اردو کےادیب اورنثرنگار – قسط – 14- اختراورینوی – عزیزاحمد:- محسن عثمانی ندوی

Share


قسط – 14
اردو کےادیب اورنثرنگار
اختراورینوی – عزیزاحمد

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

اردو کے ادیب اور نثر نگار ۔ تیرھویں قسط کے لیے کلک کریں

اختر اورینوی (۱۹۱۰۔۱۹۷۰)
اختر اورینوی بہار کے ضلع گیا میں پیدا ہوئے ، کاکو قصبہ ان کا وطن تھا ، وہ افسانہ نگار بھی تھے ، ڈرامہ نویس بھی تھے ، ناول نگار بھی تھے اور شاعر بھی تھے ، اور ایک اچھے نقاد بھی تھے ، ان کے تنقیدی مضامین اور ان کے افسانوں کی وجہ سے ان کی ادبی کاوشیں یاد رکھی جائیں گی ، اردو فارسی اور انگریزی کی تعلیم گھر پر حاصل کی ، پھر وہ پٹنہ یونیورسٹی کے طالب علم رہے –

۱۹۳۸ میں پٹنہ کالج میں اردو کے لکچرر مقرر ہوئے ، ان کے افسانوں کے کئی مجموعے ہیں ، ’’منظر و پس منظر‘‘’’کلیاں اور کانٹے ‘‘ اور ’’انار کلی‘‘ اور ’’بھول بھلیاں ‘‘ وغیرہ ، ان کا ناول ’’حسرت تعمیر‘‘ ۱۹۶۱ میں فروغ اردو لکھنؤ سے شائع ہوا ، ان کا شعری مجموعہ ’’انجمن آرزو ‘‘کے نام سے شائع ہوا ، ان کی کتاب ’’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء‘‘ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’قدر و نظر‘‘ ’’تحقیق و جدید تنقید‘‘ ’’کسوٹی‘‘’’مطالعہء اقبال‘‘’’مطالعہء نظیر‘‘ ’’تنقید جدید‘‘ اور’’سراج و منہاج‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں ،وہ اپنے ایک مضمون’’میرا نظریہ فن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ تخلیق میں سماجی میلانات اور ماحول کی معروضیت کی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں لیکن اس خیال کے حامل ہیں کہ ادب میں انفرادیت اور قوت تخلیق و تعمیر کی اہمیت نسبتا زیادہ ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ایک ادیب اختراعی اور جمالیاتی مطالبات سے ہم آہنگ ہو کر ہی تخلیق کے منصب پر فائز ہوسکتا ہے ، اختر اورینوی کا مطالعہ بہت وسیع ہے ، انھوں نے سائنس ، عمرانیات، مذہب ، فلسفہ اور فنون لطیفہ کا گہرا مطالعہ کیا تھا ، وہ ذوق حسن کو عطیہ فطرت تصور کرتے ہیں اور آرٹ اور مذہب کا چشمہ فیض وجدان کو قرار دیتے ہیں ، وہ تنقید کو ایک ذوقی چیز تصور کرتے ہیں ، انھوں نے اپنے ادبی تصورات کی اپنے مضامین میں وضاحت کی ہے ، اختر اورینوی بحیثیت نقاد بڑی اہمیت کے حامل اس لئے ہیں کہ ان کی تحریروں میں بڑا توازن ہے ، ایک ایسیدور میں جب ترقی پسندی فیشن بن گئی تھی وہ افراط و تفریط کے شکار نہیں ہوئے اور نعرہ بازی اور پروپگنڈہ کو ادب کا نعم البدل قرار دینے سے انھوں نے انکار کیا ، اختر اورینوی اخلاقی اقدار کی اہمیت کے قائل ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عریاں نگاری ادب پر ایک داغ ہے ، اختر اورینوی کے اسلوب میں حسن کاری اور سحر آفرینی پائی جاتی ہے ، اختر اورینوی کے تنقیدی مضامین پڑھ کر اہل ادب جو رائے قائم کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اختر اورینوی تہذیبی ماحول اور جمالیاتی حسن دونوں کے قائل ہیں اور اچھے ادب کو ان دونوں کی کارفرمائی کا نتیجہ تصور کرتے ہیں ۔

عزیز احمد (۱۹۱۴۔۱۹۷۸ء)
ہندو ستان میں بسویں صدی کی پانچویں دہائی تک اردو ناول کی تاریخ میں جو سب سے اہم اور معتبر نام ہے وہ عزیز احمد کا ہے ، عزیز احمد ایک مفکر ، ایک دانشوراور ایک ادیب تھے ، افکار کی دنیا میں جو تبدیلیاں ہورہی تھیں اور جو تحریکیں اٹھی تھیں ان سے وہ پورے طور پر باخبر تھے ، اقبال پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں ان کتابوں میں جو چند نام بہت زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں ان میں عزیز احمد کی کتاب ’’اقبال اورنئی تشکیل ‘‘ ہے ، فکشن کی دنیا میں ایک بہت بڑے دانشور کی حیثیت سے عزیز احمد نے قدم رکھا ، ان کی ادبی صلاحیتیں ان کے ناولو ں میں بروئے کار آئی ہیں ، ان کے اندر کردار نگاری ، فضا آفرینی اور جزئیات کی پیش کشی کا اچھا سلیقہ ہے ، ان کا اصل وطن تو بارہ بنکی اترپردیش تھا لیکن ان کے والد بشیر احمد وکالت سے وابستہ ہوگئے تھے اور سر زمین حیدرآباد کو انھوں نے اپنا وطن بنالیا تھا ، عزیز احمد نے تعلیم کی ابتدائی منزلیں حیدرآباد میں طے کیں ، عثمانیہ یونیورسٹی سے انھوں نے بی اے کیا ، پھر وہ اعلی تعلیم کے لئے لندن روانہ ہوگئے ، وہ ۱۹۳۸ میں لندن سے حیدرآباد واپس آئے اور عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہء انگریزی میں ریڈر مقرر ہوئے ، تقسیم ملک کے بعد عزیز احمد پاکستان چلے گئے اور وہاں مختلف عہدوں پر فائز رہے ۔
عزیز احمد نے ایک کامیاب ناول نگار کی حیثیت سے ادب میں اپنی جگہ بنائی ہے ، انھوں نے اردو ناول کی سمت اور رفتار کو نئے امکانات سے روشناس کیا ہے ، عزیز احمد کے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ ’’گریز‘‘ ’’آگ‘‘ اور’’شبنم‘‘ نے اردو فکشن میں ان کا تشخص قائم کیا ہے ، عزیز احمد نے روایتی انداز سے انحراف کیا ہے اور مواد ، ہیئت اور اسلوب میں جدت اور ندرت کو اختیار کرنے کی کوشش کی ہے ، ان کا مطالعہ اور ان کا مشاہدہ دونوں وسیع تھا ، انھوں نے اپنی ناولوں میں حقیقی زندگی کی ترجمانی کی کوشش کی ہے ، انکی عصری حسیت ان کے ناولوں اور افسانوں میں تہذیبی شعور کے ساتھ موجود ہے ، ان کا ایک ناول ’’ہوس‘‘ ہے جو پردہ کی مخالفت میں لکھا گیا ہے لیکن اس طرح سے کہ فن پر مقصدیت کو غالب آنے نہیں دیا گیا ہے ، ہوس عزیز احمد کا شاہکار ناول تو نہیں ہے لیکن اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ناول ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے ، ہوس اور ان کے دوسرے ناول ’’مرمر‘‘ اور ’’خون‘‘ کے بارے میں عبد الحق نے لکھا ہے کہ یہ اس دور کے ناول ہیں جب اعصاب پر جنسی ہیجان غالب رہتا ہے ، عزیز احمدمیں جذبات نگاری کا سلیقہ موجود ہے ، ان کا ایک ناول ’’گریز‘‘ بھی ہے ، بعض نقادوں کو اس ناول میں شعور کی رو کی جھلک نظر آتی ہے ، خلیل الرحمن اعظمی نے اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک میں ’’گریز‘‘ کو سجاد ظہیر کی ’’لندن کی ایک رات‘‘ کی ارتقائی شکل سے تعبیر کیا ہے ، لیکن وہ عزیز احمد کی عریاں نگاری کو پسند نہیں کرتے ، لیکن اس ناول سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عزیز احمد کو ناول کی ٹکنیک پر عبور حاصل ہے ، عزیز احمد کا ناول ’’آگ ‘‘ کشمیری زندگی کی عکاسی کرتاہے ، اور اس ناول میں ہندوستانی سیاست کے نشیب و فراز اور اس کی اہم تبدیلیوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے ، آگ میں تین نسلوں کی کہانی بیان کی گئی ہے ، عزیز احمد کے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ کا پس منظر حیدرآباد ہے جہاں عزیز احمد کی زندگی کا قابل لحاظ حصہ گزرا ، حیدرآباد کی تہذیب اور اس کے خد وخال کو ناول نگار نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ناول کے پس منظر میں ابھارا ہے ، اس ناول کا کینوس بہت وسیع ہے اور اس میں کرداروں کی کثرت بھی ہے ۔
عزیز احمد کے ناولٹ میں ’’تیری دل بری کا بھرم‘‘ ’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘ قابل ذکر ہے ۔ ’’بیکار دن اور بیکار راتیں ‘‘ ’’اور رقص نا تمام‘‘ ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں ، حیدرآبادی طرز تکلم اور بول چال کے نمونے عزیز احمد کی تحریروں میں محفوظ ہوگئے ہیں ، ’’تصور شیخ‘‘ ’’باغبان‘‘’’کٹھ پتلیاں‘‘ اور ’’رومۃ الکبری کی ایک شام ‘‘ کا عزیز احمد کے اچھے افسانوں میں شمار ہوتا ہے ، عزیز احمد شاعر بھی ہیں ، نقاد بھی ہیں ، ان کی ایک کتاب ’’ترقی پسند ادب‘‘ ہے ، پھر ان کی ایک دوسری کتاب ’’اقبال اور پاکستانی ادب‘‘ ہے ، ان کی کتاب ’’اقبال نئی تشکیل‘‘ کا شمار اقبالیات کے موضوع پر اہم کتابوں میں کیا جاتا ہے ۔

Share
Share
Share