰
(۱۶)۔ علی سردار جعفری،پیغمبران سخن:ص: ۱۷،۱۸،۱۹
(۱۷)۔علی سردار جعفری،پیغمبران سخن:ص:۲۴
(۱۸)۔ پورا کبیراز ڈاکٹر بلدیو ونشی: ص: ۱۸
(۱۹)۔پرشورام چترویدی، اتری بھارت کی سنت پرمپرا:ص:۱۲۳
(۲۰)۔ڈاکٹرشیام سندر داس، کبیر گرنتھاولی (پیش لفظ) ص:۲۰
(۲۱)۔ بحوالہ: پورا کبیر از ڈاکٹر بلدیو ونشی: ص: ۲۱۔۲۲
(۲۲)۔ پورا کبیر از ڈاکٹر بلدیو ونشی،ص:۱۲
(۲۳)۔ علی سردار جعفری، پیغمبران سخن :ص: ۱۶
(۲۴)۔ ڈاکٹرشیام سندرداس، کبیر گرنتھاولی ص:۱۸
(۲۵)۔ ایضاً، ص:۱۸
(۲۶)۔ شری یگل آنند جی، ستیہ کبیر کی ساکھی(۱۸۴۲ء)
(۲۷)۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کبیر اور رامانند :کوندنتیاں، از ڈاکٹر دھرم ویر،ص:۱۳ تا ۲۶
(۲۸)۔محمد حسن، ہندی ادب کی تاریخ:ص: ۵۴
(۲۹)۔ایضاً:ص:۵۵
(۳۰)۔ محمدحسن ، ہندی ادب کی تاریخ:ص:۵۶
(۳۱)۔ ایضاً،ص:۵۷
(۳۲)۔ ایضاً،ص:۵۹
(۳۳)۔ ڈاکٹردھرم ویر، کبیر اور رامانند:کوندنتیاں
(۳۴)۔ڈاکٹردھرم ویر، کبیر اور رامانند:کوندنتیاں:ص:۱۵
(۳۵)۔محمد حسن، ہندی ادب کی تاریخ:ص: ۶۴
(۳۶)۔ علی سردار جعفری،پیغمبران سخن،ص: ۱۹
(۳۷)۔ ایضاً،ص:۲۱
(۳۸)۔محمد حسن، ہندی ادب کی تاریخ:ص:۵۶،۵۷
(۳۹)۔ علی سردار جعفری، پیغمبران سخن:۲۲
(۴۰)۔ علی سردار جعفری،پیغمبران سخن، ص: ۳۰
(۴۱)۔ علی سردار جعفری،پیغمبران سخن، ص:۴۳،۴۴
———
ABDUL HAFEEZ KHAN
Ph.D, University of Delhi
9555248828

Share
Share
Share