عصرِحاضر میں
جامعات میں اردوو تحقیق کی صورت حال
محمد سلیمان حجام
ریسرچ فیلو،پنجابی یونیورسٹی ،پٹیالہ
اردو زبان و ادب کی تعمیر و ترقی کے سلسلے میں اس وقت ملک کے طول و عرض میں آئے دن ریاستی ،ملکی اوربین الاقوامی سطح پر کانفرنس،سیمیناراور تربیتی کورس منعقد کئے جاتے ہیں۔جن میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے کہنہ مشق محققین،ناقدین، تخلیق کار اور ذی شعور شخصیات شرکت کرکے اپنے تجربات ،تاثرات اور تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اردوتحقیق کے سلسلے میں تقریباًان سبھی تاثرات میں ایک ہی بات مشترکہ ہوتی ہے کہ عصرِ حاضر جوسائنس اور تکنالوجی کا دور کہلاتا ہے –
جامعات میں اردوتحقیق کا معیار بلند ہونے کے بجائے دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔معیار کے حوالے سے سندی تحقیق اس وقت پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے کیونکہ ریسرچ اسکالرز ڈگریاں حاصل کرنے کے چکر میں تحقیق کے اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں ۔جب کہ گیان چند جین،غلام مصطفی خان ،ڈاکٹر سید عبدللہ جیسے بلند پایہ محققین بھی ان ہی جامعات کی دین ہیں۔جنھوں نے اردو تحقیق میں کئی اہم کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔
عصر حاضر میں تحقیق کی جو صورت حال ہے وہ ناگفتہ بہ ہوتی چلی جارہی ہے۔سائنسی مضامین میں اگرچہ تحقیق کا معیار کسی حد تک قائم ہے،لیکن آرٹس(Arts) کے مضامین میں تحقیق کی صورت حال بہت مایوس کن ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے ہم تحقیق کے معیار کوپست ہونے سے بچائیں۔ اور ہمیں ان بنیادی وجوہات کی طرف توجہ مبذول کرنی ہوگی جو اس وقت اردو تحقیق کے تنزل کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس مرض کی وجوہات کیا ہیں اور اس کا علاج بھی ہمارے پاس ہی موجود ہے لیکن شخصیت پرستی ،ذاتی مفاد، جانبداری اور کاہل پرستی کے دائرے سے ہم نکلنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔اردو والوں کو اس دائرے سے نکل کر عملی طور پر ایسے تدارک کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے ہم اس الزام سے بری ہو جائیں۔یہاں میں اس مضمون میں کچھ ایسے مسائل کو اجاگر کررہا ہوں جو جامعات میں اردو تحقیق کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں اور جن کی موجودگی سے ہم صحیح تحقیق کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔
تحقیق کے طریقۂ کار سے لا علمی:۔
سب سے پہلے ہم ریسرچ اسکالرز (نو آموز محققین)کی بات کرتے ہیں جو کسی موضوع پر تحقیق کرنے کا ذوق و شوق رکھتا ہو،کیا وہ تحقیق کے طریقۂ کار (Research Methodology) سے واقف ہے بھی یا نہیں۔ہم اسے موضوع تو پکڑا دیتے ہیں اور وہ بھی تحقیق کرنا شروع کردیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ تحقیق کے طریقۂ کار سے ناآشنا ہوتا ہے۔اُسے معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ تحقیق کے سلسلے کی شروعات کیسے کرے ،مواد کہاں سے اورکیسے حاصل کرے۔اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ شعبہ میں پہلے تحقیق کے طریقہ کار پر پہلے ایک دو بار ورکشاپ (Workshop)لگوائیں تاکہ نو آموزمحققین ،تحقیق کے اسرارو رموز سے آگاہ ہوجائیں۔
تحقیق کے موضوع اور نگراں کا انتخاب:۔
تحقیق کے سلسلے میں سب سے پہلااہم قدم جو ہے وہ موضوع کا صحیح انتخاب کرناہے۔سندی تحقیق میں بعض دفعہ ایسا ہوتاہے کہ نگراں اپنی ذاتی پسند کے کسی موضوع پر کام کروانا چاہتا ہے اور ریسرچ اسکالر کا طبعی میلان کسی اورموضوع کی طرف ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس اُسے کوئی اور ہی موضوع پکڑا دیا جاتا ہے جس پر اسکالر کا عبور بھی نہیں ہوتا ہے اس لئے آگے چل کر وہ ڈگری حاصل کرنے کے لئے غلط راستہ اختیار کرلیتا ہے۔مثلاً اس وقت ملک بھر میں تھیسز(مقالے)تیار کرنے کے کارخانے لگے ہوئے ہیں۔جو پیسوں کے عوض بنابنا یا پی۔ایچ۔ڈی۔تھیسز (Ph.D.Thesis) تیار کرکے دیتے ہیںیا ریسرچ اسکالر خود ہی کسی کا سرقہ اڑا دیتے ہیں،کاپی پیسٹ (Copy Paste)سے کام لے کر کسی اور کی تحقیق کو اپنے تھیسزمیں ڈال دیتے ہیں۔اس لئے ہمیں چاہئے موضوع کا انتخاب کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ تحقیقی موضوع کے ساتھ اسکالر اور نگراں دونوں کی ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔تاکہ ریسرچ اسکالر آگے چل کر تحقیق کے دوران کوئی غلط راستہ اختیار نہ کرے۔یہاں میں ایک بات یہ بھی بتاتا چلوں وہ یہ کہ موضوع کے انتخاب کی طرح نگراں کا انتخاب بھی ایک نازک مسئلہ ہے۔ اسکالر کو اپنے نگراں کی شخصیت کا جائزہ لینا چاہئے اور ان دونوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی بھی ضروری ہے تاکہ تحقیق کی دشوار گزار راہیں مزید آسان ہو جائیں۔اس وقت ایک رجحان یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ کسی باحیات شخصیت،چلتی پھرتی شخصیت نے دو تین شعری مجموعے یا افسانوی مجموعے لکھ د ئے تو اُس پر پی۔ایچ۔ڈی ۔کرائی جاتی ہے جبکہ اُسے کوئی جانتا تک بھی نہیں ،اس کی ابھی پہچان بھی نہیں بنی ہوتی ہے۔اسکالر اس لالچ میں تحقیق کرتا ہے تاکہ اُسے ایک ہی جگہ سارا مواد میسر آجائے ۔اگر زیر تحقیق شخصیت با اثر ورسوخ ہو یا ان کے سیاسی تعلقات مضبوط ہوں،تو تحقیقی مقالہ قصیدے کی شان اختیار کر لیتا ہے۔سندی تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی علاقے یا ریاست کا اسکالر کسی دوسری ریاست میں اپنے ہی علاقے کی کسی شخصیت یا صنف پر تحقیق کر رہا ہے جس سے اس کے نگراں کا علم بالکل محدود ہوتا ہے یاناواقف بھی ہوتا ہے، اسکالر اپنے نگراں کی لاعلمی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی معلومات کا انکشاف کرتا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ایسی صورت میں ہمیں چاہئے کہ اسکالر کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اپنے علاقے سے ہی تعلق رکھنے والے کسی پروفیسر صاحب کوجو وہاں کے علم و ادب اور شخصیات سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو ، اپنا معاون نگراں منتخب کرکے اُن سے استفادہ حاصل کرے اور تحقیق کے معیار کو بھی برقرار رکھا جا سکے۔
مواد کی فراہمی:۔تحقیق کے دوران جو سب سے پیچیدہ مرحلہ ہے وہ مواد کی فراہمی ہی ہے۔مواد کی فراہمی سے ہی تحقیق کے سارے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔مواد کی فراہمی کے سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے ایک بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے،وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ ہمیں ثانوی ماخذات کے بجائے بنیادی ماخذات کو ہی تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ۔لائبریریوں،ذاتی لائبریریوں،کتاب گھروں سے مواد اکٹھا کرنا چاہئے۔آج کل کتابی میلے بھی لگتے ہیں ان میں بھی ضرور شرکت کرنی چاہئے یا سیمیناروں اور کانفرنسوں کے مقامات پر بھی بُک اسٹال لگائے جاتے ہیں وہاں سے بھی ریسرچ اسکالرزاپنی ضروریات کے مطابق مواد تلاش کر سکتے ہیں۔اگر کوئی کسی شخصیت پر تحقیق کر رہا ہو تو اُس کا ذاتی/ شخصی انٹرویو کیا جائے اگر وہ شخصیت حیات نہیں ہے تو اس کے کسی دوست یا ہم عصر سے ملنے کی کوشش کریں۔ہو سکتا ہے کہ ان کے ذریعے سے بھی کوئی اہم جانکاری حاصل ہو جائے۔مواد کی فراہمی کے سلسلے میں ہمیں کتابوں کے علاوہ ادبی رسائل اور اخبارات اور جالبین (انٹرنیٹ )سے بھی مدد لینی چاہئے۔لیکن کچھ اسکالر ایسے بھی ہیں جنھوں نے کبھی لائبریری کو دیکھا بھی نہیں ہوتا ، کسی کو لائبریری میں کتابیں تلاش کرنے میں دِقت پیش آتی ہے تو کوئی کسی اور وجہ سے انٹرنیٹ پراپنا ضروری مواد تلاش کرنے سے قاصر رہتا ہے۔یہاں ایک بات میں یہ بھی بتا تا چلوں کہ ہمیں اردو لائبریریوں کو ڈیجیٹائزڑ(Digitized) کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
بنیادی ماخذات کی کمی اور موضوع کی تکرار :۔
اس وقت تحقیق کی جو بدتر صورت حال ہے اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ایم۔فِل اور پی ایچ۔ڈی تھیسزمیں بنیادی ماخذ کا فقدان نظر آرہا ہے۔ ریسرچ اسکالراپنی ڈگریاں حاصل کرنے کی دُھن میں بنیادی ماخذ کو نظر انداز کرکے ثانوی ماخذات پر ہی زیادہ توجہ صرف کر دیتے ہیں۔کسی بڑے ناقد یا معتبر محقق کی کسی کتاب یا کسی پُرانے مقالے سے اپنا ضروری مواد یا اقتباسات تلاش کرکے من و عن اپنے تھیسس میں جوں کا توں یا کبھی کبھار ہلکی پھلکی تبدیلی کرکے نقل کردیتے ہیں۔اب تو plagrism سافٹ وئیر آیا ہے جس سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس کی وجہ سے اب تحقیق کی صورت حال میں بہتری آئے گی اس سافٹ وئیر کو ہمیں ہر جامعہ میں عمل میں لانا چاہئے۔تھیسز تو بڑے بڑے لکھے جاتے ہیں لیکن اُن میں اقتباسات کی پیوندکاری ہوتی ہے۔ریسرچ اسکالر اپنی بات کیا رکھنا چاہتا ہے اور اس کا ماحصل اور مقصد (Objective) کیا ہوتا ہے، وہ پتہ ہی نہیں چلتا ہے ۔تحقیق کا جو اصل موضوع ہوتا ہے تھیسز میں اس سے متعلق صرف پچاس سے سو صفحات ہی ہوتے ہیں،باقی دو،ڈھائی سو صفحات اصل موضوع سے ہٹ کر غیر متعلق ہوتے ہیں۔اسکالر کو چاہئے تھیسزدو سو صفحات ہی کا کیوں نہ ہو لیکن موضوع کے ساتھ ساتھ پورا پورا انصاف ہونا چاہئے۔ حوالہ جات میں اسکالر بنیادی ماخذ کے حوالے تو دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اُس نے ان ماخذات کو کبھی دیکھا تک نہیں ہوتا ۔اب اگر نگراں کا مطالعہ وسیع ہو تو اسے پتہ چل جائے گا کہ اسکالر نے یہ اقتباس کہاں سے اٹھاکر یہاں پیسٹ کیا ہے۔اس مسئلہ کا ایک حل یہ بھی ہے جب اسکالر کو ڈگری عطا کرنے سے پہلے اُس کا زبانی جائزہ یا امتحان ((Vivaلیا جاتا ہے۔ اسیviva کے دوران viva لینے والے expertکو چاہئے اسکالر کے ذریعے دی گئی حوالہ جات اور کتابیات کی فہرست کا اچھی طرح سے جائزہ لیا جائے اور اس بات کی چھان بین کی جائے کہ کیا واقعی اسکالر کے پاس یہ کتابیں موجود بھی ہیں یا نہیں۔ کسی بھی سیمینار ،کانفرنس یا مباحثے میں ہر کوئی ذی شعور اور ذی وقار شخصیت اردو تحقیق کی صورت حال کار ونا روتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہی حضرات اسکالر کا viva لینے کے لئے بھی مدعو کئے جاتے ہیں اور آج تک ایسا بہت کم دفعہ ہوا ہے کہ کسی اسکالر کاپی۔ایچ۔ڈی تھیسس ردreject کیا گیا اور پھر وہی انٹرویو لینے والے حضرات بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔
فیلو شپ کا مسئلہ :۔
یہ بھی کہا جاتا ہے دورِ حاضر میں جامعات میں سندی تحقیق کے دوران عطا کی جانے والی فیلوشپ اور اسکالر شپ بھی تحقیق کے زوال کی ذمہ دار بنی ہوئی ہے کیونکہ کچھ اسکالر محض اسکالر شپ حاصل کرنے کی غرض سے تحقیق کے میدان میں کود پڑتے ہیں اور اسے پیسے کمانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسری طرف کچھ ایسے اسکالرز بھی ہیں جو یوجی سی۔نیٹ۔جے آر ایف(UGC/NET/JRF) کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے فیلوشپ کے لئے اپنے آپ کو حقدار ٹھہراتے ہیں ۔لیکن بد قسمتی سے ان کے وقت کابیشتر حصہ تحقیق کے بجائے شعبہ کے دیگر کاموں میں صرف ہو جاتا ہے۔ ان سے ڈپارٹمنٹ کے دفتری کام لئے جاتے ہیں اور ا ن کی حیثیت ریسرچ اسکالر کے بجائے ایک کلرک کی بن جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا تحقیقی کام متاثر ہو جاتا ہے اسی لئے فیلوشپ کسی کے لئے سونے پہ سہاگہ تو کسی کیلئے عذابِ جان بن گئی ہے کیونکہ فیلوشپ کے چکر میں ایک ریسرچ فیلو اپنی اُس آزادی سے محروم ہو جاتا ہے جو ایک محقق کو صحیح تحقیق کرنے کے لئے لازمی ہے ۔ اس طرح سے سندی تحقیق زوال کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے۔جبکہ یو جی سی کے جے آر یف ایوارڈ لیٹر پر واضح انداز میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ڈپارٹمنٹ کواگر ضرورت ہو توایک ریسرچ فیلو کو ایک ہفتے میں زیادہ سے زیادہ نو گھنٹے درس و تدریس کے متعلقہ کام میں تعاون دینا ہوگا۔کیونکہ فیلو شپ اُسے ریسرچ کرنے کیلئے نہ کہ دفتری کام انجام دینے کیلئے ملتی ہے ۔
فاصلاتی طرز کی تحقیق :۔
جامعات میں سندی تحقیق کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ریسرچ اسکالر چھ مہینے یا سال بھر کے بعد اپنے نگراں سے ملاقات کرتے ہیں،اپنے کاروبار میں مصرو ف رہتے ہیں یا کہیں پہ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری نوکر ی کر رہے ہوتے ہیں ان کو صرف ڈگری سے مطلب ہوتا ہے۔ایسی صور ت میں ان سے بھلا کیسے صحیح تحقیق کی توقع رکھی جا سکتی ہے اور حد تو یہ ہے کہ وہ ڈ گریاں بطور ایک مستقل ریسرچ اسکالر کے حاصل کرتے ہیں۔اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ حاضری رجسٹر میں باضابطہ طو رپر روزانہ ان کی حاضری لی جائے۔
آخر پر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ انشاء اللہ دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ اردو تحقیق کا معیار بھی بہت جلد بلند ہوگا،اس کے لئے ہمیں کچھ اقدامات اٹھانے چاہئے جیسے ریسرچ اسکالرزکی صحیح رہنمائی کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہئے نہ کہ حوصلہ شکنی ،دفتری کاموں میں بھی ان کو الجھانا نہیں چاہئے۔جن اسکالروں کو اسکالر شپ یا فیلوشپ ملتی ہے وہ ان کے بینک کھاتوں میں مقررہ وقت پر آنی چاہئے۔تاکہ ان کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ یہ فیلوشپ ان کو تحقیق کرنے کے لئے ملتی ہے نہ کہ دفتری کام۔جس طرح سے این۔سی۔پی۔یو۔ایل اور غالب انسٹیچوٹ کے اشتراک سے ہر سال بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز کا سیمینار منعقد کیا جاتا ہے اسی طرح سارے اردو شعبہ جات میں سال میں کم سے کم دو بار سیمینار یا کانفرنس منعقد کئے جائیں۔ان میں ریسرچ اسکالروں کا انتخاب بغیر کسی جانبداری،ذاتی تعلق یا تعصب کے کیا جائے اور ان کو بولنے کیلئے بھی اچھے مواقع فراہم کرنے چاہئے جس کی وجہ سے اسکالروں میں ایک اعتماد پیدا ہو جاتا ہے ۔ساتھ ہی ان کو بڑی بڑی شخصیتوں اور اپنے دوستوں سے ملاقات کرنے کے مواقع بھی ہاتھ آئیں گے جو دوسری یونیورسٹیوں میں تحقیق میں مگن ہوتے ہیں۔ہر تین یا چھ مہینے کے بعد ملک بھر کے جامعات سے اردو میں مکمل ہونے والے پی ایچ۔ڈی یا ایم۔فل پر ہونے والے کام کی ایک فہرست تیار کرکے شائع ہونی چاہئے تاکہ آئندہ اردو تحقیق کے موضوعات میں تکرار کی گنجائش نہ رہے۔اس وقت ادب کی طرح تحقیق کو بھی ادبی گروہ بندی سے نقصان ہو رہا ہے۔اگر کسی نگراں کار کا ریسرچ اسکالرکسی دوسرے نگراں کار کے پاس چلا جاتا ہے تو وہ اپنے نگراں کار کے تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔ایسے واقعات تو سندی تحقیق میں یقیناً پیش آتے رہتے ہیں جبکہ ایک ریسرچ اسکالر کوباندھ کر رکھنے کے بجائے آزاد چھوڑنا چاہئے تب جا کر وہ کھلے ذہن سے اچھی تحقیق کر سکتا ہے۔ایم۔فِل اورپی ایچ۔ڈی داخلوں میں بھی بے ضابطگی کا ماحول گرم ہے اورذاتی رواداری اور جانبداری سے کام لیا جاتا ہے۔ داخلوں کے سلسلے میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ طرزِ عمل اپناناچاہئے۔اس مضمون میں میرا مقصد کسی ادارے یا کسی شخصیت کی دل آزاری یا کسی قسم کی تنقید نہیں ہے ہاں اگر ہم ان میں سے کچھ باتوں پر غور کریں گے توہو سکتا ہے کہ تحقیق کا معیارپھر سے بلندہو جائے۔
——–
MOHAMMED SULIMAN HAJAM
SENIOR RESEARCH FELLOW (urdu)
DEPTT. OF PERSIAN URDU & ARABIC,
PUNJABI UNIVERSITY PATIALA, ( 147002) ,PUNJAB ,INDIA
MOBILE NO. 07696376711
email.id :