بین الشخصی تعلقات – کامیابی کوئی معجزہ نہیں : – فاروق طاہر

Share


بین الشخصی تعلقات
کامیابی کوئی معجزہ نہیں

فاروق طاہر
عیدی بازار،حیدرآباد۔

09700122826

اگر دنیاکے رشتے نہ ہوتے تو اللہ سے تعلق انسان کو جنت میں لے جانے کے لئے کافی تھا۔آخرت کی فصل کے لئے انسان کو دنیا میں ہی کام کرنا پڑتا ہے۔جب اس فر یضہ کی تکمیل کے لئے آدمی گھر سے باہر نکلتاہے تب اردگردبے شماراپنے جیسے انسانوں سے اس کا سابقہ پڑتا ہے۔ آدمی، انسانوں سے رابطہرکھنے،میل جول رکھنے،اور معاملات کرنے کے لئے مجبور ہے۔

کبھی آجر کی حیثیت سے مزدورں کا محتاج ہے تو کبھی خریدار کیصورت فروخت کنندہ(سیلر) کامنتظر ۔کبھی انسان اپنی جنسی ضروریات اور بقا کے لئے خاندان بنانے پر مجبور ہے توکبھی سماجی احتیاج کے لئے رفقاء کاطالب۔یہ تمام چیزیں انسان کو معاشرتی تقاضے ماننے اور انہیں پورا کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔اور وہ بغیر معاشرے کے نہیں رہ سکتا ۔انسان کی معاشرتی زندگی کی کامیابی کا دار و مدار بین ا لشخصی تعلقات پر منحصر ہہوتاہے۔ بین ا لشخصی تعلقات اور کامیاب معاشرتی زندگی کے اصول اسلام میں بڑی خوب صورتی سے بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جس نے بین ا لشخصی اور معاشرتی تعلقات کے بارے میں انسانی ذہنوں کو متوجہ کیا۔

بین الشخصی تعلقات کیا ہیں؛۔
انسانی زندگی رابطوں سے قائم ہے یہ رابطے تعلقات ،رشتے ، گفتگو، ملاقات اور تقریبات وغیرہ سے قائم رہتے ہیں۔ بین الشخصی تعلقات کا فن انسان کو رشتے نبھانے،تعلق جوڑنے،ملاقات کو پر اثر بنانے ،گفتگو کو دل پذیر بنانے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بین الشخصی تعلقات کو موثر بنانے والے عناصر میں غور وفکر،مصلحت شناسی،انصاف پسندی،اعتدال پسندی،کردار کا کھرا پن،انفرادیت کا احترام،پیار و محبت،احتساب نفس،جذبہ ایثار و قربانی اور گفتگو وغیر ہ قابل ذکر ہیں۔

غور و فکر(power of Thinking)؛۔
اپنے گھر میں زندگی گزار نا انسان کے لئے آسان ہوتا ہے۔لیکن سماجی زندگی ایک دریائے بیکراں ہے۔سماج میں مختلف قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ،عالم و جاہل،مسلم و کافر،عقل مند و احمق،ان تمام کے ساتھ زندگی بسر کرنا آسان کام نہیں ہے۔لہذا سماج میں رہنے کے لئے انسان کو عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔سماج میں رہنے کے لئے انسان میں لوگوں کو سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیئے۔ قرآن مجید کا بنیادی موضوع ’’انسان‘‘ہے،جسے سینکڑوں بار اس امر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادث عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر سے کام لے۔ ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اورشب و روز کی گردش میں عقل سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت)نشانیاں ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو کھڑے اور (سراپا ادب بن کر)بیٹھے اور(ہجر میں تڑپتے ہوئے)اپنی کروٹوں پر (بھی)اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔اور آسمانو ں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں)میں فکر کرتے رہتے ہیں۔(پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہوکرپکار اٹھتے ہیں)اے ہمارے رب،تونے یہ(سب کچھ)بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے،ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔‘‘(آل عمران)۔غورو خوص اور تفکر و تدبر حکم خداوندی ہے۔کیونکہ تفکر کے بغیر دانش کے دروازے وا نہیں ہوتے ہیں اسی لئے انسان اسے جو بھی مسئلہ درپیش ہو اس پر غور و فکر کرتے ہوئے اس کی تہہ تک پہنچ جائے اپنی فراست اور تجربہ سے اس کا کوئی حل بھی ڈھونڈ نکالے۔صعوبتیں،ذاتی مسائل،پریشانیاں،ناکامی،نامساعد حالات اور جسمانی و ذہنی اذیتیںآدمی کے ارادوں کو متزلزل نہ کرسکے۔ استقامت وارتکاز افکار بزرگان دین،صوفیاء اور انبیائے عظام کی شخصیت کا ایک جوہر اور طرۂ امتیاز تھا۔ غور و فکر کی عادت کی بدولت ہی آدمی زندگی کے ہرمیں محتاط ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو زندگی میں کسی دشواری اور رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔وقت ،جگہ، اور وسائل کا صحیح ،بامقصد اور کفایت کے ساتھ استعمال بغیر غور و فکر کے ممکن نہیں ہوتا۔
مصلحت بینی اور عاقبت اندیشی؛۔زندگی کی صورت حال ہر روز الگ نوعیت کی ہوتی ہے اور یہ اپنے حل کے لئے انسان کی مکمل توجہ ،تجربہ ،لوگوں کا ردعمل،انسانی نفسیات اور اس کی معاملہ فہمی کی طلب گار ہوتی ہے۔آدمی جذبات برانگیختہ ہونے پر کیا قدم اٹھا تا ہے یہ بہت اہم ہوتا ہے۔ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے واقعات سے مصلحت بینی اور عاقبت اندیشی کا روشن درس ہمیں ملتا ہے۔مصلحت بینی کا مطلب ہر معاملے کو اللہ کی طرف رجوع کرنا اور خدائی احکامات سے رہنمائی حاصل کرنا ہوتا ہے۔اگر آدمی میں یہ خوبی پیدا ہوجائے تو وہ ہوش مندی ،غیر جانبداری اور مصلحت بینی سے کام لیتا ہے۔تب کامیابی و کامرانی اس کے قدم چومتی ہے۔صلح حدیبیہ حق پر رہتے ہوئے بھی مصلحت کو اپنانے کی ایک عظیم دورس نتائج کی حامل مثال ہے۔جب کہ فتح مکہ ،فتح و کامرانی ،طاقت اور حکمرانی کے ہاتھ آنے کے بعد بھی عفو و درگزر سے کام لینے کا اعلیٰ درس ہے۔اگر یہ کیفیت انسان کی روز مرہ زندگی میں در آئے تو تمام مصائب و تلخیوں کا آسانیوں اور مسرتوں میں تبدیل ہوجانا یقینی ہے۔
انصاف پسندی؛۔انسان کو ہر قدم پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ عدل و انصاف کے معیار کبھی دو نہیں ہوتے ہیں ۔جس قصور کے لئے دوسرے کو و ہ معتوب قرار دے خود کو بھی اسی قصور پر اسی طرح معتوب و مقہور قرار دے۔’’(اے مسلمانوں) انصاف کرو کہ یہ پرہیز گاری سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (القرآن)۔

اعتدال پسندی (Temperance)؛۔
اعتدال پسندی کی کیفیت انسان کو بے قابو اور آپے سے باہر ہونے سے باز رکھتی ہے۔یہ ایک قسم کی خود ضبطی ہے۔جس کی وجہ سے آدمی بے راہ روی سے بچا رہتا ہے اور اس کی شخصیت اور معاشرہ دونوں شرانگیزی سے محفوظ رہتے ہیں۔اعتدال پسندی کے باعث آدمی، انسان بنا رہتا ہے اور خود کو حاکم اور دوسروں کو محکوم تصور نہیں کرتا۔اعتدال پسندی کی وجہ سے آدمی میں انکساری، صبر، قوت برداشت اور پاک طینتی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ اوصاف حمیدہ بین الشخصی تعلقات کو بہتر بنانے میں کلیدی اہمیت کی حامل ہوتے ہیں۔ اعتدال پسندی خود کے زندہ رہنے کے لئے دوسروں کو زندہ رہنا کا حق دینے کا نام ہے ۔اپنی آزادی کے لئے دوسروں کی آزادی کااحترام اعتدال پسندی ہے۔خود کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لئے دوسروں کو نقصان سے بچانا ضروری ہے۔اپنی عزت کے لئے دوسروں کی عزت کرنا اعتدال پسندی ہے۔قرآن مجید میں شروع سے آخر تک اعتدال پسندی کی تعلیم ملتی ہے۔اگر کسی کے نقطے نظر یا نظریہ سے اختلاف ہو تو ہمیں شائستگی کے ساتھ دلائل کے ذریعہ اپنا نقطہ نظر پیش کرنی کی ضرورت ہوتی ہے۔اپنے نظریات کو دوسروں پرہرگز مسلط نہیں کرنا چاہیئے۔’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ہدایت ،گمراہی سے ممتاز ہوکر واضح ہوچکی ہے۔اب جو شخص طاغوت(یعنی شیطانی قوتوں) کا انکار کرکے اللہ پرایمان لائے گا تووہ مضبوط ترین سہارے کو تھام لے گا جو کبھی ٹوٹنے والانہیں ہے۔اللہ (جس کا سہارا لیا گیا ہے،ہر بات)سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘(سورہ بقرہ)
ضبط و تحمل(Fortitude)؛۔بین الشخصی تعلقات میں ضبط و تحمل کی صفت سختیوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔آدمی اس وصف کے سہارے بڑے سے بڑے سخت امتحان سے بخیر و خوبی گزر جاتا ہے۔ صبر و تحمل کے ذریعے آدمی کامیابی کے راستوں میں حائل زندگی کی ناپسندیدہ لذتوں کی کشش کا مقابلہ کر تا ہے اور ناکامی کی صورت میں ثابت قدمی کا مظاہر ہ کرتاہے۔ضبط و تحمل کی وجہ سے انسان میں اخلاقی جرات پیدا ہوتی ہے وہ محبت کا عاد ی ہونے کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط پر قائم رہتا ہے۔

کردار کا کھرا پن (Integrity of Character)؛۔
مذکور ہ بالا اوصاف کردار کے کھرے پنکے تحت ہی آتے ہیں۔یہاں کردار کے کھرے پن سے مراد عزت نفس یعنی اپنی ذات کے احترام کے ساتھ خود احتسابی کے لئے ہر دم تیار رہناہے۔کردار کا کھرا پن آدمی کو قابل اعتماد اور قابل بھروسہ بنادیتا ہے۔

احساس ذمہ داری؛۔
ناپسندیدہ حالات اور کیفیت میں بھی انسان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا ضروری ہوتاہے ۔وہ اپنی ذمہ داری سے بہر صورت عہدہ برا ہو خواہ کتنی ہی ناپسندیدہ حالات اور تکالیف سے اسے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ان تمام امور کی انجام دہی کے لئے آدمی کو عظیم قوت ارادی سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔احساس ذمہ داری اقدار کی پاسبانی کا دوسرا نام ہے۔آدمی احساس ذمہ داری کے باعث ہی خود کو اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ محسوس کرتا ہے اور اپنی زندگی خدائی احکامات کے تابع بسر کرتا ہے تاکہ حق بندگی ادا ہوسکے۔

انسانی ہمددری؛۔
روزمرہ کی زندگی میں ہمارا سامنا جداگانہ شخصیتوں سے ہوتا ہے۔ہر فرد چاہتا ہے کہ اسے بحیثیت ایک فرد قبول کیاجائے اور اس کے مسائل کو سمجھا جائے۔ بین الشخصیتعلقات کو استحکام بخشنے اور صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لئے ہر شخص کا احترام ضروری ہوتا ہے جسے اسلام اکرام انسانیت سے تعبیر کرتا ہے۔نبی اکرم ﷺ نے ہر شخص کا ہر طبقہ کا احترام کیا اور اپنی ساری زندگی انسانوں کے دکھ درد کے درماں میں گزاری دی۔آپ ﷺجب کسی سے بات کرتے تو وہ آدمی یہ محسوس کرتا کہ اس سے زیادہ قریب آپﷺ سے کوئی دوسرا نہیں ہے۔
انفرادیت کا احترام (Respect to Individuallity)؛۔کسی بھی شخص کی اہلیت سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے اس سے قربت نہایت ضروری ہوتی ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی فرد سے فیض اٹھایا جائے تو اس سے قربت پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جب آپ کسی سے محبت و لگاوٹ کا مظاہر ہ کرتے ہیں تو وہ آپ کی محبت و مروت کا لحاظکرتے ہوئے پوری تندہی سے اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔انسان کی روزمرہ زندگی میں حالات روزانہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اس پس منظر میں ایک ہی نسخہ ہر حال میں یکساں مفید ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔ کامیاب بین الشخصیتعلقات کے زرین اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ ہر فرد کو ایک اکائی کے طور پر قبول کیا جائے۔کسی کی مالی، قولی یا بدنی مدد کر سکتے ہوتو ضرورکریں اور اگر یہ کسی وجہ سے ممکن نہ ہو تو اس کے مسائل اور پریشانیوں کو بغور سنو اور اس کے شدائد و مصائب کے بوجھ کو تسلی و تشفی کے ذریعے ہلکا کرنے کی کوشش کریں۔پریشانیوں اور مصائب کی سماعت کے بعد ہمددری سے پیش آئیں اور اگر مدد کرنے کی حالت میں نہ ہوتو اپنی مجبوریوں کا اظہار اس طرح سے کریں کہ مصیبت زدہ کو ناگوار نہ گزرے۔ٹال مٹول کی خاطر حیلے بہانے اور مجبوریوں کا رونا رونے سے ہمیشہ احتراز کرنا چاہیئے۔دوسروں کی تلخ کلامی اور برے برتاؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہیئے۔

پیار و محبت (Love and Affection)؛۔
پیار اور محبت کسی بھی تعلق کو استوار کرنے اور استحکام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔پیار و محبت جیسی جنس گراں قدر کو تصنع اور ریاکاری سے پاک ہونا چاہیئے۔محبت میں اگر تصنع کی ملمع کاری شامل ہوجائے تب لوگ اسے ایک رکیک حربے سے تعبیر کرنے لگتے ہیں اور یہ ایک قسم کا جذباتی استحصال کہلاتا ہے۔محبت کے ذریعہ غیریت کی فصیلوں کو ڈھایا جاسکتا ہے۔کسی بھی شخص کے قلبی اضطراب کو محبت کی ذریعہ سکون و چین میں بدلا جاسکتا ہے۔محبت کے ذریعے انسانی تعلقات اور رشتوں کو باآسانی ا ستوار کیا جاسکتا ہے۔

احتساب نفس(Self Retrospection)؛۔
سورہ حشر آیت نمبر 18میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو خشیت و تقویٰ اختیار کرنے اور آخرت کی تیاری کرنے کا حکم دیا ہے،ارشاد باری تعالی ہے،ترجمہ’’اے ایمان والوں،تم اللہ سے ڈرتے رہواور ہر شخص جان لے کہ اس نے آنے والے دن کے لئے آگے کیا بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر ہے۔‘‘نفس کے احتساب کی وجہ سے انسان اعمال خیر کی جانب راغب ہوتا ہے اور اعمال بد سے اجتناب کرتا ہے۔نفس کا محاسبہ ذاتی اصلاح اور عاقبت کو سنوارنے کے لئے بہت ضروری ہے۔بعض لوگ اپنی خود پسندی کی وجہ سے دوسروں کے ذراسے جائز اعتراض کو بھی عز ت نفس پر محمول کر نے لگتے ہیں۔ایسے لوگ عزت نفس کی بقا اور تحفظ کے لئے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا اپنی شان اور طاقت کامظاہرہسمجھتے ہیں۔زندگی کے کسی مرحلہ پر اگر معافی مانگنا پڑجائے تو ان کے لئے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔معافی کو ذلت سمجھ کر یہ لوگ دنیا اور آخرت کے بڑے سے بڑے نقصان کو گوارا کر لیتے ہیں۔زندگی کی آسانی یہ ہے کہ انسان اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے شرمسار ہو۔احساس ندامت کا اظہار کرے۔آدمی جب اپنی غلطی پر پشیمان ہوتا ہے تب تمام گلے شکوے ،شکایتیں اور مسائل اپنے آپ ختم ہوجاتے ہیں۔

جذبہ ایثار و قربانی؛۔
اللہ تعالیٰ کی رضا کے پیش نظردوسروں کی ضرورت کو اپنی حاجت پر ترجیح دیناایثار کہلاتا ہے۔یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کاتعلق دل اور نیت سے ہے کیونکہ جب کوئی اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کردوسروں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے تو اس وقت اللہ تعالی اس سے راضی ہوجاتے ہیں اور اس کا یہ فعل اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہوجاتا ہے۔اسی لئے اسلام میں ایثار و قربانی کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ایثار کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بڑے جامع الفاظ میں فرمایا ہے’’جب تک تم اپنی پیاری چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔بھلائی ہر گز حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘(آل عمران)انسان جب ایثار و قربانی کا پیکر بن جائے تو بھلا بین الشخصی تعلقات کس طر ح درست نہ ہوں گے اور معاشرہ کیوں نہ بدلے گا؟ایثار اور قربانی کی اہمیت کو واضح کرنے والی دواحادیث کو یہاں نقل کرنا بے حد ضروری سمجھتا ہوں۔’’اے ابن آد م تیرے لئے ضرورت سے زائد مال کا خرچ کردینا بہتر ہے اور اسے روکے رکھنا برے نتائج کا حامل ہے۔‘‘(مسلم ،ترمذی)۔’’جہنم کی آگ سے بچو اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑا(کے خیرات کرنے)سے ہی ہواور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تواچھی بات کہہ کر بچو۔‘‘(بخاری و مسلم)ایثار نبوت ﷺ کے بارے میں حضرت خدیجہؓ فرماتی ہیں’’آپ ﷺتعلق کو جوڑتے اور ناتواں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے اور جو چیز ان کے پاس نہ ہوتی وہ لاکر انہیں دیتے اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے،مشکل میں حقدار کی مدد کرتے۔‘‘(بخاری) ۔ اگر آج بھی مسلمان جذبہ ایثار سے سرشار ہوجائیں توپوری دنیا کی فلاح و بہود کا کام انجام دسکتے ہیں۔

گفتگو کا فن؛۔
بین الشخصی تعلقات میں گفتگو بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔قوت بیان اور گفتگو کے ذریعہ انسان بڑی سی بڑی طاقت پر قابوپا سکتا ہے۔اعجاز نظق اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔اسلام نے مسلمانوں کو گفتگو کے آداب کی بڑی تفصیل اور وضاحت سے تعلیم دی ہے۔’’اور لوگوں سے اچھے طریقے سے بات کرو۔‘‘ (قرآن)گفتگوکے ذریعے بہت سی مشکلات کو دور کیا جاسکتا ہے اور گفتگو کے ذریعے بہت ساری پریشانیوں سے بچا جاسکتا ہے۔گفتگو کا مقصد باہمی الفت ،ہمدردی اور آپسی میل جو ل پیدا کرنا ہوتاہے۔اگر ان مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے لوگ گفتگو کرنے لگیں تو رنجشیں ختم ہوجائے گی اور محبتیں رواج پانے لگیں گی۔اچھی گفتگو سے انسان لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیتا ہے۔گفتگو سے وصل کے اسباب پیدا ہونے چاہیئے نہ کہ تفریق کو ہوا ملے۔ایسی گفتگو نہ کریں جس سے کسی کی دل آزری ہو۔گفتگو سنجیدہ اور سلجھی ہونی چاہیئے۔اگر مخاطب آپ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرتا ہو یا وہ آپ کے نظریے کو سمجھنے سے قاصرہو تب بھی الجھنا مناسب نہیں ہوتا۔عالم انسانیت آج جن مسائل کی وجہ سے پریشان ہے اس سے گلو خلاصی کا واحد راستہ اسلام اور قرآنی تعلیمات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصلکر سکتا ہے۔
قرآن میں ہو غوطہ زن، اے مرد مسلماں
اللہ کر ے تجھ کو عطا، جدت کردار
—–
Interpersonal relationship
by-Farooq Taher

Share
Share
Share