زکوٰۃ کیسے ادا کریں ؟ : – ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

Share

 زکوٰۃ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِین۔

زکوٰۃ کیسے ادا کریں؟

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

زکوٰۃ کے معنی اور حکم:
زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی، بڑھوتری اور برکت کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اُن کے مال سے زکوٰۃ لو تاکہ اُن کو پاک کرے اور بابرکت کرے اُس کی وجہ سے، اور دعا دے اُن کو‘‘۔ (سورۃ التوبہ۱۰۳) شرعی اصطلاح میں مال کے اُس خاص حصہ کو زکوٰۃ کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فقیروں ومحتاجوں کو دے کر انہیں مالک بنا دیا جائے۔

قرآن کریم کی آیات اور حضور اکرم ﷺ کے ارشادات سے زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے۔ جوشخص زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ کی فرضیت ابتداء اسلام میں ہی مکہ مکرمہ کے اندر نازل ہوچکی تھی، جیساکہ امام تفسیرابن کثیرؒ نے ذکر کیا ہے۔ البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداءِ اسلام میں زکوٰۃ کے لئے کوئی خاص نصاب یا خاص مقدار مقرر نہ تھی، بلکہ جو کچھ ایک مسلمان کی اپنی ضرورت سے بچ جاتا، اُس کا ایک بڑا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا تھا۔ نصاب کا تعین اور مقدارِ زکوٰۃ کا بیان مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ہوا۔

زکوٰۃ اور رمضان:
زکوٰۃ کا رمضان میں ہی نکالنا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر ہمیں صاحب نصاب بننے کی تاریخ معلوم ہے تو ایک سال گزرنے پر فوراً زکوٰۃ کی ادائیگی کردینی چاہئے خواہ کوئی سا بھی مہینہ ہو۔ مگر لوگ اپنے صاحب نصاب بننے کی تاریخ سے عموماً ناواقف ہوتے ہیں اور رمضان میں ایک نیکی کا اجر ستر گنا ملتا ہے تو اس لئے لوگ رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں اور پھر ہر سال رمضان میں ہی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ زکوٰۃ ایک سال مکمل ہونے سے قبل بھی نکالی جاسکتی ہے اور اگر کسی وجہ سے کچھ تاخیر ہوجائے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، لیکن قصداً تاخیر کرنا صحیح نہیں ہے۔
زکوٰۃ کے فوائد:
زکوٰۃ ایک عبادت ہے، اللہ کا حکم ہے، زکوٰۃ نکالنے سے ہمیں کوئی منفعت حاصل ہویا نہ ہو، کوئی فائدہ ملے یا نہ ملے، اللہ کے حکم کی اطاعت بذات خود مقصود ہے۔ اصل مقصد تو زکوٰۃ کا یہ ہے ، لیکن اللہ کا کرم ہے جو کوئی بندہ زکوٰۃ نکالتا ہے تو اللہ اُس کو دنیاوی فوائد بھی عطا فرماتے ہیں، اُن فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی باقی مال میں برکت ،اضافہ اور پاکیزگی کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور زکوٰۃ اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ ۔ ۲۷۶) حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی بندہ زکوٰۃ نکالتا ہے تو فرشتے اُس کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کررہا ہے اس کو اور زیادہ عطا فرما، اور اے اللہ جس شخص نے اپنے مال کو روک کر رکھ رہا ہے اور زکوٰۃ ادا نہیں کررہا ہے تو اے اللہ اس کے مال پر ہلاکت ڈالے۔ نیز حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : کوئی صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتاہے۔ (ترمذی)
زکوٰۃ کس پر فرض ہے:
اُس مسلمان عاقل بالغ پر زکوٰۃ فرض ہے جو صاحبِ نصاب ہو۔ نصاب کا اپنی ضرورتوں سے زیادہ اور قرض سے بچا ہوا ہونا شرط ہے ، نیز مال پر ایک سال گزر نا بھی ضروری ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ جس کے پاس نصاب سے کم مال ہے، یا مال تو نصاب کے برابر ہے لیکن وہ قرض دار بھی ہے یا مال سال بھر تک باقی نہیں رہا ، تو ایسے شخص پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ ۸۸ گرام سونا یا ۶۱۲ گرام چاندی یا ۶۱۲گرام چاندی کی قیمت کے برابر نقد روپیہ یا سامانِ تجارت وغیرہ جس شخص کے پاس موجود ہے اور اُس پر ایک سال گزر گیا ہے تو اُس کو صاحبِ نصاب کہا جاتا ہے۔ غرضیکہ اگر کسی شخص کے پاس صرف سونا ہے تو وزن یعنی ۸۸ گرام سونے پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کے پاس صرف چاندی ہے تو وزن یعنی ۶۱۲ گرام چاندی پر زکوٰۃ واجب ہوگی، لیکن اگر سونا، چاندی اور نقدی مشترک ہے یا صرف نقدی ہے تو ۶۱۲ گرام چاندی کی قیمت کے برابر پیسہ ایک سال سے زیادہ موجود ہونے پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ مال تجارت میں زکوٰۃ کے وجوب کے لیے دو مزید شرطیں ہیں۔ بیچنے کی نیت سے خریدا تھی اور اب تک بیچنے کی نیت باقی ہے۔ گھر کے سازوسان حتی کہ گاڑی وغیرہ پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
زکوٰۃ کتنی ادا کرنی ہے:
اوپر ذکر کئے گئے نصاب پر صرف ڈھائی فیصد (2.5% ) زکوٰۃ ادا کرنی ضروری ہے۔
سامان تجارت میں کیا کیا داخل ہے: مال تجارت میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کو آدمی نے بیچنے کی غرض سے خریدا ہو۔ لہذا جو لوگ Investment کی غرض سے پلاٹ خریدلیتے ہیں اور شروع ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ جب اچھے پیسے ملیں گے تو اس کو فروخت کرکے اس سے نفع کمائیں گے، تو اس پلاٹ کی مالیت پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ لیکن پلاٹ اِس نیت سے خریدا کہ اگر موقع ہوا تو اس پر رہائش کے لئے مکان بنوالیں گے یا موقع ہوگا تو اس کو کرائے پر چڑھادیں گے یا کبھی موقع ہوگا تو اس کو فروخت کردیں گے یعنی کوئی واضح نیت نہیں ہے بلکہ ویسے ہی خرید لیا ہے، تو اس صورت میں اس پلاٹ کی قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
کس دن کی مالیت معتبر ہوگی؟ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے اُس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا جس دن آپ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے اپنے مال کا حساب لگا رہے ہیں۔ پرانے زیوارت فروخت کریں تو وہ کتنے میں فروخت ہوں گے (جو نئے زیوارت کے مقابلہ میں عموماً ۲۰ فیصد کم میں فروحت ہوتے ہیں) اُسی قیمت کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرنا ہوگا۔
سونے یا چاندی کے زیورات پر زکوٰۃ: خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور علماء وفقہاء ومحدثین قرآن وسنت کی روشنی میں عورتوں کے سونے یا چاندی کے استعمالی زیور پر وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں، اگر وہ زیور نصاب کے مساوی یا زائد ہو اور اس پر ایک سال بھی گزر گیا ہو ۔
ہر ہر روپے پر سال کا گزرنا ضروری نہیں:ایک سال مال پر گزر جائے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہر سال ہر ہر روپے پر مستقل سال گزرے۔ یعنی گزشتہ سال رمضان میں اگر آپ ۵ لاکھ روپے کے مالک تھے، جس پر ایک سال بھی گزر گیا تھا۔ زکوٰۃ ادا کردی گئی تھی۔ اِس سال رمضان تک جو رقم آتی جاتی رہی اُس کا کوئی اعتبار نہیں، بس اِس رمضان میں دیکھ لیں کہ آپ کے پاس اب کتنی رقم ضروریات سے بچ گئی ہے، اور اُس رقم پر زکوٰۃ ادا کردیں۔ مثلاً اِس رمضان میں ۶ لاکھ روپے آپ کے پاس ضروریات سے بچ گئے ہیں تو ۶ لاکھ کا 2.5% زکوٰۃ ادا کردیں۔
مستحقین زکوٰۃ یعنی زکوٰۃ کس کو ادا کریں ؟ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت نمبر ۶۰ میں ۸ مستحقین زکوٰۃ کا ذکر کیا ہے : (۱) فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں۔ (۲) مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ (۳) جو کارکن زکاۃ وصول کرنے پر متعین ہیں۔ (۴) جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو۔ (۵) وہ غلام جس کی آزادی مطلوب ہو۔ (۶) قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو۔ (۷)ا للہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔ (۸) مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو۔ غرضیکہ وہ حضرات جو صاحب نصاب نہیں ہیں اُن کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
جن لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے: اُس شخص کو جس کے پاس ضروریاتِ اصلیہ سے زائد بقدرِ نصاب مال موجود ہو۔ سیّد حضرات اور بنی ہاشم۔ بنی ہاشم سے حضرت حارثؓ بن عبدالمطلب،حضرت جعفرؓ، حضرت عقیلؓ، حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کی اولادمراد ہیں۔ اپنے ماں، باپ، دادا ، دادی، نانا ، نانی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ اپنے بیٹے، بیٹی، پوتا ، پوتی، نواسہ، نواسی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی ہے۔ کافرکو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ہے۔
نوٹ: بھائی ، بہن، بھتیجہ، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں، ساس، سسر، داماد وغیرہ میں سے جو حاجتمند اور مستحقِ زکوٰۃ ہوں، انہیں زکوٰۃ دینے میں دوہرا ثواب ملتا ہے، ایک ثواب زکوٰۃ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ کسی تحفہ یا ہدیہ کے شکل میں بھی اِن مذکورہ رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
زکوٰۃ نہ نکالنے پر وعید: سورۃ التوبہ آیت نمبر ۳۴ ۔ ۳۵ میں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کما حقہ زکوٰۃ نہیں نکالتے۔ اُن کے لئے بڑے سخت الفاظ میں خبر دی ہے، چنانچہ فرمایا کہ جو لوگ اپنے پاس سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اُس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، تو (اے نبی) آپ اُن کو ایک دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے، یعنی جو لوگ اپنا پیسہ، اپنا روپیہ، اپنا سونا چاندی جمع کرتے جارہے ہیں اور اُن کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُن پر اللہ نے جو فریضہ عائد کیا ہے اُس کو ادا نہیں کرتے، اُن کو یہ وعید سنادیجئے کہ ایک دردناک عذاب اُن کا انتظار کررہا ہے۔ پھر دوسری آیت میں اُس دردناک عذاب کی تفصیل ذکر فرمائی کہ یہ دردناک عذاب اُس دن ہوگا جس دن سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اُس آدمی کی پیشانی ، اُس کے پہلو اور اُس کی پشت کو داغا جائے گااور اس سے یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، آج تم اس خزانے کا مزہ چکھو، جو تم اپنے لئے جمع کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس انجام بد سے محفوظ فرمائے ، آمین۔
نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جب مال میں زکوٰۃ کی رقم شامل ہوجائے یعنی پوری زکوٰۃ نہیں نکالی بلکہ کچھ زکوٰۃ نکالی اور کچھ رہ گئی تو وہ مال انسان کے لئے تباہی اور ہلاکت کا سبب ہے۔ لہذا اس بات کا اہتمام کرو کہ ایک ایک پائی کا صحیح حساب کرکے زکوٰۃ ادا کرو۔
زکوٰۃ سے متعلق چند متفرق مسائل:
زکوٰۃ جس کو دی جائے اُسے یہ بتانا کہ یہ مالِ زکوٰۃ ہے ضروری نہیں بلکہ کسی غریب کے بچوں کو عیدی یا کسی اور نام سے دیدینا بھی کافی ہے۔ دینی مدارس میں غریب طالب علموں کے لئے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ زکوٰۃ کی رقم کو مساجد، ہسپتال، یتیم خانے اور مسافر خانے کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔اگر عورت بھی صاحبِ نصاب ہے تو اُس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے، البتہ اگر شوہر خود ہی عورت کی طرف سے بھی زکوٰۃ کی ادائیگی اپنے مال سے کردے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
(www.najeebqasm.com)
——-

Share
Share
Share