اردو کےادیب اورنثرنگار:قسط:13- رشید احمد-حلیم شرر -:محسن عثمانی ندوی

Share


قسط : 13

اردو کےادیب اورنثرنگار
رشید احمد صدیقی ۔ عبد الحلیم شرر

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

اردو کے ادیب اور نثر نگار ۔ بارھویں قسط کے لیے کلک کریں

رشید احمد صدیقی (۱۸۹۴۔۱۹۷۷ء)
رشید احمد صدیقی اس عہد کے صاحب اسلوب ادیب اور بذلہ سنج مزاح نگار ہیں ، ان کی تحریروں میں سنجیدہ مزاح اور گلکاری اور سحر آفرینی پائی جاتی ہے ، ان کی ابتدائی تعلیم جون پور میں ہوئی-

علی گڑھ یونیورسٹی سے انھوں نے ایم اے کیا اور وہیں اردو کے لکچرر ،ریڈر اور پروفیسر ہوئے ، ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کو پدم شری کا خطاب بھی عطا کیا گیا ، ان کی تصانیف میں ’’طنزیات و مضحکات‘‘ ’’مضامین رشید ‘‘’’خنداں‘‘ ’’گنج ہائے گراں مایہ ‘‘ ’’آشفتہ بیانی میری ‘‘ ’’جدید غزل‘‘ ’’ذاکر صاحب‘‘’’سہیل کی سر گزشت‘‘ اور ’’ہم نفسان رفتہ‘‘ اہم اور مشہور کتابیں ہیں ، وہ علی گڑھ میگزین کے اڈیٹر رہے ، نیادور اور ادیب اور معارف میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ۔

رشید احمد صدیقی اردو کے ایک بلند پایہ ادیب ، مزاح نگار اور خاکہ نگار ہیں ، خاکہ نگاری میں ان کی دو کتابیں ’’ہم نفسان رفتہ ‘‘ اور ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ ہیں، جس شخص کو رشید احمد صدیقی کا اسلوب دیکھنا ہو اور مشہور شخصیات کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو جاننا ہو اس کو یہ دونوں کتابیں خاص طور پر پڑھنی چاہئے ، ان کی ادبیت اور معنی خیزی اور فلسفہ آمیزی اور مزاح انگیزی سے لبریز اسلوب دیکھنا ہو تو اسے ان کی دوسری کتابوں کے ساتھ ان دو کتابوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے ، علی گڑھ سے ان کو والہانہ لگاؤ ہے ، اس تعلیمی ادارہ سے ان کی شیفتگی کااظہار قدم قدم پر ہوتا ہے او ر ان کی کتاب ’’ذاکر صاحب ‘‘ سے ذاکر حسین صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات کے ساتھ ساتھ ان سے رشید احمد صدیقی کی عقیدت پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔
رشید احمد صدیقی کی تحریروں کی شگفتگی ، خندہ آفرینی اور تبسم ریزی قاری کو مسحور کردیتی ہے ، ان کی مزاح نگاری بہت سنجیدہ قسم کی ہے ، انھوں پھکڑپن اور بے اعتدالی کو کہیں راہ نہیں دی ہے ، مزاح نگاری میں وضع داری اور شائستگی کا جلوہ اگر کسی کو دیکھنا ہو تو اسے رشید احمد صدیقی کی تحریریں پڑھنی چاہئے ، رشید احمد صدیقی کے جملے بڑے تراشیدہ ہوتے ہیں ، انھیں فقرے تراشنے اور ذو معنی عبارت لکھنے میں بڑی مہارت حاصل ہے ، وہ اپنی تحریروں میں بلاغت کی ایک خاص صنعت کا استعمال کرتے ہیں یعنی ایک ہی جگہ ایسے دو لفظوں کا استعمال جو ایک حرف سے شروع ہوتے ہیں اور صوتی موسیقیت رکھتے ہیں ، مجموعی طور پر ان کی تمام تحریریں بہت پر لطف اور انبساط پرور ہوتی ہیں ، گنج ہائے گراں مایہ اور ہم نفسان رفتہ مرقع کشی کا نہایت اعلی نمونہ ہیں ، گنح ہائے گراں مایہ میں انھوں نے اس ’’کندن ‘‘ کی مرقع کشی ہے جو یونیورسٹی میں گھنٹہ بجاتا تھا ، بڑی شخصیتوں کا خاکہ لکھنا آسان ہوتا ہے لیکن ’’کندن ‘‘ کا خاکہ لکھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ، رشید احمد صدیقی اپنی تحریروں میں مذہب و اخلاق کے طرفدار نظر آتے ہیں اور مذہبی شخصیتوں اور علماء کے بارے میں ان کاتاثر عام طور پر مؤثر اور دل فریب ہوتا ہے ۔

عبد الحلیم شرر (۱۸۶۰۔۱۹۲۶ء)
عبد الحلیم شرر اردو کے ان چند ادیبوں اور ناول نگاروں میں ہیں جنہوں نے ادب کے مختلف میدانوں میں اپنی بصیرت اور دیدہ وری کی یادگاریں چھوڑیں ۔ ناول نگاری ، مضمون نویسی ، ڈرامہ نگاری اور شعر گوئی میں شرر نے اپنی انفرادیت کے ایسے نقوش ابھارے ہیں جو ان کے نام کو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھیں گے ، ان کی ولادت لکھنؤ میں ہوئی ، یہاں انھوں نے عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی ، انھوں نے اپنے علمی کام کا آغاز اس طرح کیا کہ واجد علی شاہ کے نام بیگمات عالیات جو خطوط بھیجا کرتی تھیں ان کی ترتیب و تدوین کا کام انھوں نے شروع کیا اور پھر ادبی رنگینی کے ساتھ شہزادوں کی صحبت اور شب و روز کی محفلوں نے زبان کی اصلاح میں مدد کی ، شرر نے دہلی میں بھی تعلیم حاصل کی اور انھوں نے ۱۸۸۷ میں رسالہ ’’دلگداز‘‘ جاری کیا اور اس میں ان کے بعض ناول قسط وار بھی شائع ہوتے رہے ، حیدرآباد میں بھی عبد الحلیم شرر کا قیام رہا لیکن وہ دوبارہ لکھنؤ آگئے اور پھر یہاں سے ان کی ادبی تخلیقات کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ، ان ناولوں میں ’’دل چسپ‘‘ ’’دل کش‘‘ ’’ملک العزیز ورجینا‘‘ ’’حسن انجلینا‘‘ ’’منصور موہنا‘‘ ’’قیس ولبنی‘‘’’یوسف و نجمی‘‘’’ایام عرب‘‘’’فردوس بریں ‘‘’’مقدس نازنین‘‘’’بدر النساء کی مصیبت‘‘ ’’شوقین ملکہ‘‘ ’’فتح اندلس‘‘’’ماہ ملک‘‘ ’’فلپانا‘‘ ’’بغداد‘‘’’رومۃ الکبری‘‘’’حسن کا ڈاکو‘‘ ’’الفانسو‘‘’’خوفناک محبت‘‘’’فاتح مفتوح‘‘ ’’بابک خرمی‘‘ ’’جویائے حق‘‘ ’’لعبت چین‘‘ ’’عزیزہ مصر‘‘ ’’طاہرہ ‘‘ ’’نیکی کا پھل ‘‘ ’’مینا بازار‘‘ ’’شہزادہء حبش‘‘ شامل ہیں ۔ عبد الحلیم شرر نے اردو میں تاریخی ناول نگاری کو ایک مستقل فن کی حیثیت سے برتا ، اور اردو ناول نگاری کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا ۔
ہمیں یہ نقطہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تاریخی ناول تاریخ نہیں ہوتے ہیں ، بلکہ ناول نگار ایک خاص عہد کے حالات اور تہذیبی اور سیاسی واردات کے تناظر کرداروں کو ابھارتا ہے اور واقعات کی ایک جھلک دکھاتا ہے اور ماضی کے جھروکے کھول دیتا ہے ، اردو ادب کے آئینہ میں تاریخ کی جھلک دیکھنے اور دکھانے والوں میں سب سے پہلے عبد الحلیم شرر کا نام لیا جاسکتا ہے ، تاریخی ناول نگاری کے تقاضوں سے عہدہ برآں ہونا مشکل ہے ، تاریخی ناول تاریخ نہیں ہوتے لیکن قاری ان میں تاریخی صداقتیں تلاش کرلیتا ہے ، شرر کے تاریخی ناولوں کی تعداد ۳۴ ہے ،انھوں نے طبع زاد ناولوں کے علاوہ ناولوں کے ترجمے بھی کئے ہیں ۔ ’’منصور موہنا ‘‘ میں محمود غزنوی کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اور ’’فلورا فلورنڈا‘‘ میں پس منظر اسپین کی سر زمین ہے جب وہاں عبد الرحمن ثانی کی حکومت تھی ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے انداز فکر اور معتقدات کا ٹکراؤ اس ناول کی اساس بن گیا ہے ، ’’ایام عرب ‘‘ دو حصوں پر مشتمل ہے اور اس کے رومانے قصہ کا آغاز بازار عکاظ سے ہوتا ہے ، ایام عرب کا موضوع طلوع اسلام سے قبل کا عربی ماحول ہے ، عربوں کے طور طریق ، جہالت ، مہمان نوازی اور ان کے طرز رہائش اور انداز فکر کی اس ناول میں بڑی مؤثر عکاسی کی گئی ہے ، ’’فردوس بریں ‘‘ عبد الحلیم شرر کا ایک اچھا اور فنی اعتبار سے قابل توجہ ناول ہے ، اس کے قصہ کا تعلق فرقہء باطنیہ سے ہے ، اس ناول کے ہیرو ’’حسن‘‘ اور اس کی ہیروئن ’’زمرد‘‘ ہے ، فرقہء باطنیہ کا بانی حسن بن صباح تھا ، فردوس بریں میں شرر نے فرقہء باطنیہ کی گمراہیوں کا پردہ چاک کیا ہے ، یہ ناول خاصا دل چسپ ہے ، عبد الحلیم شرر کے معاشرتی ناول بھی ہیں جیسے ’’دل چسپ‘‘ اور ’’دل کش‘‘ اور ’’بدر النساء کی مصیبت‘‘ ان ناولوں میں شرر نے اپنے عہد کی معاشرتی ناہمواریوں کو اجاگر کیا ہے ، ان ناولوں میں عبد الحلیم شرر ایک مصلح کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں ، شرر کے مضامین کا مجموعہ آٹھ جلدوں میں شائع ہوا ہے ، شرر کے اسلوب کا سب سے نمایاں پہلو ان کی عبارت آرائی اور پر لطف اور شگفتہ نثر ہے ، ان کے مضامین ’’بزم قدرت‘‘ ’’چاندنی رات‘‘ ’’غرور حسن‘‘ ’’خیال یار‘‘ ’’بوئے وفا‘‘ ’’تیر نظر ‘‘ اور ’’صبح چمن‘‘ شرر کی رنگین اور شگفتہ انشا پردازی کے حسین نمونے ہیں ، شرر نے آخری دور میں سوانح عمریاں اور تاریخ کے موضوع پر کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں ’’خواجہ معین الدین چشتی‘‘ ’’تاریخ یہود‘‘ ’’ابو الحسن‘‘ اور ’’تاریخ خلافت‘‘ بہت مشہور و مقبول ہیں ۔

Share
Share
Share