وٹرنری میڈیسن
ایک معزز پیشہ، ایک نفع بخش صنعت
مسلم طلبہ کی بے توجہی اور عدمِ دلچسپی ناقابل فہم
ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985
کوئی پیشہ ہو کہ ہنرمندی، فنکاری ہو کہ کاریگری، نہ صرف قابل قدر ہوتے ہیں بلکہ تقدس و برکت کے حامل بھی، کیوں کہ انسان اپنے علم و فن اور محنت و مشقت کے ذریعہ اپنے خالق کی عطا کردہ نعمتوں اور برکتوں کو اپنے ہی مقدس اور مکرم ہاتھوں سے سمیٹتا ہے۔ اسلام نے تو ’’الکاسب حبیب اللّٰہ‘‘ (روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے) کہہ کر ہر پیشہ کا رتبہ بلند کردیا ہے اور حصولِ رزق کی جائز کوششوں کو تحسین و توقیر کا ایسا اعزاز بخشا ہے کہ اب ہمیں کسی افہام و تفہیم کی ضرورت باقی نہیں رہتی، پھر بھی انسانی فطرت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ کسی بھی بات کو تسلیم کرنے سے قبل اس کی اہمیت و افادیت اور عملیت و وسعت کو معلوم کرلیا جائے۔ اسی اصول کے تحت حسبِ ذیل حقائق پیش کیے جاتے ہیں، تاکہ ’’وٹرنری پروفیشن‘‘ (Veterinary Profession) کا پیام طلبہ برادری تک پہنچ جائے۔
ابتداءً یہ بات بتلاتا ہوں کہ وٹرنری سرجن کے اعزاز کے لیے BV.Sc & A.H. کا 5 سالہ ڈگری کورس کرنا پڑتا ہے، جب کہ EAMCET کی بنیاد پر داخلہ ملتا ہے۔ اسی کورس کو امریکہ میں D.V.M. (بیچلر آف وٹرنری میڈیسن کہتے ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں ۳۴ وٹرنری کالجس ہیں اور ہماری ریاست میں ۳ وٹرنری کالجس راجندر نگر (حیدرآباد)، تروپتی اور گناورم (مشرقی گوداوری) میں قائم ہیں۔ چینائی (مدراس) اور مغربی بنگال میں وٹرنری یونیورسٹیاں بھی قائم ہوچکی ہیں۔ ریاست کے تینوں کالجس میں تقریباً ۱۷۰ امیدواروں کو داخلہ مل سکتا ہے۔ راجندر نگر اور تروپتی میں کو مجموعی طور پر ۱۴۵ طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے، جب کہ گناورم میں ۲۵ طلبہ کو ان میں مسلم طلبہ کا شمار ۲ تا ۳ فیصد سے زائد نہیں ہے۔ دیگر یہ کہ وٹرنری کالج حیدرآباد اور تروپتی میں M.V.Sc اور Ph.D. کی سہولتیں بھی حاصل ہیں۔
جہاں تک اہمیت و افادیت کا معاملہ ہے مشہور ہے کہ وٹرنری ڈاکٹر کو چیونٹی سے لے کر قوی ہیکل ہاتھی تک کے لیے اپنا دستِ شفا دراز کرنا پڑتا ہے، یعنی تمام جانداروں کی دل داری کے لیے ماہر طب حیوانات ہی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے سوائے حضرت انسان کے ، گویا اس ذی روح سے قطع نظر ہر ذی جان وٹرنری کے دائرۂ کار میں آتا ہے۔ ویسے ارسطو کی اصطلاح میں انسان کو بھی ’’حیوانِ ناطق‘‘ یعنی بولنے والا جانور یا پھر ’’سخنور‘‘ کہیے۔ یوں تو انسان اور جانور کے رشتے ابتدائے آفرینش سے چلے آرہے ہیں، جو ایک دوسرے سے اپنی باہمی ضرورتوں اور فائدہ بخشی کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ تہذیب کے اوّلین دَور میں میر شکاری ہی سب سے زیادہ متمول اور رتبہ والا ہوتا تھا۔ سائنسی علوم کی ترقی نے اب تو مختلف جانوروں اور پرندوں کو ایک گشتی حیاتیاتی فیاکٹری میں تبدیل کردیا ہے۔ وٹرنری میڈیسن ، افزائش حیوانات کی جدید ٹیکنالوجی کے باعث ایک جامع اور نافع (وسیع و فائدہ بخش) صنعت کا درجہ حاصل کرچکا ہے، کیوں کہ وہ مرغی جو کبھی صرف ۶۰ انڈے سالانہ دیا کرتی تھی آج ۳۰۰ انڈوں کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ دودھ دینے والے جانور (گائے، بھینس) جو اپنے ایامِ شیر (Lactation Period) میں اوسطاً ۵۰۰ لیٹر بھی دودھ نہ دیتے تھے آج ۴۰۰۰ تا ۵۰۰۰ لیٹر دودھ دیتے ہیں۔ یہ تو انسانی غذا سے متعلق چند اشارے تھے۔ علاوہ ازیں فارمیسی ، عضو کی پیوندکاری ، سرجیکل ٹیکنک ، کلوننگ (Cloning) ، جنینی استقرار ، عمل کی ترسیل Embryo Transplantation وغیرہ۔ غرض انسانی حفظانِ صحت اور انسدادِ امراض کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں جانوروں کو تجربہ گاہوں میں استعمال نہکیا جاتا ہو۔ ادھر انسان کی خودغرض بھی دیکہئے کہ زندگی میں تو کجا موت کے بعد بھی اپنا کوئی عضو عطیہ دینے پر راضی نہ ہو، اس لیے یہ کہنے میں تامل نہ ہونا چاہیے کہ نسل انسانی اپنی صحت کی بقاء اور تغذیہ کی فراہمی کے لیے حیوانات کی مشکور ہے۔ بقاء اور غذاء ہی پر کیا منحصر ہے، اس مسرت و شادمانی اور احساس و کیفیت کا آپ کیا اندازہ لگا سکتے ہیں ، جو خوش رنگ چہچہاتے پرندوں اور اٹھکیلیاں کرتے ہوئے پالتو جانوروں سے ہمیں میسر آتی ہے۔ خود انسان اپنے ہم جنسوں سے زیادہ بعض جانوروں کو اپنا وفادار رفیق مانتا ہے۔
افزائش حیوانات:
صنعتی بلندیوں کو چھونے کی داستاں بڑی طویل اور دل آویز ہے۔ یہاں صرف چند اعداد و شمار پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ دیکھئے! یہ جانور اور پرند کچھ گھاس پوس اور ادنیٰ درجہ کے اجناس اور ازکار رفتہ اشیاء کو اپنی غذا بناکر ، انسان کے لیے کروڑہا روپئے کی آمدنی کا کیسے نفع بخش ذریعہ بنتے ہیں۔ ۹۵۔۱۹۹۴ء کے اعداد و شمار کے مطابق کل ہند سطح پر دودھ کی پیداوار سے ۰۰۰،۵۰ کروڑ ، گوشت کے زمرہ میں ۲۶۰،۱۷ کروڑ، پولٹری کے شعبہ میں تقریباً ۰۰۰،۹ کروڑ اور چرم کے ذریعے ۲۳۷،۱ کروڑ روپؤں کی آمدنی ہوتی ہے، جب کہ ۲۰۰۰ء تک تخمینی اعداد و شمار کے تحت تقریباً ہر زمرہ میں دگنا اضافہ کا امکان ہے۔ اس طرح ایک قابل لحاظ آمدنی قومی معیشت میں حیوانات کی پیداواری صلاحیت کے باعث جمع ہوتی ہے۔ مواقع (Opportunitles) کے اعتبار سے وٹرنری سرجن کے لیے ایک دنیا بلکہ حرکیاتی دنیا منتظر رہتی ہے۔
سرکاری ملازمت: جو رتبہ کے اعتبار سے گزیٹیڈ۔ مشاہرہ کے لحاظ سے پرکشش اور تقرر کے معاملہ میں فوری پیشکش۔ ادھر ڈگرلی اور ادھر محکمہ میں خیرمقدم۔ بہت کم ہی ایسا ہو کہ امیدواروں کو انتظار کرنا پڑا۔ اگر آپ M.V.Sc کے ساتھ ملازمت میں داخل ہونا چاہیں تو اسسٹنٹ ڈائرکٹر کے عہدہ پر راست تقرر بھی حسبِ ضرورت عمل میں لایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مائیکرو بیالوجی (Microbiology) یا (Immunology) سے M.V.Sc کریں تو محکمہ کے سب سے بڑے تحقیقاتی ادارہ V.B.R.I حیدرآباد میں تقرر ہوتا ہے، جہاں ایک وٹرنری سرجن ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے جوائنٹ ڈائرکٹر کے عہدہ تک رسائی حاصل کرسکتا ہے یا پھر کسی ضلع مستقر کے ہیلتھ سنٹر پر تعیناتی ہوتی ہے۔ ترسیل اور تیزرو حمل و نقل کے اس دَور میں دیہی علاقوں میں کام کرنا مشکل مسئلہ نہیں رہا۔ تمام فاصلے اب سکڑچکے ہیں۔ محکمہ کی وسعت کا اندازہ حسبِ ذیل اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔
ضلع سطح پر کوئی ۲۲ بڑے دواخانے ہیں۔ تعلقہ کی سطح پر ۲۸۵ دواخانے، منڈل کی سطح پر ۱۸۰۹ ڈسپنسریاں اور موضع کی سطح پر ۲۸۸۶ وٹرنری سنٹر کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ وٹرنری بیالوجیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (V.B.R.I) حیدرآباد میں کوئی ۵۰ کے قریب وٹرنری ڈاکٹرس مختلف عہدوں پر کام کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں لیو اسٹاک فارمس (Livestock Forms)، Sheep Farm، افزائش نسل (Cattle Breeding Farms) اور دیگر ادارہ جات میں بھی کافی گریجویٹ جائیدادیں ہوتی ہیں، جو اب آندھرا پردیش لیواسٹاک ڈیولپمنٹ کارپوریشن (APLSDC) کے زیرانتظام توسیع پذیر ہیں۔ ریاستی سرکاری ملازمت کے علاوہ بھی وٹرنری ڈاکٹرس کے لیے ایسے بے شمار مواقع نکل آتے ہیں جو زیادہ تر گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرس کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔
* فارمیسوٹیکل کمپنیاں (Pharmaceutical Companies) تقریباً ہر انسانی میڈیسن بنانے والی کمپنی اپنا وٹرنری کا علیحدہ شعبہ رکھتی ہے، جہاں لیاب کے جانور جیسے سفید چوہے، بندر اور خرگوش وغیرہ پرورش بھی کیے جاتے ہیں، تاکہ مختلف نئی ادویات کے تجربات کیے جائیں۔ اس کے علاوہ خالص ایسی سینکڑوں کمپنیاں بھی ہیں جو صرف وٹرنری ادویات تیار کرتی ہیں۔ کسی بھی دوا کے اجزاء تو وہی ہوتے ہیں جو کہ طبِ انسانی میں استعمال پذیر ہیں، صرف ان کی مقدار کا فرق ہوتا ہے، جو جانور کے وزن اور دیگر معیارات کے مطابق تیار کیے جاتے ہیں۔ اس ٹیکنیکل کام کے علاوہ بھی مختلف کمپنیاں صرف ڈاکٹرس ہی کو اپنا تجارتی سفیر (Sales Executive) بنانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ آج تو B.V.Sc.& M.B.A کی بڑی قدر ہے، جس سے کسی بھی کمپنی میں بہت جلد اعلیٰپوزیشن جیسے ڈپٹی جنرل منیجر یا ڈائرکٹر سیلز یا جنرل منیجر حاصل کی جاسکتی ہے۔
* ڈیری فارمنگ: آندھرا پردیش ڈیری ڈیولپمنٹ فیڈریشن میں یا نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ وغیرہ میں تو ملازمت کے علاوہ اس وقت ریاست اور ملک میں بے شمار پرائیویٹ ڈیری پلانٹ منظر عام پر آچکے ہیں، جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اور وٹرنری ڈاکٹرس کے منتظر بھی۔ چاہے تو آپ ڈگری کی بنیاد پر کسی بھی قومی بینک سے NABARD اسکیم کے تحت پروفیشنل قرضہ حاصل کرسکتے ہیں اور دیری فارمنگ کی صنعت کے حصہ دار بن سکتے ہیں۔
* پولٹری فارمنگ: یہ شعبہ تو وٹرنری ماہرین کے انجذاب (Absorption) کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ سینکڑوں Hatcheries تو خود اس ریاست میں کام کررہی ہیں۔ ہر ایک کمپنی وٹرنری خدمات کا ایک وسیع اسٹاف رکھتی ہے، جو تمام پولٹری فارمرس کو مفت خدمات مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ Product Marketingکے لیے تجارتی عامل (Sales Executives) کی حیثیت سے بھی وٹرینرینس کا تقرر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہیاچری کے ساتھ ایک تحقیقاتی لیباریٹری اور فیڈ مکسنگ (Feed Mixing) پلانٹ بھی ہوتا ہے۔
* اسی طرح بھیڑ بکریوں (Sheep & Goat) کی پرورش اور افزائش کا میدان بھی کافی نفع بخش ہے اور خصوصاً آندھرا پردیش میں ان کی تعداد اور کھپت کے اعتبار سے بہترین مواقع ہیں۔
* ٹیکہ کی تیاری Vaccine Production مختلف متعدی بیماریوں کے لیے پولٹری اور دیگر جانوروں کے ٹیکہ کی تیاری کے لیے کئی بڑی کمپنیاں (قومی اور بین الاقوامی) وٹرنری ڈاکٹروں کی تلاش میں ہیں، جو نئی ٹیکنالوجی سے لیس بھی ہیں۔
* فیڈ تیار کرنے والی کمپنیاں بھی اب وٹرنری ماہرین تغذیہ (Animal Nutritionist) کو بڑی بڑی تنخواہوں کے ساتھ خوش آمدید کہتی ہیں، جو زیادہ تر Poultry اور Cattle فیڈ تیار کرتی ہیں۔ اسی کے ساتھ Mineral Mixture کا کاروبار بھی خوب چل رہا ہے۔
* بینک کی ملازمتیں: بینکوں کو قومیانے کے بعد گذشتہ ربع صدی سے زراعت اور افزائش حیوانیات کے شعبوں کی ترقی کے لیے قرضوں کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ نیشنل اگریکلچرل اینڈ رورل ڈیولپمنٹ کے تحت تقریباً ہر قومی بینک اپنے یہاں ایک زرعی شعبہ رکھتا ہے، جس میں وٹرنری گریجویٹس بحیثیتِ اسسٹنٹ منیجر تقرر کیے جاتے ہیں، جس کے لیے ایک اہلیتی امتحان بھی ہوتا ہے۔ بعض بینکوں کے تو خصوصی زرعی بینک بھی موجود ہیں، جہاں وٹرنری زراعت اور سمکیات کے ماہرین متعین ہوتے ہیں۔ بینکنگ سرویس میں داخل ہونے کے بعد اگر مزید اہلیتی امتحانات کامیاب کارلیں تو اختیاری طور پر جنرل بینکنگ عہدیداروں میں شامل ہوکر ریجنل منیجر یا جنرل منیجر کے عہدوں تک بھی رسائی ہوتی ہے۔
* ملٹری سرویس: ابتداء ہی سے فوج میں RVC (ریمونٹ وٹرنری کور) کا ریجمنٹ قائم ہے، جو خصوصی طور پر گھوڑوں اور خچروں کی نگہداشت کے لیے رکھا جاتا ہے۔ وٹرنری سرجن کو کمیشنڈ رتبہ کے ساتھ کیپٹن، میجر ، لیفٹیننٹ کرنل سے کرنل وغیرہ سے آگے میجر جنرل کے عہدہ تک ترقی دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ Farms ریجمنٹ کے تحت تقریباً ہر Sub Area کمانڈ میں ڈیری فارم، پولٹری فارم اور مسالخ ہوتے ہیں، جن پر یہی کیپٹن میجر اور کرنل کے تقررات ہوتے ہیں۔
* Zoo اور ریس کلب بھی وہ مقامات ہیں جہاں وٹرنری سرجن کے بغیر کام نہیں چلتا۔
* میٹ اندسٹری (Meat Industry) ’’الکبیر‘‘ کی شہرت سے تو سب ہی واقف ہیں۔ اسی طرح کے اور جدید مسالخ دہلی، علی گڑھ، ممبئی اور اورنگ آباد وغیرہ میں ہیں، جو جدید اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور وٹرنری ماہرین لحمیات (Meat Technologist) کے احسان مند ہیں۔
* مرکزی ادارے: ایسے بہت سے مرکزی ادارے ہیں جیسے ICAR (انڈین کونسل آف اگریکلچرل ریسرچ)، IVRI (انڈین وٹرنری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)، ADMAS بنگلور، ICMR (انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ) اور CFTRI میسور وغیرہ جہاں پروٹرنری پروفیشنلس کی مانگ رہتی ہے۔
* غیرسرکاری تنظیمیں (NGOS) بہت سی ایسی تنظیمیں ہیں جیسے BCG (بلیو کراس حیدرآباد)، SPCA (انسدادِ بے رحمی جانوراں)، CUPA بنگلور اور AWB (انیمل ویلفیئر بورڈ) وغیرہ ہیں، جو وٹرنری ڈاکٹرس کو پرکشش تنخواہوں پر ملازمت دیتے ہیں۔
* تحقیق و تدریس: تحقیق و تدریس کے معاملہ میں بھی اس پُرفیشن نے کافی ترقی کی ہے۔ اب تو وٹرنری یونیورسٹیوں کا دور شروع ہوچکا ہے، چنانچہ چینائی (مدراس) اور مغربی بنگال میں وٹرنری جامعات قائم ہوچکی ہیں۔ ویسے بھی ہر وٹرنری کالج میں ۲۰ تا ۲۵ مختلف شعبے ہوتے ہیں، جن میں ایک پروفیسر، اسوسی ایٹ پروفیسرس اور اسسٹنٹ پروفیسرس تقرر کیے جاتے ہیں۔ ایم وی ایس سی اور پی ایچ ڈی کے حامل ہی یہاں اپنا Career شروع کرسکتے ہیں۔ بیشتر شعبے ایسے ہیں جو خالص سائنس (Pure Science) سے جڑے ہوتے ہیں، جس میں اعلیٰ ڈگری رکھنے کے بعد دنیا کے کسی بھی ملک میں اعلیٰ تحقیقاتی ادارہ میں ریسرچ اسکالرس کی حیثیت سے موقع ملتا ہے، جہاں ایسی تمام سرحدیں ختم ہوجاتی ہیں جنہیں ہم علمی جماعت بندی کے تحت وٹرنری یا میڈیسن کہتے ہیں۔
بہرحال اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ’’وٹرنری پروفیشن‘‘ ایک ہمہ جہتی اور ہمہ مقصدی پیشہ ہے، جو اعلیٰ مراتب و اقدار کا حامل بھی ہے اور عصری تعلیم کا نقیب بھی
آتی ہے دم صبح صدا عرش بریں سے
کھوگیا کس طرح ترا جوہر ادراک
کس طرح ہوا کند ترا نشتر تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
(اقبال)
——-