عہد حاضر میں تعلیمی معیار میں گراوٹ
گلشن جہاں۔ سنبھل
تعلیم انسانی دنیا کا وہ سرمایہ ہے ،جس کی قدر و منزلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔یہ وہی عظیم الشان دولت ہے جس کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کاافتخار حاصل ہے ۔انسانی تاریخ شاہد ہے کہ عقل و شعور کے تمام گوشے علم ہی سے روشن ہوتے ہیں۔گویا تعلیم ایک ایسا جامع تصور ہے جوعقل و خرد کے تمام تر پہلوؤں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔تعلیم کا مقصد انسانی ذہنوں میں کشادگی ، نگاہوں میں بلندی اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت کی نشونما کرنا ہوتا ہے۔جس سے افراد کی شخصیات کا کوئ پہلو اچھوتا نہ رہے اور ہمہ جہت ترقی ممکن ہو سکے۔
تعلیم کادائرہ بہت وسیع ہے ۔علم کے حصول کی ابتداء مختلف شکلوں میں پیدائش سے ہی شروع ہو جاتی ہے اور آخری سانس تک جاری رہتی ہے۔انسانی زندگی کے مختلف تجربات اسے حقیقی طور پر تعلیم یافتہ بناتے ہیں۔لیکن یہاں میری مراد اسکولی تعلیم سے ہے جو انسان کی مثبت شخصیت کی نشونما کے بنیادی ذرائع میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔تعلیمی ادارے ہمارے سماجیانہ کے عمل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مختلف ادارے مختلف ثقافت کے مالک ہوتے ہیں،ان اداروں کی ثقافت کو ان کے طالب علم ہی زندہ رکھتے ہیں اور طالب علم اپنے اداروں سے حاصل شدہ تربیت کے نمائندہ ہوا کرتے ہیں،لیکن افسوس صد افسوس روز بروز ہمارے ادارے طلبا کے کردار پر اپنی مثبت چھاپ چھوڑنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جن کی وجہ سے نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم و اسناد حاصل کرنے کے بعد بھی نہ بڑوں سے بات کرنے کا سلیقہ ہے نہ چھوٹوں کے ساتھ مشفق رویے کے ساتھ پیش آتے ہیں۔کتب خانوں کی خستہ حالت دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے،مستقبل قوم کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ ٹیب لیٹ،اسمارٹ فون نے لے رکھی ہے جو کہ مطالئعہ کتب کی عادتوں کی کمیابی کا سبب ہبننے کے ساتھ ساتھ ہماری بینائی کی بھی دشمن ہے۔میرے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ گردش کرتا ہے کہ ہم طالب علم اتنے بدسلیقہ ،چڑچڑے اور دن بہ دن بدمزاج کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟تب ذہن کے نہاخانوں میں اس سوال کے بیشترجواب ابھرنے لگتے ہیں۔تمام تر جواب میں سے سب سے پختہ جواب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا پورا تعلیمی نظام بدعنوانی میں غرق ہو چکا ہے،اک ادنیٰ سطح کے چپراسی سے لے کر ،کلرک ، اساتزہ ،پرنسپل ،منیجرتک اس عذاب سے اپنا دامن بچانے میں ناکامیاب ہیں۔اس آلودہ فضا میں ایماندار اور علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والے طلبا اور اساتذہ کا دم گھٹنے لگتا ہے اور اایک دن بدعنوانی کے شکار اور استحصال سے تنگ آکر ایماندار استاد و طالب علم کی موت ہو جاتی ہے ،نتیجاً تشدد کا بول بالا ہونا شروع ہو جاتا ہے ،طلبا پر ہیجانی کیفیت طاری رہتی ہے اور تعلیم کا مقصد ناقص ہوجاتا ہے۔حیرت انگیز اور قابل افسوس یہ ہے کہ یہ حالت ہمارے تعلیمی شعبہ کی ہے جو کہ تما م عالم میں شعبہ عالیہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔
عہد حاضر میں ہمارا ملک ہر سمت میں ترقی کر رہا ہے،خواہ وہ تعلیمی ترقی ہو، ٹکنالوجی کی ترقی ہو یا پھر بدعنوانی کا معاملہ ہو۔ جہاں تک تعلیمی ترقی کا سوال ہے تو صرف تعلیمی شرح میں اضافہ ہوا ہے ،اس کے بر عکس تعلیمی معیار میں دن بہ دن گراوٹ آتی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کے سیاست داں اپنی ناموری کے لئے صرف کاغذی طور پر تعلیمی شرح میں اضافہ دکھانا چاہتے ہیں۔تو اساتذہ اپنی اپنی پروفیشنل ترقی میں لگے رہتے ہیں۔والدین جو ہماری شخصیت کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں،ان کو آج اپنے بچوّں سے نہ بات کرنے کی فرصت ہے نہ ان کے کر دار کو سجانے کی۔سارا بوجھ صرف طلبا پر ڈال دیا گیا ہے۔والدین اپنی خواہشات بچوّں پر تھوپ دیتے ہیں کہ تمہیں ڈاکٹر بننا ہے،انجینئر ہی بننا ہے ۔میری نظر میں یہ تاریخ انسانی کا بڑا المیہ ہے کہ دور حاضر میں والدین ہی متعدد نونحالوں کی خودکشی کا باعث بن رہے ہیں جو کہ اپنی اولاد سے پوری کائنات میں سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ والدین کیسے اپنی اولاد کو تکلیف دے سکتے ہیں ،جی ہاں یہ ہمارے ترقی یافتہ کہلانے والے معاشرہ کا کڑوا سچ ہے،جہاں اسکول کے پہلے دن سے ہی ماں باپ بچے پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں کہ بیٹا بڑے ہو کر آپ کو اپنے دادا کا سپنا پورا کرنا ہے،ڈاکٹر بن کر اپنے پاپا کا نام روشن کرنا ہے۔اب ذرا سوچئے کہ قدرت نے ہر انسان کو انفرادی قابلیت و صلاحیت بخشی ہے لیکن یہ چھوٹی سی بات جب ہمارے والدین نہیں سمجھ سکتے اور اپنے فیصلے اپنی اولاد پر تھوپ دیتے ہیں ،اسی دن سے بچےّ کی قدرتی صلاحیتوں کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اکژیہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ماں باپ کی اعلی سطح کی توقعات کو پورا کرنے کے لئے یا تو یہ طالب علم غلط طریقوں ،غلط عادتوں کا شکار ہو جاتے ہیں یا امتحنانات میں ناکامی کے بعد خودکشی کر لیتے ہیں۔میری ان تمام والدین سے التجا ہے کہ کبھی اپنے بچوں کے دل کی آواز کو بھی سننے کی سعی کیجئے،ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچان کر ،ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیجئے۔اسی میں انسانی فلاح کی گرہیں نہاں ہیں۔
اساتذہ کو صرف نصاب کو رٹانے سے مطلب ہے ،طلبا ان تصورات کی تفہیم کی یا نہیں اس سے کسی کو کو ئ سر وکار نہیں۔یوں تو ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں سینکڑوں خامیاں ہیں لیکن بنیادی تعلیم میں کچھ ایسی خامیاں ہیں ، جو ہمارے تعلیمی نظام کی بنیاد کو ہی کمزور بنا رہی ہیں ۔جس کی بنیاد پر معیاری عمارت تعمیر کرنا نا ممکن ہے۔آئیے اب ان سنجیدہ مسائل پر نظر ڈالتے ہیں جو ہمارے تعلیمی نظام میں گراوٹ کے ذمّہ دار ہیں۔
تعلیمی مقاصدکی حصولیابی نہ ہو پانا،طلبا پر بڑتا ہوا اسکولی بستوں کا بوجھ،تعلیمی اداروں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی،اساتذہ پر غیر تدریسی دیگر کام کا بوجھ ا ور والدین کی اس قدر مصروفیات زندگی کہ اپنی اولاد کو ان کے حصیّ کی محبت و شفقت دینے سے بھی سروکار نہیں۔
دور حاضر میں تو درجہ یکم سے ہشتم تک طلبا کو پاس کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے خواہ طلبا درجہ پاس کرنے کا بھی ذہنی معیار نہ رکھتے ہوں۔حکو مت کی مندرجہ بالا پالیسی نے تعلیمی معیار کی گراوٹ میں حددرجہ اضافہ کیا ہے ۔حالانکہ اس پالیسی کو بند کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ اس طرح کے بہت سے مسائل کا حل تلاش کرکے ہمیں اپنے تعلیمی معیار کو بلند تر بنانا ہے۔اس کے لئے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ایمانداری سے نبھانا ہوگا ۔ خصوصاً والدین اور اساتذہ کو اپنی شفقت و محبّت ،عادت و اطوار اور اپنے مثبت کردار سے نوخیز نسل کے سامنے مثالی کردار پیش کرنا ہوگا۔ اساتذہ کو تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں اپنا تعاون پیش کرنا ہوگا،اساتذہ کی بہتر کارکردگی کے بنا تعلیمی معیار میں اضافہ ناممکن ہے۔ اسی لئے اساتذہ کو ملک کے معمار کہا جاتا ہے۔بلآخر یہ کہ حکومت ،والدین اور اساتذہ کی اجتماعی کوششوں سے ہی ہمار ی تعلیمی شرح میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار کو بھی بلند تر بنایا جا سکتا ہے۔
—–
گلشن جہاں۔ایم۔اے(اردو۔نیٹ)،بی۔ایڈ
SAMBHAL.244302