طنز و مزاح کا ایک اورچراغ بجھ گیا: غوث خواہ مخواہؔ :- ڈاکٹر ضامن علی حسرتؔ

Share
حضرت غوث خواہ مخواہؔ

طنز و مزاح کا ایک اورچراغ بجھ گیا
غوث خواہ مخواہؔ

ڈاکٹر ضامن علی حسرتؔ
9/16/60، احمد پورہ کالونی،
نظام آباد، تلنگانہ اسٹیٹ
موبائیل : 9440882330

طنز و مزاح کے نامور شعراء طالبؔ خوندمیری اور فرید انجمؔ کی موت کا غم ابھی پوری طرح سے ہمارے دِلوں سے مٹنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت غوث خواہ مخواہؔ کی موت کی خبر نے سارے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ طنز و مزاح کا ایک اور چراغ بجھ گیا۔ ایک عظیم شاعر اور ایک بہترین اِنسان ہم سے بچھڑ گیا۔ غوث خواہ مخواہؔ کی موت کو ذہن و دِل قبول کرنے کے لئے قطعی تیار نہیں ہیں۔

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور اپنے مزاحیہ اشعار سُناکر ہمیں لوٹ پوٹ کر رہے ہیں۔ مگر سچ تو پھر سچ ہے۔ بھلاموت سے کوئی بچا ہے جو غوث خواہ مخواہ بچ جاتے۔ لیکن ہاں وہ مر کر بھی زندہ رہیں گے اپنے فن کی بدولت اپنی شگفتہ شاعری کی بدولت۔ مسلسل (68) برسوں تک غوث خواہ مخواہ ؔ کی طنزیہ و مزاحیہ ادب پر حکمرانی رہی۔ اُن کا شمار صفِ اول کے شعراء میں ہوتا تھا۔ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اُنھوں نے طنز و مزاح کی ایسی بے لوث خدمت کی ہے جسے بُھلایا نہیں جاسکتا۔ طنز و مزاح کو اُنھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ مزاح تو جیسے ان کی زبان پر ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ ہر لفظ مزاح کی چاشنی میں نہایا ہوا ہر جملہ میں طنز کے تیر پوشیدہ ہوا کرتے تھے۔ عاجزی ملنساری اور خلوص کا پیکر تھے خواہ مخواہؔ ۔ طنز و مزاح کی بنجر زمین میں خواہ مخواہؔ قہقہوں کے گُل ساری عمر کھلاتے رہے۔ زندگی سے تھکے ہارے لوگوں میں فراق دلی کے ساتھ مسکراہٹیں اور قہقہے تقسیم کرنے والا زندہ دل اِنسان دبے پاؤں موت کی آغوش میں سما گیا۔ اور اپنے چاہنے والوں کو ایک ایسا غم دے گیا جسے وہ تا عمر بُھول نہیں پائیں گے۔ راقم نے غوث خواہ مخواہؔ کے فن و شخصیت پر اپنا مقالہ پیش کرکے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے پی۔ایچ ڈی (Ph.D) کی ڈگری لی ہے۔ خاکسار کے غوث خواہ مخواہؔ سے قریبی مراسم تھے۔ اکثر اُن سے کبھی گھر پر تو کبھی مشاعروں میں ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ اِسی وجہہ سے اُنھیں جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ ایک دنیا اُنکی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی کی قائل تھی۔ دورانِ گفتگو جب بھی موت کا تذکرہ نکلتا تو مسکرا کر کہتے ’’ حسرتؔ میاں اَب زندگی کی گاڑی اُتار پر ہے اور بریک بھی فیل ہوچکے ہیں۔ میں اُوپر والے کا شکر گذار ہوں اُس نے دولت عزت اور شہرت سے خوب نوازا ہے۔ سچ کہوں تو مجھے اُمید سے کہیں زیادہ ملا ہے میں نے زندگی جی ہے۔ گذاری نہیں۔تم دیکھنا میں اپنی موت کو بھی ہنستے ہنستے گلے لگا لونگا۔‘‘ اور ایسا ہی ہوا وہ کب موت کی آغوش میں چلے گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ موت سے متعلق کچھ اُنھوں نے یوں کہا تھا ؂
بُزدل ہیں وہ جو جیتے جی مرنے سے ڈرگیا
ایک مئیچ تھا جو کام ہی کچھ اور کر گیا
جب موت آکو میرے کو کرنے لگی سلام
میں وعلیکم سلام بولا او ر مرگیا
موت سے سلام کلام کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ غوث صاحب کو مشکل کاموں میں بڑا مزہ آتا تھا۔ اُن کی شخصیت میں
کچھ ایسی مقناطیسی کشش تھی کہ اُن سے ایک بار کوئی ملتا تو وہ بار بار اُن سے ملنا چاہتا تھا۔ وہ ہر ملنے والے سے نہایت خلوص اور پیار سے ملتے تھے۔ میں نے ہمیشہ اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھی ہے۔ اُن کی پیشانی پر کبھی بل نظر نہیں آیا۔ میں اکثر یہ سونچا کرتا تھا کہ کبھی انھیں غصّہ بھی آتا ہوگا یا نہیں؟ ایک دفعہ اُن کے ایک دوست نے اُن سے اُن کی تندرستی اور سدا بہار جوانی کا راز پوچھا تو خواہ مخواہؔ نے مسکراتے ہوئے اپنے شعر پڑھے ؂

میری آنکھوں کو کسی پل سونے نہیں دیتی
پیار کا ایک بھی لمحہ کھونے نہیں دیتی
اپنی چاہت سے سدا مجھکو جواں رکھتی ہے
میری بیگم مجھے بوڑھا ہونے نہیں دیتی
ایک دفعہ ایک مشاعرے میں کلام سُنا رہے تھے۔ ایک لڑکا ہوٹنگ کے موڈ میں تھا۔ اپنے مُنہ سے عجیب و غریب آوازیں نکال رہا تھا۔ جس کی وجہہ سے مشاعرہ کا توازن بگڑ رہا تھا۔ خواہ مخواہؔ کلام سُناتے سُناتے رُک گئے اور دھیرے سے اپنے مخصوص لہجہ میں کہا ’’ کس نے آپ کی دُم پر پاؤں رکھا ہے بیٹے‘‘ ؟ یہ سُننا ہی تھا کہ ہوٹنگ بند ہوگئی اور مشاعرہ گاہ میں سناٹا چھا گیا۔ خواہ مخواہؔ کی حاضر جوابی بھی غضب کی تھی۔ پی ۔ ایچ ڈی کے مواد کے سلسلے میں اکثر اُن کے مکان کو جانا پڑتا تھا۔ ایک ملاقات میں اُنھوں نے پوچھا ’’ ضامن بابا آپ کو پی۔ایچ ڈی کی ڈگری کب تک مل جائے گی میں تمہارے ہاتھوں میں وہ ڈگری دیکھنے کا خواہشمند ہوں‘‘؟ میں نے کہا ’’ چاچا ایک سال اور لگ جائے گا ڈگری ملنے تک‘‘ میرے جواب پر وہ مسکرادیئے اور کہا ’’ میاں تب تک تو ہماری برسی بھی ہوجائے گا‘‘ اُن کے اس مزاحیہ جملے پر میں بھی ہنس پڑا۔ وقت گذرتا گیا اور اللہ کے کرم سے مجھے (.Ph.D) کی ڈگری ایک سال کے اندر ہی مل گئی۔ میں سب سے پہلے اپنی ڈگری کو لے کر خواہ مخواہؔ صاحب کے گھر پہنچا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ خوش ہوگئے۔ گھر کے اندر بلایا اور پوچھا ’’ کہاں رہ گئے آپ کافی دنوں بعد آئے ہو ‘‘ جواب میں میں نے اپنی .Ph.D کی ڈگری اُن کے ہاتھوں میں تھما دی۔ ڈگری دیکھ کر اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا فوراً مجھ سے لپٹ گئے اور کہا ’’ ضامن تم نے کمال کردیا میری زندگی کے آخری دنوں میں تم نے مجھے جو خوشی دی ہے میں اُسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور ڈھیرساری دعائیں دیں۔ مجھے جب یہ ساری باتیں یاد آنے لگتیں ہیں تو میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ آج میرا مقالہ (Thesis) کتابی شکل میں منظر عام پر آچکا ہے۔ میں ایک کاپی خواہ مخواہؔ صاحب کو دینے کے لئے حیدرآباد جانے والا ہی تھا کہ 3؍مئی 2017 ؁ء کو یہ منحوس خبر ملی کے خواہ مخواہؔ صاحب اِنتقال کرگئے۔اس موقع پر مجھے اُن کے دو شعر یاد آرہے ہیں جو اُنھوں نے موت سے متعلق کہا تھا ؂
موت آکر مرے بدن کو جب زیست کی قید سے چھڑائے گی
زندگی تب مری جدائی میں دیکھنا کیسے پھڑ پھڑائے گی
دیکھنا بھی اگر نہ چاہیں تو خواہ مخواہ ؔ دیکھ لینا وہ منظر
جب مری لاش دفن ہونے تک ‘ زندگی کی ہنسی اُڑائے گی
موت کے ذکر پر میں نے کئی لوگوں کو گھبراتے ہوئے سٹپٹاتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن خواہ مخواہؔ صاحب موت کے تذکرہ پر نہ گھبراتے تھے اور نہ سٹپٹاتے تھے۔ بلکہ مسکراتے ہوئے اپنے ہی کچھ شعر سُناتے تھے۔ اُنھیں شاید زندگی کے فلسفے کی حقیقت کا اندازہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ آدمی سو (100) سال تک بھی جی لے تو اُسے ایک دن مرنا ہے۔ پھر موت سے گھبرانا اور ڈرنا کیسا؟
بہت ساری باتیں ہیں جو اُن کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں لیکن چند صفحات میں یہ کام بڑا مشکل ہے۔ البتہ چند باتیں اُن کے ادبی سفر سے متعلق ضرورلکھنا چاہونگا ورنہ یہ مضمون اپنے ادھورے پن کا گلہ کرے گا۔ غوث خواہ مخواہؔ کا پورا نام ’’غوث محی الدین احمد‘‘ تھا۔ والد کا نام ’’ یوسف احمد‘‘تھا۔ والدہ ’’ فاطمہ النساء بیگم‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ غوث خواہ مخواہؔ کے دو بڑے بھائی تھے اور ایک چھوٹی بہن تھی۔ سن 1930 ؁ء میں یہ حیدرآباد میں پیدا ہوئے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ یاقوت پورہ سے حاصل کی۔ انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد ملازمت مل گئی۔ غوث صاحب کے آبا و اجداد ضلع محبوب نگر کے ایک چھوٹے سے قصبے ’’چٹوال‘‘ کے رہنے والے تھے۔
1948 ؁ء میں اچانک ملک کا بٹوارہ ہوگیا اور غوث کی ملازمت بھی چلی گئی۔ انھیں مجبوراً تلاش روزگار کے سلسلے میں بمبئی کا رُخ کرنا پڑا۔کافی جد وجہد کے بعد بھی انھیں بمبئی میں ملازمت نہیں ملی۔ یہ دوبارہ بمبئی سے اپنے وطن حیدرآباد لوٹ آئے اور جے۔جے۔ اِسکول آف آرٹس، حیدرآباد سے ڈرافٹ مین کاڈپلوما حاصل کیا۔ پھر انھیں (1956) میں محکمہ تعمیرات میں ملازمت مل گئی اور زندگی کی گاڑی پٹری پر آگئی۔ کچھ عرصہ بعد اِن کا تبادلہ حیدرآباد سے اورنگ آباد (مہاراشٹرا) کردیا گیا اور پھر وہاں سے انھیں بمبئی بھیج دیا گیا۔ جہاں ایک نئی زندگی، نام و نمود، ادب و شہرت سب کچھ اِن کے منتظر تھے۔ بمبئی میں روزنامہ انقلاب میں ’’خالی پیلی ‘‘ کے عنوان سے ہر ہفتہ ایک مزاحیہ مضمون لکھا کرتے تھے۔ جو کافی مشہور ہوا۔ نظم کے ساتھ ساتھ غوث خواہ مخواہؔ کی نثربھی بے حد شاندار تھی۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ ادب کے آل راؤنڈر تھے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں سے ہر کام کر گذرتے تھے۔ ناممکن کو ممکن بنانے والے تاریخ کا حصّہ بن پاتے ہیں۔ آج غوث خواہ مخواہؔ کے مزاحیہ کلام کی اُن کی ہمہ گیر شخصیت کی دھوم ساری اُردو دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ اِن کا کلام آنے والی نسل نو کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔ دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ غوث صاحب تمام عمر دوسروں کی مسرتوں میں اپنی خوشیاں تلاش کرتے رہے۔
یہی توفیق کیا کم ہے کہ روتوں کو ہنساکر میں
دُکھوں کا بوجھ کم کرنے غموں کو بانٹ سکتا ہوں
خلیج بغض و نفرت گر دلوں میں ہوگی پیدا اِسے
میں خواہ مخواہؔ ہنستے ہنستے پاٹ سکتا ہوں
بمبئی میں غوث خواہ مخواہؔ کو اچھا ادبی ماحول مِلا نوشاد علی (عظیم موسیقار)، رویندر جین (مشہور موسیقار)، نواب منصور علی خاں پٹودی و دیگر صفِ اول کی ادبی شخصیتوں نے اِنکی ادبی صلاحیتوں کو پہچانا، یہ لوگ اپنے ساتھ خواہ مخواہؔ کو مشاعروں میں لے جایا کرتے تھے۔ ابتداء میں غوث صاحب سنجیدہ کلام سُناتے تھے۔ کلام مرصّع ہوا کرتا تھا اور داد بھی ملتی تھی۔ لیکن پھر بھی خواہ مخواہؔ کو ایک ادھورے پن کا احساس ہوتا تھا۔ وہ کسی سے کچھ کہتے تو نہیں تھے لیکن وہ سونچنے لگے کہ اَب ایسا کیا کرنا چاہیے کہ اُن کا جوہر کُھل کر دنیا کے سامنے آئے۔ اسی دوران اُن کے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ جاری تھا وہ نواب پٹودی کی خواہش پر اُن کے بچوں سیف علی خان اور سوہا علی خان کو عربی پڑھانے اُن کے گھر جایا کرتے تھے۔ غوث صاحب اب پوری طرح سے بمبئی کے ہو کر رہ گئے تھے۔ تعطیلات میں حیدرآباد آجایا کرتے تھے۔ اور یہاں کی مزاحیہ ادبی محفلوں میں حصّہ لیا کرتے تھے۔ کبھی محفل لطیفہ گوئی میں لطیفے سُنا کر داد حاصل کرتے تو کبھی مزاحیہ مضمون سُنا کر اپنی ادبی ظرافت کا ثبوت دیا کرتے تھے۔ پھر انھیں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ مزاحیہ شاعری کا آغاز کیا جائے۔ سنجیدہ شاعری وہ کرتے تو تھے لیکن اُن کے اندر کا شاعر مطمئن نہیں تھا۔ اُنکی چھٹی حِس بار بار اُن سے کہہ رہی تھی کہ اب سنجید ہ اپنے شعری مجموعوں کے لئے اُٹھاکر رکھو اور مزاح کے میدان میں کود پڑو۔
سنجیدہ شاعری میں خواہ مخواہؔ کا دل با لکل نہیں لگ رہا تھا اِنکی تو رگ رگ میں ظرافت کے شرارے دوڑ رہے تھے۔ پھر اِنھوں نے طنز و مزاح کو اپنی شاعری کا وسیلہ بنایا۔ نہایت ہی کم عرصہ میں یہ مشہور ہوگئے۔ جس مشاعرے میں بھی جاتے دونوں ہاتھوں سے داد لوٹ کر لے آتے، آہستہ آہستہ اِنکی شہرت کا گراف بڑھنے لگا اور ملک میں منعقد ہونے والے کل ہند مشاعروں میں انھیں مدعو جانے لگا شہرت کی دیوی ان پر مہربان ہوچکی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے غوث خواہ مخواہؔ مزاحیہ مشاعروں کی ضرورت بن گئے۔ اَب اِنکی شہرت ملک کے حدود سے نکل کر بیرونی ممالک میں بھی پھیل چکی تھی، چنانچہ انھوں نے لندن، آسٹریلیا، کینڈا، اَمریکہ، جدّہ ، دوبئی، قطر ، جرمنی و دیگر بیرونی ممالک میں شرکت کرتے ہوئے اپنی مزاحیہ شاعری کے جھنڈے گاڑ ھ دیئے۔ اپنے وطن حیدرآباد ، وطن ثانی بمبئی اور ملک کا نام دنیا بھر میں مشہور کردیا۔ جب تک صحت ساتھ دیتی رہی مشاعرے پڑھتے رہے۔ صحت نے ساتھ چھوڑا تو مشاعروں میں شرکت کرنے سے معذورت کرلی اور گھر پر ہی آرام کرتے تھے۔ غوث خواہ مخواہؔ کے تین شعری مجموعے (۱) ’’بہ فرض محال‘‘ (ستمبر ۱۹۹۲) (۲) ’’حرفِ مکرر‘‘ (جولائی ۱۹۹۹) اور تیسرا شعری مجموعہ ’’کاغذ کے تیشے‘‘ (نومبر ۲۰۰۴) میں منظرِ عام پر آئے جنھیں ادبی دنیا میں خوب شہرت ملی۔ تیسرے مجموعہ ’’کاغذ کے تیشے ‘‘کے چار ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ تینوں شعری مجموعوں میں طنز یہ و مزاحیہ کلام کے ساتھ ساتھ سنجیدہ کلام بھی موجود ہے۔ غوث خواہ مخواہؔ کی دیرینہ ادبی خدمات کے عوض دوحہ قطر میں ان کے اعزاز میں ’’ جشن غوث خواہ مخواہؔ ‘‘ کے عنوان سے یادگار بین الاقوامی مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے طنز و مزاح کے شعراء نے حصّہ لیا۔ بقول خواہ مخواہؔ کے میری اسقدر گلپوشی اور شال پوشی کی گئی کہ میرا سارا وجود پھولوں او ر شالوں کے پیچھے دفن ہوچکا تھا ۔ آئیے چند اہم باتیں غوث خواہ مخواہؔ کے خاندان کے بارے میں کریں۔ غوث خواہ مخواہؔ بڑے خوش نصیب ہیں خدا نے انھیں بہترین خاندان بخشا ہے۔(1955) کو سیدہ بدر النساء بیگم کے ساتھ غوث خواہ مخواہؔ کی شادی ہوئی ، انھیں تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ بڑے صاحبزادے کا نام ’’عارف احمد‘‘ ہے جو کینڈا میں مقیم ہیں ۔ دوسرے لڑکے کا نام ’’عابد احمد‘‘ ہے جو پیشہ سے ایک ڈاکٹر ہیں اور جدّہ میں مقیم ہیں۔ تیسرے فرزند کا نام ’’ عظیم احمد ‘‘ ہے جو پیشہ سے انجینیر ہیں اور آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ لڑکی کا نام ’’ زاہدہ بیگم ‘‘ ہے جو حیدرآباد میں مقیم ہے۔ غوث خواہ مخواہؔ کے بے شمار دوست ہیں۔ سبھی سے خوشگوار تعلقات ہیں، لیکن معروف مزاحیہ شاعر ’’ حمایت اللہ‘‘ ان کے سب سے قریبی دوست ہیں۔ اتنے بڑے نامور شاعر کو میں نے جب بھی اپنے مشاعرے(نظام آباد) میں مدعو کیا، وہ نہایت خلوص اور اپنائیت کے ساتھ آتے تھے، اُن کی آمد سے مشاعرے کی کامیابی یقینی ہوجاتی تھی۔غوث خواہ مخواہؔ نے زندگی میں کبھی نام و نمود اور شہرت کا پیچھا نہیں کیا بلکہ شہرت اور کامیابی ہمیشہ اِ ن کے تعاقب میں رہا کرتی تھی، تصنّع، بناوٹ اور جھوٹی شان سے اِنھیں سخت چڑ تھی، سادگی، عاجزی، انکساری اور صاف دلی سے انھیں لگاؤ تھا۔ یہ تمام چیزیں اِن کے کلام میں موجود ہیں۔ اِن کے یہ دو شعر دیکھیں جس میں انھوں نے زندگی کے فلسفے کو اپنے ڈھنگ سے کہنے کی کوشش کی ہے ؂
وقت کا کام ہے گذرنا گذ ر جائے گا بوجھ سینے کا بھی اک روز اتر جائے گا
بس یہی سوچ کے بیچا نہیں خود کو میں نے مرے اندر جو ایک انسان ہے مرجائے گا
اپنے وقت کے اس عظیم شاعر کے چند متفرق اشعار تحریر کررہا ہوں تاکہ مرحوم کو اپنے طورپر خراجِ تحسین پیش کرسکوں۔ ملاحظہ ہو ؂
(1) بجھتی شمع لے کر سیاہی ڈھانپنے نکلا ہوں
اپنے حصّے کی خوشیاں بھی سب میں بانٹنے نکلا ہوں
خواہ مخواہ ؔ فرہاد نہیں میں لیکن وہ دیوانہ ہوں
کچھ کاغذ کے تیشے لے کر پتھر کا ٹنے نکلا ہوں

(2) غموں کی کھیر تیڑھی ہی نہیں گاڑھی بھی ہوتی ہے
نہ پی جاتی ہے یہ اور نہ ا سے میں چاٹ سکتا ہوں
اُڑا کر دیکھ لے کوئی پتنگیں اپنی شیخی کی
بلندی پر اگر ہوں تو کنے کاٹ سکتا ہوں

(3) دھندلا سا ایک خواب ہے دنیا کی محبت
صحر ا میں ایک سراب ہے دنیا کی محبت
وقتِ نزع ہی خواہ مخواہؔ چل جائے گا پتہ
کتنا بڑا عذاب ہے دنیا کی محبت

(4) ہماری زندگی میں خواہ مخواہؔ اتنے جھمیلے ہیں
خوشی کے ساتھ صبح و شام رنج وغم کے میلے ہیں
اگر سمجھو تو ساری بھیڑ میں ہر شخص اپنا ہے
نہیں سمجھو تو اتنی بھیڑ میں بھی ہم اکیلے ہیں

(5) غم حیات کا اک سلسلہ بس اتنا تھا
جو دِل میں ٹھان لیا فیصلہ بس اِتنا تھا
ٍ غموں کو اپنے چھپاتی تھی اپنے آنچل میں
غریب ماں کا مری حوصلہ بس اِتنا تھا
آخر میں میں اپنے مضمون کا اختتام حضرت خواہ مخواہؔ (مرحوم) کے اس شعر کے ساتھ کرنا چاہونگا ؂
جب نکل کر میں مکاں سے لا مکاں میں آگیا
ذکر میرا حدیثِ دیگراں میں آ گیا
کہہ نہیں سکتا کہ کتنی دور چل پاؤں گا میں
آبلہ قدموں سے چل کر اب زباں میں آ گیا
——-
ڈاکٹر ضامن علی حسرتؔ
9/16/60، احمد پورہ کالونی،
نظام آباد، تلنگانہ اسٹیٹ
موبائیل : 9440882330
——-

غوث خواہ مخواہؔ اور ضامن علی حسرت
Share
Share
Share