رمضان المبارک : رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ : – محمد رضی الدین معظم

Share


رمضان المبارک
رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ

محمد رضی الدین معظم
سیل: +914069990266, 09848615340

رمضان المبارک کا مہینہ‘ مسلمانوں کے ہاں کئی حیثیتوں سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ سنہ ہجری کا یہ نواں مہینہ اپنے اندر بڑی خیر و برکت اور تقدس و فضیلت رکھتا ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں پیغمبر اسلام حضور ممتاز معظم المرسلین رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی مرتبہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کا نزول ہوا‘ جس کا اولین پیغام یہ تھا کہ
’’ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا‘‘

اور پھر اسی مہینے کو روزوں کا مہینہ قرار دیا گیا اور ہر مسلمان پر مسلسل ایک ماہ کے روزے فرض گردانے گئے۔ معاشرتی اعتبار سے بھی اس مہینے کے ساتھ بہت سی خصوصیتیں وابستہ ہیں‘ خود روزہ کا ارادہ ایک ایسا ارادہ ہے جس میں روحانی اور مذہبی احکام و قواعد کے پہلو بہ پہلو مادی اور دنیوی زندگی کے بھی متعدد اصول اور ضابطے پائے جاتے ہیں۔ مذہب اسلام میں روزہ کو ایک بڑی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں میں سے روزہ ایک اہم ستون ہے۔ قرآن مجید کی دوسری سورۃ یعنی سورۂ بقرہ میں رمضان اور روزہ کے فضائل اور احکام کی صراحت کی گئی ہے۔
دنیا کے تقریباً سب ہی مذاہب میں روزہ یا برت کا رواج پایا جاتا ہے۔ البتہ اس کی نوعیت‘ تعداد و اوقات اور احکام ہر مذہب میں الگ الگ ہیں۔ قرآن میں اس حقیقت کی جانب ان الفاظمیں اشارہ کیا گیا ہے کہ اے مسلمانو!تم پر روزہ فرض کیا گیا‘ جس طرح تم سے پہلے کی امتوں پر فرض کیا گیا تھا۔ اسلامی احکام کے لحاظ سے رمضان کا چاند دیکھتے ہی روزوں کا آغازہوجاتا ہے اور کسی وقفے کے بغیر پورے ایک ماہ تک جاری رہتا ہے۔ دنیا کے ہرخطہ یا علاقے میں جہاں بھی مذہب اسلام کو ماننے والے بستے ہیں‘ اس مہینے کا بڑے اہتمام سے خیر مقدم کرتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں ہر دن بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘ خصوصاً ۲۷ رمضان کا دن بہت زیادہ فضیلت کا دن سمجھا جاتا ہے۔ معصوم بچوں کی روزہ رکھائی کرکے روزہ رکھنے کا عادی بنایا جاتا ہے ۔
۲۶ اور ۲۷ رمضان کی درمیانی رات لیلۃ القدر ہوتی ہے‘ جسے قرآن پاک میں ہزار مہینوں سے بھی زیادہ بہتر بتایا گیا ہے۔ یہی وہ رات ہے جبکہ پیغمبر اسلام پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی گویا اسی رات سے دنیا میں ایک نئے مذہب کا آغاز ہوتا ہے۔ جسے اسلام یا مذہب فطرت کہا جاتا ہے۔
مذہبی اعتبار سے روزہ ایک عبادت ہے۔ عبادت کا تصور دنیا کے ہر مذہب میں ایک بنیادی تصور رہا ہے۔ بندگی اور عبودیت کے جذبے کو بلا شبہ انسان کے فطری جذبہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ علم و حکمت کی تمام تر ترقی کے باوجود آج بھی انسانی فطرت میں یہ جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ ویسے عبادت کے طریقے ہر دور اور ہر مذہب میں بدلتے رہے ہیں‘ لیکن ایک ان دیکھے خدا یا ایشور کی بندگی کا مرکزی تصور دنیا کے تمام مذاہب میں مشترک رہا ہے۔ جس طر ح انسان کو فطری طور پر بھوک پیاس کا احساس ہوتا ہے یاسردی اور گرمی محسوس ہوتی ہے‘ اسی طرح یہ بات بھی روز اول سے ہی انسان کی سرشت میں داخل ہے کہ وہ کسی ایک معبود اور ایک عظیم قوت کے آگے اپنا سر نیاز جھکائے یا کسی خاص ماوریٰ تصور یا نظریہ کو اپنا معبود و مقصود بنائے ۔ دنیا میں جتنے نبی یا پیغمبر آئے ان کی تعلیمات کا مرکزی نقطہ یہی رہا ہے کہ ’’ساری کائنات انسان کے لئے اور انسان خدا کے لئے ۔‘‘ عبادت کا مقصد و مدعا بھی یہی ہے ‘ تمام مذاہب عالم میں مشترک ہیں یعنی ایک حقیقت بسیط کے آگے اپنی عبودیت کا اعتراف کرنا ہے۔
مذہب اسلام میں نماز کے بعد روزہ کو دوسری عبادت قرار دیا گیا ہے۔ اس عبادت کا تعلقبراہ راست خدا اور بندے سے ہوتا ہے۔ کسی اور پر اس کا حال نہیں کھلتا۔ روزہ کی یہی خصوصیت ہے جو روزہ دار میں ایک ان دیکھی ہستی پر ایمان کا جذبہ بیدار کرتی ہے‘ جس کی بدولت اس کی اپنی ذات میں بھی خود اعتمادی کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ روزہ کے ذریعہ گویا ہر سال میں پورے ایک ماہ تک آدمی کے باطنی ایمان و عقیدہ کی آزمائش ہوتی ہے اور جو لوگ اس کڑی آزمائش کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں‘ ان کے اندر زندگی کی سخت آزمائشوں سے عہدہ بر آہونے کی تاب و طاقت پیدا ہوجاتی ہے اور روزہ کا یہی اصل سبب ہے۔ اخلاقی اور معاشرتی پہلو بھی ہے جو انسانی زندگی کی دنیوی کامیابی اور آسودگی کا ضامن بن جاتا ہے‘ اس کے علاوہ متواتر ایک ماہ تک متعدد مقررہ قاعدوں اور ضابطوں کی پانبدی کے بدولت آدمی میں نظم و ضبط اور اصول پرستی کی اعلیٰ خصوصیات پیدا ہوتی ہیں‘ جو زندگی کے سفر میں ہر قدم پر معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ رمضان کا پورا مہینہ مقررہ ضابطوں اور قاعدوں کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس مہینے کے دن ہی نہیں بلکہ اس کی راتیں بھی اپنے اندر ایک منظم دلکشی اور جاذبیت رکھتی ہیں۔ جوں ہی رمضان کا چاند نظر آتا ہے تمام مقررہ آداب و قواعد کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ایک مہینے کے منظم شب و روز کی ابتداء تروایح سے ہوتی ہے۔ چاند رات سے ہی تراویح کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔ مسجدوں کی چہل پہل اور رونق بڑھ جاتی ہے‘ پوری فضاء پر ایک اجتماعی تقدس کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ وہ لوگ جو ایک محلہ بلکہ ایک ہی گلی میں رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے لئے اب تک اجنبی اور ناواقف بنے ہوئے تھے‘ اب ایک مرکزی مقام پر ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں۔ تراویح کی با جماعت نماز منتشر افراد میں ایک زبردست اجتماعی نفسیات کو فروغ دینے کا باعث بن جاتی ہے ۔ تراویح کی نماز میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن مجید کو شروع سے آخر تک باجماعت حافظ قرآن امام صاحب بہ آواز بلند پڑھ کر سناتے ہیں۔ اگر پورا قرآن ایک ہی رات میں ختم کردیا جائے تو اسے شبینہ کہتے ہیں‘ لیکن ایسا بہت کم اور کہیں کہیں ہوتا ہے۔ عموماً اس طریقے پر عمل کیا جاتا ہے کہ روزانہ نماز تراویح میں سلسلے سے قرآن کے چند پارے پڑھے جاتے ہیں اور اس طرح پورے مہینے میں ایک یا دو یا تین بار پورے قرآن کی تلاوت ہوجاتی ہے۔ تراویح میں قرآن سننے کے لئیبوڑھے‘ جوان‘ ادھیڑ ‘ امیر‘ غریب‘ سب ہی حیثیتوں اور درجوں کے لوگ بلا امتیاز صف میں آجاتے ہیں اور اس طرح ایک ماہ تک مسلسل اپنی مرضی سے ایک خاص قسم کے نظم و ضبط کی پابندی قبول کرتے ہیں۔
تراویح کے بعد تھوڑی ہی دیر کی نیند ہوتی ہے کہ سحری کا وقت آجاتا ہے ۔ سحری کا وقت چونکہ صبح صادق کی پوپھٹنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے جو کچھ کھانا پینا ہوتا ہے اس سے پہلے ہی اس کی تکمیل ضروری ہوتی ہے۔ اکثر گھروں میں رات کے دو بجے سے ہی چراغ اور چولھے روشن ہوجاتے ہیں۔ بچے‘ بوڑھے ‘ جوان‘ عورتیں‘ مرد سب ہی جاگ اٹھتے ہیں ۔ رات دن بن جاتی ہے۔ لوگوں میں سحر خیزی کی عادت پیدا ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کے لئے بھی جو سال کے گیارہ مہینوں تک پچھلے پہر کے سہانے جلوؤں کی لطف اندوزی سے محروم رہتے ہیں‘ رمضان کا مہینہ ان پر دولت کی ارزانی کردیتا ہے اور وہ بھی پچھلی رات کے دلنواز اور کیف آگیں لمحوں کے لطف و سرور سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ سحری کی اصطلاح کا مطلب ہے وہ کھانا جو رات کے پچھلے پہر کو کھایا جائے‘ کیونکہ اس کے بعد جب روزے کا وقت شروع ہوجاتا ہے تو دوسرے دن غروب آفتاب تک کھانے پینے سے یک لخت احتراز کرنا ہوتا ہے۔ سحری کے بعد عموماً لوگ فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے سوجاتے ہیں اور پھر جب اٹھتے ہیں تو زندگی کی ہما ہمی شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ افطار یعنی روزہ کھولنے کا وقت آجاتا ہے ۔ چونکہ ایک ماہ تک مسلسل اسی مقررہ دستور العمل کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ اس لئے غیر محسوس اور غیر شعوری طور پر آدمی میں ضبط نفس کی عادت پیدا ہوجاتی ہے اور تقریباً چودہ پندرہ گھنٹے تک مسلسل بھوکے پیاسے رہنے کی بدولت ایک طرف تو صبر و تحمل کی اعلیٰ صفات نشو و نما پاتی ہیں اور دوسری طرف ان انسانوں کی قلبی کیفیت کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے جو اپنی غربت و فاقہ کشی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ روزہ کے دوران میں اور روزہ کی بدولت پیدا ہونے والے یہ احساسات انسان میں بردباری ‘ ہمدردی‘ مساوات‘ شرافت‘ سچائی‘ خلوص‘ ایمانداری اور تمام بنی نوع انسان سے محبت و اخوت کے شریفانہ جذبات کو جگاتے ہیں اور نیک عملی حسن خلق اور رواداری کا سبق سکھاتے ہیں اور روزہ کی غایت حقیقی بھی یہی ہے۔ اگر روزہ کے واسطے سے انسان اپنے اندران تمام اعلیٰ انسانی خصوصیات کو بیدار نہ کرسکا تو ایسے روزہ میں کوئی خیر نہیں‘ ایسی صورت میں روزہ عبادت نہیں رہتا بلکہ ایک ’’جبری فاقہ‘‘ بن جاتا ہے۔ روزہ ہو یا کوئی اور عبادت کسی مذہب میں بھی مقصود بالذات نہیں بلکہ ایک اعلیٰ ترمنزل تک پہنچے کے لئے ایسی تمام مذہبی عبادت ایک زینہ کا کام دیتی ہیں اور وہ اعلیٰ ترمنزل ا نسانیت کی منزل ہے‘ جسے فلسفہ کی اصطلاح میں عرفان خودی‘ عرفان نفس اور عرفان حقیقت کہتے ہیں۔ یعنی انسان اپنے آپ کو پہچانے ‘ اپنے خالق کو پہچانے اور خدا اور بندہ کے رشتوں کے ساتھ انسان اور انسان کے رشتہ و حدت کو بھی سمجھے اور جاننے کی کوشش کرے کہ یہی عرفان اس کائنات کی بدولت انسانی زندگی کے ایوانوں میں سلامتی‘ آسودگی اور یک جہتی کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔
رمضان کا مہینہ اسی لئے بھی خیر و برکت کامہینہ کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں گیارہ مہینوں کی زندگی کے معمولات سے ہٹ کر ایک نئے معمول اور ضابطے کو اپنانے کا موقع ملتا ہے اور روزمرہ کے مشاغل میں اس تبدیلی کی وجہ سے انسان کے ذہن و شعور میں فکر و نظر کے نئے افکار پیدا ہوتے ہیں۔ جن کے فیضان کا سلسلہ دن رات جاری رہتا ہے۔ جب دن ڈوب جاتا ہے اور افطار کا وقت آجاتا ہے تو رات ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے۔ سحری کے وقت سے لے کر افطار کے وقت تک جن چیزوں کو ممنوع قرار دیا گیا تھا وہ پھر جائز ہوجاتی ہیں۔ افطار کے وقت روزہ داروں کے گھروں میں بڑی چہل پہل ہوتی ہے۔ جیسے کوئی ایک بڑی مہم سر کرکے گھر لوٹتا ہے یا سپاہی اپنی طویل ڈیوٹی کو پوری فرض شناسی کے ساتھ انجام دے کر لوٹتا ہے اور اس کے دل میں اس بات کا احساس طمانیت پیدا کرتا ہے کہ اس نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کی‘ ایسا ہی احساس طمانیت افطار کے وقت روزہ داروں کے دلوں میں بھی پیدا ہوتا ہے۔ دن بھر کی کڑی آزمائش کے دوران جو نیک اور پاکیزہ خیالات دلوں میں پیدا ہوئے تھے۔ اب گویا یکسوئی کے عالم میں ان کی شیرازہ بندی ہوئی ہے۔ چنانچہ سچے روزہ دار اس بات کا خاص لحاظ رکھتے ہیں کہ ان کے افطار اور کھانے میں سے کچھ حصہ ان لوگوں تک بھی پہنچے جو دن بھر روزہ رکھنے کے بعد اس نوبت پر بھی اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ پیٹبھر کر روکھی سوکھی کھا سکیں۔ چنانچہ ہر محلہ کی مسجدوں میں نماز مغرب سے پہلے گویا لنگر خانے کھل جاتے ہیں۔ یہ منظر دلکش بھی ہوتا ہے او رحقیقت افروز بھی اور سبق آموز بھی۔ ایک دوسرے کے درد ،دکھ میں شریک رہنے کا احساس اس اجتماعی اتحاد کے منظر کو اور زیادہ پر اثر بنادیتا ہے اور اس طرح روزہ کی عبادت ‘ نیک عملی‘ فرض شناسی بن جاتی ہے ۔ روزہ صرف انفرادی یا ذاتی تزکیۂ نفس کا نام نہیں ہے‘ بلکہ معاشرہ کی اجتماعی فلاح و بہبود کا پاسباں ورہنما بھی ہے۔ مذہبی احکام کے لحاظ سے اس شخص کا روزہ قبول نہیں ہوتا جو بظاہر روزہ رکھتا ہے اور کھانے پینے سے مکمل احتراز کرتا ہے‘ لیکن بدخلقی‘ جھوٹ‘ فریب ‘ کینہ‘ حسد‘ غصہ‘نفرت اور اسی قسم کے دوسرے افعال قبیحہ کے ارتکاب سے باز نہیں آتا۔ روزہ کا فائدہ یہی ہے کہ وہ انسان کو اپنی ان خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پانے کی قوت عطا کرے۔ تہذیب اخلاقی‘ تہذیب نفس اور انسانی فلاح و بہبودی کے شریف ترین تصورات کی تہذیب و تربیت کے لئے روزہ گویا ایک ٹریننگ سنٹر ہوتا ہے۔ رمضان کا مہینہ اورمہینے بھر کے متواتر روزے‘ اسی حقیقت کو یاد دلانے کے لئے ہیں کہ انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے اور انسانی برادری کی وحدت کو کس طرح قائم رکھا جاسکتا ہے ۔ رمضان کا مہینہ یا رمضان کے روزے اپنے اندر کوئی نرالا پیغام نہیں رکھتے۔ دنیا کے مختلف ممالک جیسے عرب‘ ایران‘ ہندوستان‘ چین ‘ جاپان‘ آفریقہ‘ یورپ‘ امریکہ‘ غرض زمین کے ہر خطہ پر زمانہ سلف میں جتنے پیغمبر‘ نبی ‘ رشی اور بڑے انسان گذرے ہیں‘ جیسے بودھ ،رام‘ کرشن‘ عیسیٰؑ ‘ موسیٰؑ ‘ کنفیوشس‘ زردشت‘ مانی‘ سقراط وغیرہ سب کی تعلیمات اسی ابدی سچائی اور حقیقت کی حامل تھیں اور اسلام نے بھی اسی پیغام کو دنیا کے آگے پیش کیا اور زندگی کے ان روحانی اور مادی ضابطوں کی نئے سرے سے شیرازہ بندی کی جو سارے مذاہب عالم کی بنیادی تعلیمات میں قدرے مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
رمضان کا مہینہ اور روزہ کا ارادہ انہیں اصولوں اور ضابطوں کی یاد دہانی کرتا ہے‘ جب پورے ایک ماہ کی طویل مدت کے بعد اس تربیتی ادارہ کا نصاب پورا ہوجاتا ہے تو عید کا دن آتا ہے۔
——
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘
شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

Share
Share
Share