’’ گدھے کی سرگذشت ‘‘ایک طنزیہ ومزاحیہ ناول
فیاض حمیدؔ – ریسرچ سکالر
ڈاکٹر ہری سنگھ گور سنڑل یونیورسٹی – ایم۔پی
– 08602147215
اردو ادب میں ناول نے صحیح معنوں میں بیسویں صدی میں اپنی حیثیت مستحکم کی لیکن اس کے ابتدائی نقوش انیسویں صدی میں ہی سامنے آچکے تھے ۔طنز ومزاح کے میدان میں انیسویں صدی کا دور اصل میں ’’اُودھ پنچ ‘‘ کا تھا۔لیکن اس کے طنزومزاح کی نوعیت زیادہ تر صحافتی اور سطحی تھی ۔اس صدی کے کچھ ممتاز ادیبوں نے ناول بھی لکھے اور طنز ومزاح سے بھی کام لیا ۔جن میں ڈپٹی نذیر احمد ،رتن ناتھ سر شار ،منشی سجاد حسین اور نواب محمد آزاد وغیرہ شامل ہیں۔
نذیر احمد کا تعلق اسی دور سے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ناول کو شگفتہ بنانے کے لئے وہ طنزومزاح سے کام لینے کا ہنر جانتے تھے۔خصوصاً ان کے مشہور ناول ’’توبتہ النصوح‘‘ میں ظاہر دار بیگ کا کردار نہ صرف اپنے عہد کی نمائندگی کرتا ہے۔بلکہ اپنے معاشرے کے کھوکھلے پن کی بھی عکاسی کرتا ہے ۔جس سے اس درو کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے ۔اس ناول کے حرکات وسکنات اور طرز گفتگو قاری کو قدم قدم پر مسکرانے پر مجبور کرتے ہیں۔منشی سجاد حسین کا ناول ’’حاجی بغلول‘‘ اور رتن ناتھ سرشارؔ کا ’’فسانہ آزاد‘‘ دونوں اگر چہ اس زمانے کی طنز ومزاح نگاری کے اولین نقوش ہے لیکن جامعیت کے اعتبار سے دونوں ہی عہد آفریں ہیں۔یہ ضرور ہے کہ سرشار ؔ کے ’’خوجی ‘‘کا کیرکٹر سجاد حسین کے ’’حاجی بغلول ‘‘ سے زیادہ متنوع ہے۔
اس دور کا ایک اہم اور قابل ذکر طنزیہ و مزاحیہ ناول نواب محمد آزاد کا’’ نوابی دربار ‘‘ہے لیکن فنی اور ادبی خامیوں کی وجہ سے یہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔عظیم بیگ چغتائی کی تصنفات میں ’’شریر بیوی‘‘ طنزیہ اور مزاحیہ ناول کی تعریف پر پورا اُترتا ہے اور اس کے وسیلے سے اردو ادب میں طنزومزاح نگاری کا ایک نیاپہلو سامنے آیا ہے ۔ان کی مزاح نگاری قلندرانہ پن سے تعبیر کی جاسکتی ہے ۔شوکت تھانوی نے ظریفانہ مضامین بھی لکھے اور طنزومزاحیہ ناول بھی ۔ان کے مزاحیہ ناولوں کی تعداد بہت ہے لیکن ان میں ’’کتیا‘‘ اور انشااللہ ‘‘ کو بڑی شہرت نصیب ہوئی۔
اردو ادب میں ناول نگاری کو طنزو مزاح کے سرمایہ سے مالا مال کرنے میں ایک اہم نام کرشن چندر کا ہے ان کے دو ناول ’’ گدھے کی سرگذشت‘‘ اور گدھے کی واپسی‘‘ میں طنز یہ مزاحیہ کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں ۔ان دوناولوں میں کرشن چند رکی رگِ ظرافت ایسے انداز سے پھڑکی ہے کہ اس کے نتیجے میں بلند مرتبہ فن پارے وجود میں آئے ہیں۔دراصل کرشن چند جہاں مناظر کی تصویر کشی اور اپنی انسان دوستی کے لئے مشہور ہیں وہیں ان کی سیاسی بصرت بھی درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہے ۔ہندوستانی حکومت ساز نمائندوں کو کرشن چندر نے تخلیق کے سانچے میں ڈال کرِ ناولوں کا موضوع بنایا۔ ’’گدھے کی سرگذشت‘‘ ان کے مزاحیہ ناولوں میں سر فرست ہے ۔جو پہلی بار رسالہ ’’شمع ‘‘
دہلی میں قسط وار چھپا اور بعد میں کتابی شکل میں شایع ہوا۔ناول کا مرکزی کردار ایک گدھا ہے جو عام آدمیوں کی طرح لکھتا ،پڑھتا،بولتا،دفتروں کوٹھیوں کے چکر کاٹتا ہے ،نیتاؤں اور وزیروں سے ملتا ملاتا ہے ۔لیکن یہ ایک بے حد با شعور گدھا ہے اور ایسے لوگوں کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے جو ضرورت مندہیں اور ایسے لوگوں کی بھی جو دوسروں کی ضرورت اور مجبوری سے فائدہ اُٹھا کر ان کا استحصال کرتے ہیں اور انھیں بیوقوف بناتے ہیں ۔آزادی کے بعد شاید یہ پہلا ناول ہے جس نے ہماری سیاسی دفتری نظام کے بعض کمزور اور مضحکہ خیز پہلووں پر سے پردہ اُٹھایا ہے ۔اور اس کھوکھلے پن پر کھل کر چوٹ کی ہے۔ڈاکٹر قمر رئیس اس ناول کے بارے میں یو ں لکھتے ہیں:۔
’’اس میں ان کے مشاہدہ اور تخیل کی شادابی کے ساتھ ساتھ ان کی بے لاگ عقلیت پسندی اور بے داغ انسان دوستی کا ہاتھ ہے ‘‘ ۱
دراصل کرشن چندر نے اس ناول میں ایک گدھے کے ذریعہ ہندوستان کے تقریباًتمام اہم سیاسی و تہذیبی اداروں پر طنز کیا ہے ۔یہ گدھا پارلمنٹ میں بھی جاتا ہے ۔پنڈت جواہرلال نہرو سے بھی ملاقات کرتا ہے ۔ساہتہ اکاڈمی میں بھی شریک ہوتا ہے ۔مونسپل کمیٹی میں اس سے ایڈرس پیش کیا جاتا ہے اور مقابلہ حسن کا اسے صدر بنایا جا تا ہے ۔یہ طنزیہ ناول کرشن چند کی ایک اور دلچسپ تخلیق ہے
یہ ناول پلاٹ کے اعتبار سے ایک سیدھا ساد ااور غیر مبہم ہے کسی جگہ کوئی پیچ نہیں ۔حقیقت ہر جگہ نمایاں ہے ۔ گدھااپنے طنزیہ ومزاحیہ اندازمیں اپنا تعارف یوں بیان کرتا ہے کہ :۔
حضرات ! میں ایک گدھا ہوں ۔۔۔
میرا باپ بھی گدھا تھا۔۔۔
بارہ بنکی میں سید کرامت علی شاہ کی کوٹھی بننے میں انٹیں ڈھونے کے ساتھ اخبار اور کتابیں پڑھنے لگا اورعالم فاضل بن کر ہندوستان کی راجدھانی دہلی چلا آیا۔یہاں پر میرا مالک رامو دھوبی تھا ۔جسے ایک دن دریا پر مگر مچھ نے نگل لیا۔ رامو کی بیوہ کے لئے کچھ امداد حاصل کرنے کے غرض سے میں دفتر دفتر،افسر افسر مارا مارا پھرا اور کہیں کام بنتا نہ دیکھ کر وزیر عظم پنڈت جواہر لال نہرو سے ملا۔پنڈت جی مجھ سے بڑے خلوص سے ملے ۔ملکی اور غیر ملکی سیاست پر بات چیت کی اور رامو کی بیوہ کے لئے انھوں نے مجھے سو روپیہ بھی دیے۔پنڈت جی کی کوٹھی سے باہر نکلتے ہی مجھے اخبار والوں نے گھیر لیا ۔میرے انٹرویو لیے۔میں نے ایک پریس کانفرنس کو خطاب کیا ۔باہر آتے ہی مجھے
سیٹھ بر جو ٹیا اپنے گھر لے آئے ۔اور یہ سمجھ کر کہ پنڈت جی سے میں کسی بڑے ٹھیکے کے سلسلے میں ملنے گیا تھا مجھے اپنا پارٹنر بنانے کی پیشکش کرنے لگے ۔میں نے انھیں ٹال دیا مگر وہ میری میزبانی پر مصر رہے ۔ادھر میرے انٹرویو اخباروں میں چھپتے ہی چاروں طرف سے لوگ مجھے ملنے آنے لگے ۔میری پونچھ (معاف کیجیے گا پوچھ) ہونے
لگی۔دہلی میونسپل کمیٹی نے میرا جلوس نکالا اور مجھے استقبالیہ خطبہ پیش کیا۔
۔ ۔۔۔سیٹھ من سکھ لال کی بیٹی روپ وتی نے اپنے باپ کا کہا مانتے ہوئے مجھے شادی کا پیغام دیا اور میں نے
قبول بھی کیا ۔۔۔
۔۔۔مگر بعد میں جب سیٹھ اور اس کی بیٹی کو معلوم ہوا کہ مجھے کوئی ٹھیکہ ویکہ نہیں ملا تو دونوں نے بید سے جی بھرکر مرمت کروائی۔اب دعا کیجیے کہ اچھاہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہو سکوں ۔‘‘ ۲
کرشن چندر سے پہلے عموماً مزاح نگاروں کے سامنے کوئی مشکل سماجی یا سیاسی مقصد نہیں ہوتا تھا ۔ان کی ساری فنی صلاحتیں چند اخلاقی مضامین کی پیشکش تک محدود رہتی تھیں۔کرشن چندر نے ’’ایک گدھے کی سرگذشت‘‘ بیان کرکے بحیثیت مجموعی ملک کی سیاسی اور سماج کی اخلاقی حالت پر طنز کا وار کیا ہے ۔اس ناول کی مقبولیت کا سارا دارمدار ایک تو کرشن چندر کے ان کے اپنے منجھے ہوئے دلکش اسلوب پر ہے جس کی وجہ سے ان کی تخلیق قدر کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں گدھے کو موجودہ معاشرے کے ایک غرض مند انسان کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔یہ گدھا اپنی بعض دلچسپ خصوصیات کی بناء پر پہلے ہی سے ضرب المثل کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے ۔یہ گدھا کرشن چندر کی معنی خیز زبان بولتا ہوا دفتروں اور کوٹھیوں کے چکر لگاتا ہے ۔افسروں اور نیتاؤں سے ملتا ہے ۔وزیروں اور عملداروں کو اپنی داستان سناتا ہے جس سے ایک عجیب سا ماحول پیدا ہوتا ہے اور گدھے کی زبان سے ادا ہونے والی ہر بات پر قاری کو ہنسنا پڑتا ہے ۔بقول وزیر آغا؛۔
’’وہ فطرتاً حساس ہیں ۔ان کی نظرتیز ہے اور انھیں ماحول کا گہرا شعور حاصل ہے ۔نتیجتاً ان کی طنز کا افق وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے ‘‘ ۳
اس ناول میں کرشن چندر کا شگفتہ اور دلکش طنزیہ اسلوبِ تحریر پوری طرح نکھر کر سامنے آیا ہے جس سے ناول شروع سے آخر تک قاری کو اپنی گرفت میں پکڑ کر رکھتا ہے ۔مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائے:۔
’’آپ نے اکثر دیکھا ہوگا گھاس کے ایک ہی پلاٹ پر درجنوں گدھے اکھٹے چرتے ہیں ۔اور کبھی کوئی لڑائی نہیں ہوتی ۔ہماری سمجھ میں نہیں آتا آخر انسان اس طرح کیوں نہیں چر سکتے۔‘‘۴
’’مولوی صاحب ایک مسلمان یا ہندو تو گدھا ہو سکتا ہے مگر ایک گدھا مسلمان یا ہندو نہیں ہو سکتا ۔‘‘ ۵
’’ اس میں کوئی عجب بات نہیں ہے کہ آپ نے مجھے ایڈریس پیش کیا کیونکہ میں ایک گدھا ہوکر انسان کی سی باتیں کرتا ہوں لیکن آپ نے ان لاکھوں انسانوں کو ایڈریس نہیں کیا جو انسان ہو کر گدھوں کی سی باتیں کرتے ہیں‘‘ ۶
’’ ہم نے اپنی ساہتیہ اکاڈمی میں اس بات کا خاص انتظام کر رکھا ہے کہ کوئی ایسا ادیب اس میں گھسنے نہ پائے جس نے گذشتہ پندرہ بیس سال میں کوئی کا م کی بات آسان زبان میں لکھی ہو ‘‘ ۷
ایسے ہی ناجانے کتنے چھبتے ہوئے لطیف طنزیہ فقرے کرشن چندر نے اس ناول میں موتیوں کی طرح پروئے ہیں۔انسان جتنا بھی ان پر غور کرتا ہے ان کی پہلوداری بڑھتی جاتی ہے۔یوں تو ملک کے سیاسی اور دفتری نظام کا تجربہ تھوڑا بہت سب کو ہے لیکن ہم اُ سے خالی محسوس کرتے ہیں ۔زبان سے ادا نہیں کر پاتے ۔یہ کرشن چندر کا کمال ہی ہے کہ اس نے دہلی میں رہ کر وہاں کی سماجی اور دفتری ناہمواریوں کو بہت گہری نظر سے دیکھا اور ان کو پیش کرنے کے لئے ایک گدھے کا سہارا لے کر ہمارے سامنے پیش کیا ۔تاکہ لوگ اس بگڑتے ماحول سے واقف ہو جائیں۔یا یہ کہا جائے کہ وہ اپنے گردو پیش کی حقیقی زندگی اور اس کے زندہ تہذیبی مظاہر سے اپنا مواد حاصل کرتے ہیں۔وہ فرد اور سماج کے رشتوں پر گہری نظر ڈال کر ان کی ناہمواریوں کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں جو صرف ہنسائیں نہیں بلکہ قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کریں۔
دراصل تلخ حقیقتوں کو قابلِ گوارہ بنانے میں انھوں نے جو طرزِ تحریر اختیار کیا وہ اپنے دور کے مطالبات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔انھوں نے اس کو علامتی ناول کی شکل دے کر سیاسی نظام اور دفترشاہی کی بدعنوانیوں پر بھر پور طنز کیا۔تاکہ پڑھنے والے حقیقت کی تلخی کو قبول کرسکیں۔
مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’گدھے کی سرگذشت‘‘ کرشن چندر کی طنزیہ و مزاحیہ تخلیقات میں اول درجہ رکھتی ہے۔اور انھوں نے اس میں حقیقت کو حقیقت کے روپ میں ہمارے سامنے اس انداز سے پیش کیا کہ قاری اس سے متاثر ہوتے بنانہیں رہ پاتا۔یہ ناول طنز یہ ومزاحیہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کو قدم قدم پر سوچنے کے لئے مجبور کرتا ہے ۔اور سماج میں پلے ہوئے ان ناہمواریوں کو صحیح کرنے کی تلقین کرتی ہے ۔دراصل یہ کرشن چندر کا کمال ہے کہ کس طرح اُس نے ایک بے زبان کو زبان کو دی اوردکھانے کی کوشش کی کہ لوگ کس طرح ضرورت مندوں کا فائدہ اُٹھاکر ان کا استحصال کرتے ہیں۔
——–
حوالہ جات :۔
۱۔ماہنامہ ’’شاعر ‘‘ممبئی ‘ ہم عصر اردو ادب (مدیر اعجاز احمد)ستمبر ۱۹۷۷ ص ۲۵۴،
۲۔ایک گدھے کی سرگذشت ۔کرشن چندر ۔شمع بک ڈپو ۔بار اول۔ص ۳۳۔
۳۔اردو ادب میں طنزو مزاح ۔وزیر آغا ۔ہندوستانی ایڈیشن ۔ص ۲۶۶۔
۴۔ایک گدھے کی سرگذشت ۔کرشن چندر ۔شمع بک ڈپو ۔بار اول۔ص ۷۴۔
۵۔ایک گدھے کی سرگذشت ۔کرشن چندر ۔شمع بک ڈپو ۔بار اول۔ص ۱۳۔
۶۔ایک گدھے کی سرگذشت ۔کرشن چندر ۔شمع بک ڈپو ۔بار اول۔ص ۹۳۔
۷۔ایک گدھے کی سرگذشت ۔کرشن چندر ۔شمع بک ڈپو ۔بار اول۔ص ۱۵۰۔