مسعود حسین خاں بہ حیثیت ماہر دکنیات – : پروفیسر محمد علی اثر

Share
پروفیسرمسعود حسین خان

مسعود حسین خاں بہ حیثیت ماہر دکنیات

پروفیسر محمد علی اثر

پروفیسر مسعود حسین خاں اردو زبان و ادب کی ایک قد آور اور سربر آوردہ شخصیت کا نام ہے۔ شعر و سخن سے لے کر تحقیق وتنقید ‘دکنی و دکنیات ‘ لسانیات و صوتیات ‘ اسلوبیات‘ اقبالیات اور سوانح حیات تک‘ ان کی تبحر علمی اور غیر معمولی ذہانت و فطانت نے تاریخ ادب اردو میں غیر معمولی اور ناقابل فراموش نقوش چھوڑے ہیں۔

مسعود صاحب دکنی اردو کے غیر دکنی محققین کی فہرست میں سر فہرست نظر آتے ہیں۔ ان کی ادبی و تحقیقی سرگرمیاں کم و بیش نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ابتداً وہ لسانی تحقیق کے مرد میدان کی حیثیت سے سامنے آئے۔ اور جب عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بہ حیثیت پروفیسر ان کا تقرر عمل میں آیا تو اسی زمانے میں انھیں ادبی تحقیق اور اردوئے قدیم سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ چنانچہ جامعہ عثمانیہ اور حیدرآباد میں انھیں علمی و ادبی اور تحقیقی خدمات کے سلسلے میں جو ساز گار ماحول میسر آیا۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے۔
’’علمی اعتبار سے عثمانیہ یونیورسٹی میں میرا چھے سالہ قیام (1968-1962ء )خود میرے لیے بار آور رہا۔ اسی دوران میں نے ’’قدیم اردو‘‘ کے نام سے اردو کے قدیم متون کو سائنسی انداز میں مرتب کرکے چار ضخیم جلدوں میں شائع کیا ۔ جن میں ’’ پرت نامہ‘‘ ،’’بکٹ کہانی ‘‘ اور ’’ ابراہیم نامہ ‘‘ کے متون میرے مرتب کردہ ہیں۔ ( ورود مسعود ، صفحہ ۲۰۰)
دکنی ادب کی تحقیق و تنقید اور تدوین کے سلسلے میں ڈاکٹر مسعود حسین کے اہم کارناموں میں جیسا کہ کہا گیا ہے کہ پرت نامہ اورابراہیم نامہ کے علاوہ دکنی اردو کی لغت اور محمد قلی قطب شاہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
پرت نامہ:
دکنی اردو کی تدوین سے متعلق مسعود صاحب کی پہلی کتاب ’’ پرت نامہ‘‘ ہے۔ اس مثنوی کا مصنف قطب الدین قادری فیروز بیدری ثم گو لکنڈوی ہے۔ ’’ پرت نامہ‘‘ پہلی بار جامعہ عثمانیہ سے مسعود حسین خاں صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلے ’’ قدیم اردو ‘‘ کی پہلی جلد ( 1965ء) میں شائع ہوئی تھی۔ اس مجلے کی ترتیب و تہذیب میں جو طریقۂ کار اپنایا گیا ۔ اورجو اصول پیش نظر رکھے گئے ہیں‘ ان پرروشنی ڈالتے ہوئے مسعود صاحب نے لکھا ہے:
’’ اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ’’ قدیم اردو ‘‘ کے تلفظات کا صحت کے ساتھ تعین کیا جاسکے۔ اس غرض سے اعراب اور دیگر تشریحات سے مدد لی گئی ہے۔ مشکل مقامات سے سرسری گزرنے اور محض نقل نویسی کا جو عام انداز اب تک رہا ہے ‘ اس سے گریز کیا گیا ہے۔ تلاش و جستجو کے باوجود جو مقامات حل نہیں ہوسکے۔ ان پر سوالیہ نشان قائم کردیا گیاہے۔ ‘‘ ( قدیم اردو۔ جلد اول‘ صفحہ ب)
فیروز کی اس مثنوی کا تعارف سب سے پہلے ڈاکٹر زور نے ’’ تذکرہ اردو مخطوطات‘‘ کی پہلی جلد ( ۱۹۴۵ء) میں ’’توصیف نامہ میراں محی الدین ‘‘کے عنوان سے کروایا تھا۔ جس میں 102اشعار موجود ہیں۔ اور ان میں سے بھی دو اشعار نامکمل ہیں۔ جب کہ فیروز نے اپنی مثنوی کے اشعار کی کل تعداد 121بتائی ہے۔ اس مثنوی میں حضرت غوث اعظم دستگیر کی مدح کی گئی ہے۔ اور ضمنی طورپر شاعر نے اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ محمد ابراہیم مخدوم ملتانی کی تعریف بھی کی ہے۔ اور انھیں محی الدین ثانی کے نام سے یاد کیا ہے۔
ڈاکٹر زور کے بعد فیروز کی اس مثنوی کے 120اشعار ڈاکٹر نذیر احمد نے ذخیرۂ انجمن ترقی اردو( ہند) سے تلاش کرکے رسالہ سہ ماہی ’’ اردو ‘‘ دہلی میں شائع کردئیے۔ موصوف نے چوں کہ ادارے کے نسخے سے استفادہ نہیں کیا تھا۔ اس لیے ان کے مدوّنہ متن میں بھی خامیاں راہ پا گئیں۔ پروفیسر مسعود حسین نے ادارے کے قلمی نسخے اور نذیر احمد کے مطبوعہ متن کو سامنے رکھ کر پرت نامہ کا ایک تنقیدی ایڈیشن تیار کیا ۔ جسے موصوف نے بڑی فراخ دلی سے ڈاکٹر نذیر احمد کے نامکمل کام کا تکملہ قرار دیا۔ مسعود صاحب نے ڈاکٹر نذیر احمد کی تدوین میں جو خامیاں اور فروگذاشتیں رہ گئی تھیں‘ان کی تصحیح کردی۔ چناں چہ انہوں نے لکھا ہے:
’’ انجمن اور ادارے کے نسخوں کا مقابلہ کرنے سے متن کی ان خامیوں کا ازالہ ہوگیا۔ اور اکثر اشکال دور ہوگئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ایک شعر ( شعر نمبر 44) جو انجمن کے نسخے میں غائب تھا۔ادارے کے نسخے میں مل گیا۔ اس طرح پرت نامہ کا 121ابیات پر مشتمل مکمل متن تیار ہوگیا۔ ( قدیم اردو جلد اول، صفحہ 136)
بقول ڈاکٹر نذیر احمد پرت نامہ کوئی ایسا بڑا ادبی نقش نہیں ہے جو استاد فیروز کے شایان شان ہو۔ اور جس طرح فیروز کی مدح میں وجہی‘ محمد قلی اور ابن نشاطی نے اشعار لکھے ہیں تاہم حالیہ عرصے میں فیروز کی چند غزلیں ڈاکٹر جمیل جالبی نے’’ تاریخ ادب اردو ‘‘کی پہلی جلد اور ’’ دیوان حسن شوقی‘‘ کے مقدمے میں شائع کی ہیں۔
مزید برآں ڈاکٹر جمال شریف نے رسالہ ’’ سب رس‘‘ حیدرآباد میں چند غزلیں اور ایک رباعی شائع کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دکنی اردو کا ایک خوش گواور باکمال صاحب دیوان شاعر اور استاد سخن رہا ہوگا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجانہ ہوگا کہ میرے زمانۂ طالب علمی میں استاد محترم پروفیسر غلام عمر خاں نے مجھ سے کہا تھا کہ فیروز کا قلمی دیوان شعبۂ عربی جامعہ عثمانیہ کے پروفیسر عبد الرزاق قادری صاحب کی ملکیت ہے۔ جب میں نے مذکورہ دیوان کے بارے میں عبد الرزاق صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ ’’ وہ آب زدہ ہوگیا تھا۔ اس لیے میں نے اسے سکھانے کی غرض سے دھوپ میں رکھا تھا۔ کچھ ہی دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ بکری اُسے چبارہی ہے اور اس طرح وہ بکری کا چارا بن گیا۔ ‘‘
ابراہیم نامہ :
دکنی ادب کی تحقیق و تنقید اور تدوین کے سلسلے میں پروفیسر مسعود حسین خاں کا ایک اہم کارنامہ عبدل دہلوی ثم بیجاپوری کی مثنوی ابراہیم نامہ ہے ‘جس میں شاعر نے بیجاپور کے چھٹے فرما ں روا ابراہیم عادل شاہ ثانی جگت گرو (1020- 988 ھ / 1611 to 1580 ء)مصنف ’’کتاب نورس ‘‘ کی مدح سرائی کی ہے۔ درج ذیل شعر سے پتہ چلتا ہے کہ عبدل کی زبان ہندوی ہے۔ اور وہ دہلی کا متوطن ہے۔ غالباً بادشاہ وقت کی شعر و ادب اور فنون لطیفہ کی سرپرستی کا شہرہ سن کر کسی وقت وہ دہلی سے بیجاپور چلا آیا ہو؂
زباں ہندوی مجھ سوں ہوں دہلوی
نہ جانوں عرب اور عجم مثنوی
’’ابراہیم نامہ ‘‘ نہ صرف دبستان بیجاپور کی ایک اہم تصنیف ہے۔ بلکہ عادل شاہی دور کا پہلا ادبی نقش بھی ہے۔ نیز یہ کتاب لسانی اور ادبی اعتبار سے ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسعود حسین خاں نے پہلی بار 1969ء میں مجلہ قدیم اردو (جلد سوم) کے سلسلہ کی ایک کڑی کے طورپر شائع کیا تھا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن کرناٹک اردو اکیڈمی بنگلور کی جانب سے 1999ء میں بڑے اہتمام سے منظر عام پر آیا۔ ابراہیم نامہ ایک شاہ کار طویل نظم ہے جو بیانیہ و تمثیلی شاعری کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ اس کا قصہ اپجی بھی ہے اور دکنی زبان وادب کی ارتقائی منزلوں کو سمجھنے کے سلسلے میں یہ مثنوی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بقول عبد الغفار شکیل :
’’ ابراہیم نامہ کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اس کی زبان میں دہلی کی قدیم اردو اور دکن کی دکنی اردو کا امتزاج ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دکنی ادب میں ہندی اور فارسی روایت کی کشمکش کا احساس بھی ملتا ہے۔ ‘‘ ( ابراہیم نامہ ‘ دوسرا ایڈیشن ۔ ص: ۷)
ابراہیم نامہ کے اب تک دو نسخوں کا پتہ چلا ہے۔ ایک نسخہ کتب خانۂ سالار جنگ حیدرآباد کی ملکیت ہے اور دوسرا ریاست اوندہ ( مہاراشٹرا) کے چیف صاحب پنت پرتی ندھی کے کتب خانے کا مخزونہ ہے۔ اس خطی نسخے کو بنیاد بنا کر سب سے پہلے مثنوی ابراہیم نامہ کا تعارف بھگوت دیال ورمانے رسالہ ’’ ہندوستانی‘‘ الہ آباد ( جنوری 1934ء) میں شائع کیا تھا۔ ورماصاحب کو کتب خانۂسالار جنگ حیدرآباد کے نسخے کا علم نہیں تھا۔ ریاست اوندھ کے نسخے اور ابراہیم نامہ کا تعارف کرواتے ورما صاحب نے اطلاع دی ہے کہ:
’’ ابراہیم نامہ ‘‘ ایک اور مثنوی ہے اور سو لہویں صدی کی دکنی اردو کے نمونے کی ایک اعلیٰ پایہ کی شاہ کار اور یادگار ہے ۔اس کا دوسرا نسخہ ہنوز دستیاب نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ 176صفحات ہیں۔۔۔۔۔۔ جن میں 712شعر ہیں۔ ‘‘ ( ہندوستانی ۔ ص: 16)
ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے دونوں نسخوں کو سامنے رکھ کر نہ صرف مصنف کے حالات زندگی کا سراغ لگایا سنہ تصنیف کی صحیح تحقیق کی ہے۔ بلکہ 713ابیات پر مشتمل مکمل متن بھی تیار کردیا۔ ڈاکٹر زور اور نصیر الدین ہاشمی نے ابراہیم نامہ کے اشعار کی تعداد قیاساً ‘علی الترتیب 750اور 744بتائی ہے۔ بھگوت دیال ورما نے ابیات شمار کرکے ان کی تعداد 712تحریر کی ہے ۔ لیکن مسعود حسین خاں نے جملہ اشعار کی تعداد 713متعین کی ہے جو بالکل درست ہے۔
مثنوی ابراہیم نامہ کی شان نزول بالکل اسی طرح ہے ‘ جس طرح محمد قلی اور عبد اللہ قطب شاہ نے وجہی سے علی الترتیب ’’قطب مشتری ‘‘ اور ’’ سب رس‘‘ تصنیف کرنے کی فرمائش کی تھی۔ ابراہیم نامہ کو عبدل نے ابراہیم عادل شاہ ثانی کی فرمائش پر سپرد قرطاس کیا۔ یہ مثنوی نہ صرف اپنے ممدوح کے مزاج و کردار اور اس کے عادات و اطوار کی بھر پور عکاسی کرتی ہے بلکہ اس میں مملکت بیجاپور کی عظمت و رونق ‘ ہاتھی و گھوڑوں ‘ فوجوں ‘ محلات ‘ باغات ‘ قلعہ جات‘ بادشاہ کی بزم و رزم آرائیوں ‘ تہذیب و معاشرت ‘ بازار وں ‘سٹرکوں وغیرہ کی زیب و زینت کی ساری تفصیلات اور جزئیات تاریخی صداقت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ۔ شاعر نے اپنے کمال فن کا بھر پور مظاہرہ شاعرانہ تخیل اور ادبی پیرائے میں اس طرح کیا ہے کہ جگہ جگہ نادر تشبیہات و استعارات اور تلمیحات کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ مسعود حسین خاں نے 58صفحات پر مشتمل مقدمہ تحریر کیا ہے اور انھوں نے اس کتاب کی ایڈیٹنگ کے دوران جدید اصول تحقیق کو پیش نظر رکھا ہے۔ بقول پروفیسر سیدہ جعفر:
’’ وہ ( مسعود صاحب ) تدوین متن کے آداب سے آشنا اور اصول تحقیق کے رمز شناس ہیں۔۔۔۔۔۔ ان کے علم لسانیات پر عبور نے متروک الفاظ کھولنے اور ان کے ماخذوں کا سراخ لگانے اور مطالب کی تصحیح اور تشریح میں بڑی مدد کی ہے۔ ‘‘ ( نذر مسعود ۔ ص: 217)
مسعود صاحب نے ہر صفحہ پر قدیم اور مشکل الفاظ کے معنی درج کیے ہیں۔ اور تلفظات کے سلسلے میں متن میں ہر جگہ اعراب لگائے ہیں۔ اور کتاب کے آخر میں ابراہیم نامہ کے شعر نمبر کے حوالے سے قدیم اردو سے مخصوص ایسے الفاظ کی حروف تہجی کے اعتبار سے فہرست بھی پیش کی ہے۔ جو صوتیاتی اور معنیاتی اہمیت کے حامل ہیں۔
دکنی اردو کی لغت :
مسعود صاحب کی علمی و ادبی فتوحات میں ان کے معرکے کی شراکتی کتاب ’’ دکنی اردو کی لغت‘‘ ہے جو غیر معمولی اہمیت کی حاملہے۔ اس کتاب کے گرد پوش اور جلد پر ‘‘ دکنی اردو کی لغت ‘‘تحریر ہے۔ لیکن اندرونی سرورق پر ’’ دکھنی اردو کی لغت ‘‘ لکھا ہوا ہے۔بقول دیوی سنگھ چوہان ’ ایک علمی کتاب کے نام کی یہ دو رنگی اچھی نہیں معلوم ہوتی۔اس لغت کا پروجیکٹ جیسا کہ مسعود صاحب نے دیباچے میں تحریر کیا ہے ۔ انھوں نے اپنے رفیق کار ڈاکٹر غلام عمر خاں کے اشتراک سے مکمل کیا ہے۔ اور دونوں مرتبین اس لغت کی تیاری میں برابر کے شریک ہیں۔ نیز کتاب کے اندرونی اور بیرونی سرورق پر دونوں کے نام کا اندراج بھی ہوا ہے۔ لیکن بعض نقادوں نے اس لغت کا تعارف کرواتے ہوئے مرتب ثانی کا نام لینا غیر ضروری سمجھا۔ یہاں تک کہ خود کتاب میں شامل بی ۔گوپال ریڈی( صدر آندھرا پردیش ساہیتہ اکادمی) کے تاثرات میں بھی ڈاکٹر غلام عمر خاں کا نام شامل نہیں ہے۔ اور مذکورہ تحریر سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مسعود صاحب نے یہ کام متعدد برسوں میں اپنے کئی شاگردوں کے تعاون سے مکمل کیا ۔ چناں چہ موصوف نے لکھا ہے :
”THE ANDHRA PRADESH SAHITYA AKADEMI SPONSORED A PROJECT OF CLASSICAL DECCANI URDU DICTIONARY AND ENTRUSTED IT TO PROF. MASUD HUSSAIN KHAN, THEN PROFESSOR OF URDU IN THE OSMANIA UNIVERSITY. PROF. KHAN, WITH THE COLLABORATION OF MANY SCHOLARS WORKING UNDER HIM FOR SEVERAL YEARS, AND AFTER SCRUTINIZING A NUMBER OF MANUSCRIPTS, COMPLETED THE WORK OF COMPILING THIS DECCANI URDU DICTIONARY”
( دکنی اردو کی لغت ۔ صفحہ :۵)
راقم الحروف کے خیال میں ایک غیر دکنی مصنف کے لیے بغیر دکنی محقق یا ماہر دکنیات کے اشتراک کے‘ ایک جامع دکنی اردو کی لغت مرتب کرنا نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ اس لیے کہ وہ مقامی بول چال کے الفاظ اور علاقائی زبان سے کما حقہ ‘ واقفیت نہیں رکھتا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر جاوید وششٹ کی ’’ دریائے معانی‘‘ اور ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’’ قدیم اردو کی لغت‘‘ میں بھی بعض کمیاں اور خامیاں رہ گئی ہیں۔
یہاں اس بات کا انکشاف بیجانہ ہوگا کہ راقم کے استاد محترم پروفیسر غلام عمر خاں نے مجھ سے بتایا تھا کہ اس پروجیکٹ ( دکنی اردو کی لغت) کے کام کا آغاز خود انھوں نے پروفیسر اے ۔آر کلکرنی صدر شعبۂمراٹھی کے تعاون سے کیاتھا۔ لیکن اس وقت کے صدرشعبۂ اردو اور پروفیسر مسعود حسین خاں نے جب اس کا م کو دیکھا تو انھوں نے اس پروجیکٹ میں اپنی شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا۔ اور اس طرح ڈاکٹر کلکرنی کی جگہ مسعود صاحب دکنی لغت کی ترتیب میں میرے برابر کے شریک ہوگئے۔ البتہ مالی اعانت کے سلسلے میں مسعود صاحب نے خود ساہیتہ اکادمی( آندھرا پردیش) کی سرپرستی حاصل کی تھی۔
لغت کی ترتیب کا کام راتوں رات مکمل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی تیاری کے لیے برسوں کی محنت شاقہ اور بڑی دیدہ ریزی درکار ہوتی ہے۔ چناں چہ اس کتاب کی ترتیب کے سلسلے میں‘ بہ حیثیت مرتبین مسعود حسین خاں اور غلام عمر خاں نے کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ سید بدیع حسینی ریسرچ اسکالر نے ایک تنخواہ یاب مددگار کے طوران کا ہاتھ بٹایا۔ اور ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر اے ۔ آر۔ کلکرنی کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ جنہوں نے قدیم اردو کے بعض عسیر الفہم الفاظ کے کھولنے اور ان کے معنی کے تعین میں مرتبین کی مدد کی۔ تب جا کے یہ ہفت خواہ طے ہوا ۔ اس لغت کی تیاری کے سلسلے میں تقریباً چودہ ہزار الفاظ جمع کیے گئے ۔ جن میں سے کم و بیش نصف الفاظ کو ہی اعراب اور سند کے ساتھ شامل کتاب کیا گیا ہے۔ 390صفحات پر مشتمل اس لغت میں اگر چہ بعض کمیاں اور فروگذاشتیں بھی راہ پا گئی ہیں۔لیکن مسعود صاحب کے ماہر لسانیات و صوتیات ہونے اورغلام عمر خاں صاحب کے ماہر دکنیات ہونے نے‘ اس لغت کو متمول بنادیا ہے اور اب تک دکنی اردو کی جتنی لغتیں مرتب کی گئی ہیں۔ ان سب میں زیادہ جامع اور سائنٹفک لغت ہونے کا اعزاز عطا کیا ہے۔
محمد قلی قطب شاہ :
پروفیسر مسعود حسین خاں نے ساہیتہ اکاڈمی دہلی کی فرمائش پر اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر اور مملکت گولکنڈہ کے پانچویں حکمران محمد قلی قطب شاہ کی حیات اور شاعری پر 112صفحات پر مشتمل ایک مونو گراف بھی لکھاتھا۔ جس کی پہلی اشاعت 1989ء میں اور دوسری 1998ء میں عمل میں آئی۔ آخر الذکر ایڈیشن راقم الحروف کے پیش نظر ہے۔ کتاب کے سرورق پر پہلی نظر ڈالتے ہی یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس پر محمد قلی قطب شاہ کی جگہ اس کے بھتیجے اور جانشین سلطان محمد قطب شاہ کی تصویر شائع کی گئی ہے۔ نیز عنوان او رمصنف کے نام کے بعد سب سے نیچے ’’ ہندوستانی ادب کے معما ‘‘ تحریر ہے آخری لفظ کا ’’ ر‘‘ پوری طرح غائب ہوگیا ہے۔ اسی طرح جب کتاب کے پشت ورق کی تحریر کو دیکھا گیا تو اس میں بھی ایک فروگذاشت پر نظر پڑی کہ ڈاکٹر سیدہ جعفر نے کلیات محمد قلی کی 1958ء میں دوسری بار تدوین کی‘ حالاں کہ انہوں نے اسے 1985ء میں شائع کیا تھا۔
چار ابواب اور سات ذیلی عنوانات پر مشتمل اس کتاچے کے اولین دو ابواب میں مسعود صاحب نے عہد محمد قلی کے تاریخی پس منظر محمد قلی قطب شاہ کی تخت نشینی و حکمرانی ‘ شخصیت اور سیرت ‘ بھاگ متی اور بھاگ نگر قطب اور مشتری کے علاوہ محمد قلی کی شاعری ‘اس کے کلیات کی بازیافت ‘ قلمی نسخے ‘ نظم نگاری‘ غزل گوئی‘ محمد قلی کی زبان اور اس کے قرأت کلام کے مسائل کو زیر بحث لایا ہے۔ تیسرے باب کا عنوان نظر بازگشت ہے۔ جس میں محمد قلی قطب شاہ اور اس کی شاعری سے متعلق مذکورہ بالا سارے موضوعات اور مباحث کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔ چوتھا باب محمد قلی قطب شاہ کے انتخاب کلام پر مشتمل ہے۔ جس میں حمد و نعت اور منقبت کے علاوہ محمد قلی کی آٹھ نظمیں‘ چند غزلوں کے منتخب اشعار‘ ایک نامکمل قصیدہ اور آٹھ رباعیوں کی جدید اصول کی روشنی میں تدوین کی گئی ہے۔
محمد قلی قطب شاہ کے کلیات کو ڈاکٹر زور نے 1940 ء میں اور ڈاکٹر سیدہ جعفر نے 1985ء میں مرتب کرکے شائع کیا تھا۔ آخر الذکر کتاب کے ایک سے زیادہ ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ لیکن مسعود صاحب کلیات محمد قلی کی ترتیب و تدوین سے مطمئن نہیں۔ ان کے خیال میں کلام محمد قلی کی صحیح قرأت ماہر دکنیات کے لیے بھی آسان نہیں۔ اس کلیات کی از سر نو اعراب اندازی اور ضروری تشریحات کے ساتھ ایڈیٹنگ اور ہر صفحے کے حاشیے ہی میں مشکل الفاظ کی فرہنگ کا اندراج ضروری ہے ۔
محمد قلی کی مسلسل غزلوں کو دونوں مرتبین نے عنوانات چسپاں کرکے انہیں نظمیں قرار دیا ہے۔ یہ بات تحقیق کے اصولوں کے مغائر ہے ۔ جس پر مسعود صاحب سخت معترض ہیں کہ کسی بھی تدوین کا ر کو متن میں ‘منشائے مصنف کے خلاف اپنی طرف سے کسی لفظ کی تبدیلی یا کسی غزل کو نظم قرار دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ محمد قلی نے جس تخلیق کو غزل کہا ہے تو وہ غزل ہی ہے ۔ اُسے نظم کہا جاسکتا ہے اور نہ اُس کاعنوان ہی قائم کیا جاسکتا ہے۔
راقم اپنے لکچرس کے دوران کہا کرتا ہے کہ ’’ قلی قطب شاہ ‘‘ محمد قلی کا نام نہیں محمد اُس کے نام کا جزو لا ینفک ہے۔ محمد کے سابقے کے بغیر کسی مخصوص نام کا تصور محال ہے۔ قلی کے معنی خادم‘ بندہ اور غلام کے ہیں۔ قطب شاہی خانوادے کے اکثر افراد کے ساتھ قلی کالفظ استعمال ہوا ہے۔ جیسے اللہ قلی ‘ سلطان قلی ‘ یار قلی( جمشید) سبحان قلی وغیرہ۔ بعض مصنفین نے محمد قلی کے لیے نہ صرف قلی قطب شاہ لکھا ہے جیسے ’’ انتخاب قلی قطب شاہ‘‘ ( مرتبہ ڈاکٹر سیدہ جعفر، ناشر اترپردیش اردو اکادمی ‘ لکھنؤ) بلکہ صرف ’’ قلی‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ جیسے عہد قلی میں امن و امان ( کلیات محمد قلی قطب شاہ دوسرا ایڈیشن ‘صفحہ ۴۱) ’’ قلی کی شاعری ( دکن میں ریختی کا ارتقا ‘ بدیع حسینی ‘ صفحہ ۲۴۴) لیکن مسعود حسین خاں نے اس مونو گراف میں کہیں بھی’’ قلی‘‘تو کجا ’’قلی قطب شاہ‘‘ بھی نہیں لکھا۔
پروفیسر ہارون خاں شیروانی اور ڈاکٹر سیدہ جعفر کا خیال ہے کہ’’ وجہی کی مثنوی قطب مشتری میں قطب اور مشتری کے کردار فرضی اور تصوراتی ہیں ۔ محمد قلی اور بھاگ متی کے نہیں ہوسکتے۔ یہ محض تخیل کی رنگ آمیزی ہے۔ جب کہ ڈاکٹرزور کے نزدیک اس مثنوی میں محمد قلی اور اس کی معشوقہ قدیم بھاگ متی کی عشقیہ داستان بیان کی گئی ہے۔ ان کے خیال میں بھاگ متی سے ملاقات کے لیے محمد قلی نے طغیانی کے عالم میں موسیٰ ندی کو گھوڑے کی پیٹھ پر پار کیا تھاا ور اس واقعے کے بعد ابراہیم قطب شاہ نے رود موسیٰ کا پہلا پل تعمیر کروایا تھا۔ انہوں نے یہ بھی اطلاع دی کہ تخت نشین ہوتے ہی محمد قلی نے بھاگ متی کے اعزاز و اکرام میں اضافہ کردیا اور اس کے گاؤں کو ایک متمدن شہر میں تبدیل کرکے‘ اپنی معشوقہ کے نام کی مناسبت سے اس کا نام ’’بھاگ نگر‘‘ رکھا۔ مزید برآں جب اسے ’’حیدر محل‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا تو شہر کا نام بھی ’’ بھاگ نگر‘‘ کے بجائے ’’حیدرآباد‘‘ رکھا گیا۔
ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے ‘پروفیسرہارون خاں شیروانی اور ڈاکٹر سیدہ جعفر سے اختلاف کرتے ہوئے محمد قلی اور بھاگ متی کی عشقیہ داستان کو حقیقت سے قریب تر کرنے کی کوشش کی ہے۔ موصوف محمد قلی کے کلام کی داخلی شہادتوں کے علاوہ حدیقۃ العالم ‘ گلزار آصفیہ ‘ اور ’’ گلشن ابراہیمی ‘’ ( فرشتہ) کی روایت سے ایک پاتر ( رقاصہ) بھاگ متی یا حیدرمحل اور مشتری کے کردار کو بے نقاب کرنے میں بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں چناں چہ کہتے ہیں ۔
’’ میں بذات خود روایت کے تواتر اور کلیات کی داخلی شہادتوں کی بنا پر سمجھتا ہوں کہ اس کہانی میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرورہے۔ ‘‘
اسی طرح مسعود صاحب کلام محمد قلی کے اندرونی شواہد کو پیش نظر رکھ کر ’’ ماہ نامہ‘‘ کے مولف کے اس بیان سے متفق ہیں کہ وہ ایک ہندو خاتون ’’ بھاگیرتی‘‘ کے بطن سے تھا۔ چناں چہ انہوں نے درج ذیل شعر
میں اپ دین چھوڑ پکڑیا اس دین کا مارگ
نپاتے اجھوں موکوں ہندوئے فرّخ
کی روشنی میں لکھا ہے کہ یہ نپا نے (پیدا کرنے ) والی ’’ ہندوئے فرّخ‘‘ بھاگیرتی کے سوا اور کون ہوسکتی ہے۔ ‘‘
محمد قلی قطب شاہ کے متعلق مسعود صاحب کا یہ کتابچہ معلومات کے خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا اندازِبیان نہایت واضح اور سلجھا ہوا ہے۔ پوری کتاب ان کی ایجاز بیانی پر دال ہے۔ مثال کے طورپر چند جملے ملاحظہ ہوں۔ جن کے مطالعے سے ’’ گاگر میں ساگر‘‘ بھرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔
——
(۱) محمد قلی بنیادی طورپر شعرو شاہد و شراب کا آدمی تھا۔ ( صفحہ :۱۵)
(۲) اس کی عاشقانہ شاعر ی کا بیشتر حصہ شہوانیات سے بھرا ہوا ہے۔ ( صفحہ : ۱۵)
(۳) بالآخر شاہد و شراب اس کو کھاگئے۔( صفحہ : ۱۵)
(۴) محمد قلی اپنے باپ ابراہیم کے برعکس توغل کے ساتھ شیعہ عقائد کا پیرو تھا۔ ( صفحہ : ۱۶)
(۵) وہ اپنے کلام میں سنیوں اور ہندؤں پر خوب برسا ہے۔ ( صفحہ : ۱۸)
(۶) محمد قلی کے بعد اس کے جانشینوں کی یہ کوشش رہی کہ بھاگ متی کے واقعے پر جس قدر پردے پڑے رہیں اور بھاگ نگر کا رواج
جس قدر کم ہو اچھا ہے۔ ( صفحہ : ۲۰)
——
Prof. Mohd. Ali Asar

Share
Share
Share