قفسؔ سنبھلی
آج وہ یاد بے حساب آئے
عزہ معین ۔سنبھل
قفسؔ سنبھلی کی آج ۱۳ جون کو اس گلستان عالم سے دائمی جدائی( وفات)کا دن ہے۔ اور کل ۱۴ جون کی پیدائش تھی۔ دنیا ئے مکافات میں ہجوم آدم روز انہ ہزاروں کی تعداد میں ادھر سے ادھر رواں دواں ہے۔کہیں زندگی کی مصروفیات ہیں اور کہیں موت وزندگی کا کھیل۔ جانے کتنے آئے اور کتنے چلے گئے ۔ نہ کوئی نشان ان کا باقی نہ کوئی نام لینے والا ۔اسی جہاں میں ایسے بھی ہیں جنھیں برس ہابرس لوگوں کے اذہان فراموش نہیں کر پاتے ۔ان کی یادیں ہمارے لئے سرمایہ حیات بن جاتی ہیں۔قلم بھی انھیں یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں ۔انھیں قلم کے سپاہیوں میں سے ایک قفسؔ سنبھلی تھے جن کی یاد مشاعروں میں ناظم کے اشعار کے ذریعہ اور کبھی کتابوں میں ان کے خوبصورت اشعار اورحوالوں کے ذریعہ ہمارے درمیان رقص کرتی ہے ۔
یہ قلم والے ،یہ شاعری میں یکتا اور مزاحیہ اشعار کے خالق جب بزم سے غیر حاضر ہوں تو ان کے شیدائی ،ان کے الفاظ ،ان کے ہمراہ استعارے ،ان کی تشبیہی تعبیریں ،ان کی ملازم علامتیں، ان کے احباب اشارے،کنائے ،ان کے ہجر میں پتھر بن جاتے ہیں ۔ ان کی یادوں میں گلدان مہکتے رہتے ہیں ۔ان کی خوشبو ہر سمت پھیلی رہ جاتی ہے ۔
جناب مجاہد حسین قفسؔ کی ولادت ۱۴ جون ۱۹۳۲ ء کو مچھلی محل واقع محلہ دیپا سرائے سنبھل میں ہوئی ۔قفسؔ سنبھلی ماضی قریب کے مذہبی شاعر اور آسودہ حال زمیں دار جو نصف درجن مجموعات کا خالق تھا کے خاندان میں وارث حسین وارثؔ کے پوتے اور اردو اور فارسی کے جید عالم حکیم مولوی عابد حسین خلش کے لخت جگر تھے۔آپ کی ابتدائی تعلیم دادا وارث حسین وارثؔ کی زیر نگرانی مولوی عابد حسین خلشؔ اور والدہ شہر بانو کے پاکیزہ گھریلو ماحول میں ہوئی ۔بعد میں درجہ پانچ تک کی تعلیم سرکاری پرائمری اسکول سبزی منڈی سنبھل میں ہوئی ۔ آگے کی تعلیم مڈل اسکول جو آجکل ہند انٹر کالج کے نام سے جانا جاتا ہے میں ہوئی جہاں سے آپنے ہائی اسکول اور انٹرکیا ۔
کھیل کود کے میدان میں بچپن سے ہی دلچسپی تھی اسی لئے گولہ پھینک ،ڈسکس تھرو ،جیولن تھرو ،دوڑ وغیرہ میں حصہ لینے لگے اور کالج کیرئر میں کئی تمغہ اور انعامات حاصل کئے ۔اس شوق کے ساتھ ہی والی بال کا شوق بھی سرچڑھ کر بولنے لگا اور ملک گیر سطح پر مقابلوں میں حصہ لے کر اپنے منفرد انداز کے سبب اپنا نام پیدا کیا ۔اور والی بال کے میدان میں استاد کہلائے ۔
گھریلو ماحول والد بزرگوار اور دادا کے ساتھ ادبی صحبتوں میں رہنے کی وجہ سے کتب بینی اورشاعری کا چسکا لگا ۔اپنی پہلی غزل دسمبر ۱۹۴۵ ء کو دیپا سرائے میں منعقد ایک ادبی نشست میں پڑھی ۔دوران حیات متعدد انجمنوں اور تنظیموں کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔لیکن اپنے اوپر کسی بزم میں شامل رہتے ہوئے کسی دوسری بزم کے پروگراموں میں حصہ نہ لینے کا دھبہ نہ لگنے دیا ۔دوسرے الفاظ میں کسی مخصوص حلقہ کی زد میں رہنے سے احتراز کیا ۔یہاں تک کہ شہر کی تمام انجمنوں نے اپنے تمام تنازعات ختم کر آپ کو اپنا صدر بھی منتخب کیا ۔۔
قفس سنبھلی نے طنز و مزاح کے موضوع پر خصوصی توجہ دی اور اپنی طنز و مزاحیہ شاعری کی بدولت اہم اور معروف شعراء میں شمار کئے گئے ۔یہی نہیں کہ صرف طنز و مزاح میں ہی شاعری کی بلکہ آپ کا سنجیدہ کلام بھی کافی مقدار میں موجود ہے ۔جس میں لغت ،منقبت اور غزلیات کی شکل میں باقیات ا پنی مثال آپ ہیں ۔ان کی طنز و مزاح سے بھری ہوئی شاعری کے پائے کا پورے ضلع میں جواب نہیں ملتا ۔جیسی پیچیدگیاں ان کے اشعار میں ملتی ہیں وہ کہیں کسی بھی شاعر کے کلام میں اب تک نہیں ملتی۔ اس طرح کی شاعری کرنے میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔آپ کاکلام گاہے گاہے ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہوتا رہا ہے ۔اخبارات ورسائل آپ کے کلام سے مزین رہے ہیں ۔ملک کے باہر بھی آپ کے کلام کی اتنی ہی قدر تھی جتنی کہ ملک کے اندر تھی ۔سرزمین کراچی اور ملتان میں بھی کئی ادبی نشستوں میں انھیں کلام پڑھنے کا شرف حاصل ہواتھا ۔ قفس سنبھلی نے ۱۳ جون ۲۰۰۹ ء کو رام منوہر لوہیا اسپتال دہلی میں اس دنیائے فانی کو الوداع کہا ۔اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس جہان سے منھ موڑکر عالم ارواح کو کوچ کر گئے ۔
قفس سنبھلی کے کچھ اشعار بطور نمونہ
تیری میری ایک ہے منزل
ساتھ چلیں چل سوئے ساحل
تنھا تنھا ماضٰی گزرا
مل کر گزاریں آمستقبل
ایٹم بم سے طاقتور ہوں
ایک اگر ہو جائیں دو دل
صلح سے مسلے حل ہوتے ہیں
جنگ سے کیا ہوتا ہے حاصل
لڑتے لڑ تے صڈیاں گزری
شیخ و برہمن دونوں سے دونوں
ان کے ورثا ء میں بھی شاعر ی کی وہی پرکھ اور ادب کی وہی لگن پائی گئی جو قفس ؔ سنبھلی کے دل میں تھی ۔کامل بلند اختر اور فرزند مواحد حسین طلعتؔ نے بھی مشاعروں میں بہت واہ واہی لوٹی ۔ان کے شعری مجموعے تو ہیں ہی اسکے علاوہ غیر شائع شدہ کلام بھی ناقدری کی نظر ہو رہاہے ۔اس سے پہلے کہ وہ ضائع ہو جائے کسی ادب کے پارکھی کو اس کی طرف متوجہ ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔قفس سنبھلی کے دوسرے فرزند مولوی توحید عالم والی بال کے میدان میں آج بھی ان کا نام روشن کر رہے ہیں ۔قفس ؔ سنبھلی کے تیسرے بیٹے تنویر عالم ایڈووکیٹ اور ایک بیٹی مواحدہ بیگم موجود ہیں اور آسودہ حال زندگی بسر کرتے ہیں ۔قفس ؔ سنبھلی کے کلام میں ہمت و خودداری کے عناصر کی جھلک دیکھنے کوملتی ہے
میں بھی دیکھوں کس طرح پھونکیں گی میرا آشیاں
تنگ آکر بجلیو ں ہی کو نشیمن کر لیا
بحر طوفاں خیز تھا پائی نہ جب شکل نجات
میں نے کشتی چھوڑ دی موجوں پہ مسکن کرلیا
حکومت سے شکایت تو سبھی کو ہے لیکن اسے شعر کا لباس پہنا کر پیش کردینا ایک شاعر کی ہی ہمت ہو تی ہے ۔بے باکی اور برجستہ اشعار کہنے کی صلاحیت ان کی شاعری میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ہمارا ہندوستان اپنے سیاسی رہنماؤں کے ہاتھوں میں مجبور بے بس ہے۔اس کی ترقی کی راہیں مسدود ہو رہی ہیں ۔ قفس سنبھلی نے اس صورت حال کو واضح کر نے کی بڑی عمدہ مثال پیش کی ہے ۔
انگریز کو نکال کے پچھتا رہے ہیں سب
ا یسی بنی ہے ا پنی یہ سر کار د و ستو
پھانسی بھی کوئی دے تو کرلونگا میں قبول
سچ بولنے کا ہوں میں گنہگا ر دوستو
قفس سنبھلی کو زبان و الفاظ کے استعمال کا طریقہ خوب آتا تھا ۔وہ اچھے اور بے باک شاعر تھے ۔ان کی شاعری میں معنویت کا خیال رکھتے ہوئے اشعار گڑھے جاتے ہیں ۔ان کے یہاں الفاظ کاانتخاب بڑی عمدگی سے کیا جاتا ہے غیر ضروری الفاظ سے پرہیز کرتے ہیں۔انھیں اپنے خیالات کے اظہارپر مکمل قدرت حاصل تھی۔برجستہ الفاظ ،بے باک خیالات ،حالات حاضرہ پر اظہار جیسی خوبیاں ان کے کلام میں ایک مربوط نظام قائم کرتا ہے۔
خون سے سرخ ہے اخبار یہ قصہ کیا ہے
اوراہنسہ کا پرچار یہ قصہ کیا ہے
دیکھ کر خون کے قطرے جو لرز جاتے تھے
وہ لئے پھرتے ہیں تلوار یہ قصہ کیا ہے
کل جہاں رہتے تھے سب لوگ اہنسا وادی
اس جگہ لاشوں امبار یہ قصہ کیا ہے
ان کی غزلوں میں اللہ کی طرف رجحان نظر آتا ہے تبدیل ہوتی اقدار کی پامالی پر افسوس اور بے کلی نظر آتی ہے ۔اپنے راستے بدل دینے کی ہمت ،ناکامی کی سیڑھیوں سے قدم قدم زمین کی طرف آنا انھیں گوارا نہیں ۔ وہ اس سے پہلے ہی راستہ بدل دینے کو بہتر سمجھتے ہیں ۔
جو ساز پرانے تھے وہ ساز بدل ڈالے
لوگوں نے محبت کے انداز بدل ڈالے
ناکامی کا اندازہ ہو جائے تو لازم ہے
اللہ کے بھروسے پر پرواز بدل ڈالے
اب تم بھی قفسؔ بدلو انداز محبت کا
دنیا نے پرانے سب انداز بدل ڈالے
عام طور سے قفس ؔ سنبھلی نے مزاحیہ شاعر ی میں اپنا مقام بنایا ۔وہ الفاظ کے مناسب مقام سے وہ باتیں اپنے کلام میں خوبصورتی سے کہ جاتے ہیں جن کی وجہ سے سامعین روز مرہ میں الجھن محسوس کرتے ہیں ۔ عام سے واقعات کو شعر کی شکل دے کر مزاح پیدا کرنے کا فن وہ خوب جانتے تھے۔ ان کے کلام میں مزاحیہ عناصر کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے ؛
ہم تو دونوں ہی قسمت کے مارے رہے
وہ بھی کنوارے رہے ہم بھی کنوارے رہے
ایک قطعہ ان کے مزاح کا بہترین نمونہ ہے یہاں پیش کئے دیتے ہیں۔
ماضی میں سنا تھا جو وہ حال میں سمجھے ہیں
ایک شعر کا مطلب وہ چھ سال میں سمجھے ہیں
وہ تو نہ سمجھ پاتے شعروں کا میرے مطلب
سالی نے بتایا تو سسرال میں سمجھے ہیں
ایک شاعرہ سے میں نے کہا مان جائیے
بزم ادب میں آپ بھی تشریف لائیے
بولیں کہ ایک غزل کے میں لیتی ہوں پانچ سو
میں بو لا کل بیاض کے پیسے بتایئے
قفس ؔ سنبھلی نہ صرف مزاح میں بلکہ طنزیہ کلام پربھی اتنا ہی عبور رکھتے تھے ۔ الفاظ کے معاملے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے الفاظ ان کے سامنے الفاظ سر جھکائے کھڑے رہتے تھے ۔طنز یہ کلام میں ان کے اشعار بطور نمونہ ملاحظہ فرمایئے ۔
بزم ادب سجی ہے سرائے ترین میں
بوئے ہیں بیج کسنے یہ بنجر زمین میں
اشعار ہیں درست تلفظ ہے نادرست
پرزے ہیں سب ولائتی دیسی مشین میں
وہ بھی خدا کے فضل سے شاعر ہیں آجکآ
کرتے نہیں جو فرق کبھی سین شین میں
ظالم نے کل کواڑ نہ کھولے تمام رات
کاٹی شب فراق پڑوسن کی ٹین میں
قفسؔ سنبھلی لوگوں کے اذہان سے اور ان کے دلوں سے کبھی فراموش نہیں ہوں گے ۔ان کے پائیدار اشعار ان کی یاد کو ادبی محفلوں میں ہمیشہ زندہ رکھے گی ۔زندگی کے آخری لمحات میں وہ شدید بیمار ہو گئے تھے ان کی علالت انھیں بستر سے اٹھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔یہ وقت بڑ ا مشکل وقت ہوتا ہے ۔اللہ کسی مسلمان کو معذوری نہ دے ۔ان کے درد کو سمجھنے کے لئے ایک حساس دل کی ضرورت ہے جو اس معذوری کے بے بس اور بے سہارا جذبات کو اپنی زندگی سے وابستہ کرکے غور کر سکے۔ قفسؔ سنبھلی کا آخری شعران کی زندگی کی سب سے زیادہ حساس شاعری ہے ۔یہ ان کی زندگی کا آخری شعر
پانی پینا چاہتا ہوں اٹھ کے پی سکتا نہیں
سو گئے ہوں گے مرے بچے کسے آواز دوں
اللہ قفس ؔ صاحب کو بلند مقام اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے ۔یوں کہ لیجئے کہ ایک شاعر کا سفر سنبھل سے ہی شروع ہو کر سنبھل میں ہی ختم ہو گیا ۔