سفینہ نوحؑ – NOAH ARK
’’ فاسلک فیھا من کلّ زوجین اثنین‘‘
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی
ورنگل – تلنگانہ
قرآن میں اللہ تعالیٰ سورہ المومنین میں فرماتا ہے کہ ’’ہم نے اس پر وحی کی کہ ہماری نگرانی میں اور وحی کے مطابق کشتی تیار کر ،پھر جب ہمارا حکم آجائے اور تنور اُبل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہوجا اور اپنے اہل وعیال کو بھی ساتھ لے سوائے اس کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہوچکا ہے۔‘‘(23:27)۔میں اس لمبی آیت کے صرف اسی حصے’’ فاسلُک فیھا من کُلّ زوجین اثنین‘‘ زیادہ گفتگو کروں گا جس میں لکھا ہے کہ ’’ہر قسم کا ایک ایک جوڑا اس میں رکھ لو ‘‘۔
قرآن میں حضرت نوح ؑ اور طوفان نوح ؑ کا ذکر کئی جگہ آیا ہے۔جیسے سورہ اعراف آیت 64 میں ہے کہ ’’ہم نے نوحؑ کو اور اُن کو جو اِن کے ساتھ کشتی میں تھے بچا لیا‘‘اور آیت 72میں لکھا ہے کہ ’’ ہم نے ان کو ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا‘‘سورہ القمر آیت 11میں ہے کہ’’ پس ہم نے موسلا دھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دئے ۔ ‘‘ اور سورہ القمر آیت 12میں ہے کہ ’’زمین میں چشمے جاری کر دئے‘‘ آیت 13میں لکھا ہے کہ ’’ہم نے نوح ؑ کو ایک کشتی جو تختوں اور کیلوں سے تیار کی گئی ہے سوار کرلیا‘‘۔اسکے علاوہ سورہ نوح، سورہ الانبیاء، سورہ الصفات ،سورہ ہودوغیرہ میں بھی حضرت نوح ؑ ،ان کی امت اور ان کی کشتی کا قرآن میں کثرت سے ذکر موجود ہے۔ایک تحقیق کے مطابق آ پؑ کا ذکر قرآن میں 73میں آیا ہے۔ انجیل میں بھی حضرت نوحؑ کے بارے میں اور ان کی کشتی کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں۔ میں ابتدا میں حضرت نوحؑ اور کشتی نوح کی مختصر تاریخ بیان کرتا ہوں۔
حضرت نوحؑ :
Genesis 10-32 کے مطابق حضرت نوح ؑ کے تین بیٹے ہام (Ham) ، Shem (سام) اور Japheth (یافث) تھے۔آج دنیا کی تمام آبادی ان ہی تین افراد سے تعلق رکھتی ہے۔چونکہ ابراہیم ؑ Shemیعنی سام ؔ کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں اسی لئے یہاں ان کی نسل در نسل اولاد کے نام بیان کئے جاتے ہیں طوفان نوح کے صرف دو برس بعد سام کو ارفخشذؔ Arphaxad پیدا ہوئے۔ ان سےShelah اور ان سے Eberپیدا ہوئے اس کے بعد Pelegیعنی فلخ بن عبر پیدا ہوئے ان کا دور طوفان نوحؑ کے101سال بعد کا دور ہے ۔اس کے بعد حضرت نوحؑ نے ہجرت فرمائی۔جب اولاد نوح ؑ زمین پر منتشر ہونے لگی تو اس وقت اس کنبے کی جملہ آبادی ایک اندازے کے مطابق بشمول حضرت نوحؑ 126 تھی۔مختلف مقامات کو ہجرت کرتے وقت سامؔ کی نسل در نسل اولاد ساتھ تھی ،حضرت نوح ؑ کے ساتھ رہنے والوں میں Arphaxad ،Shelah،Eber, اور Peleg تھے ۔ ہجرت کے بعد سامؔ کی نسل میں ترتیب وار Reu، Serug ، Nahor اور Terah پیدا ہوئے ۔سام (Shem)کی نویں پشت میں حضرت ابراہیم ؑ پیدا ہوئے اور دسویں پشت میں حضرت اسحٰق پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے والد کا نام تارخ یا تارح(Tarah)تھا۔ طوفان کے بعد حضرت نوح ؑ تقریباً 350 برس تک زندہ رہے۔ ’’السدر کبہ تیکون اولام ‘‘( Seder Olam Rabbah ) کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش طوفان نوح کے 292برس بعد ہوئی ۔ایک روایت کے مطابق 2184قبل مسیح میں طوفان آیا ۔ Genesis 10-32 (انجیل) کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس زمین پر حضرت نوح ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ 58برس تک ساتھ ساتھ رہے۔حضرت اسحٰق ؑ کی پیدائش طوفان نوح کے 392 برس بعد ہوئی۔
یہاں قارئین کی دلچسپی کے لئے بتایا جاتا ہے کہ ایک حساب کے مطابق حضرت آدم ؑ آج سے 6004قبل اس دنیا میں موجود تھے۔حضرت نوحؑ حضرت آدمؑ کی دسویں نسل سے ہیں۔Seder Olam Rabbah یعنی ’’السدر کبہ تیکون اولام ‘‘کے مطابق حضرت آدم ؑ کی عمر 930برس تھی۔ (’’السدر کبہ تیکون اولام ‘‘ دوسری صدی عیسوی میں عبرانی زبان میں لکھی گئی جس کا موضوع ’’علم تسلسل زمینی‘‘ ہے۔ یعنی اس کتاب میں واقعات ارض بلحاظ انجیل ترتیب وار جمع کئے گئے ہیں۔)حضرت آدم ؑ کا زمانہ تاریخی کتب Rabbah اور Seder Olam Zutta میں بیان کیا گیا ہے لیکن حضرت آدم کے
زمانے اور دوسری تفصیلات سے متعلق قرآن کی تفسیر کرنے والے بزرگوں نے خاموشی اختیار کی ہے ۔ اس لئے یہ بات کہنا مشکل ہے کہ حضرت آدم اس زمین پر کب تشریف لائے۔انجیل اور Jewsکے مطابق حضرت آدمؑ تقریبا چھ ہزار برس قبل تشریف لائے۔ ELLIE ZOLFAGHARIFARD (2014) کی جدید سائنسی تحقیق کے مطابق حضرت آدم ؑ 209,000 برس قبل اس دنیا میں آئے تھے۔ہر انسانی خلیے میں دو قسم کے کروموزومس پائے جاتے ہیں جنہیں X اور Y کروموزومس کہا جاتا ہے ،نئی تحقیق خلیے کے Y کروموزومس پر کی جارہی ہے اور اس سے انسان کی عمر معلوم کی جارہی ہے چونکہ یہ کروموزومس نسل در نسل منتقلی کے بعد آج کے انسان میں پہنچے ہیں اسی لئے مختلف تجربات کے ذریعہ اس زمانے کا پتہ لگایا جارہا ہے جہاں سے Y کروموزوم نے سفر شروع کیا تھا یعنی حضرت آدمؑ ۔کیونکہ ہر مذہب اور ہر سائنس حضرت آدم ؑ کو زمین کا پہلا انسان مانتی ہے۔آج Y اور دوسرے عوامل کومسلسل ضرب دیا جاکر اندازہ لگایا جارہا ہے کہ انسانی نسل کب سے اس زمین پر موجود ہے۔ مجھے اس تجربے کی صحت پر نہ شبہ ہے نہ میں اس کو صحیح سمجھتا ہوں کیونکہ اس تعلق سے قرآن میں کوئی صراحت نہیں ہے۔اس لئے یہ نظریہ صحیح بھی ہوسکتا ہے یا غلط بھی ہوسکتا ہے۔) ۔
میں اب انجیل سے اخذ کردہ تواریخ کی جانب آتا ہوں کہ حضرت آدم ؑ کی پیدائش کے 1656 قرن بعد طوفان نوح آیا ۔ یہاں ’’ قرن ‘‘ کی صراحت کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ شاید مکمل 365دنوں کاایک سال نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ایک متعینہ مدت ہے ،جو ایک صدی بھی ہوسکتی ہے یا اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ اگر قرن کا مطلب ایک صدی لیا جائے تو اس مضمون میں بیان کردہ ماہ سال کی مدت کا عرصہ بدل جاتا ہے۔اسی طرح سال کی مدت کا تعین بھی مشکل ہے۔ طوفان نوح کے 2184 سال بعد (ایک اور روایت کے مطابق 2331برس قبل) حضرت عیسیٰ ؑ کا دور شروع ہوتا ہے Dennis Mc Kinseyنے بھی 2331برس قبل زمانے کو حضرت عیسیٰؑ کا دور بتلایا ہے ۔ Olam کے مطابق حضرت آ دم ؑ نے طوفان نوح ؑ تک 1656برس گزارے۔اس کے بعداگر ہم ہر برس کو 365دن کا تصور کریں تو حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش تک 3987 برس ہوتے ہیں ، حضرت عیسیٰؑ کے آسمانوں پر اٹھالئے جانے کے بعد آج تک 2017برس کا عرصہ گذر چکا ہے۔اس طرح اندازہ لگایا جاتا ہے کہ حضرت آدمؑ 6004برس قبل زمین پر تشریف لائے۔لیکن قرآن میں مدت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ جب کہ کشتی کا ذکر موجود ہے۔
طوفان نوح ایک عذاب تھا جو قوم نوح پر نازل کیا گیا،یہ عذاب زمین سے شرک کی گندگی کو دور کرنے کے لئے حضرت نوح ؑ نے اللہ سے مانگا تھا۔حضرت نوح ؑ کے مسلسل سمجھانے کے باوجود یہ قوم خدائے واحد کو چھوڑ کر یغوث، یعوق ، نسروغیرہ کی پرستش کرتی تھی یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ بعض مفکرین کے خیال کے مطابق طوفان کا واقعہ ساری دنیا کے لئے بپا نہیں ہوا بلکہ یہ مقامی طور پر نازل ہونے والا عذاب تھا۔طوفان کی شکل میں نازل ہونے والے اس عذاب کا کسی نے انکار کیا ہے اور کسی نے اس کو علاقائی نوعیت کا عذاب قرار دیا ہے اور بعض محققین نے اس عذاب کو عالمی عذاب خیال کیا ہے۔
Moore, Robert A. (1983) نے ظوفان نوح کا انکار کیا ہے کیونکہ اس کے کوئی سائنسی شواہدات موجود نہیں ہیں ۔ لیکن گذشتہ دنوں دریافت ہونے والی کشتی نے صورتحال میں تبدیلی لائی ہے اور کئی ایک سائنسی شواہدات جمع کئے جاچکے ہیں۔(نیشنل جیوگرافی)۔یہ طوفان عراق کے علاقہ ’’بین النہرین‘‘ میسو پوٹیمیا میں آیا تھا ۔بین النہرین دریائے دجلہ اور فُرات کے درمیانی علاقے میں واقع ہے ، دجلہ فُرات کے یہ درمیانی علاقے تقریباً چھ ہزار سال قبل مسیح سے آباد ہیں جہاں دنیا کی قدیم تہذیبوں جیسے بابل، عکادی اور اشوری نے جنم لیا ، یعنی یہاں حضرت آدم ؑ کے زمانے ہی سے لوگ آباد ہونا شروع ہوگئے تھے، مشہور ماہر آثار قدیمہ Werner Kellerنے اپنی تحقیق میں اس بات کو ثابت کیا ہے۔ میسو پوٹیمیا کے علاوہ اُر (Ur) ، کِش (Kish) ، Shuruppak، Erech میں آج بھی طوفان کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں ،ماہرین آثار قدیمہ نے بالخصوص ’’اُر‘‘ وغیرہ میں سطح زمین سے تقریباً پچاس فٹ نیچے مختلف استعمال کی اشیاء کو کیچڑ میں دبی ہوئی حالت میں دریافت کیاہے جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اس علاقے میں ایک عظیم طوفان آیا جس کے نتیجے میں زمین زیر و زبر ہوگئی ۔
دور حاضر میں کشتی کی دریافت :
قرآن میں کشتی کا بطور نشان باقی رہنے کا تذکرہ ہے۔یہ 1948کی بات ہے جب ترکی کے مشرقی حصے میں (ایرانی سرحدکے قریب) زلزلہ آیا اور مسلسل موسلا دھار بارش کے نتیجے میں زمین کے کچھ حصے بہہ گئے اوراُس علاقے کی زمین کے اندر کی کچھ ساختیں ابھر کر سطح پر آگئیں۔ زمین کی ان بدلتی اشکال اوران حالات کا مسلسل جائزہ ایک ترکی آرمی آفیسر Ilhan Durupinar لے رہا تھا ، اس اثنا میں NATOکی جانب سے اکٹوبر 1959میں اس علاقے کی فضائی تصاویر لی گئیں ۔ جن کو 1960میں "Life Magazine”میں شائع کیا گیا۔ Ron Wyatt نے اس مضمون کو پڑھا کہ ایک کشتی جیسی ساخت’’ کوہ آرارات‘‘ پر دریافت ہوئی ۔ اس وقت بہت سارے اذہان نے سونچا تھا کہ کیا یہ ساخت ’’ کشتی نوح‘‘ ہے۔Wyattنے اس خصوص میں تحقیق کی اور ثابت کیا کہ یہ کشتی جیسی ساخت کشتی نوحؑ ہی ہے کیونکہ قدرت میں ایسی ساختیں نہیں بنتی جیس کشتی نوح کے نقوش میں ابھرتی ہیں ۔ان نقوش اور نشانات کو کشتی نوح سمجھنے کی وجہہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ علاقہ بائیبل کے اس خصوص میں بیان کردہ علاقے کی بالکل مطابقت میں تھا۔ موجودہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ اس کشتی کو لکڑی کے تختوں اور دہاتی کیلوں سے بنایا گیا تھاجس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ وحملناہ علی ذات الواح و دسر (54-13) اسی لئے یہ کشتی اس قدرطویل مدت تک پانی میں سفر کرتی رہی ۔حتیٰ کہ تختوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے آثار بھی ملے جس میں ایک گلو Bitumen یعنی چپکنے والی شئے بھی دیکھی گئی ۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ کشتی میں تختوں کو جوڑنے کے لئےrivets (میخیں یاکیلے )وغیرہ بھی استعمال کئے گئے۔یہ کیلے مختلف دھاتوں کے مرکب سے بنائے گئے ،جو فطرت میں دستیاب نہیں یعنی یہ کیلوں کی یہ دھات انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی ہے۔ان میخوں یا کیلوں کے تجزیئے پر اس 8.38 فیصدالمونیم ،8.35فیصد لوہا (Iron) اورTitanium (1.59%) پایا گیا۔ جائے وقوع پر کچھ جانداروں کے باقیات بھی دیکھے گئے۔ (Galbraith Labs in Knoxville, Tennessee) جو ممکن ہے یہ ان جانوروں کی باقیات ہوں جو حضرت نوح نے اپنے کھانے پینے کے لئے رکھے تھے۔کیونکہ کشتی میں بحکم خدا سوارجاندار طوفان کے بعد کشتی سے اتر گئے۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کشتی کے یہ نقوش دراصل کشتی نوح ؑ ہے۔
قرآن میں کشتی کے باقی رہنے کا ذکر ہے۔فأ نجینہ واصحٰب السفینۃوجعلنٰھاءَ اٰیۃ للعٰلمین یعنی پھر ہم نے نوحؑ کو اور کشتی والوں کو نجات دی اور کشتی کو اہل عالم کے لئے نشانی بنادی (جالندھری) (29-15)۔اس کے علاوہ اللہ فرماتا ہے کہ ولقد ترکنا ھاآیۃفھل من مدّکر یعنی بے شک ہم نے اس واقعہ کو نشان بنا کر رکھا پس کوئی نصیحت حاصل کرے۔ (15۔ القمر) ۔ Collins, Lorence G. (2011) کے مطابق سفینہ نوح آج دنیا میں Sedimentary Formations یعنی خشب متحجر Petrified wood کی شکل میں موجود ہے ۔ سفینے کی لکڑی ’’حجرا‘‘ گئی ہے۔اسی لئے بعض سائنس دان اس کو قدرتی پہاڑی ساخت سمجھتے ہیں جو اس پہاڑ پر اتفاقاً بن گئی۔لیکن قرآن میں سفینہ نوح کا جودی پر ٹہرنے کا ذکر واضح انداز میں موجود ہے، (11-44)۔ یہاں یہ بات باعث دلچسپی ہوسکتی ہے کہ کوہ آرارات سطح سمندر سے 6,449 فٹ اونچائی پرواقع ہے اور کوہ جودی سے قریب واقع ہے،موجودہ تحقیق میں کشتی کوہ آرارت پر نہیں بلکہ کوہ جودی پر موجود ہے۔ دنیا میں زلزلوں اور طوفانوں کے بعد اشیاء کا زمین میں دفن ہوکر ’’رکاز‘‘(Fossil) بننا ثابت ہے اسی لئے کوہ جودی کی اس پہاڑی ساخت کو سفینہ نوح سمجھ سکتے ہیں۔جو طوفان کا زور ختم ہونے سے قبل اس پہاڑی پر ٹک گئی اور زمین نے سارا پانی نگل لیا آسمان رک گیا ،پانی سکھا دیا گیا (11-44) ۔طوفان ختم ہونے کے بعد اس کشتی کا زیر زمین ہوجانا خدائے تعالیٰ کی حکمت ہے جس نے اس کو فوری’’ رکاز‘‘ میں تبدیل کیا اور رکاز بننے کے عمل میں تیزی پیدا فرمائی ،شاید اسی لئے اس علاقے کو کشتی سمیت زمین میں دفن کردیا۔بعض محققین کے مطابق اس پہاڑی کی چوٹی پر برف کے آثار بھی دیکھے گئے جس نے اس کشتی کے بعض اجزاء کو موجودہ تحقیق کے لئے باقی رکھا۔ یہاں پھر اللہ رب العزت کی مصلحت و حکمت ملاحظہ فرمائیں کے اللہ نے 1948میں اس کشتی کو دنیا کے سامنے لایا۔ اللہ قادر مطلق ہے لیکن اس دنیا میں اس کی قدرت کا اظہار ارتقائی مدارج کی شکل میں ہوتا ہے شاید یہی وہ طریقہ کار ہے جس نے اس کشتی کو مدت دراز کے لئے محفوظ رکھا ۔اللہ نے انسانوں کو سبق دینے اور ان کی عبرت کے لئے جس چیز کو نشان بنایا اور محفوظ رکھا ان میں ایک کشتی نوح بھی ہے۔ہم ایک مثال فرعون کی نعش کے سلسلے میں بھی دیکھ سکتے ہیں جس کو اللہ نے دنیا کے لئے نشان بنایا اور باقی رکھا۔ اس موڑ پر میں یہ بتانا چاہوں گا کہ کیا طوفان نوح عالمی نوعیت کا تھا۔آج تک یہ بات تحقیق طلب ہے کہ سیلاب علاقائی نوعیت کا تھا یا ساری دنیا میں امڈ پڑا تھا،بائیبل کے مطابق ساری دنیا اس سیلاب سے متاثر تھی جبکہ (میری محدود اور ناقص تحقیق کی حد تک) قرآن اس تعلق سے خاموش ہے۔ (و اللہ اعلم)کچھ احباب کا خیال ہے کہ طوفان کچھ علاقوں جیسے جزیرۂ عرب وغیرہ میں نہیں آیا۔لیکن اُس وقت زمین پر کوئی انسان زندہ نہ بچا ، سوائے اُن 80افراد (ایک روایت کے مطابق صرف آٹھ افراد) کے جو کشتی میں موجود تھے۔ اسی لئے حضرت نوحؐ کو آدم ؑ ثانی کہا جاتا ہے۔
سفینہ نوح :
حضرت نوح ؑ کی کشتی کو ایک عرصہ دراز تک دنیا کی سب سے بڑی کشتی کا اعزاز حاصل تھا لیکن اس صدی کے اوائل میں اس سے لمبی کشتیاں بنائی جاچکی ہیں۔ کشتی نوح کی لمبائی کچھ اختلاف کے ساتھ515.5 فٹ تھی۔انجیل Genesis 6:15 کے مطابق اس کی لمبائی 300 Cubits جبکہ چوڑائی 50Cubits (یعنی تقریباً 85فٹ ) اور اونچائی 30 Cubits (یعنی 51فیٹ اونچی ) تھی۔ Cubitsزمانہ قدیم کا فاصلہ ناپنے کا پیمانہ ہے ۔یہ عام انسان کے پیر کے انگوٹھے سے لے کر(اگر ہاتھ اونچا کھڑا کردیا جائے تو )ہاتھ کی درمیانی انگلی کے سرے تک ہوتا ہے ۔ Cubits بھی مختلف سائز کے شناخت کئے گئے ہیں۔ چھوٹا Hebrew Cubitآج کے دور میں17.5انچ لمبا کیوبٹ 20.4 انچ کے برابر ہوتا ہے۔ یہاں ہم نے 20.4کے حساب سے کشتی کی لمبائی اور چوڑائی لکھی ہے ویسے بعض اوقات کشتی نوح کو ناپنے کے لئے چھوٹا کیوبٹ بھی استعمال کیا گیا ہے۔اندرونی جگہ سے متعلق بھی کئی اندازے قائم کئے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کشتی کی اندرونی جگہ تقریباً ایک لاکھ مربع فٹ سے زائد تھی جس میں تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار بکریاں بآسانی سما سکتی ہیں۔لیکن بعض سائنسدانوں نے اس کی نفی کی ہے اور لکھا ہے کہ اس میں صرف 16,000انواع سما سکتی تھیں۔محققین کا خیال ہے کہ سائز کے اعتبار سے کشتی نوح اب تک بنائی گئی سب سے بڑی لکڑی کی کشتی ہے۔اس میں لگی لکڑی کے بعض Logs تین فٹ قطر اور 50فٹ لمبائی رکھتے ہیں۔ اس میں ایک مربع فٹ کے تقریباً 31لاکھ تختے لگائے گئے تھے جن کی موٹائی ایک انچ سے کچھ زائد تھی ۔ کشتی کو اندرونی اور بیرونی جانب سے Pitch( وارنش جیسی چسپیدہ شئے)کی ملمع کاری کی گئی۔ ایک روایت کے مطابق اس میں استعمال شدہ لکڑی کو "Gopher Wood” کہا جاتا ہے ۔ِِجس کو بائیبل کی زبان میں Kopherبھی کہا جاتا ہے۔ کسی شئے کی عمر کا اندازہ لگانے کے لئے کی جانے والی تحقیق ’’کاربن ڈیٹنگ‘‘ کہلاتی ہے ، اس لکڑی کی جب عمر معلوم کی گئی تو اس لکڑی کی عمرحضرت نوحؑ کے زمانے کی نکلی ۔ (Galbraith Labs in Knoxville, Tennessee) موجودہ تحقیق کے مطابق کشتی نوح ایک پیچیدہ ساخت رکھتی تھی جس کو حضرت نوح ؑ نے بحکم خدا اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے ڈیزائن کے مطابق بنایا تھا اس کو بنانے میں زائد از 120برس لگ گئے تھے۔اس کا ذکر انجیل میں موجود ہے، قرآن میں اس کی تفصیل موجود نہیں ہے۔کشتی کے لنگر انداز ہونے کے لئے لنگروں(Anchors) کی ضرورت ہوتی ہے جس کو بحکم خدا حضرت نوح ؑ نے پہلے سے تیار کرلیا تھا اور کوہ جودی پر جب کشتی ٹہری تو ان ہی لنگروں کی مدد سے ٹہرائی گئی، یہ لنگر بڑے بڑے پتھروں کی شکل میں موجود ہیں جو اصل علاقے سے دس تا پندرہ میل کے فاصلے پر موجود Kazan علاقے میں دریافت ہوئے۔یہ لنگر چھ تا آٹھ فٹ کے قریب اونچا پتھر ہے جس کے اوپری حصے میں انسانی ہاتھوں کا بنایا ہواایک بڑا سوراخ موجود ہے جس میں موٹی مضبوط رسّی ڈالی جاتی تھی اور اس پتھر کو بحیثت لنگر استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن میں ذکر ہے کہ حضرت نوحؑ نے کہا اس کشتی میں بیٹھ جاؤ ،اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹہرنا ہے،یقیناً میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم والا ہے۔
اس تمہید کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ کشتی نوحؑ میں کتنے جاندار تھے۔
کشتی نوحؑ میں کتنے جاندار تھے:
Moore, Robert A. (1983) جس نے طوفان نوحؑ کا انکار کیا اس سائنسدان کا دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس قدر چھوٹی کشتی میں ساری دنیا کے تمام جاندار اور ان کی انواع کیسے سما سکتی ہیں۔Moore, Robert A. (1983). "The Impossible Voyage of Noah’s Ark”. Creation Evolution Journal. 4 (1): 115043.
سورہ المومنون آیت 27 میں موجود ہے کہ ہم نے اس پر وحی کی کہ ہماری نگرانی میں وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آئے اور تنور اُبل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہوجا۔یعنی ’’ فاسلک فیھا من کلّ زوجین اثنین‘‘ اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے۔(جناب مودودی)۔جناب احمد رضا خان نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے ’’اس میں بٹھالے ہر جوڑے میں سے دو۔‘‘جناب جالندھری نے لکھا ہے کہ ’’سب (قسم کے حیوانات) میں جوڑا جوڑا (یعنی نر اور مادہ) دو دو کشتی میں بٹھا دو‘‘۔ جناب طاہر القادری نے لکھا ہے کہ ’’تم اس میں ہر قسم کے جانوروں میں سے دو دو جوڑے (نر اور مادہ) بٹھا لینا‘‘۔جناب جوادی نے لکھا ہے کہ ’’ اس کشتی میں ہر جوڑے میں سے دودو کو لے لینا۔جناب محمد جونا گڑھی نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ’’ ہر قسم کا ایک ایک جوڑا اس میں رکھ لینا‘‘۔
میں ان تراجم کے بعد دو ایک تفاسیر کا ذکر بھی کرتا ہوں ۔جناب غلام اللہ کی جواہر القرآن کے مطابق ’’ اور جن جانوروں کی زیادہ ضرورت ہو، ان میں سے ایک ایک جوڑا نر مادہ کے ساتھ لے لو۔ جناب امین احسن اصلاحی نے تدبر القران میں لکھا ہے کہ’’ یہ انداز معہود ذہنی کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے۔یعنی ان جانوروں میں سے جو براہ راست انسان کی معاشی ضرورت سے تعلق رکھتے ہیں۔ہر چیز میں سے دو دو رکھ لئے جائیں اور معارف القرآن میں جناب محمد شفیع نے لکھا ہے کہ ’’جب زمین سے پانی اُبلنا شروع ہو جائے تو (اس وقت) ہر قسم کے جانوروں میں سے ( جو انسان کے کارآمد ہیں اور پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے جیسا بھیڑ، بکری،گائے ،بیل، اونٹ،گدھا ، گھوڑا وغیرہ ) ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ یعنی دو دو اس (کشتی) میں داخل کرلو‘‘۔
ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کسی نے لفظ جانور کو اپنے ترجمے میں شامل کیا ہے اور کسی نے نہیں کیا۔تفاسیر میں معاشی ضرورت یا زیادہ ضرورت کے مطابق جانوروں کو رکھنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ جبکہ انگریزی ترجمے میں Each Kindکااستعمال ہوا ہے یعنی ہر ایک قسم نوع، جناب شاکر ؔ نے بھی اپنے انگریزی تراجم میں لفظ Kindکا استعمال کیا ہے۔جیسے Take into it of every kind a pair ,two.اور جناب یوسف ؔ علی نے لفظ Species استعمال کیا ہے۔جیسے Take thou on board pairs of every species.بائیبل میں لفظ Kind استعمال ہوا ہے۔ شارحین کے مطابق جانوروں کے Kindمیں صرف فقروی جاندار شامل ہیں۔اسی لئے بائیبل میں اقسام یعنی ایک خاندان کی طرف توجہہ دی گئی ہے انواع کی طرف نہیں ۔ جدید تحقیق کے مطابق صرف 1500خاندان ہی دنیا میں آبادہیں،خاندان یعنی کتا، بھیڑیا، Dingo، لومڑی وغیرہ ا یک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔یعنی ان سب سے پیدا ہونے والی نسل ایک ہی خاندان کے افراد کہلائے گی۔میں اس موڑ پر جن نکات کی طرف توجہہ دینا چاہوں گا وہ ہیں:
(۱) کیا کشتی نوح میں تمام ہی انواع(یعنی ہر قسم) کے جاندار شریک تھے۔ (۲) ۔یا ۔ بائیبل کے مطابق جانوروں کے خاندان کے نمائندہ فرد ہی سوار کئے گئے تھے ۔ (۳)یا۔ مفسرین کے مطابق صرف معاشی ضرورت رکھنے والے جانوروں کو سوار کروایا گیا تھا۔ (۴) ۔اللہ کی جانب سے وحی آنے کے بعدحضرت نوحؑ نے تمام جانداروں کو کیسے اطلاع دی۔جانور ساری دنیا کے تمام ہی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میسو پوٹیمیا میں صرف مخصوص نوع کے جاندار ہی رہتے ہیں۔(۵)۔ کشتی کافی بڑی تھی لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا کی تمام انواع اس کشتی میں سما جائیں۔(۶)۔ کشتی میں سوار جانداروں کے بول و براز اور کھانے پینے کا کیا انتظام رہا ہوگاکیونکہ کشتی پانی کی سطح پر ایک سال اور 6 دن (بعض روایتوں کے مطابق 6مہینے 8دن) چلتی رہی اور انجیل کے مطابق کسی مینے کی 17تاریخ کو ٹہر گئی۔(۷) اتنے بڑے عرصے تک ان جانوروں کو بیماریوں سے کیسے بچایا گیا ہوگا۔ (۸)۔ کشتی میں موجود افراد کے لئے کھانے پینے کا انتظام کیسے کیا ہوگا۔
میں ان نکات پر گفتگو کرنے سے قبل یہ بتانا چاہوں گا کہ:
اگر پانی ساری زمین پر پھیل گیا تھا تومیرا احساس ہے کہ کشتی نوح میں قبل از طوفان اس دور کے یعنی زمین پر موجود تمام ہی جاندار سوار تھے۔حضرت نوحؑ نبی تھے ۔ انہوں نے اس کشتی میں کس طرح ساری دنیا کے جانداروں کو سوار کروایا، یہ اللہ جانتا ہے یا اللہ کے نبی حضرت نوح ؑ جانتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ چاہے تو کشتی کی وسعت کو بڑھا دے یا جانوروں کی جسامت کو گھٹا دے اور اس عمل کا ہمیں پتہ بھی نہ چلے،یہ اللہ کی مرضی اور اس کے حکم پر منحصر ہے۔مجھے اس موڑ پر حضرت سلیمانؑ کا واقعہ یاد آرہا ہے جنہوں نے چیونٹی کی آواز کو سن لیا تھا۔ چیونٹی کی آواز کوئی انسان نہیں سن سکتا لیکن حضرت سلیمانؑ نے سُن لیا کیونکہ وہ نبی تھے۔اُسی طرح یہاں حضرت نوح ؑ نبی ہیں جن کے لئے بحکم خدا نہ تمام جانداروں کو حکم دینا مسئلہ تھا اور نہ ہی انہیں وقت پر حاضر رہنے کی ہدایت دینا کوئی مشکل کام تھا۔جناب مودودی کے ایک جملے سے متاثر ہوکر میں کہوں کہ نبیوںؑ کے حواس کلام وحی جیسی لطیف شئے کا ادراک کر لیتے ہیں تو جانوروں کی کثیف گفتگو کا ادراک کرلینا اور انہیں احکامات دینا کونسا مشکل کام ہے۔اب اس کا جائزہ لیں کہ جدید تحقیق کے مطابق اس دنیا میں آخر جملہ کتنے جاندار ہیں۔
کشتی نوح ؑ میں جانوروں کی جملہ تعداد :
خدائے تعالیٰ کی تخلیق کردہ یہ دنیا بے کراں ہے،اگر خدائے تعالیٰ نے روز اوّل ہی جملہ جانداروں کو پیدا فرمادیا تھا تو یہ اس کی قدرت ہے اور اگر عمل تخلیق بحکم خدا جاری ہے تو یہ بھی اس کی قدرت ہے کہ جب جس جاندار کو پیدا فرمانا ہے وہ پیدا فرمادے۔ آج دنیا میں نئی انواع کا لمحہ بہ لمحہ تخلیق پانا خود اس کی قدرت و حکمت پر دال ہے اسی لئے آج جدید تحقیق کے مطابق 8.7ملین یعنی اسّی لاکھ سات سو ہزار جاندار اس زمین پر موجود ہیں۔ممکن ہے آنے والے دور میں اس میں مزید اضافہ ہو کیونکہ دم بہ دم صدائے ’’کُن فیکوں ‘‘ آتی جارہی ہے۔ لیکن موجودہ دور کے سائنسدانوں نے ان سب جانداروں کو بیان نہیں کیا گیا۔بلکہ اس جملہ تعداد کے ہندسے تک پہنچنے کے لئے انہوں نے گذشتہ پچاس برسوں میں ان کے علم میں آنے والی نئی انواع کو سامنے رکھ کریہ اندازہ لگایا کہ آج دنیا میں کتنے جاندار ہیں۔امریکہ کے ادارے (IUCN) 2007 یعنی The International Union for Conservation of Nature and Natural Resourcesکے مطابق جملہ بیان کردہ جانوروں کی تعداد 953,434 ہے اور بشمول اشجار جملہ جاندار جن کو کسی نہ کسی طریقے سے بیان کیا گیا ہے ان کی تعداد 1,589,361ہے جب کہ کینڈا کے (2017) CurrenResult کے مطابق جملہ جاندار معہ اشجار کی تعداد 1,305,250 ہے ۔
زمین کے جانداروں میں سب میں بڑی تعداد حشرات الارض کی ہے جس کو انگریزی میں Insectsکہا جاتا ہے ۔ CurrentResults (2017)کے مطابق ان کی یعنی حشرات کی تعداد دس لاکھ سے بھی زائد ہے۔غیر فقرئی جانداروں کی تعداد 1,305,250 ہے اورفقرئی جانداروں کی جملہ تعداد 66,178ہے۔جس میں پرندے، پستانیے، ہوام،مچھلیاں اور جل تھلیے شامل ہیں ۔ فقرئی جانداروں میں سب سے بڑی تعداد مچھلیوں کی ہے جن کے انواع کی گنتی 32,900تک پہنچتی ہے۔چونکہ میرا مقصد یہاں کشتی نوح میں سوار جانداروں کی تعداد کے متعلق اندازہ لگانا ہے اسی لئے ہم ان مچھلیوں کو حساب میں شامل نہیں کریں گے کیونکہ مچھلیاں اور دوسرے آبی جاندار پانی میں رہتے ہیں جنہیں حضرت نوحؑ کو کشتی میں سوار کروانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔علاوہ اس کے دنیا کی سب سے بڑی جسامت رکھنے والے جاندار جیسے وھیل، ڈولفن وغیرہ بھی اس میں شامل نہیں کیونکہ ان کا بسیرا بھی پانی میں ہوتا ہے۔اس طرح بچ رہتے ہیں زمین پر رہنے والے پستانئے وغیرہ عام طور پر جانوروں میں دو قسم کا عمل تنفس پایا جاتا ہے۔ زمین پر رہنے والے جاندار جیسے ہوام (رینگنے والے جاندار) ، پرندے اور پستانئے صرف شش (Lungs)کے ذریعے تنفس انجام دیتے ہیں جبکہ مچھلیاں اور دوسرے آبی جاندار آبی تنفس Gillsکے ذریعے انجام دیتے ہیں۔پستانیوں میں بڑی جسامت رکھنے والے جاندار جیسے وھیل، ڈولفن وغیرہ زمین کی ہوا کے ذریعے تنفس انجام دیتے ہیں لیکن پانی میں رہتے ہیں ،جس کے لئے انہیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد پانی سطح سے ابھر کر سانس لینا پڑتا ہے ۔ اس طرح کشتی نوح میں ان بڑے جانداروں کو سوار نہیں کروایا گیا۔یہاں میں ایک مرتبہ اوراس بات کے اظہار کے ساتھ آگے بڑھوں کہ طوفان نوح اور کشتی نوح ایک حقیقت ہے جس کا اظہار قرآن اور انجیل میں کئی بار آیا ہے۔گزشتہ برسوں میں ترکی (Turkey) میں اس کشتی کو دریافت کیا گیا ہے۔ کشتی نوح تین منزلہ تھی اس میں صرف ایک ہی کھڑکی موجود تھی۔اس میں اولاد نوح ؑ کے علاوہ ہمہ اقسام کے جاندار بھی تھے۔بعض سائنسدانوں نے بتایا کہ کشتی نوح میں وہ تمام جاندار تھے جن کو آج کے دور میں بیان کیا گیا ہے۔لیکن ان میں آبی جاندار کشتی میں سوار نہیں تھے جس کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ سائنسدانوں کے مطابق زمینی جانداروں یعنی ہوائی تنفس انجام دینے والے جانداروں کی تعداد آبی جانداروں سے کم ہے۔
میں یہاں موجودہ تحقیقی موادکے مطابق ہر قسم کے جانداروں کی جملہ تعداد کو الگ الگ بیان کرتا ہوں کہ اس دنیا میں پرندوں کی تعداد 10,425 ہے جن کو سائنسدانوں نے بیان کیا ہے بہت ممکن ہے کہ کئی پرندے ایسے بھی ہونگے جنہیں سائنسدان بیان نہیں کرسکے ۔ 5,513پستانیے ایسے ہیں جن کا ریکارڈ موجود ہے ممکن ہے ان کی تعداد اور زیادہ ہو اور رینگنے والے خاندان سے تعلق رکھنے والے جاندار جن میں سانپ، اژدھے ،چھپکلی اور معدوم دیوہیکل ’’ڈائنو سارس‘‘ وغیرہ شامل ہیں،ان کی تعداد 10,038 سے کچھ زیادہ ہے کیونکہ تمام کی جانور شماری آسان نہیں ۔ میں اس میں جل تھلیوں اور آبی جانداروں کو شامل نہیں کررہا ہوں کیونکہ یہ بہر صورت پانی میں رہ لیتے ہیں۔ڈائنو سارس کے بارے میں میری رائے کسی قدر مختلف ہے کیونکہ سائنسی کتب کے مطابق تمام ڈائنوسارس کئی ملین برس قبل ہی معدوم ہوگئے اور حضرت نوحؑ کا زمانہ ڈائنوسارس کی معدومیت کے بہت بعد کا زمانہ ہے۔ بلکہ بعض سائنسی شواہدات کے مطابق یہ زمانہ حضرت آدمؑ سے بھی بہت پہلے کا ہے۔
موجودہ دور کی سائنسی تحقیق کے مطابق دنیا میں موجودجانوروں کی تعدادبتانے کے بعد میں اپنی بات پر واپس آتا ہوں کہ ارتقائی عمل چونکہ از ابتدا جاری ہے اسی لئے زمانہ نوحؑ میں اگر جانداروں کی تعداد آج کی تعدادکے مقابلے کم تھی تب بھی اُن کے دور میں موجود تعداد خود اس قدر بڑی ہوگی کہ حجم کے اعتبار سے یہ تمام جانور سفینہ نوحؑ میں نہ سما سکیں۔لیکن روایتوں میں لکھا ہے کہ اس قدر بڑی تعداد اس کشتی میں سوار ہوگئی۔لیکن اتنے سارے جانور کیسے اس کشتی میں سماگئے،اس تعلق سے ہم جیسے کمزور اذہان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔اس لئے کہ جانوروں کو کشتی میں سوار کروانے کا حکم اللہ کا حکم تھا جس نے اپنے نبیؑ کو لا تعداد حکمتوں کے ساتھ حکم بجا لانے کے طریقے و سلیقے بھی سکھا دیئے تھے۔حضرت نوحؑ نے اس پر عمل کیا اور کشتی میں جانوروں کوسوارکروادیا اور طوفان کے بعد بھی یہ تمام جانور صحیح و سالم باہر نکل آئے اور آج ان پورے جانداروں کی انواع روئے زمین پر موجودہے۔میں سمجھتا ہوں کہ زمانہ نوحؑ میں موجود تمام خشکی کے جانور جن کوئی معاشی حیثیت ہو یا نہ ہو،دیو ہیکل جسم رکھتے ہوں یا خورد بینی جسامت رکھتے ہوں وہ سب آج بھی موجود ہیں،حالانکہ اُس عالمگیر طوفان نے ساری دنیا کی ہر شئے کو تہس نہس کردیا تھا ، دنیا پر بسنے والے تمام خشکی کے جانوروں کو ختم کردیا۔سوائے ان جانداروں کے جو کشتی نوح میں موجود تھے۔اگر طوفان عالمگیر نوعیت کا نہیں تھا تب بھی جانوروں کا کشتی میں سوار ہونا نا ممکن ہے ۔ایک مسئلہ ان جانوروں کی ’’خورد و نوش‘‘ کا تھا۔ بعض نظریات کے مطابق وہ سارے جاندار موسم سرما میں سرمائی نیند یا غنودگی(Hibernation) کی کیفیت میں تھے اور موسم گرما میں گرمائی نیند Aestivation کی حالت میں تھے جس کی وجہہ سے ان کا Metabolism (تحول)دھیما پڑ گیاہوگا جس کے باعث ان کے خورد و نوش اور جگہ کی تنگی کا مسئلہ بھی حل ہوگیا ۔ لیکن اس نظریہ میں بھی زیادہ صحت نظر نہیں آتی۔(واللہ اعلم)
دوسرا سوال جو میرے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کشتی کے حجم اور جانوروں کی جسامت میں تناسب نہ تھا تو کیا خدا نے اپنی قدرت سے کشتی نوحؑ میں ان جانوروں کے ’’بیجوں‘‘ (Seeds) کو رکھوادئیے تھے ۔ بیج کے مفہوم میں وسعت ہے، آج کے دور میں جانوروں کے لئے بیج کے معنی بدل گئے ہیں اس میں ’’اسپرم‘‘ (Sperm)اور ’’اُووَم‘‘(Ovum) سب شامل ہوجاتے ہیں۔آج کے دور کی نئی سائنسی تحقیق کے مطابق ان کے ’’جینس‘‘ (Genes) جاندار سے متعلق تمام اطلاعات قید رہتی ہیں۔جین کا علم آج کے دور کا جدید علم ہے۔ سائنس نے اس علم سے فائدہ اٹھا کر معدوم جانداروں کے باقیات پر بھی تحقیق کی ہے اور ایک جدید ترین طریقہ کار’’ کلوننگ ‘‘ (Cloning)کے ذریعہ اُن جانوروں کو بھی پیدا کیا ہے جو منصہ شہود سے نابود ہیں یعنی آج موجود نہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ روز اوّل سے آج تک ہونے والی تمام سائنسی ترقیات اللہ نے طے فرمادیں ہیں جو اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوتی جارہی ہیں۔میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہر سائنسی ترقی فطرت اور مرضئ مولا کی مطابقت میں انجام پاتی ہے۔اسی لئے سائنسی علما ء نے کہا ہے کہ انسانی کلون غیر فطری نہیں لیکن غیر اخلاقی ضرور ہے۔
اللہ نے اپنے نبیوںؑ کو علم سکھایا ہے ۔ممکن ہے اسی علم نے حضرت نوحؑ کو یہ سکھا دیا تھا کہ ساری دنیا کے جانداروں کی جسامت کو گھٹا کر دنیا کے حوادثات اورطوفان سے کیسے بچایا جاسکتا تھا۔ ممکن ہے یہ علم اللہ نے اُس دور میں حضرت نوح ؑ کو عطا فرمایا ہو اور ہزاروں برس کے وقفے کے بعد اُسی علم کو آج کے دور کے انسان کو دیا،اس علم کو یا اس نئی ٹیکنالوجی کو آج کی زبان میں ’’جین بینک‘‘(Gene Bank)کہا جاتا ہے ۔ (اصل حقیقت کا علم صرف اللہ کو ہے )۔جین بینک کا تصور ایک زمانے میں مفروضہ تھا لیکن آج حقیقت ہے۔ جب انسانوں کا یہ تجربہ کامیاب ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ تجربہ فطرتی اصولوں سے نہیں، اگر ٹکراتا تو مکمل نہ ہوتا اور کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچتا۔ اس نظریہ کے بعد خود میرے اور دوسرے احباب کے اٹھائے ہوئے نکات کا حل بھی مل جاتا ہے کہ کشتی میں اس قدر جانور کیسے سمائے ہونگے۔
جین بنک:(Gene Bank)
سالمیاتی حیاتیات میں کسی جاندار کے جینیاتی مادوں Genetic material کو مخصوص طریقہ اپنا کر کسی مقام پر محفوظ رکھنا جین بینک کہلاتا ہے۔جین بینک میں جاندار کا مکمل جینی مواد فطری ماحول سے ہٹ کر مصنوعی طور پر پیدا کردہ فطری ماحول میں محفوظ کیا جاتا ہے۔اس طریقہ عمل میں جاندار کا مکمل جینی مواد یعنی ’’نر‘‘ اور ’’مادہ‘‘ کے اسپرمس اور Ovumsکو جمع کیا جاتا ہے اور مخصوص منجمد خانوں (Freezers)میں منجمد کیا جاتا ہے اور وقت ضرورت انہیں نکال کر استعمال کیا جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے زیادہ تر اس کا استعمال تحقیقی میدان میں کیا ہے۔ یہ طریق کار پہلے نباتات کے لئے استعمال کیا گیا اس کے بعد حیوانات کے بھی کئی جین بینک دنیا میں قائم کئے گئے۔ خود حیدرآباد شہر میں ICRISATمیں ایسے جین بینک دیکھے جاسکتے ہیں۔جانوروں کے جین بینک بھی ان دنوں اپنی اہمیت بڑھاتے جارہے ہیں۔Endangered انواع کو بچانے کے لئے یہی ٹیکنک اپنائی جارہی ہے۔ممکن ہے کشتی نوحؑ میں اسی ٹیکنک کے ذریعہ دنیا کے تمام تر جانوروں کو سوار کروایا گیا ہوگا اور کشتی کے لنگر انداز ہونے کے بعد ان تمام انواع کو ان جانوروں میں تبدیل کیا گیا ہوگا جس کے وہ جینی مواد Genetic materialتھے۔(واللہ اعلم)۔اللہ نے دنیا کی ہر شئے میں اپنی حکمت اور سائنس کو جاری فرما دیا ہے جس کے مطابق ہی سارے کام انجام پاتے ہیں۔ممکن ہے اللہ آج سائنس کی شکل میں جو انعامات سے نوازا ہے اسی طرح حضرت نوحؑ کو بھیاس دور میں یہ انعام عطا کیا گیا ہو۔
مضمون کے اختتام پر یہ لکھ دوں کہ اس بات کا اب تک کوئی ثبوت سائنسی اعتبار سے نہیں ملا کہ طوفان نوحؑ علاقائی نوعیت کا تھا یاعالمگیر یت رکھتاتھا۔سائنس دانوں نے اس تعلق سے مختلف نظریات پیش کئے ہیں۔اس لئے آج تک یہ بات تحقیق طلب ہے۔*لیکن یہاں اس بات کا اظہار کردیں کہ انجیل کے مطابق ساری دنیاطوفان نوح سے متاثر تھی * جبکہ( میری تحقیق کی حد تک )قرآن میں اسکا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بالفرض محال اگر طوفان عالمی نوعیت کا نہیں تھا تو یہاں پیش کردہ نظریہ مشکوک ہوجاتا ہے اور اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔(و اللہ اعلم)۔
***
Dr Azeez Ahmed Ursi
14-4-63, Mandi Bazar
Warangal- 506002