’’ میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا ‘‘
نامور اُستاد شاعر تنویرؔ واحدی کی یاد میں
ڈاکٹر ضامن علی حسرتؔ
9/16/60، احمد پورہ کالونی، نظام آباد، تلنگانہ اسٹیٹ
موبائیل : 94408823630
غزل ہر دور میں اُردو ادب کی محبوب صنف رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے دانشوروں اور نقادوں نے اس کو ’’نیم وحشی صنفِ سخن‘‘ سطحی خیالات کا پلندہ بے وقت کی راگنی اور قصیدۂ معشوق قرار دیا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ غزل سازگار فضاء میں پروان چڑھی بلکہ ناسازگار اور مخالف فضاؤں میں بھی غزل کا چراغ روشن رہا ۔ ہر دور میں غزل مقبول اور حسین رہی۔ غزل کل بھی جوان تھی ، آج بھی جوان ہے غزل۔ ہرزمانے میں محبوب اور مشہور رہی۔ غزل میں ہمہ گیری ‘ وسیع تر معنویت اوردل میں اُتر جانے کی صلاحیتوں کے پیش نظر اِسے اُردو شاعری کی آبرو کہا گیا ہے۔
غزل کے آغاز سے لے کر آج تک تقریباً سبھی شعراء نے اپنے احساسات، جذبات اور متضاد کیفیتوں کو بیان کرنے کے لئے غزل کا دامن تھامے رکھا۔ غزل نے بھی اپنے دیوانوں کو مایوس و نامراد نہیں کیا بلکہ اپنے چاہنے والوں کا دامن خوشیوں اور مسرتوں سے بھر دیا، انہیں شہرت کی بلندی عطا کی اور ادب میں انہیں ایک رُتبہ و اعلیٰ مقام بخشا۔
غزل کے ایسے ہی شیدائیوں میں ایک نام نظام آباد تلنگانہ اسٹیٹ کے کہنہ مشق و ممتاز شاعر تنویر واحدی کا بھی ہے۔ تنویر واحدی پچھلے چار دہوں سے غزل کے گیسوؤں کو سنوارنے میں مصروف تھے کہ انھیں اپنے اردگرد کا بھی ہوش نہیں رہا۔ ’’ لفظوں کی آگ‘‘ کو سخن کا پیراہن دینے والے اس جیالے شاعر کا شمار صرف تلنگانہ اسٹیٹ ہی نہیں بلکہ مُلک کی دیگر ریاستوں کے ممتاز و مقبول شعراء میں ہوتا ہے۔
25؍ اکٹوبر 1948 ء کو تنویرؔ واحدی نے ایک علمی گھرانے میں اپنی آنکھ کھولی۔ اُنکا اصل نام سید عمر علی تھا تنویرؔ واحدی کے قلمی نام سے ادبی دنیا میں جانے جاتے تھے۔ بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا او ر یہ شوق کالج تک آتے آتے جنون کی شکل اختیار کر گیا۔ اسی دوران پی۔یو۔سی کامیاب کرنے کے بعد محکہ صحت و طباعت سے وابستہ ہوگئے۔ اسے حُسنِ اتفاق ہی کہئے کہ شاعری اور ملازمت کا سفر ایک ساتھ شروع ہوا، دوران ملازمت بھی سینکڑوں مشاعروں میں شرکت کرتے رہے۔ 31؍ اکٹوبر 2006 ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ لیکن شاعری سے سبکدوش ہونہ سکے۔ شعر و سخن کا یہ خوبصورت سفر زندگی کے آخری لمحون تک جاری رہا۔ بقول غالبؔ
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
اپنے پینتالیس سالہ شعر و سخن کے سفر میں تنویر واحدی نے تلنگانہ کے علاوہ مُلک کے دیگر ریاستوں کے بے شمار کُل ہند مشاعروں میں شرکت کرتے ہوئے اپنے فن کا لوہا منوایا اور اپنے شہرنظام آباد کا نام خوب روشن کیا۔تبویرؔ واحدی ایک کہنہ مشق ممتاز شاعر ہونے کے ساتھ
ساتھ ایک بہترین و کامیاب ناظم مشاعرہ بھی تھے۔ اپنی برجستہ اور خوبصورت نظامت کے ذریعہ انھوں نے کئی مشاعروں کو یادگار بنا دیا اور اس کہاوت کو پوری طرح سے غلط ثابت کردیا کہ ایک اچھا شاعر اچھا ناظمِ مشاعرہ نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان کے نامور شعراء کرام نے تنویرؔ واحدی کی نظامت میں مشاعرے پڑھے اور اُن کی نظامت کو خوب سراہا۔
اپنے ابتدائی دور میں تنویرؔ واحدی نے اُستاد شاعر، ادیب و صحافی حضرت مغنی صدیقی مرحوم سے اپنے کلام پر اصلاح لی، برسوں دونوں کا ساتھ رہا۔ ان کے انتقال کے بعد کہنہ مشق استاد شاعر حضرت نذیر علی عدیلیؔ مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا۔ تنویرؔ واحدی کے تین شعری مجموعے ’’بیاضِ فکر‘‘ 1994 ء ’’ لفظوں کی آگ ‘‘ 1999 ء اور ’’ کرب کا صحراء ‘‘2008 ء میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ جنھیں ادبی دنیا میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اپنے شعری سفر کے دوران تنویرؔ واحدی کو اُن کی علمی، ادبی و فلاحی خدمات کے عوض بہت سارے ایوارڈ اور توصیف ناموں سے نوازا گیا جن میں بزمِ علم وادب کی جانب سے ’’ خیرات ندیم ایوارڈ‘‘ و توصیف نامہ 2006 ء اور کہکشاں کلچرل اینڈ لڑیری سوسائیٹی نظام آباد کی جانب سے ’’ کہکشاں ادبی ایوارڈ ‘‘ و توصیف نامہ1998 ء قابل ذکر ہیں۔
تنویرؔ واحدی صرف ممتاز شاعر یا کامیاب ناظمِ مشاعرہ ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک بہترین خوش نویسوں بھی تھے۔ اُن کا شمار نظام آباد کے صفِ اول کے خوش نویسوں میں ہوتا تھا۔ جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے تو جدید لب و لہجہ کا یہ شاعر ہمیشہ سے نئی زمینوں کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ گھسے پٹے موضوعات سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اپنے شعروں میں فکر و نظر کی گہرائی، سادگی و سلاست حیات و کائنات کے اہم لوازمات کو پیش کرنے کی کوشش کی اور کافی حد تک کامیاب بھی رہے
زخموں کے لئے تُم لبِ اظہار نہ ما نگو
مرہم کے عوض اک نئی تلوار نہ ما نگو
اِ س دور میں اُس دور کے اشعار نہ مانگو
اب میر تقی میر ؔ سا معیار نہ مانگو
تنویرؔ واحدی نے اپنے کلام میں اکثر درد و غم کا تذکرہ بڑے اہتمام سے کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ درد و غم کے ساتھ ان کا ایک خاص رشتہ رہا ہے۔ انھوں نے اشعار کے ذریعے اپنے دل کے چھالوں کو پھوڑتے ہوئے یہ بتلانے کی کوشش کی کہ انھیں زندگی میں خوشیاں کم اور درد و غم زیادہ ملے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ درد و غم نے اُن کی شاعری کو ایک بلندی عطا کی، ایک وسعت دی۔ اس کے ساتھ ساتھ گہرائی اور معنویت بھی پیدا کر۔
درد و غم کی آگ یہ جھلسا گئی مُجھے * اتنا تو فیض دوستی پہنچا گئی مجھے
اِتنی ہوائے درد چلی میری ذات میں * خوشیاں اُڑا کے لے گئی بکھرا گئی مجھے
اک کرب بس گیا ہے مرے انگ انگ میں * اک درد کر گیا ہے مری روح پر اثر
غم جس قدر ہیں میرے لئے چھوڑ دیجئے * خوشیاں تمام آپ اکیلے ہی رولئے
غمِ فراق مِلا کربِ انتظار ملا * خدا کا شکر کہ ہر ایک پائیدار ملا
تیرے لطف و کرم کے صدقے میں * غم ملے بھی تو بے شمار ملے
تنویرؔ واحدی نے زیادہ تر اشعار سہل ممتنع میں کہے ہیں۔ وہیں چند اشعار اَدَق اور مشکل زمینوں میں کہنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ چونکہ اَدَق اور مشکل اشعار ایک عام قاری کو مشکل سے سمجھ میں آتے ہیں۔اس بات کا اندازہ تنویرؔ واحدی کو تھا۔ انھوں نے اَدَق گوئی سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اپنے زیادہ تر اشعار عام فہم سیدھی سادی زبان میں کہے۔ وہ لفظوں کو برتنے کے ہنر سے واقف تھے۔ غزل کا لہجہ اور غزل کی زبان کو اچھی طرح سے سمجھتے تھے۔ تفریحی شاعری کرنے کے بجائے وہ تعمیری شاعری کرنا پسند کرتے تھے۔ ان کے ہاں موضوعات کی کمی نہیں تھی۔ انھوں نے حُسن و عشق ، فسادات ، حکومت کی نااہلی، رشتوں کے بدلنے کے رنگ، قومی تہذیب، معاشراتی بگاڑ کے ساتھ ساتھ دغا و فریب کو اپنا موضوع بناتے ہوئے نہایت ہی فکر انگیز شعر کہے ہیں، جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
پانی میں عکس دیکھ کر خوش ہو رہا تھا میں
پتھر کسی نے پھینکا تو منظر بکھر گیا
***
تمام عمر کبھی جس کو یاد آٰ نہ سکا
قسم اس کی اُسے بُھلا بُھلا نہ سکا
***
کیا گھورتے رہتے ہیں نظر با ز خلاء میں
نظروں سے پرندوں کو گرایا نہیں جاتا
***
بدل کے دیکھ لو آئینہ تم نظر والو
نظر بدلتی نہیں آئینہ بدلنے سے
***
سویا ہوا تھا کتنی ہی راتیں میں جاگ کر
جھونکا ہوا کا تیز سے مجھ کو جگا گیا
***
تنویر کا قیام تھا اُس پیڑ کے تلے
جس کی کسی بھی شاغ پر پتہ کوئی نہ تھا
***
گزرا ہوں ہر اک لمحہ نئے د ار و رسن سے
سالوں کا سفر دیکھئے کس طرح کٹا ہے
***
لہو ٹپکتا ہے آنکھوں سے درد بن بن کر
ملی خلوص کی تنویرؔ یہ سزا مجھ کو
***
تنویرؔ واحدی کے فن و شخصیت پر تبصرہ کرنے کے لئے چند صفحات کافی نہیں ہیں۔ اِن پر تو پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ راقم نے اپنی طرف سے ان کی ہمہ گیر شخصیت اور ان کے لازوال فن کامختصر احاطہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ جس وقت میں نے اس مضمون کا آغاز کیا تھا اس وقت تنویرؔ واحدی بقید حیات تھے۔ ابھی یہ مضمون مکمل بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اچانک21؍ نومبر 2010 ء صبح ساڑھے نو بجے تنویرؔ واحدی کے دیرینہ رفیق و مدّاح جناب میر زاہد علی ایڈوکیٹ نے فون پر یہ افسوسناک اطلاع دی کہ جناب تنویرؔ واحدی کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس خبر نے میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔
زندگی پر موت کو فتح حاصل ہوگئی۔ ایک خوبصورت شاعر ایک بہترین انسان ہم سے جدا ہوگیا۔ اور چھوڑ گیا اپنی یادیں۔ شعر و سخن کی گلیاروں کو ویران کر گیا۔ اس موقع پر تنویرؔ واحدی کے کہے ہوئے یہ اشعار بے ساختہ یاد آرہے ہیں
عمر دراز مانگ کے تنویر کیا کروں
دو روز کے جینے سے جی میرا بھرگیا
***
جب مرتب زندگی کا گوشوارہ ہوگیا
موت کو ہم زندگی کا مشورہ دیتے رہے
***
روز و شب ہیں غم کے میلے اور یادوں کا ہجوم
ایسے دل کو کس طرغ تنویر ؔ ویرانہ کہیں
***
سن کے تنویر کا افسانہ زمانے نے کہا
ترجمانی ہے غم ِ زیست کی افسانے میں
***
جناب تنویرؔ واحدی کے انتقال سے نظام آباد کی ادبی فضاء میں جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ شائد ہی پُر ہوسکے۔ اُن کے آخری سفر میں اُن کے چاہنے والوالے سینکڑوں کی تعداد میں شریک تھے۔ اس موقع پر مجھے کسی شاعر کا یہ شعر بے ساختہ یاد آرہا تھا
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
***