سنبھل کے
چند فکشن نگار اور ہندوستانی عناصر
عزہ معین ۔ سنبھل
سنبھل اس شہرکا نام ہے جس کی ادبی اور ثقافتی روایتوں نے ا سے تاریخی شہر کا درجہ عطا کیا ہے۔ علم کے مختلف شعبوں کی نامور ہستیوں نے یہاں اپنی آنکھیں کھولی ہیں ۔ یہاں کی علمی و ادبی روایت کافی مضبوط رہی ہے ۔ اردو ادب کے فروغ میں یہاں کے قلم کاروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ خاص کر فکشن کی دنیا کو آب و تاب اور شان و شوکت عطا کرنے میں یہاں کے لوگ پیش پیش رہے ہیں۔
سنبھل سے تعلق رکھنے والے نصف درجن کے قریب ایسے مصنفین ہیں جو فکشن نگاری میں اعتبار کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب بھی اور جہاں بھی افسانوی ادب پر گفتگو کی جائے گی ان کے نام کے ذکر کے بغیر بات نا مکمل اور ادھوری رہے گی۔فکشن لکھنے والوں میں بعض ایسے بھی ہیں جن کی ادبی کاوشیں خوب ہیں لیکن ادبی منظر نامے پروہ ابھر کر سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ اس میں ان کی تخلیقی ہنر مندی یا فنی رچاؤ کی کمی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ان کی گمنامی کے ذمہ دار ایک طرف بے ذوق قاری ہیں جن کا متن سے رشتہ کمزور پڑتا جا رہا ہے تو دوسری طرف ہمارے وہ متعصب نقاد ہیں جنہوں نے نئے لکھنے والوں کو اپنے حوالے میں شامل نہیں کیا۔اس وقت تو اور زیادہ افسوس ہوتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سنبھل کے اساتذہ بھی ہماری نئی نسل کے قاری سے نئے لکھنے والوں کا تعارف کرانے میں سرد مہری کا شکار ہیں۔بہر کیف مجھے کہنا یہ ہے کہ تعلیم کے میدان میں یہاں ہر دور میں نمایاں کام ہوا ہے۔ البتہ تحقیق کے سوتے خشک نظر آتے ہیں۔ میں یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اگر کوئی طالب علم یہاں کے گوہر تاباں کو تلاش کرنے کی ایماندارانہ کوشش کرے تو ہم بہت سی ایسی شخصیات سے متعارف ہو سکتے ہیں جن کے قلم کا رشتہ فکشن سے بہت گہرا رہا ہے۔
سنبھل میں فکشن نگاری کے حوالے سے بات کریں تو جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا نصف درجن سے زیادہ فکشن نگار ایسے ہیں جن کی ادبی حیثیت مسلم ہو چکی ہے ۔ ان میں مصور سبزواری،تسکین زیدی،قیوم راہی،شمع رخ بانو، یامین سنبھلی ،فرقان سنبھلی ،نفیس سنبھلی وغیرہ کے نام خاص طور پر لئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے جو افسانے اور ناول تخلیق کئے ان میں ان کی فکری بلند پروازی ،وسعت نظری اور فنی چابکدستی کی کا ر فرمائی صاف نظر آتی ہے۔انہوں نے زندگی کی حقیقتوں، عصری واقعات کی پیچیدگیوں ، سماجی مسائل اور معاشرتی انتشار کو اپنا موضوع بناکر فکشن کے قالب میں ڈھالا ہے۔سنبھل کے کچھ فکشن نگار وں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے سنبھل کی ادبی فضا کو خوشگوار بنانے میں حصہ لیا ہے۔
مصورؔ سبزواری:
سید ظفر حسین مصورؔ سبز واری کی پیدائش ۱۹۳۲ء کو سنبھل کے محلہ چودھری سرائے میں ہوئی ۔ان کے والد کا نام سید حامد علی تھا ۔جو فارسی اور اردو کے جید عالم تھے ۔عمائدین میں ان کی بہت عزت تھی ۔ آنکھ کھولتے ہی اپنے اطراف و جوانب علم و ادب کا ماحول دیکھا۔والد کی علمی صحبت اور پھر ان کی تربیت و نگہداشت نے مصور ؔ سبزواری کو بھی وہی ذوق و شوق عطا کیا جو ان کے والد میں تھا۔ سنبھل سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعداعلی تعلیم کے لئے چنڈی گڑھ چلے گئے ۔اے ایم یو سے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور گڑ گاؤں میں مدرس کے عہدے پر فائض ہوگئے۔ شاعری میں یدطولی رکھنے والے مصور ؔ سبزواری نے فکشن میں اپنا منفرد مقام بنایا ۔ ان کے تقریباً پانچ ناولٹ ’عمر بھر کی تنھائی‘،’ کوئلہ بھئی نا راکھ‘، ’ ہمارے بعد اجالا ہے‘، ’ پت جھڑ کے مسافر‘،’ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘ا ور ایک ڈرامہ’ گھاؤ ایک سمندر کے ‘ شائع ہو چکے ہیں۔ان کی دیگر تخلیقات کو محققین ترتیب دے رہے ہیں جن کے جلد منظر عام پر آنے کی امید ہے۔ مصور ؔ سبزواری کی تصانیف مختلف علوم پر ان کی اچھی پکڑ کو ظاہر کرتی ہیں ۔وہ معاشرے سے ایسے موضوعات کو اپنے قلم کے لئے منتخب کرتے ہیں جن پر لکھنا دیگر ادیب و قلم کاروں کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔گہری بصیرت اور شعوری احساس نے انھیں منفرد لہجہ عطا کیاہے ۔ان کی تحریریں آج بھی نئے لکھنے والوں کے لئے مشعل راہ کا کام انجام دے رہی ہیں ۔
محمد یامینؔ سنبھلی:
نام محمد یامین ۱۹۴۵ ء کو سنبھل میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام علی حسین تھا ۔ ان کی ابتدائی تعلیم سنبھل میں ہی ہوئی ۔ اس کے بعد مرادآباد اور علی گڑھ سے ایم اے اوربی ایڈ کے اسناد حاصل کئے۔ سرسی میں استاد کے عہدے پر ان کی تقرری ہوئی ۔ سرسی سے سنبھل آنے جانے کے روزانہ سفرمیں صرف ہونے والے وقت کو افسانہ نگاری کے لئے استعمال کیا ۔ایک مرتبہ ظہیر احمد ایڈووکیٹ کی تحریک پر ایک رومانی افسانہ ’سراب‘ شائع کرانے کے لئے ان کے سپرد کیا ۔وہ افسانہ مدیر نے اسی مہینے کے رسالے میں شائع کیا۔جس کی بہت تعریف ہوئی ۔لیکن مدیر رسالہ کی تلخ زبانی اور لالچی فطرت سے یامین صاحب کی حساس طبیعت کو ٹھیس پہنچائی اور انھوں نے لکھنا ترک کردیا ۔بیس بائیس سال کے طویل عرصے کے بعد پروفیسر ارشد کی تحریک پر ایک بار پھرقلم اٹھایا لیکن وہ روانی قلم میں نہ آ سکی جو نو جوانی کے دنوں میں ان کے قلم کا حصہ ہوا کرتی تھی ۔ لیکن یہ عمل اپنے آپ میں بڑی بات ہے کہ انہوں نے از سر نو لکھنا شروع کیا۔ یامین صاحب کہتے ہیں کہ وہ احباب کے مسلسل مطالبے اور بار با ر رغبت دلانے کی وجہ سے دوبارہ افسانے کی طرف متوجہ ہوئے۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’’گھٹن‘‘ اور ’’خزاں کے پھول ‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں جو افسانوی ادب کے ذخیرے میں قیمتی اضافہ ہیں۔
یامین ؔ سنبھلی نے اپنے افسانوں میں عہد حاضر کی بد نظمی ،معاشرے کی برائی ،فرقہ واریت ،دہشت گردی کو اپنا موضوع بنا کر بہترین افسانے تخلیق کئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ سماج کی بد نظمی ، معاشرے کی برائی ، فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے خلاف احتجاج درج کراتے ہوئے افسانے کی فنی خوبیوں اور نزاکتوں کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھتے ہیں۔ان کا اسلوب اور طرز تحریراتنااثر انگیز ہے کہ جب قاری افسانہ ختم کرتا ہے تو اپنے آپ کو محبت وایثار کے جذبے سے سر شار پاتا ہے۔ پریم چند نے امراء و رؤو سا کے خلاف جس قلمی جنگ کا آغاز کیا تھا یامین سنبھلی اسی روایت کو سامنے رکھ کر اپنے افسانے کا تانا بانا بنتے ہیں ۔ افسانہ ’’دوج ‘‘ میں ایک بہن کی ایثار اور قربانی کی عظیم مثال بیان کی گئی ہے۔ ’راکھی‘ بھی اسی موضوع پر لکھا گیا افسانہ ہے ۔ ’ خزاں کے پھول ‘ میں شامل افسانہ ’حسن کا جادو‘ انسان کی فطری عیاری اور مکاری پر لکھا گیا ہے۔ موجودہ دور میں غلط رسم و رواج کو ختم کرنے کی کوشش ان کے افسانے ’اشتہاری شادی ‘ میں کی گئی ہے۔ سماجی بیداری کے موضوع پر لکھے گئے افسانے ’ بانجھ اور ’ عزت ‘ بد عنوانی اور لالچ پر گہرا طنز کرتے ہیں۔یہ افسانے یامین سنبھلی کے افسانوی مجموعے کی اہمیت کو بڑھاتے ہیں ۔’ میرا بھارت مہان‘ بھی اسی ضمن میں ایک بہترین افسانہ ہے ۔ افسانہ ’ایکتا‘ میں جس طرح عورتوں کے درمیان مکالمے ہوئے ہیں ان سے صاحب تخلیق کی کردار نگاری کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے ۔ ’سراب ‘،’ مسیحا‘، ’فنکار‘جیسے افسانوں سے اسلوب کی صفائی اور فکر کی پختگی واضح ہوتی ہے ۔’ کٹی پتنگ ‘ میں طلاق شدہ عورتوں کے جذبات اور نفسیات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ مطلقہ عورتوں کی دوبارہ شادی کی طرف سماج متوجہ ہو ۔اس افسانے سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے تاکہ یامین سنبھلی کے حوالے سے اب تک جو بات کہی گئی ان کی تصدیق ہو سکے۔
’’ تبھی اس کی نگاہ دور سے آتی ایک کٹی پتنگ پرپڑی ۔اس کو پکڑنے کے لئے بھی حسب معمول لڑکے دوڑے ۔لیکن پتنگ ان سب سے بے نیاز آگے بڑھتی رہی ۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا کہ اب پکڑی گئی مگر وہ ان لٹیروں کا منھ چڑاتی ان کو ٹھینگا دکھاتی آگے بڑھ جاتی ۔اب اس کے سامنے کھجور کا ایک اونچا پیڑ آگیا اور آرام سے اس میں اٹک کر رہ گئی ۔لڑکے مایوس ہو کر لوٹ آئے ۔فائزہ نے سوچا ایک بے جان پتنگ نے اتنوں کو شکست دے دی ۔اورصحیح و سالم پیڑ میں اٹک گئی ۔یہ سب مل کے بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔مجھے تو خدانے انسان بنایا ہے ۔اشرف المخلوقات ۔تو کیا میں کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘ ۱
ڈاکٹر محمدفرقان:
انجینئر فرقان ۲۰ جون ۱۹۷۳ ء کو دیپا سرائے سنبھل میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام محمد غفران تھا ۔انٹر تک کی پڑھائی سنبھل میں حاصل کی ۔ اس کے بعد مراد آباد سے انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا۔ بی اے اور ایم اے کی ڈگری آگرہ سے حاصل کی ۔ اس بیچ اردوصحافت سے ان کا رشتہ قائم ہوا اور اس میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔بچپن سے ہی مطالعے کا بے حد شوق تھا اسی لئے حد درجہ معاشی پریشانیوں میں گھرے رہنے کے باوجود یو جی سی نیٹ کا امتحان پاس کیا ۔ ادبی ذوق کی تسکین کے لئے افسانے بھی لکھتے رہے اور مقامی ر سائل میں شائع کرواتے رہے۔قلم کار کے طور پر پہچان بنی تو میرٹھ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اور عہد حاضر کے مشہورافسانہ نگار اسلم جمشید پوری نے ایک ادبی پروگرام میں انہیں مدعو کیا ۔ اس سے ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی اورقلم کو مہمیز کرنے کی تحریک بھی ملی۔یہاں سے انہوں نے جو افسانہ لکھنا شروع کیا تو پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ حال ہی میں علی گڑھ مسلیم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اب ویمنس کالج علی گڑھ میں لکچرر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ موجودہ دور کی ہنگامہ خیزی ،عصری نظام کے کھوکھلے پن اور نوجوان طبقے کی حالت زار یہ وہ ڈائمینشن (Dimension ( ہیں جہاں سے فرقان سنبھلی اپنے افسانوں کے لئے موضوعات منتخب کرتے ہیں۔
فرقان سنبھلی کی افسانہ نگاری پر ان کی صحافت کا ،ان کی ذہنی تشکیل میں سائنس اور ان کی شخصیت پر مذہب کا گہرا اثر ہے جو ان کی تخلیق میں بھی جھلکتا ہے ۔ ان کی کہانی کی فضا ہمیں بہت مانوس نظر آتی ہے ۔افسانے میں کہانی پن پیدا کرنے کے لئے بزرگوں کے سبق آموز واقعات کا سہارا لیتے ہیں ۔ ہمیں ان کے افسانوں میں معاشرے کی بے راہ روی کے خلاف آواز سنائی دیتی ہے۔ سماج کے اندر پائی جانے والی وہ بیماریاں جو ہمارے سماجی ڈھانچے کو دھیرے دھیرے کمزورکر دیتی ہیں جس کا ہمیں احساس نہیں ہوتا ۔ ان بیماریوں کی طرف فرقان سنبھلی اپنے افسانوں میں قاری کی توجہ بڑی ہوشیاری سے مبذول کراتے ہیں ۔’طلسم‘ ،’دائمی جہیز‘ ،’اور سرحد کھو گئی‘ ،’تقسیم کے داغی ‘ وغیرہ اسی ذیل کے افسانے ہیں ۔ افسانہ ’آب حیات‘ سائنس اور موجودہ دور کی سب سے بڑے مسئلے یعنی پانی کی بڑھتی ہوئی کمی پر لکھا گیا بہترین افسانہ ہے ۔سائنسدانوں کے ذریعے تلاش کی جارہی دوسری دنیا جہاں انسان اپنی رہائش کا انتظام کر سکے اس دنیا کو افسانے میں تلاش کر لیا گیا ہے ۔ یہاں ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے جس میں کرۂ ارض سے ختم ہو رہے پانی کے اسباب کی طرف کی اشارہ کیا گیا ہے ۔
’’ ہمارے سیارے پر ہر سہولت اور ہراشیاء موجود ہے جو کسی بھی آکاش گنگا میں پائی جاتی ہوگی ۔لیکن ہمارے بزرگوں نے ترقی کی اندھی خواہش میں نہ صرف کنکریٹ کے جنگل کھڑے کئے بلکہ تالاب پاٹ ڈالے،ہرے بھرے پیڑ کاٹ ڈالے اور یہاں تک قدرت کے ساتھ دشمنی کی کہ سیارے کی آب و ہوا آلودہ ہو گئی ،پانی سوکھ گیا ۔ ندی نالے ختم ہوگئے۔یہاں کی مخلوق پانی کی قلت سے تل تل کر مرنے لگی ۔اور دیکھتے دیکھتے کنکریٹ کے جنگل سونے ہو گئے ۔‘‘۲
سید نفیس احمد نفیس ؔسنبھلی:
نفیس احمدکا شمار سنبھل کے گنے چنے فکشن نگاروں میں ہو تا ہے۔یہ بہ یک وقت فکشن بھی تخلیق کرتے ہیں اور بہترین شاعری بھی کرتے ہیں ۔نفیس سنبھلی محلہ پنجو سرائے کے ایک سید خاندان میں داؤد حسین کے گھر پیدا ہوئے ۔ایم اے اور بی ٹی سی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے ۔علمی و ادبی کاموں میں فکشن اور شاعری دونوں کی طرف یکساں طور پر ذہن مرکوز کیا ۔ان کا شاہ کار ناول’ کنیا دان ‘ نہ صرف سنبھل کے ادبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہے بلکہ اردو کے ذخیرۂ ادب میں بھی ایک بیش بہا اضافہ ہے۔انھوں نے اب تک تقریباً پندرہ کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ان کے افسانوی مجموعے ’ لمحوں کی گرفت‘ ،’حرفوں کے چراغ ‘،’ سوگند تیری سوگند ‘ وغیرہ کو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا ۔انہوں نے مغربی اتر پردیش کی دیہی زندگی کو اپنے افسانے میں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔زبان و بیان پر قدرت حاصل ہونے کی وجہ سے کہانی کے بیانیہ (Narration ) میں جان ڈال دیتے ہیں۔کردار نگای اور مکالمہ نگاری کے باریکیوں سے خوب واقف ہیں۔ ایک اقتباس پیش کئے دیتی ہوں جس سے ان کی مکالمہ نگاری کی خوبصورتی اور سلیقگی کا اندازہ ہو سکے۔
’’ پتاجی نے سوبھا کی سادی ساگن پور میں پکی کردئی ۔ہم سے بوجا بی نہ ۔ ‘‘
’’ ہم سے کیوں بوجیں گے بوجیں گے ہیم پال سے۔ ‘‘
’’ ہاں بھیا تو ٹھیک کہوے ،یو میری بھی سمجھ میں نہ آتا۔ ‘‘
’’مجھے تو ایسا لاگے ایک دنا ایسا آگا یہ جمین بھی ہیم پال کی ہوگی ۔‘‘
’’اس کا کوئی اپائے کرنا ہی پریگا ،بھیا !۔‘‘ ۳
شمع رخ بانو :
یہ حکیم رئیس کی بیٹی ہیں۔ کم عمری سے ہی ادب کی طرف ان کا رجحان رہا ۔اگرچہ گھر میں شعر و شاعری کا ذکر زیادہ ہوتا تھا لیکن انہوں نے اپنا راستہ الگ چنا۔ یعنی وہ فکشن کی طرف آگئیں۔ان کا ایک ناولٹ ’’پتھر کا گلاب ‘‘شائع ہو چکا ہے ۔تخلیقی عمل جاری ہے اس لئے مستقبل میں دیگر تصانیف کے منظر عام پر آنے کی امید ہے۔
سنبھل کا فکشن نگاری میں اپنا ایک مقام ہے ۔اور مستقبل میں بھی اس کے امکانات روشن ہیں ۔یہ علاقے فکشن کے میدان میں کافی زرخیز رہے ہیں اور آئیندہ بھی رہیں گے ۔
اشاریہ ۔
۱۔ افسانوی مجموعہ ’’خزاں کے پھول‘‘ یامین ؔ سنبھلیِ ، کاک آفسٹ پرنٹرس دلی۔۲۰۰۹
۲۔ افسانوی مجموعہ ’’طلسم‘‘ ،فرقان سنھلی ،مکہ پبلشر ۔دلی ۔۶۔۲۰۱۵
۳۔ افسانوی مجموعہ ’’ سوگند تیری سوگند ‘‘ نفیس سنبھلی ،دلی اشاعت ۔۲۰۰۲
۳ thoughts on “سنبھل کے چند فکشن نگار اور ہندوستانی عناصر :- عزہ معین”
شکریہ احباب
بہت خوب
عزہ معین آپ کے مضامین بہت عمدہ ہیں امید ہے آپ اسی طرح اردو ادب کی ترقی کے لئے کام کرتی رہیں گی ۔دعا گو ہوں اللہ تعالٰی آپ کے قلم میں زور پیدا کرے اور ہمیشہ خوش رکھے ۔آمین